حضرت شیخ محمد علی
حضرت شیخ محمد علی (تذکرہ / سوانح)
آں روندہ قدم بہ قدم رسول ، بہ نظر عنایت حق منظور و مقبول، دروشیوۂ فقرو فنا، یگانۂ روزگار در زہد وریاضت ہمتائےمشائخ کبار، واقف اسرار خفی وجلی مخفی از چشم اغیار حضرت شیخ محمد علی قدس سرہٗ اس کاتب حروف کے والد اور حضرت قطب المشائخ شیخ اللہ بخش کے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپکو خلافت حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ سے حاصل ہوئی تھی۔ زہد وریاضت اور تجرید وتوکل میں آپکا قدم بہت مضبوط تھا اور حضرت شیخ آپکو اپنے تمام اصحاب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ جب انکو دیکھتے تو تعظیماً کھڑے ہونے کا ارادہ کرتے تھے۔ اور جب تک آپ کے اندر کھڑا ہونے کی طاقت رہی۔ انکی تعظیم کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میرے والد بھی اپنے والد ماجد کی طرح اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کیا کرتے تھے اور آپ کے باطنی کمالات سے ظاہر بیس لوگ واقف نہیں تھے۔ اَوْلَائی تَحْتَ قَبَائی لاَا یَعْرفۃھْم غیر (میرے اولیا میری قبا کے نیچے پوشیدہ ہیں اور انکو میرے سوا کوئی نہیں پہچانتا) سے یہی سر حال مراد ہے۔ آپ کا شمار بھی اولیائے مستورین میں ہوتا ہے۔ جب آپکے والد شیخ اللہ بخش کا وصال ہوا تو انکے بڑے بیٹے شیخ شرف کی عمر کم تھی اس لیے انکو اپنے والد کے حالات کا زیادہ علم نہ تھا۔ جو کچھ جانتے تھے انہوں نے اپنی والدہ اربعہ بی بی سے سنا تھا۔ جب آپ کے دونوں بیٹے اپنی والدہ ماجدہ کی نے مقامی علماء سے تعلیم حاصل کی۔ اسکے بعد والدہ ماجدہ کے حکم سے آپ کی شادی کرنال کے ایک صاحب محمد اسحاق انصاری کی دختر سے کرادی۔ جنکا نام جان بی بی تھا۔ اس فقیر کے ن انا شیخ محمد اسحاق حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھے جن کے صحن میں آنحضرتﷺ کی سانڈنی اللہ کے حکم سے مکہ معظمہ سے ہجرت کے بعد جاکر بیٹھی تھی۔ کیونکہ آپ کو یہی حکم ملا تھا کہ جس جگہ آپکی سانڈنی بیٹھ جائے وہی آپکا مسکن ہوگا لہٰذا آنحضرتﷺ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر پر سکونت اختیار فرمائی۔
تصور شیخ
غرضیکہ بیعت سے پہلےمیرے والد ماجد کتابوں میں جو اذکار مشاغل دیکھتے تھے اپنے والد کا تصور جماکر اس میں مشغول ہوجاتے تھے۔ یاد رہے کہ جس طرح تصور شیخ سے کمالات حاصل ہوتے ہیں اپنے آبا واجداد کے تصور سے بھی آدمی کمالات حاصل کر سکتا ہے۔ بلکہ اگر سالک کو کسی محبوب مجازی کے ساتھ عشق مجازی کا قوی تعلق پیدا ہوگیا ہے تب بھی وہ کمال کو پہنچ سکتا ہے۔ بعض صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی محبت سالک کے دل پر غالب ہو تو وہ جلدی منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اپنے آباوجاداد سے قوی تعلق ہوتا ہے اس لیے انکے تصر سے وہ جلدی مقصود تک رسائی حاصل کر سکتا ہے نیز اپنے آباواجداد کو خواب میں دیکھنا بھی سالک کی ترقی کی علامت ہے۔ اس وجہ سے سلسلۂ نسبی کو سلسلۃ الذہب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ محققین کا قول ہے کہ عارف کامل و مکمل کا تصور خواہ وہ سالک کے آباواجداد ہیں خواہ غیر ہوں بھی اسے منزل مقصود تک پہنچانے میں ممدو معاون ثابت ہوتاتا ہے لیکن ناقص کا تصور خواہ وہ اسکے آباواجداد ہیں اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اسی طرح زندہ شیخ کا تصور اگر وہ کامل و مکمل ہے بھی فائدہ مند ہے۔ لیکن مردہ شیخ کا تصور خواہ خواہ وہ غوث وقطب ہ سالک کو کوئی نفع نہی پہنچاتا۔ در اصل عالم باطن کا دروازہ کھولنے والی چیز تصور اور محبت ہے اور مرید کو اپنے شیخ کے ساتھ اس کے ادب واعتقاد کے مطابق فتح باطن نسیب ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ آج کل کے زمانے میں لوگوں کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے شیخ، یا رسول یا اللہ سے زیادہ محبت ہوتی ہے اس لیے انکے لیے فنافی الشیخ، فنافی الرسول اور فنافی اللہ کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مجنوں لیلےٰ کی محبت میں آہ نکالتا تھا تو اسکی رگوں سے خون ٹپکتا تھا۔ اور وہ انا لیلے[1] کا نعرہ لگاتا تھا۔ روایت ہے کہ بعض صحابہ کرام کو بھی شدت سے آنحضرتﷺ کے ساتھ محبت تھی اور اس محبت تھی اور اس محبت میں ایسے ایسے کام کرجاتے تھے کہ جس سے عقل ونگ رہ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ جس شخص کو شافی الشیخ حاصل ہے وہ خواب یا بیداری میں دیکھتا ہے کہ میرے اندر آگیا ہے اور حکم دے رہا ہے اور جسکو فنافی الرسول کا مقام حاصل ہے وہ دیکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ میرے اندر ہیں اور حکم دے رہے ہیں۔ اسی طرح جس شخص کو فنافی اللہ حاصل ہے وہ سمجھتا ہے کہ حق تعالیٰ نے میرے تعین میں ظہور فرمایا ہے اور کار فرمایا ہے یعی قطرے کے اندر سمندر موجزن ہے۔ لیکن آج کل شیخ کی محبت ہی غنیمت ہے۔ فنافی الشیخ تو بڑی چیز ہے کیسے حاصل ہو۔
بہر حال مبتدی کو چاہے کہ مرتبہ فنافی الشیخ کو یوں خیال کرے کہ حق تعالیٰ بے صورت ہے اور ہر صورت میں جلوہ گر ہے اور مرشد کی صورت میں اپنے اسم ہادی سے جلوہ گر ہوکر نیابت رسول میں مریدین کے تربیت کر رہا ہے اور مرید کو جو کچھ حاصل ہو یہی سمجھے کہ حق تعالیٰ سے حاصل ہورہا ہے اور خدمت شیخ سے مقصود رضائے حق تعالیٰ ہے۔
غرضیکہ جب میرے والد ماجد نے حضرت شیخ سوندہا سے بیعت کرلی تو حضرت شیخ نے چند ایام میں انکو تمام اذکار ومشاغل مثل ذکر نفی واثبات، ذکر اسم ذات، شغل بہونکم اور شغل سہ پایہ تلقین فرمائے۔ اور والد محترم نے رات دن کام کر کے جوش و خروش اور ذوق وشوق سے ان اذکار ومشاغل پر عمل کی اور یہ نہ جانا کہ دن کب ہوا ہے اور رات کب۔ اس عرصہ میں آپ نے بعض چلے بھی کیے اور طے کے روزے رکھے۔ آخر حضرت شیخ کی توجہ سےآپ م رتبہ کمال وتکمیل کو پہنچ گئے اور خرقۂ خلافت حاصل کیا لیکن حضرت ووالد فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے مرشد حضرت شیخ سوندہا کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ فرمایا مجھے حق تعالیٰ نے اس قدر طاقت عطا فرمائی ہے کہ طالب صادق کو چھ ماہ بلکہ چھ دن حتیٰ کہ ایک نظر سے حق پہنچادیتا ہوں۔ لیکن تربیت بتدریج، دیر پا اور زیادہ مفید ہے۔
ایک نگاہ سے واصل بحق کرنا اچھا نہین
نقل ہے کہ ایک شہر میں دو بزرگ کامل و مکمل رہتے تھے۔ ایک دن اتفاقاً دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوگئی ۔ ایک نے دوسرے سے دریافت کیا کہ آپ کتنے عرصہ میں طالب جن کو منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے جوب دیا کہ تین چار سال میں ملکوت تک پہنچادیتا ہوں سوال کرنے والے بزرگ نے کہا کہ میں تو ایک دہقان کو بازار سے لیکر ایک نظر سے عالم ملکوت میں پہنچادیتا ہوں۔ چنانچہ پہلے بزرگ ایک طالب حق کو دو تین سال میں عالم ملکوت تک پہنچاکر دوسرے بزرگ کے پاس لے گئے اور کہا کہ میں نے اس شخص کو دو تین سال میں ملکوت تک پہنچایا ہے اب آپ مجھے دکھائیں کہ آپ کس طرح طالب کو ایک نظر سے ملکوت تک پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے ایک عام آدمی کو بازار سے بلایا اور ایک نظر سے ملکوت تک پہنچادیا۔ پہلے بزرگ نے جنہوں نے دو تین سال میں سالک کو ملکوت تک پہنچایا تھا دوسرے بزرگ کے مرید پر ایک نظر ڈالی جس سے اسکی ھالت سلب ہوگئی۔ اب انہوں نے دوسرے بزرگ سے کہا کہ آپ میرے مرید پر نظر ڈال کر دیکھیں۔ جب انہوں نے اس مرید پر نظر ڈالی تو کچھ بھی نہ ہوا اور اپنی حالت پر قائم رہا۔ اسکے بعد پہلے بزرگ نے کہا سالک کو بتدریج واصل بحق کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسکی نعمت ہر گز زوال پذیر نہیں ہوتی۔ لیکن فی الفور واسل حق کرنے سے یہ دولت ایک نگاہ سے زائل ہوجاتی ہے۔
نیز والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شیخ سوندہا کی توجہ اس قدر تیز تھی کہ آپ ادنےٰ توجہ سے لوگوں کو ظآہری وباطنی امور طے پاجاتے تھے۔
شہنشاہ اورنگ زیب کا عتاب
اور حضرت شیخ کی توجہ
ایک دفعہ شہنشاہ اورنگ زیب نے حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر کے سجادہ نشین شیخ اچھا کو اپنے دربار میں قتل کے قصاص کی خاطر طلب کیا کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی کو قتل کر کے سجادگی پر خود قبضہ کرلیا تھا۔ شیخ اچھا نے حضرت شیخ سوندہا کی خدمت میں خاد بھیج کر توجہ باطن کی درخواست کی۔ حضرت شیخ سوندہا غلبۂ حال میں بیٹھے تھے آپ نے خادم سے فرمایا کہ صاحب زادہ سے کہو کہ کوئی فکر نہ کرو۔ بادشاہ کے دربارسے صحیح وسلامت اور خوش وخرم واپس آؤ گے۔ چنانچہ یہی ہوا شیخ اچھا بادشاہ کے پاس چلے گئے اور خوش و خرم واپس آگئے۔ انہوں نے واپسی پر ایک اونٹ اور کچھ نقدی حضرت شیخ کی خدمت میں بطریق نیاز ارسال کی۔
میرے والد ماجد نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت شیخ سوندہا موضع براس سے قصبہ ہا بڑی کی طرف جارہے تھے۔ ہم کھانا تیار کر کے راستے میں پہنچ گے اور عرض کیا کہ کھانا موجود ہے۔ راستے میں ہمارے کھیتی تھی جس میں کاشت ہوچکی تھی لیکن پودے ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ آپ نے وہاں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا اور دعا کی کہ حق تعالیٰ اس کھیتی میں برکت دیں۔ آپکی دعا کی برکت سے کھیتی میں دگنا غلہ آیا۔
جاننا چاہیے کہ میرے والد بزرگوار براس اور گرد ونواح کےلوگ مادر زاد ولی اور قطب وقت سمجھتے تھے۔ اور آکی دعا اور دیدار کو باعث برکت جانتے تھے۔ چنانچہ جب کوئی فتنہ پر داز اس علاقے میں کسی کی کھیتی کو نقصان پہنچاتا یا مال مویشی چوری کرتا تو اُسے دگنی سزا بھگتنی پڑتی۔ ایک دفعہ ایک ہندو حاکم نےمعمول سے زیادہ لگان وصول کیا تو قہر الٰہی میں مبتلا ہوگیا۔ اسکا منہ سوج گیا اور زبان بند ہوگئی جب بیماری سے سخت مایوس ہوا تو حضرت شیخ سوندہا کی خدمت میں عجز ونیاز کی خاطر پیش ہوا آپ نے اسکے حال زار پر رحم کھایا اور اسکی تقصیر معاف کردی۔ چنانچہ وہ فوری طور پر شفایاب ہوگیا۔
کمال تقویٰ
میرے والد ماجد اس قدر متقی وپرہیز گار تھے کہ اگر آپکی بھینس کسی دوسرے شخص کے کھیت سے گھاس کھالیتی تو آپ ہمیشہ کیلئے اسکا دودھ پینا ترک کردیتے تھے۔ آپ اکثر دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو جاگتے رہتے تے۔ اکل حلال (حلال کھانا) اور صدق مقال (سچ کہنا)میں آپ بے نظیر تھے شریعت اور طریقت کی پابندی میں آپ بہت مضبوط تھے۔ دردِ عشق میں بے مثال تھے۔ جو شخص آپکی صورت دیکھتا تھا بے ساختہ آپکی ولایت کی شہادت دیتا تھا۔ آپ قرآن مجید کی تلاوت بہت کرتے تھے۔ اہل دنیا سے آپ مستغنی تھے۔ جودوسخا میں کمال حاصل تھا۔ بر اس کے یتیموں اور بیواؤں کو آپکے گھر سے کھانا ملتا تھا۔ آپ ہر وقت شغل باطن میں مستغرق رہتے تھے۔ حتی کہ مرض موت میں بھی آپ سے چھ ماہ تک کوئی ذکر اور وظیفہ ترک نہ ہوا۔ وفات سے تین دن پہلے آپ نے اپنا کفن تیار کرالیا تھا۔ چونکہ آپکو معلوم ہوچکا تھا کہ موت سے پہلے غشی کی وجہ سے پانچ نمازیں فوت ہوجائینگی آپ نے اُن نمازوں کا فدیہ پہلے ہی سے ادا کردیا تھا۔ اور وصال سے چھ ماہ پہلے آپ نے اس فقیر سے فرمایا تھا کہ میں چھ ماہ کے بعد اسی مرض میں دارلبقا کی جانب رحلت کرونگا۔ جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ بلند آواز سے پکارا۔ شب جمعہ میں آخر شب آپ نے اپنی جان عزیز مشاہدہ دوست میں دیدی اور جانانِ حقیقی سے ہمرنگ ہوگئے۔ آپکا مزار موضع بر اس میں اپنے والدم اجد کے متصل ہے۔ جہاں آپ مجر دانہ اور عاشقانہ آصودہ ہیں۔ آپ نے بھی اپنے والد ماجد کی طرح حیات اور ممات میں اپنے جمال ولایت کو نظر اغیار سے مستور رکھا۔ آپ نے ساری عمر کسی کو مرید نہ بنایا آپ نے اپنی مرضی کے مطابق موت قبول فرائی۔ جب اس فقیر نے آپکی مرض موت میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپکو صحت عطا فرمائے تو آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تجھے دیر تک زندہ وسلامت رکھے تم ہمارے خاندان کے چراغ ہو اور ہمیں تمہاری بدولت عزت نصیب ہوئی ہے۔ میں نےاپنی باقی تجھے بخشی ہے اور اب میں جارہا ہوں۔ اسکے چند روز بعد آپ نے رحلت فرمائی۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
اولاد
آپ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیچھے چھوڑی۔ لڑکوں میں سے ایک یہ فقیر محمد اکرم ہے، دوسرا شیخ محمد عبداللہ ہیں۔ اس فقیر کی والدہ اور ہمشیرہ دونوں عارفہ اور رابعۂ وقت ہیں اور رات دن شغل باطن اور عبادت وریاضت میں مشغول رہتی ہیں۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد ٍوَالہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
الٰہی ہمیں اور ہمارے مریدین، ہمارے احباب اور ساری امت محمدیہ کو ان مقربان بارگاہ اور پاک ہستیوں یعنی اقطاب، ابدال، اولیاء اللہ کے صدقے میں جنکے احوال و مقامات سے یہ اوراق کتاب مزین وآراستہ ہیں۔ ظاہر شریعت اور باطن حقیقت کی دولت ونعمت سے مالا مال فرمائے۔ یا کریم، یارحیم، یا غفار، یا ستار ہمیں مشرف فرمائے۔ اور خالص اخلص رحمت سے نوازش فرمائے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی محبت میں زندہ رکھیئے اور روزِ محشر آپکی ہی محبت میں اٹھایئے۔
وصل علی محمدٍ وآلہٖ واصحابہ اجمعین۔ بیت
یارب بکمالات شہ جیلانی |
|
کاندر کرم وفضل ندارو ثانی |
سحن باطنِ من پاک بیک جلوہ |
|
آلودہ مکن با عراضِ نفسانی |
[1]۔ یعنی سنہری سلسلہ۔ سنہری اس لیے کہ اس لیے کہ اس سے مقصود حاصل ہوتا ہے۔
(قتباس الانوار)