حضرت شیخ جمال اللہ نوشاہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت حافظ برخوردار کے فرزند ششم تھے۔ عالم و فاضل اور عارفِ کامل تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت اور ترکِ علائق میں بے نظیر تھے۔ صاحبِ ذوق و شوق و وجد و سماع بھی تھے۔ حالتِ وجد میں جس پر نظر ڈالتے تھے اُسے بھی بے خود و مدہوش بنادیتے تھے، وہ مست بادۂ الست ہوجاتا۔ بحالتِ خواب آپ کے دلِ بیدار سے ذکرِ ہُوکی آواز مسلسل آتی رہتی تھی جس کو تمام حاضرین بگوش ہوش سنتے تھے۔ آپ کے فرزند مولانا محمد حیات صاحبِ تذکرۂ نوشاہی رقم طراز ہیں۔ ایک روز آپ حضرت نوشاہ گنج بخش کے مزار کی زیارت کو گئے۔ دیکھا کہ وہاب نامی ایک زمیندار موضع اگر ویہ کا مزار کی ملحقہ زمین پر اپنے مویشی چرا رہا ہے۔ آپ نے اسے ایسا کرنے سے منع فرمایا مگر وُہ باز نہ آیا۔ آپ نے صبر فرمایا اور واپس تشریف لے آئے۔ اُسی رات بحکمِ الٰہی اس کے تمام مویشی مرگئے۔ اس پر بھی وُہ شرارتی نا بکار نہ تائب ہوا نہ اپنے مذموم فعل سے باز آیا۔ دوسری رات چور اس کے مکان میں آئے اور تمام مال و متاع لُوٹ کر لے گئے۔ یہاں تک کہ وُہ روٹی کے ٹکڑے کو بھی محتاج ہو گیا۔ شیخ جمال اللہ کی وفات بقول تذکرۂ نوشاہی ۱۲ ربیع الثانی بروز شنبہ ۱۱۴۲ھ میں بہ عہدِ محمد شاہ شام کے وقت ہوئی۔ مزار موضع ساہنپال میں ہے۔
گشت چوں روشن بباغ جنتی!
سالِ ترحیلش بہ سرور شد عیاں
آں جمالِ یا کمالِ معرفت
’’قلبۂ عالم جمالِ معرفت‘‘
۱۱۴۲ھ