حضرت شیخ جان اللہ چشتی صابری لاہوری
نام ونسب: اسم گرامی: شیخ جان اللہ لاہوری۔ لقب: امام العارفین۔ آپ کے سلسلۂ نسب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
ولادت: آپ کی ولادت باسعادت لاہور میں ہوئی۔تاریخ ِ ولادت و سن ِ ولادت معلوم نہ ہوسکی۔
تحصیل علم: شیخ جان اللہ لاہوری کی تعلیم و تربیت لاہور میں ہوئی۔دینی و دنیاوی علوم پر مکمل طور پر دسترس حاصل تھی۔ (خزینۃ الاصفیاء/ تذکرہ اولیائے لاہور، ص353)
بیعت و خلافت: حضرت جان اللہ لاہوری مرشدِ کامل کی تلاش میں سیر کرتے کرتے حضرت شیخ نظام الدین بلخی چشتی صابری کی خدمت میں تھانیسر پہنچے اور حضرت شیخ نظام الدین بلخی کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور کچھ عرصہ مرشدِ کامل کی خدمت میں رہ کر زہد و ریاضت میں کمال حاصل کیا۔ اس کے بعد مرشد کامل کے ہمراہ حج کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر آپ کے مرشد حضرت شیخ نظام الدین بلخی نے آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرما کر صاحب ِارشاد و فائز المرام کیا۔(تذکرہ اولیائے لاہور، ص354)
سیرت و خصائص: امام العارفین، دلیل الکاملین ،برہان الواصلین حضرت شیخ جان اللہ چشتی صابری لاہوری ۔ آپ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم و فاضل اور شیخ طریقت ہوئے ہیں۔ آپ ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ و پیراستہ تھے۔ آپ ابتداءً ایک مدرس اور عالم دین تھے۔ لاہور میں طلباء کو درس دیتے تھے۔ تمام عمر دین حق کی خدمت اور خداوند قدوس کی عبادت و ریاضت میں گزاری۔آپ ایک نیک صالح، متقی پرہیزگار ، عابد و زاہد اور پابند تہجد اور صوم و صلوٰۃ کے پابند بزرگ تھے۔ اخلاق کر یمانہ میں بے مثال و بے مثال حسن و جمال میں یکتا عبادت و ریاضت ، فقر وفاقہ ترک و تجرید میں یکتا عبادت درس و تدریس کے کام میں مشغول رہ کر گزاری۔جب آپ اپنے مرشد کے حکم سے دوبارہ لاہور میں تشریف لائے تو ہر وقت آپ کے ارد گرد مخلوق خدا کا ہجوم رہنے لگا۔ ہزاروں افراد آپ کی روحانی توجہ سے مستفید ہوئے۔آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے عظیم ترجمان تھے۔آپ کے علاوہ لاہور میں آپ کے دیگر پیر بھائی حضرت سید اللہ بخش بھکری چشتی صابری چوتھے پیر بھائی شیخ دوست محمد لاہوری چشتی صابریجو کہ اپنے اپنے زمانے کے عظیم روحانی پیشوا ہو گزرے ہیں۔
تاریخ وصال: آپ کا وصال باکمال ؍جمادی الآخر 1039ھ مطابق 14؍جنوری 1630ء کو شاہجہان بادشاہ کے عہد میں ہوا۔ مزار مبارک نسبت روڈ دیال سنگھ لائبریری لاہور میں مرجع خاص و عام ہے۔ مفتی غلام سرور لاہوری نےقطعہ تاریخ یوں تحریرفرمایا ہے۔
؎شیخ جان اللہ چوں بحکم قضا ۔۔۔۔۔ زین جہاں رفت سوئے دار جناں
ہست ’’فیض الحسن‘‘ بتاریخش ۔۔۔۔ ہم دگراہل فیض جہان جہاں