حضرت شیخ موید الدین جندی
حضرت شیخ موید الدین جندی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ موید الدین جندی رحمتہ اللہ علیہ
آپ شیخ صدر الدین کے شاگردوں اور مریدوں میں سے ہیں۔علوم ظاہری و باطنی کے جامع ہیں۔شیخ بزرگ کی بعض تصانیف جسے "فصوص الحکم"،"مواقع النجوم " کو شرح کیا ہےاور فصوص کی تمام شرحوں کا ماخذ انہی کی شرح ہے۔اس میں بہت سی تحقیقات ہیں کہ جو باقی کتب میں نہیں۔ان کا کمال اس شرح سے معلوم ہوسکتا ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ شیخ صدر الدین علیہ الرحمۃ کے فصوص کے خطبہ کو میرے لیے شرح کیا ہے۔اس کے اثنا میں غیبی حالات وارد ہوئےاور اس کے اثر نے میرے ظاہر و باطن کو گھیر لیا۔اس وقت مجھ میں عجیب تصرف کیا اور کتاب کے مضمون کو پورے طور پر خطبہ کی شرح میں مجھ کو سمجھا دیا اور جب اس مطلب کو مجھ سے معلوم کرلیا تو کہا، میں نے بھی حضرت شیخ سے درخواست کی تھی کہ کتاب فصوص کو میرے لیے شرح کرے۔انہوں اس کے خطبہ کی شرح کی تھی اور اسکے اثنا مین مجھ میں تصرف کیا۔جس سے مجھے تمام کتاب کا مضمون معلوم ہوگیا۔تب میں اس حکایت سے خوش ہوگیااور جان لیا کہ مجھ کو پورا حصہ حاصل ہوگیا۔اس کے بعد مجھے فرمایا کہ اس کی شرح لکھ۔پس انہی کے حضور میں ان کی بڑی قدر اور حکم ماننے کی وجہ سے میں نے خطبہ کی شرح کی۔آپ اس فخبی کے بیان کے وقت یہ بھی کہتے ہیں کہ کاملین کو ظہور کی قوت تمام موقعوں پر ہوتی ہے،زندگی اور موت کے بعد بھی۔چنانچہ میں بغداد میں تھا۔ایک شخص میرے مکان پر آیا۔جس کا یہ دعویٰ تھا کہ میں مہدی ہوں۔مجھ سے اس دعویٰ پر گواہی طلب کی۔میں نے کہا کہ میں خدا کے سامنے گواہی دوں گاکہ تم مہدی نہیں ہو اور جھوٹ کہتے ہو۔اس پر وہ میرا دشمن بن گیا اورایک جماعت بیدنیوں نصیریہ کو جمع کیا اور ان کو میرے ایذاء و تکلیف پر آمدہ کیا۔تب میں نے روحانیت شیخ بزرگ شیخ محی الدین سے پناہ لی اور پوری ہمت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوا دیکھا کہ ایک شخص ظاہر ہوا ہےاور اپنے ایک ہاتھ سے اس مدعی کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لیااور ایک ہاتھ سے میں نے اس کےدونوں پاؤں کو پکڑااور کہا کہ میں اس کو زمین دے ماروں۔میں نے کہا،اے سیدی تمہارا حکم اور فرمان ہے،جو چاہو کرو۔پس لوٹ کر چلے جاؤ۔میں اٹھا اور مسجد میں گیا ۔وہ مدعی اپنے تابعین کےساتھ جو میری تکلیف کے ارادہ سے جمع ہوئے تھے۔میں نے ان کی طرف توجہ نہ کی اورمحراب کےسامنے جاکر اپنی نماز پڑھی۔وہ مجھ ہر کچھ دست درازی نہ کرسکے۔خدائے تعالی نے ان کے شرسے مجھ کو بچالیا۔اس کے بعد اس مدعی نے میرے ہاتھ پر توبہ کی اور مسافر ہوگیا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ صدر الدین سے سناتھا۔وہ فرماتے تھے کہ شیخ بزرگ(اکبر)کو خضر علیہ السلام سے ملاقات کا اتفاق ہوا کہا کہ موسیٰ بن عمران صلوات الرحمٰن علیہ کے لیے ہزار مسئلہ اول ولادت سے ان ملنے کے وقت تک جو مجھ پر گزرے تھے۔میں نے تیار کیے ہوئے تھے۔ان میں سے وہ تین مسئلہ پر صبر نہ کرسکے۔یہ اشارہ اس امر کی طرف ہے،جو کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔لیت اخی موسی سکت حتی یقض علینا من انبائھما یعنی کاش میرے بھائی موسیٰ چپکے رہتے۔یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ ان دونوں کی باتیں ہم پر اور بیان کرتا۔آپ کے ابن الفارض رحمتہ اللہ کے طریق پر حقائق و معارف کے بیان عربی کے لطیف اشعار ہیں۔منجملہ ان کے یہ دو بیت ہیں۔جو کہ شیخ فخر الدین عراقی"کتاب لمعات"میں لائے ہیں۔
البحر بحر علی ما کان فی قدم ان الحوادث امواج وانھار
لایحجنبک اشکال لا نشاکلھا عمن نشکل فیھا وھی استاد
سمندر سمندر ہی ہے۔جیسے پہلے تھا۔بیشک حادثات(نئی چیزیں مخلوق) موجیں اور نہریں ہیں۔تم کو وہ شکلیں جو ایک دوسرے سے نہیں ملتیں پردہ میں نہ ڈالیں۔اس شخص سے کہ جس نے اس کی شکلیں بنائی ہیں اور وہ پردے ہیں۔ دوسرا بیت یہ ہے۔
ھوالواحد الموجود فی الکل حدۃ سوی انہ فی الوھم سمی بالسوی
یعنی وہی واحد کل میں اکیلا موجود ہے مگر یہ کہ وہم میں اوروں کے ماسوی کانام رکھا گیا ہے۔بے شک انہوں نے قصیدہ تائیہ فارفیہ کا جواب لکھاہے۔اس قصیدہ میں یہ دو بیت ہیں۔
فما انفک یرضانی بکل محبۃ وماذلت اھواہ بکل مودۃ
فممتنع عنہانفصالی وواجب ومالیبلا امکان بعد قربہ
پس وہ ہمیشہ مجھ کو ہر محبت سے راضی کر دیتا ہے اور میں ہمیشہ اس کو ہر دوستی سے چاہتا ہوں۔میری جدائی اس سے محال ہے اور قربت کے بعد کے امکان کے بغیر وصال واجب ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)