حضرت شیخ جلال الدین تبریزی
حضرت شیخ جلال الدین تبریزی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا شمار بڑے کامل بزرگوں میں سے تھا، چشتی خاندان کے بزرگوں کی کتابوں میں آپ کے حالات و مناقب لکھے ہیں جو دیکھے جاسکتے ہیں۔
فوائد الفوائد:
میں سلطان المشائخ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شیخ جلال الدین تبریزی! شیخ ابوسعید تبریزی کے مُریدوں میں سے تھے، آپ اپنے شیخ ابوسعید کی وفات کے بعد شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں گئے اور ان کی اتنی خدمت کی کہ کسی دوسرے مرید اور ارادت مند کو یہ بات نصیب نہ ہوئی تھی۔
خدمتِ مُرشد کا انوکھا انداز:
شیخ شہاب الدین ہر سال حج کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے، چونکہ بوڑھے اور کمزور ہوگئے تھے اور اشیاء خوردنی جو آپ کے ساتھ ہوتی تھیں بوجہ باسی ہوجانے کے آپ کے مزاج کے موافق نہ ہوتی تھیں، اس لیے شیخ جلال تبریزی نے یہ ترکیب کی کہ ایک چولہا اور برتن اپنے ساتھ رکھتے تھے اور چولہے میں اتنی آگ جلاتے تھے جس سے اس کی گرمی کا اثر سر پر نہ ہوتا تھا اور ان کے مرشد جب کھانا طلب کرتے تو ان کے سامنے گرم گرم کھانا لاتے، خواجہ قطب الدین اور شیخ بہاؤ الدین سے آپ کے دوستانہ مراسم تھے جن کا تذکرہ چشتیہ خاندان کے بزرگوں کی کتابوں میں بکثرت موجود ہے، شیخ جلال الدین تبریزی اپنے دوست خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے دہلی کے زمانہ میں دہلی آئے تھے، شیخ نجم الدین صغری جو دہلی کے شیخ الاسلام تھے جن کی مزار بُرہان الدین بلخی کے مزار کے پاس ہے، یہ شیخ الاسلام معلوم نہیں آپ کے کیوں مخالف ہوگئے اور آپ پر ایک بہت بُرے کام کی تہمت لگائی اور ایسی سازش کی جس کی وجہ سے آپ کو وطن ترک کرکے بنگال جانا پڑا، بنگال میں قیام کے زمانے میں آپ ایک دن دریا کے کنارے بیٹھے تھے کہ اچانک اٹھ کر تازہ وضو کرنے لگے، اور حاضرین سے فرمایا کہ آؤ شیخ الاسلام دہلوی کی نماز جنازہ پڑھ لیں جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے، دہلی اور بنگال میں اتنی طویل مسافت کے باوجود شیخ جلال الدین تبریزی نے اپنی زبان میں شیخ الاسلام کی وفات کی اطلاع دی، اور شیخ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی، پھر لوگوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمانے لگے، شیخ الاسلام نے ہم کو دہلی سے نکالا اور ہمارے مرشد شیخ شہاب الدین سہروردی نے ان کو دنیا سے نکال دیا، نیز فوائدالفوائد میں بحوالہ سلطان المشائخ لکھا ہے کہ شیخ جلال الدین نے دہلی میں بہت کم عرصہ قیام کیا اور پھر وہاں سے چلے گئے وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں جب دہلی آیا تھا تو خالص سونا تھا اور اب چاندی ہوں معلوم نہیں آئندہ چل کر کیا بن جاؤں، اسی موقع پر یہ بھی لکھا ہے کہ شیخ جلال الدین تبریزی، بدایوں کے قیام کے زمانے میں ایک روز اپنے مکان کی چوکھٹ پر بیٹھے تھے اور سامنے ایک دہی بیچنے والا دہی کا مٹکہ اپنے سر پر رکھ ہوئے گزرا جو فی الواقع چور اور ڈاکو تھا اور اس کی جماعت کے دوسرے افراد بدایوں کے گرد و نواح میں رہا کرتے تھے، اس نے ایک نظر شیخ جلال الدین تبریزی کے چہرے کو دیکھا ور ایک ہی بار دیکھنے سے اس کا باطن تبدیل ہوگیا اور جب شیخ نے اس کو غور سے دیکھا تو وہ چور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اُمت میں ایسے لوگ بھی ہیں۔
نگاہِ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
اور آپ کے دستِ اقدس پر فوراً مسلمان ہوگیا، آپ نے اس کا پہلا نام بدل کر اسلامی نام ’’علی‘‘ رکھ دیا، وہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے گھر گیا اور گھر سے ایک لاکھ جتیل (ایک قسم کا سکہ ہے) لایا اور شیخ کی خدمت میں پیش کیا، شیخ نے اس کا نذرانۂ محبت قبول فرمایا او رحکم دیا کہ اس نقدی کو اپنے پاس رکھو اور میں جسے کہوں دیتے جاؤ، غرض یہ کہ آپ نے یہ نقدی تقسیم کرنا شروع فرمادی، کسی کو سو، کسی کو پچاس، کسی کو کم کسی کو زیادہ اور پانچ جتیل سے کم کسی کو نہ دیتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام رقم ختم ہوگئی اور قاسم کے پاس ایک جتیل باقی بچا، اس علی کا بیان ہے کہ میرے دل میں آیا کہ میرے پاس تو صرف ایک جیتل باقی بچا ہے اور شیخ پانچ سے کم کا کسی کو دینے کا حکم نہیں دیتے، اگر اب کے آپ کسی کو دینے کا حکم دیں گے تو کیا کروں گا، سوچ رہا تھا کہ ایک فقیر نے آکر سوال کیا اور شیخ نے مجھے حکم دیا کہ اسے ایک جتیل دیدو، اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی، جب حج سے واپس تشریف لائے تو اہل بغداد کا آپ کے پاس ہجوم اکٹھا ہوگیا اور ہر ایک نے اپنی اپنی ہمت و طاقت کے موافق زر، نقد و اجناس وغیرہ بہت کچھ آپ کی خدمت میں پیش کیا، اسی اثناء میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور اس نے شیخ کی خدمت میں ایک درہم پیش کیا جس کو اس بڑھیا نے شیخ کے سامنے اپنی پُرانی چادر کی گرہ سے کھول کر نکالا تھا، شیخ نے بڑھیا کا پیش کردہ درہم تمام تحفوں کے اوپر نمایاں طور پر رکھ دیا، پھر تمام حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی پسند کے موافق ان تحفوں کے ڈھیر میں سے جو چاہے اٹھالے چنانچہ سب آدمیوں نے اپنی اپنی پسند کے موافق زر و نقد، روپوں کی تھیلیاں اور دوسری قسم کا اسباب اٹھالیا، اس موقع پر شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے آپ کی جانب شیخ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ بھی کسی چیز کو پسند کرکے لے لیں، چنانچہ شیخ تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ درہم اٹھالیا جو بڑھیا نے شیخ کی خدمت میں پیش کیا، شیخ سہروردی نے یہ دیکھ کر شیخ جلال الدین سے فرمایا کہ تم نے تو سب کچھ لے لیا۔
لوگوں کا بیان ہے کہ شیخ جلال الدین تبریزی اور شیخ بہاؤ الدین زکریا علیہ الرحمۃ نے باہم متعدد سفر کیے ہیں، ایک مرتبہ یہ دونوں بزرگ ایک شہر پہنچے تو اس شہر میں شیخ فریدالدین عطار بھی موجود تھے، شیخ بہاؤ الدین زکریا کا یہ اصول تھا کہ جب کسی نئی جگہ میں تشریف لے جاتے تو وہاں پہنچنے کے بعد عبادت میں مشغول ہوجایا کرتے تھے اور شیخ جلال الدین تبریزی شہر کی سیر و سیاحت کو نکل جاتے، شیخ تبریزی، شیخ فرید الدین عطار کو ایک جگہ بیٹھا دیکھ کر ان کے انوار و کمالات کو دیکھ کر ششدر و حیران رہ گئے، پھر اپنی قیام گاہ پر واپس آکر شیخ بہاؤ الدین سے کہا کہ آج میں نے ایک شاہباز دیکھا ہے جس نے مجھے از خود رفتہ و حیران کردیا ہے جس کے جواب میں شیخ بہاؤ الدین نے پوچھا کیا اس وقت تم نے اپنے شیخ و مرشد کے جمال و کمال کو سامنے رکھا تھا؟ تو جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس بزرگ کو دیکھ کر میں سب کچھ بھول گیا، اس دن کے بعد شیخ جلال الدین تبریزی اور شیخ بہاؤالدین ایک دوسرے سے الگ ہوگئے، فوائد الفوائد میں لکھا ہے کہ شیخ جلال الدین تبریزی نے شیخ بہاؤ الدین زکریا کو ایک خط میں یہ لکھا تھا، جو عورتیں بکثرت رکھتا ہے وہ کبھی اپنی مراد تک نہیں پہنچتا اور جس کا دل صنعت گری میں لگا رہے وہ دنیا کا غلام ہے، حضرت سید محمد گیسو دراز نے اپنے ملفوظات ’’جوامع اکللم‘‘ میں لکھا ہے کہ شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر بچپن کے زمانے میں خدا کی یاد کثرت سے کیا کرتے تھے، آپ کے اسی استغراق کی وجہ سے لوگ آپ کو دیوانہ قاضی بچہ کہا کرتے تھے۔
انار کے ایک دانے کی برکت:
ایک دفعہ شیخ جلال الدین ملتان تشریف لے گئے اور وہاں لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی درویش ہے؟ لوگوں نے کہا کہ دیوانہ سا ایک بچہ تو ہے جو جامع مسجد میں پڑا رہتا ہے، شیخ تبریزی اس لڑکے کو دیکھنے کے لیے جامع مسجد تشریف لائے اور اپنے پاس سے ایک انار اس بچہ کو دے دیا، یہ لڑکا چونکہ اس دن روزے سے تھا اس لیے اس نے انار کے دانے نکال کر لوگوں میں تقسیم کردیے اور ان دانوں میں سے ایک دانہ زمین پر گر گیا تھا اس کو اُٹھا کر شام کو اسی سے روزہ افطار فرمالیا، اسی روز سے اس لڑکے کے روحانی مراتب میں ترقی ہوتی گئی، اس نے خود کہا ہے کہ اگر میں پورا انار کھالیتا تو مجھے متعدد فائدے نصیب ہوتے وہ لڑکا جب جوان ہوا تو شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کاکی کا مرید ہوگیا تو یہ واقعہ اپنے شیخ کو سنایا، شیخ الاسلام نے فرمایا، بابا فرید جو کچھ تھا صرف اسی ایک دانہ ہی میں تھا جو تمہارے لیے رہ گیا تھا۔
سیر اولیاء میں لکھا ہے کہ جس زمانہ میں شیخ جلال الدین تبریزی اور فریدالدین مسعود شکر گنج میں مکالمہ ہوا اس وقت شیخ گنج شکر کے تمام کپڑے پُرانے اور پھٹے ہوئے تھے، جب ہوا تیز چلتی تو شیخ گنج شکر اپنی عبا (قمیص) کے دامن سے اپنے پھٹے ہوئے پاجامہ کو ڈھانک لیتے، شیخ تبریزی نے وجہ دریافت کی، تو بابا فرید نے جواب دیا کہ یہ فقیر جب نجارا میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہاں سات سال تک کوئی کپڑا نہیں پہنا، البتہ ایک تولیہ تھا جس سے اپنے جسم کو چھپائے رکھتا تھا، دل کو ایک مرکز پر لاؤ اور دیکھو مستقبل میں کیا ہوگا، سلطان المشائخ فرمایا کرتے تھے کہ بابا فرید گنج شکر سے شیخ جلال الدین کی دلی مرادیں پوری ہوئیں، شیخ تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بنگال میں مرجع خاص و عام ہے۔
اخبار الاخیار
حضرت شیخ جلاالدین تبریزی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ جلال الدین تبریزی سلطان الاصفیاء ہیں۔
ارادت:
آپ حضرت شیخ ابوسعیدتبریزی کے مریدتھے۔۱؎حضرت نظام الدین اولیاءان(حضرت ابوسعید تبریزی)کی بابت فرماتے ہیں کہ۲؎"آپ بزرگ شیخ اوراعلیٰ درجے کے تارک الدنیاتھے،چنانچہ اکثرآپ پرقرض ہوجاتا،لیکن کسی سے کوئی چیزنہ لیتے،ایسابھی ہواہے کہ ایک مرتبہ تین دن تک خانقاہ میں کھانانہ پکا۔آپ اورآپ کے یارتربوزسے ہی افطارکرتے رہےاورگزارہ کرتے رہے،جب یہ خبروہاں کے حاکم نے سنی توکہاکہ وہ ہماری چیزقبول نہیں کرتے۔نقدی لےجاؤاورشیخ کے خادم کو دےدواورخادم سے کہوکہ تھوڑاتھوڑاخرچ کرےاورشیخ صاحب سے اس کاذکرتک نہ کرے"۔
چنانچہ شاہی(حاکم کے)نوکرنےآکرخادم کوکچھ نقدی دی اورکہاکہ مصلحت کے مطابق خرچ کرنااور شیخ صاحب کو نہ جتانا۔
القصہ جب روپیہ لایاگیااورخرچ کیاتواس روزشیخ صاحب کوطاعت میں جوذوق اورآرام حاصل ہوا کرتاتھا،نہ ہوا۔خادم کو بلاکرپوچھاکہ رات کوجوکھاناتونے ہمیں دیا،وہ کہاں سے آیاتھا۔
خادم چھپانہ سکا،ساراحال بیان کردیا،پوچھا،کون شخص لایاتھااورکہاں کہاں قدم رکھاتھا،فرمایا۔ "جہاں جہاں اس نے قدم رکھا،وہاں سے مٹی کھودکرپھینک دو"اوراس خادم کو بھی اسی قصور کے عوض خانقاہ سے نکال دیا۔
خدمت:
اپنے پیرومرشدحضرت شیخ ابوسعیدتبریزی(رحمتہ اللہ علیہ)کی وفات کے بعد آپ حضرت شیخ
شہاب الدین سہروردی (رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت میں رہنےلگےاوران کی ایسی خدمت کی،جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی(رحمتہ اللہ علیہ)ہرسال بغدادسےحج کے لئے جاتےتھے،جب بوڑھے ہوگئےتوٹھنڈا کھاناان سے نہیں کھایاجاتاتھا۔آپ نے یہ اہتمام کیاکہ انگیٹھی اوردیگچی اپنے سرپررکھ کرچلتے تھےلیکن سرکو نہ ہلنے دیتے تھے،جب حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کھانا مانگتے،آپ گرم کھاناپیش کردیتے تھے۔۳؎
نعمت:
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی حج کرکے واپس بغداد تشریف لائے۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضرہوناشروع ہوئے۔جوبھی آتاکچھ نہ کچھ لے کرآتا۔ایک بڑھیاآئی، اس کےپاس کچھ نہیں تھا،اس نے اپنی پرانی چادرکےدامن سے ایک درم نکال کران کوپیش کیا، انہوں نےقبول کیااورانہوں نے اس درم کوسب تحائف کےاوپررکھا۔
بعدازاں حاضرین سے مخاطب ہوکرحضرت شیخ شہاب الدین سہروردی(رحمتہ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ جو جس کولیناہولےلے،ہرایک نے جوچاہااُٹھالیا۔۔۔۔(حضرت جلال الدین تبریزی)اس وقت موجودوہاں تھے۔حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی نے آپ کی طرف دیکھ کر فرمایاکہ"تم بھی کچھ لے لو"۔
آپ یہ اشارہ پاکراٹھے اوروہ درم جو بڑھیانے پیش کیاتھااورجوسب سے اوپررکھاتھااٹھالیا۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی نے یہ دیکھ کر آپ سے فرمایاکہ۴؎"یہ توسب کچھ لے گیا"۔
سیروسیاحت:
آپ کااورحضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)کاسیروسیاحت میں بہت ساتھ رہا۔حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)جب کسی شہرمیں پہنچتےتوعبادت میں مشغول ہوجاتےاورآپ وہاں کی
سیرکونکل جاتےاوراس شہرکے درویشوں سے ملتے۔
نیشاپورپہنچ کرآپ حضرت فریدالدین عطار(رحمتہ اللہ علیہ)کے پاس گئے۔۵؎حضرت فریدالدین عطارسے مل کرآپ جب واپس آئے توحضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)نےفرمایاکہ آج درویشوں میں کس کوبہترپایا،آپ نے جواب دیاکہ حضرت فریدالدین عطار(رحمتہ اللہ علیہ)کو سب سے بہترپایا،پھرحضرت بہاءالدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ سے پوچھاکہ تمہارے اوران (حضرت فریدالدین عطاررحمتہ اللہ علیہ)کے درمیان کیاگفتگوہوئی،آپ نے جواب دیاکہ۔
فریدالدین عطارنے مجھ کو دیکھتے ہی پوچھاکہ"فقیرلوگ کہاں سے آناہوا؟"میں نے جواب دیاکہ "بغدادسے"!پھرانہوں نےپوچھاکہ"وہاں کون کون درویش مشغول بحق ہیں؟"میں خاموش ہوگیا،میں نےکچھ جواب نہ دیا۔
یہ سن کر حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ سے کہاکہ ان کے یہ دریافت کرنےپرتم نے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کانام نامی کیوں نہ ان کوبتایا؟
آپ نے جواب دیاکہ اصل بات یہ ہے کہ۔
"میں حضرت فریدالدین عطارسے اتنامتاثرہوااوران کی عظمت اوربزرگی نے میرے دل و دماغ پر ایساقبضہ کیاکہ ان کے سامنے مجھ کو کچھ یادنہ رہا!"
یہ سن کر حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)خاموش ہوگئےاوران کوکچھ ایسی ناگواری ہوئی کہ آپ سے علیحدہ ہوگئے۔۶؎
انارکادانہ:
آپ سیروسیاحت فرماتےہوئےملتان تشریف لائے۔ملتان سے آپ کہتوال پہنچے۔آپ جہاں بھی جاتے تھے،وہاں کے درویشوں سے ضرورملتے تھے۔کہتوال پہنچ کرآپ نے دریافت کیاکہ اس شہر میں کوئی درویش ہےکہ جس سے ملاجائے؟
کہتوال کے لوگ حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکرکو"قاضی بچہ"کہہ کرپکارتےتھے۔لوگوں نے آپ کو بتایاکہ ایک" قاضی بچہ"ہےجوجامع مسجدمیں رہتاہے،وہ مریدحضرت قطب الدین بختیارکاکی (رحمتہ اللہ علیہ)کاہے۔
یہ معلوم ہوکرآپ کو حضرت بابا صاحب سے ملنے کا اشتیاق ہوا،جب آپ روانہ ہوئے توایک شخص آپ سے راستے میں ملا،اس نے ایک انارآپ کو پیش کیا۔۔۔۔آپ وہ انارہاتھ میں لئے ہوئے حضرت باباکے پاس آئے۔
آپ نے اس انارکوکاٹ کرکھاناشروع کیا۔حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکرکاروزہ تھا،انہوں نے نہیں کھایا۔انارکاایک دانہ زمین پر گرگیاتھا۔حضرت بابا صاحب نے اس دانے کواٹھاکراپنی دستارمیں رکھ لیااوراُسی دانے سے افطارکیا،ان کی طبیعت میں انشراح اوردل میں روشنی پیداہوئی۔۷؎
ان کو خیال آیاکہ اگرزیادہ کھاتےتوکیااچھاہوتا،جب وہ دہلی آئےتوان کے پیرروشن ضمیرقطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمتہ اللہ علیہ)نےان سے فرمایا۔۸؎
"مسعود!جوانارکادانہ تیری قسمت کا تھا،تجھ کو مل گیا،خاطرجمع رکھو"۔
دہلی میں آمد:
آپ جب دہلی تشریف لائےتوسلطان شمس الدین التمش نے آپ کا استقبال کیا،یہ بات نجم الدین صغرٰی کوجواس وقت شیخ الاسلام تھے،ناگوارہوئی،بربنائےحسدوہ آپ سے کدورت رکھنے لگےاور آپ کااقتدارگرانے کی غرض سے مختلف قسم کی ترکیبیں اورسازشیں آپ کے خلاف کرنے لگے۔
پانچ سو اشرفیوں کالالچ دے کرایک طوائف کوجس کانام گوہرتھا،اس بات پر آمادہ کیاکہ آپ پر زنا کا الزام لگائے۔ڈھائی سو اشرفیاں اس طوائف کودے دی گئیں اورڈھائی سو اشرفیاں یہ طے پایاکہ بعد میں دی جائیں گی۔بقیہ ڈھائی سو اشرفیاں بقال کے پاس بطورامانت رکھادی گئیں۔
جب سلطان التمش کے پاس شکایت پہنچی تواس نے تمام مشاہیراورمشائخ کودہلی بلایا۔دوسے زیادہ اولیائےکرام دہلی آئے۔جمعہ کی نمازکےبعدسب مسجدمنارمیں جمع ہوئے۔سلطان نےنجم الدین صغریٰ کواجازت دی کہ جس کو چاہیں ثالث بنالیں ۔انہوں نے حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)کوثالث بنایا۔ان کو خیال تھاکہ حضرت بہاءالدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)کی آپ سے نیشاپور میں کشیدگی ہوگئی تھی،اس لئے وہ کشیدگی کارآمدہوگی۔
گوہرحاضرہوئی،آپ بھی بلائے گئے،جب آپ مسجد کے دروازے میں داخل ہوئے سب آپ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔
حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)آگےبڑھےاورآپ کے جوتے اپنے ہاتھ میں اٹھالئے۔ سلطان التمش نے دیکھ کر کہاکہ جب ثالث نے اتنی عزت کی توپھرمعاملہ طے ہوگیا۔
حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)نےفرمایاکہ:۹؎
"میرےاوپرواجب ہے کہ شیخ جلال کی خاک پاکواپنی آنکھوں کاسرمہ بناؤں،کیوں کہ وہ سات برس تک سفروحضر میں میرے پیرومرشدکی خدمت میں مقیم رہےہیں۔امرحق اللہ پر بخوبی ظاہر ہے۔۔۔۔پھربھی ضروری ہےکہ امیرحق کا انکشاف ہو"۔
حضرت بہاءالدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)نےجب اس مطربہ سے پوچھاتواس نےسازش کا پوراحال بیان کردیا۔
دہلی میں آپ نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی سےفیوض وبرکات حاصل کئے،یہ بھی کہا جاتاہےکہ آپ نے حضرت خواجہ قطب الدین(رحمتہ اللہ علیہ)سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔
روانگی:
کچھ عرصے قیام کرکےآپ نے دہلی چھوڑدی،روانگی کے وقت آپ نے فرمایا۔۱۰؎
"جب اس شہرمیں آیاتوخالص سونے کی طرح تھا،اب یہاں سےچاندی ہوکرچلا ہوں"۔
بدایوں میں قیام:
بدایوں میں آپ نے کچھ عرصہ قیام فرمایا۔ایک دن کاواقعہ ہےکہ آپ اپنے مکان کی دہلیزپر تشریف رکھتے تھے،ایک شخص جو مواسی کارہنےوالاتھا۔چھاچھ کامٹکاسرپررکھےاس طرف سے گزرا، وہ شخص ڈاکوؤں کے گروہ سے تھا،جب اس نے آپ کو دیکھادیکھتے ہی ازخودرفتہ ہوگیا، اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوا،آپ نے اس کانام علی رکھا۔
مسلمان ہونےکے بعدوہ اپنے گھرگیا۔ایک لاکھ چیتل لاکرآپ کونذرکئے،آپ نے قبول فرمائے اوریہ ہدایت فرمائی کہ۔
"اسےاپنےپاس رکھو،جہاں میں کہوں گا،وہاں صرف کرنا"۔
اس رقم میں سےکسی کوسواورکسی کو پچاس چیتل تقسیم کئےجانے لگےکم ازکم پانچ دیئے جاتے تھے، تھوڑی ہی مدت میں ساری رقم صرف ہوگئی ایک چیتل بچا۔علی نے سوچاکہ ایک چیتل رہ گیاہےاور کم ازکم پانچ دیئے جاتے ہیں،اب اگرکسی کودینے کا حکم دیں گے تو کیاکرےگا؟
اتنے میں ایک سائل آیا،آپ نے علی کوحکم دیاکہ اس سائل کو ایک چیتل دے دو۔۱۱؎
لباس کی برکت:
ایک دن کاواقعہ ہےکہ مولاناعلاء الدین اصولی جو اس وقت بچے تھے، بدایوں کے ایک کوچے میں پھررہےتھے،جب آپ نے ان کو دیکھااپنےپاس بلایااوراپنالباس جواس وقت آپ پہنے ہوئےتھے اُتارکران(مولاناعلاءالدین)کوپہنایا۔حضرت نظام الدین اولیاء(رحمتہ اللہ علیہ)فرماتے ہیں کہ۔۱۲؎
"مولاناعلاء الدین میں جو اخلاق حمیدہ اوراوصافت ستودہ پائےجاتے ہیں وہ سب اسی جامے کی برکت ہیں"۔
قاضی صاحب سے ملاقات:
جس زمانےمیں آپ کاقیام بدایوں میں تھا،ایک دن آپ قاضی کمال الدین جعفری کے پاس تشریف لےگئے،وہاں پہنچ کرآپ کو معلوم ہواکہ قاضی صاحب نمازپڑھ رہے ہیں،یہ سن کر آپ مسکرائے اورفرمایا۔
"کیاقاضی صاحب کو نمازپڑھناآتی ہے"؟
دوسرے دن قاضی صاحب آپ سے ملے توشکایت کی کہ ایسی بات ان کے متعلق کیوں کہی؟آپ نے نمازکے متعلق بہت سی باتیں قاضی صاحب کو سمجھائیں،لیکن قاضی صاحب مطمئن نہ ہوئے۔
قاضی صاحب نے راک کو خواب میں دیکھاکہ آپ عرش پرمصلیٰ بچھائے ہوئے نمازاداکررہے ہیں، دوسرےدن جب آپ کی قاضی صاحب سے ملاقات ہوئی توآپ نے فرمایا۔
"نہایت قصدوہمت علماءکی یہ ہے کہ مفتی ہوں یامدرس یا اس سے بڑھےتوکہیں کے قاضی ہوئے، اس سے بڑھ کرمنصب صدرجہانی کا ہے،پھراس سے زیادہ ان کی ہمت نہیں ہوتی،مگرفقراءکے بہت مراتب ہیں،پہلامرتبہ یہ ہےکہ جو آج کی رات قاضی نے خواب میں دیکھاہے"۔
قاضی صاحب یہ سن کر معافی کے خواستگارہوئےاوراپنے لڑکے برہان الدین کوآپ کا مرید بنوایا۔۱۳؎
ترک سکونت:
آپ بدایوں سے ترک سکونت کرکے بنگال روانہ ہوئے۔آپ کے مریدعلی بھی آپ کےساتھ ہولئے۔آپ نےمنع فرمایا۔علی نے عرض کیا۔
"میں کس کے پاس جاؤں،آپ کے سوامیں کسی کوجانتابھی نہیں"۔
آپ نے دوبارہ علی سے واپس جانے کے لئے فرمایا۔علی نے پھرعرض کی:
"آپ ہی میرے پیراورمخدوم ہیں،آپ کے بغیرمیں کیاکروں گا"۔
اس پرآپ نے علی کوحکم دیا:۱۴؎
"واپس جا،کیوں کہ یہ شہرتیری حمایت میں ہے"۔
بنگال میں آمد:
بنگال پہنچ کرآپ نے مستقل سکونت اختیارفرمائی اورزندگی کے آخری ایام بنگال میں گزارے،تادم واپسیں تعلیم وتلقین اوررشدوہدایت فرماتےرہے۔مسجد اورخانقاہ بنائی۔
وفات:
آپ ۶۴۲ھ میں واصل بحق ہوئے،مزارفیض آثاردیومحل بندر(سلہٹ)میں مرجع خاص وعام ہے۔
مرید:
خواجہ علی آپ کے ممتازمریدہیں۔۱۵؎
سیرت:
آپ اخلاق حمیدہ،اوصاف ستودہ اورصفات پسندیدہ کے مالک تھے،کمالات صوری و معنوی سے آراستہ تھے،آپ نماز اشراق پڑھ کرسوجاتے تھے،نمازعشاء سے فارغ ہوکرمراقبہ کرتے تھے، رات بھرجاگتے تھے۱۶؎مریدبہت کم کرتے تھے۔۱۷؎
تعلیمات:
آپ فرماتے ہیں۔۱۸؎"عالموں کی نمازاورہوتی ہےاورفقیروں کی اور۔۔۔۔علماء کی نماز اس طرح ہوتی ہےکہ ان کی نظرپرکعبہ پر رہتی ہےاورنمازاداکرتے ہیں اوراگرکعبہ دکھائی نہ دےتواس طرف منہ کرکے نمازاداکرتے ہیں اوراگرکسی ایسے مقام پر ہوں،جہاں سمت نہ معلوم ہوسکےتوجس طرف چاہیں قیاساًاداکرلیتے ہیں،علماء کی انہیں تین قسم کی ہوتی ہیں،لیکن فقیرجب تک عرش کو
نہیں دیکھ لیتے،نمازادانہیں کرتے"۔
اقوال:
جس نے شہوت پرستی کی،وہ کبھی فلاح نہیں پاتا۔
جس کسی نے صنعت میں دل لگایا،وہ دنیاکابندہ ہوگیا۔
کشف و کرامات:
ایک دن آپ دریاکے کنارے بیٹھے ہوئے تھےآپ نے وضوکیااورلوگوں سے مخاطب ہوکرفرمایا۔ دہلی کے شیخ الاسلام کاانتقال ہوگیا،نمازجنازہ پڑھیں۔نمازسے فارغ ہو کر آپ نےفرمایا:"شیخ الاسلام دہلی نے ہم کو شہرسے باہر کیا۔ہمارے شیخ نے اس دنیاسے باہرکیا"۔
بعدکومعلوم ہواکہ شیخ الاسلام کااسی وقت انتقال ہواتھا،جس وقت آپ نے فرمایاتھا۔
حواشی
۱؎فوائدالفواد(اُردوترجمہ)ص۴۶
۲؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۱۴۶،۱۴۷
۳؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۱۴۶
۴؎اخبارالاخیار(اُردوترجمہ)ص۸۴
۵؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۱۴۶
۶؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۲۰۴
۷؎سالک السالکین(جلددوم)ص۵۱۲،اخبارالاخیار(اُردوترجمہ)۸۸،۸۷
۸؎اخبارالاخیار(اُردوترجمہ)ص۸۷
۹؎سیرالاولیا،(فارسی)ص۶۴،خیرالمجالس(اُردوترجمہ)ص۱۰۱
۱۰؎سالک السالکین(جلددوم)ص۵۱۴
۱۱؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۹۲
۱۲؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۱۰۸
۱۳؎فوائدالفواد(اُردوترجمہ)ص۱۳۴
۱۴؎خیرالمجالس(اُردوترجمہ)۱۰۸
۱۵؎فوائدالفواد(اُردوترجمہ)ص۱۹۳
۱۶؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۱۰۸
۱۷؎اخبارالاخیار(اُردوترجمہ)ص۱۹۰
۱۸؎خیرالمجالس(اُردوترجمہ)ص۵۶
۱۹؎فوائد الفواد(اُردوترجمہ)ص۳۶
۲۰؎فوائدالفواد(اُردوترجمہ)ص۱۹۳،۱۹۲
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)