سلسلۂ قادریہ کے مشائخ سے ہیں۔ سیوستان وطن تھا۔ اپنے زمانے کے صاحب کمال و یکتائے روزگار بزرگ گزرے ہیں۔ عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ اور فقر و استغنا میں بے مثال تھے۔ تجرید و تفرید کا یہ عالم تھا کہ تمام عمر آبادی سے دُور ایک ویرانہ میں یادِ الٰہی میں بسر کردی۔ قوت لایموت جنگل کے درختوں اور پتوں سے حاصل ۔۔۔۔
سلسلۂ قادریہ کے مشائخ سے ہیں۔ سیوستان وطن تھا۔ اپنے زمانے کے صاحب کمال و یکتائے روزگار بزرگ گزرے ہیں۔ عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ اور فقر و استغنا میں بے مثال تھے۔ تجرید و تفرید کا یہ عالم تھا کہ تمام عمر آبادی سے دُور ایک ویرانہ میں یادِ الٰہی میں بسر کردی۔ قوت لایموت جنگل کے درختوں اور پتوں سے حاصل کرتے۔ یا کبھی تنور میں اپنے لیے ایک آدھ روٹی پکالیتے تھے۔ لباس صرف ایک تہ بند اور چادر تھا جس سے سر اور جسم ڈھانپ لیتے تھے۔ جو تنور بنا رکھا تھا اُسے بوقتِ ضرورت جنگل کے ایندھن سے گرم کرلیتے تھے۔ شہر و آبادی کی طرف بالکل رغبت نہ تھی۔ جنگل کے طیور و وحوش آپ کے ہم نفس و ہمداستاں تھے۔ تنور کے سامنے ایک پتھر رکھا ہوا تھا اس پر بیٹھ کر عبادتِ الٰہی کیا کرتے تھے۔ اس پتھر پر گرمیِ آفتاب کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا۔ موسمِ سرما میں بھی یہی تنور گرم کرلیتے تھے اور اس میں بیٹھ کر یادِ الٰہی کیا کرتے تھے۔
ایک روز حاکمِ سیوستان آپ کی زیارت کے لیے آیا۔ دیکھا کہ شیخ گرم دھوپ میں پتھر پر بیٹھے ہوئے یادِ حق میں مصروف ہیں۔ نزدیک جاکر اپنا سایہ شیخ پر ڈالا۔ شیخ نے مراقبہ سے سر اُٹھایا اور پوچھا: کون ہے اور اس ویرانے میں کس لیے آیا ہے۔ کہا حاکمِ سیوستان ہوں اور آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مجھے خدمت کا موقع دیجیے تاکہ اس سے سعادتِ دارین حاصل کروں۔ فرمایا: کوئی خدمت نہیں ہے۔ اُس نے پھر عجز و انکسار سے درخواست کی۔ فرمایا: بہتر، پہلی خدمت یہ ہے کہ اپنے سایہ کو میرے سر سے دور کرو اور جہاں سے آئے ہو، وہیں چلے جاؤ۔ جس شخص کے سر پر سایۂ الٰہی ہو اُس کو دوسرے کے سایہ کی حاجت نہیں ہے۔ وہ دُور جاکر کھڑا ہوگیا اور کہا: حضرت جس وقت یادِ حق میں مشغول ہوں میرے لیے دعا فرمائیے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ وہ دن میرے نصیب نہ کرے کہ یادِ حق کے وقت غیرِِ حق کا خیال میرے دل میں گزرے۔ ۹۹۴ھ میں وفات پائی۔ مزار سیوستان میں ہے۔
شیخ خضر آں رہنمائے راہِ حق ہادیٔ دیں شیخ شد از دل عیاں ۹۹۳ھ
|
|
مقتدائے دیں ولئ متقی سنِ وسالِ انتقالش اے اخی
|