حضرت شیخ محمد حسن
حضرت شیخ محمد حسن (تذکرہ / سوانح)
شیخ حسن طاہر کے بڑے صاحبزادے اور اپنے زمانے کے بڑے عارف تھے، حال صحیح اور مشرب عالی رکھتے تھے، کہتے ہیں کہ جب آپ خلوت سے باہر آتے تو سب لوگ آپ کو دیکھ کر تعجب سے اللہ اکبر کہتے تھے، علم و حال اور مظاہر صوریہ سے متصف رکھتے تھے، والد کے مسلک کے لحاظ سے چشتی تھے لیکن سلسلۂ قادِریہ سے زیادہ نسبت رکھتے تھے، سالہا سال حرمِ مدینہ میں رہ کر رِسَالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاوری کی، یمن کے علاقے میں جو مشائخ قادریہ موجود تھے ان سے بیعت کرکے اجازت بیعت لی، حاجی شیخ عبدالوہاب جب دوسری مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے گئے تو شیخ محمد حسن کو اپنے ساتھ وطن واپس لائے۔ جونپور میں آپ کی ولادت ہوئی آگرہ میں سکونت پذیر رہے اور دہلی میں 944ھ میں انتقال فرمایا، جے منڈل میں اپنے والد کے برابر ہی آپ کا مزار ہے۔
آپ نماز عصر کے بعد رات کا اس طرح انتظار کرتے تھے جیسے کوئی اپنے محبوب کا انتظار کرتا ہے، رات ہوتے ہی کمرے میں پہنچ جاتے، دروازہ اندر سے بند کرکے چراغ جلاتے اور ذکر الٰہی میں مصروف ہوجاتے، اور بعض اوقات اگر دل چاہتا تو تصوف سے متعلق تصنیف و تالیف کرتے اور جب وہ کتاب پوری ہوجاتی تو اسے نذر آتش کردیا کرتے یا قینچی سے کاٹ کر اس کے پُرزے پُرزے کردیتے، آپ کے بعض رسائل بھی ہیں اور مکتوبات بھی ایک جاجمع کیے گئے ہیں کبھی کبھی اشعار بھی کہتے، آپ کے بعض مرید آپ کو شاہ خیالی بھی کہتے تھے آپ کے مرید بکثرت تھے۔
ہمارے منجھلے چچا شیخ فضل اللہ عرف شیخ منجھو نے بھی آپ سے بیعت کی تھی جو آپ کے آخری مرید تھے۔
شیخ منجھو بڑے صاحب برکت و نعمت اور اوراورادوظائف میں مشغول اپنے پیر کی محبت میں مست رہا کرتے تھے اپنے زمانہ کے ایک مقبول اور صاحب ذوق و حال بزرگ تھے اور برکتیں و نعمتیں ظاہر کیا کرتے تھے۔
شیخ محمد حسن اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں خوب سمجھ لو کہ ایک دنیا ایسی ہے جس کا صرف محسوسات کے ذریعہ معلوم ہونا ممکن ہے۔ قل ھو الذی انشا کم وجعل لکم السمع والابصار والافئدة ترجمہ: (فرمادیجیے پروردگار عالم ہی وہ خالق ہی جس نے تم کو بنایا اور تم کو کان، آنکھ اور دل عنایت کیا)۔
دوسری ایک دنیا وہ ہے جس کو صرف عقل و شعور ہی پہچانتا ہے، عقل وہ نُور ہے جسے اللہ تعالیٰ قلب مومن کے سپرد کرتا ہے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کرسکے۔
اس کے ماسوا ایک اور دنیا ہے جسے علم کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ترجمہ: (اگر تم صاحب علم نہیں ہوتو اہل علم سے پوچھ لو)۔
اور ایک دنیا وہ ہے جسے صرف عِشق کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر شان قہاریت رکھتے ہوئے ان کی حفاظت کے لیے محافظ مقرر کردیئے ہیں۔
میرے اسلامی بھائی! طورِ حس، طور ِعقل، طورِ علم سے بلند اور آگے ایک اور طور ہے جس کو طورِ عشق کہتے ہیں، اس طورِ عِشق میں وہ وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو کسی اور طور میں نہیں ہوتیں۔ عرف من ذاق اطال شوق الابرار الی لقای فانا الیھم لا شد شوقا ترجمہ: (جس نے چکھا اُس نے معلوم کیا۔ ابرار کو جب مجھ سے ملنے کا شوق بڑھ جاتا ہے تو میں بھی ان سے ملنے کا مشتاق رہتا ہوں)
باہمت اسلامی بھائی! مشتاق کے معنی صورت ہیں اور صورت کے معنی مشتاق ہیں، مولیٰ بندہ کا مشتاق ہے اور بندہ مولیٰ کا مشتاق ہے۔
بانگ می آید کہ اے طالب بیا
جود محتاج گدایاں چوں گدا
جودمی جوید گدایان ضعاف
ہمچو خوباں کائینہ جویند صاف
ذات عاشِق صفت اور صفت عاشِق ذات بن گئی اور حرکتِ عاشِق سکون بن گئی اور سکون عاشِق حرکت بن گیا، افعال آثار سے اور آثار افعال سے جدا نہیں ہوتے ہیں اور انکسار خاکساری سے اور خاکساری ا نکسار سے الگ نہیں ہوتے ہیں، آثار و افعال مظاہر ذات و صفات ہیں، صفات و کمالات کا تحقق بغیر ذات باری کے ممتنع اور محال ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے سواے کوئی اور چیز وجود نہیں رکھتی بجز صفات کی اور کوئی چیز مشہود نہیں ہے۔ وحدت، مقتضائے ذات ہے اور اکثر مقتضائے صفات۔
ایں جملہ مفت کہ کردی اثبات
محی داں ہمہ بے تصرف ذات
اورا بہمہ صفات میخواں!
لیکن صفتش ہمہ یکے داں
یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً ذات اور صفات کے اعتبار سے واحد ہے لیکن نسبتوں، اضافتوں، حالات و اعتبارات کے لحاظ سے کثرت پذیر محسوس ہوتا ہے جو باطن سے بے نمودی کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی وہ ذات الٰہی ہے جس کی صفات ظاہری نمود بے بود ہیں اور یہی افعال الٰہی و آثار خدا وندی ہیں۔
بودے کہ نمود نیست اورا
ذات است و صفت بدان و دریاب
وا نرا کہ نمود است بے بود
فعل و اثرے ببیں و بشتاب
اگرچہ عقل و فہم کے مد نظر صفات غیر ذات ہوتی ہیں بااعتبار تحقیق و حصول عین ذات ہیں۔
بوداست و نموداست ودگر چیزنے نیست
حق است ہمہ بود و جہاں جملہ نمود
شوق است بوحدت وزکثرت ہمہ ذوق
کثرت زنمود آمدو وحدت ہمہ بود
ہر مظہر اپنے ظاہر کا غیر ہے، ظاہر شے صورت شے ہے اور شیخ اپنی ذات و حقیقت کے لحاظ سے خود مظہر ظاہر نہیں ہے۔
نہ بینی صورتت در آب و مرات
کہ آں دیگر بود تو دیگر ستی
لیکن مظاہر الٰہی جو ایک دوسرے کے ظاہر و مظہر ہیں آپس میں ایک ہیں، البتہ ان میں جو فرق نظر آتا ہے وہ اطلاق تجرد، یقین و تقید کا فرق ہے جیسے حقیقت انسانی جو اطلاق و تجرد کے لحاظ سے ظاہر ہے اور باعتبار تعین و تقید کے مظہر ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ حقیقت اپنے افراد کا عین ہے چونکہ سب کے سب اس کے مظہر ہیں۔
آں نور پاک ظاہر و شخص تو مظہر است
باشد میان ظاہر و مظہر دوئ محال
فرقے بجز تقید و اطلاق یافتن!
نتواں میان ظاہر و مظہر بہ ہیچ حال
بعض عارفین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے باعتبار تقیدو تعین جو کہ مققنی اسماء و صفات ہے اور علی الاطلاق باطن میں ہے اور اس کے تقید و تعین کے اثرات ہیں وہ اپنے تجرد کے لحاظ سے پردۂ اخفا میں ہے وہ آل و آخر اپنے مرتبہ کے لحاظ سے ہے جس کو زمانہ و جگہ سے لگاؤ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ جس نے سب کو پیدا کیا ہے وہ عین کون و مکان ہے۔ انسان نام ہے تمثیل خدا وندی کا جو تمام موجودات سے بالا و برتر ہے، تمام کائنات انسانی اس کی شکل میں ظہور پذیر ہیں، انسان کی دنیا بہت بڑی ہے انسان عالم صغیر ہے، انسان کی وحدت و وحدت خدا وندی کے لیے دلیل ہے کائنات کا ذرہ ذرہ وحدت حقیقی ہو یا کثرت نسبی، سب کے سب انسان میں دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی نُور محض یا ظلمت خالص دکھائی نہیں دیتی ہے اور جو دکھائی دیتی ہے وہ مخلوط ہے نور و ظلمت سے جس کو ہم ضیا و روشنی کہتے ہیں، ہر نیستی کا ظہور ہستی سے مربوط ہے جس کو دنیا کہتے ہیں۔ اور جس ظہور کو اللہ تعالیٰ نے نزول کے ذریعہ اعیان کے ساتھ نسبت دی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کامل نُورانی ہونے کے ساتھ اپنے اخلاق و وسعت میں بمرتبہ افعال و اسماء صفاتی کے جلوہ گر ہیں اور جبکہ تمام ممکنات بلحاظ ذات معدوم ہیں تو ان کا علم و شعور و اِدراک بھی معدوم ہے۔
چہ نسبت خاک را بایم پاک
کہ دراک است عجز اردرک ادراک
افسوس کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے اور کہاں سرمارے کہ حق کا پہچاننے والا بغیر حق کے اور کوئی نہیں ہے لا یعرف اللہ غیر اللہ غرض کہ اہل سلوک کی روش یہ ہے کہ درویش ایسے مقام میں پہنچ جائے کہ ساری اشیاء کو پرتو نُور خالق کی تجلی میں فناء کردے اور اپنے آپ کو فقیر حقیقی ثابت کرے جو فنافی اللہ کا ایک خاص مرتبہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان اللہ یامرکم ان تودواالامنت الی اھلھا
ہستی ہمیشہ وجود اور ہونے کی طرف مائل رہتی ہے اور نیستی و عدم اپنے محو ہوجانے کی جانب لپکتا ہے۔
ظہر النور ذوالمنن باشد
بطل الزور جان و تن باشد
اخبار الاخیار