حضرت شیخ میر محمد ہمدانی قدس سرہٗ
حضرت شیخ میر محمد ہمدانی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت امیر کبیر ہمدانی کے فرزند ارجمند اور خلیفہ اعظم تھے آپ اپنے والد کی وفات کے بائیس (۲۲) سال بعد خطہ کشمیر میں وارد ہوئے اور بارہ سال تک ہدایت خلق میں مشغول رہے اور اسلام کی اشاعت و ترویج میں مصروف رہے سلطان قطب الدین اور سلطان سکندر بت شکن آپ کے حلقۂ اطاعت میں رہتے تھے سیّدہ صالحہ بی بی تاج خاتون جو حضرت حسن بہادر کی بیٹی تھیں آپ کے نکاح میں آئیں آپ کی رفافت صرف پانچ سال رہی تو وفات پاگئیں سلطان قطب الدین کے وزیر مملکت ملک سبہہ (جو آپ کے دستِ حق پرست پر ایمان لایا تھا) کی بیٹی آپ کے عقدثانی میں آئی آپ نے بادشاہ کے لیے ایک رسالہ لکھا تھا جو علم تصوّف پر مشتمل تھا۔ منطق کی ایک کتاب سلطان کے لیے لکھی یہ کتاب رات بھر میں لکھی گئی تھی آپ کی کوششوں سے اسلامی تہذیب نے اس قدر ترقی کی تھی کہ سارے کشمیر میں مزامیر اور لعو و لعب کی محفلیں بند ہوگئیں تھیں۔ دربار سلطانی کے علاوہ ڈھول کی صدا کہیں نہیں آتی تھی۔
سلطان سکندر نے آپ کے لیے چشمۂ کے کنارے ایک خانقاء عالی شان تعمیر کی تھی یہ عمارت ۷۹۸ھ میں بننا شروع ہوئی ۷۹۹ھ میں مکمل ہوئی تھی آپ کے آپ ایک گراں قدر لعلِ بدخشان تھا آپ نے یہ لعل سلطان سکندر کو دے دیا تھا ۸۰۰ھ میں سید محمد حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے تو سلطان سکندر کو اسلام کی اشاعت کی تاکید فرمائی بادشاہ نے اس نصیحت پر عمل ہونے کا عہد کیا۔ اور اس سلسلہ میں ہزاروں بت خانوں کو مسمار کرکے دعوتِ اسلام عام کرتا رہا تواریخ اعظمی درج ہے کہ سلطان سکندر بت شکن نے جن غیر مسلموں کو دولتِ اسلام سے نوازا اُن کے جنجو (زنار) جمع کیے گئے تو تین خروارے تھے۔ انہیں تین بار جلایا گیا ۸۰۱ھ میں سکندرہ پورہ کے بہت بڑے بت خانہ کو مسمار کرکے وہاں مسجد تعمیر کی۔ اس مسجد میں تین سو دو (۳۰۲) ستون قائم کیے گئے اس کی بلندی چالیس ورع شرعی تھی۔ یہ مسجد تین سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی تھی۔ اس مسجد کے علاوہ وادی میں اور بھی بہت سی مساجد تالاب اور عالیشان محلّات تعمیر کرائے تھے۔
حضرت سید میر محمد ہمدانی حج سے واپسی پر خطۂ کشمیر میں آئے تو کولاب کے مقام پر پہنچے یہ وہ مقام تھا۔ جہاں امیر کبیر واصل بحق ہوئے تھے۔ آپ کا وصال اسی مقام پر ہوا اور اپنے والد کے پہلو میں دفن کیے گئے تواریخ اعظمی نے آپ کی وفات کا واقعہ ۸۰۹ھ لکھا ہے سلطان سکندر بت شکن پچیس (۲۵) سال سلطنت کرنے کے بعد ۸۲۰ھ میں فوت ہوئے تھے ان کی وفات کے بعد امیر تیمور گور گانی نے ہندوستان فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کی تو سلطان سکندر کے بیٹے شاہی خان المعروف بہ زین العابدین نے امیر تیمور کے دربار میں گراں قدر تحائف بھیجے اور اس کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ امیر تیمور زین العابدین کے تحائف سے بے حد خوش ہوا۔ اور حکومت کشمیرا نہیں کے زیر نگرانی رہنے دی اور خلعت شاہانہ بھی عطاء کی۔
سلطان سکندر کی وفات کے بعد ان کا بیٹا سلطان علی تخت نشین ہوا تھا اور اس نے چھ سال نو ماہ حکومت کی اور تارک الدنیا ہوکر اپنے بھائی زین العابدین کو تخت نشین کردیا۔ خود بیت اللہ کو روزنہ ہوگیا۔ابھی بمقام پکہل پہنچے تھے۔ تو سلطان علی کی بیوی نے جو راجہ جموں کی بیٹی تھی۔ اپنے خاوند کو سلطنت چھوڑنے پر طعن و تشنیع کی۔ اور حج پر جانے سے روک دیا۔ اور ایک لشکر کے ساتھ دوبارہ حملہ کرنے اور تخت نشینی کے لیے تیار کردیا ملک سلطان علی کی تیاری کی خبر زین العابدین کو پہنچی تو بارہ مولا سے ایک بہت بڑا لشکر لے کر مکپہلی کے راستہ میں قیام پذیر ہوا۔ اور اپنے بھائی سلطان علی پر فتح حاصل کرکے اسے قید کرلیا سلطان علی قید خانے میں ہی واصل بحق ہوا۔
رفت از دنیائے دوں اندر جہاں |
|
چوں محمد سید اہل یقین |
|
(خزینۃ الاصفیاء)