آپ بہت ہی عمر رسیدہ تھے۔ ملتان سے دہلی آکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ آپ نے بے انتہا سیاحت و سفر کیا اور خوب ریاضت کی، اکثر و بیشتر خاموش رہتے اور بہت ہی گم گفتگو کرتے تھے میں نے بھی آپ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کے طریقہ توجہ و عنایات کو خود دیکھا ہے۔
شیخ اسحٰق فرمایا کرتے تھے کہ میں اس انتظار میں ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی بیٹا عنایت کرے، چنانچہ بڑھاپے میں اللہ نے ان کو ایک لڑکا دیا، جس کی پیدائش کے بعد خود انتقال کر گئے۔ آپ کے انتقال کا واقعہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن آپ نے اپنی بیوی سے کہا گھر میں کچھ ہو تو لے آؤ تاکہ خیرات کردوں، انہوں نے جواب دیا تمہارے گھر میں کب کوئی چیز ہوئی ہے جو آج ہوگی۔ اس پر آپ نے کہا جتنی بھی ہولے آؤ چنانچہ دو تین سیر غلہ اور ایک پھٹی ہوئی چادر فقیروں کو تقسیم کی۔ اس کے بعد کہا سماع کا شوق ہے قوالوں کو بلاؤ، بیوی نے کہا تمہارے پاس ہے کیا جو قوالوں کو دو گے، آپ نے کہا ٹوپی اور یہ چادر جو اوڑھے ہوئے ہوں، پھر اس کے بعد اپنے ہمسایہ کے گھر گئے جہاں قوالی ہورہی تھی، آپ نے قوالی سنی اور خوب گریہ وزاری کی، جب آپ بے اختیار ہوگئے تو آپ کو گھر لایا گیا، پھر تھوڑی دیر سو گئے پھر اُٹھ کر کہا آج جمعہ ہے میں نے غسل نہیں کیا ہے۔ حجام کو بلایا گیا حجامت بنوائی، نہا دھو کر اپنے دوستوں سے ملاقات کی اور ان کو الوداع کہا، اس کے بعد کہا میں نے آج حسب معمول قرآن پاک کی تلاوت نہیں کی ہے چنانچہ قرآن پاک کی تلاوت کر کے سو گئے اور جان جانِ آفریں کے حوالہ کی، یہ واقعہ98ھ کا ہے۔
اخبار الاخیار