حضرت شیخ محمد جمال چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ محمد جمال چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ محمد جمال چشتی صابری
تعارف:فدائے عشق و مستی بحق رب ذو الجلال، آئینہ معرفت و کمال ، صاحب کشف کرامت و حال حضرت شیخ محمد جمال چشتی صابری ثمہ کا چھوی رحمۃ اللہ علیہ ولی بے مثال و باکمال ہیں۔آپ موضع کا چھو ضلع کر نال کے زمیندار طبقہ سے متعلق ہیں۔ کھیتی باری آپ کا معمول خاص تھا۔ ایک دن اپنے کھیتوں میں ہل چلا رہے تھےکہ غیب سے ندا آئی کہ اے جمال تم اس کام کے لیے نہیں پیدا کئے گئے بلکہ تم ہمارے مشاہدے کے لیے پیدا کئے گئے ہو۔ لہٰذا تم فوراً گنگوہ شریف پہنچو اور حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دے کر اپنے اصلی کا کام میں مشغول ہوجاؤ۔
بیعت و خلافت:آپ غیبی آواز سن کر غفلت سےبیدار ہوئے اور سب کچھ چھوڑ کر جلدی جلدی گنگوہ شریف پہنچے اور حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی چشتی صابری علیہ الرحمۃ کی زیارت سے مستفیض ہو کر ان کے قدموں میں سر رکھا۔اور بیعت کے لیے درخواست کی۔مرشد کامل نے بیعت سے مشرف فرمانے کے بعد آپ کو بھینسوں کی خدمت پر مامور فرمادیا۔آپ کافی مدت تک اس خدمت کو سر انجام دیتے رہے۔ ایک دن حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی علیہ الرحمۃ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ داؤد چشتی صابری علیہ الرحمۃ نے آپ سے فرمایا اے جمال تم یہاں بھینسوں کی خدمت کے لیے نہیں آئے بلکہ طلب حق کے لئے آئے ہو اور اس کے لیے تم نے اپنا گھر بار مال و متاع ہر چیز قربان کردی ہے۔ لہٰذا تہیں اپنے اصلی کام میں مشگول ہوجانا چاہیے۔آپ اس بات سے متاثر ہوئے۔ اور حضرت شیخ کی خدمت میں جاکر عرض کیا حضور مجھے شگل باطن تلقین فرمادیں۔تاکہ میں اس میں مشغول ہوجاؤں۔
حضرت شیخ محمد صادق علیہ الرحمۃ نے آپ کو طلب حق میں صادق پاکر دریافت فرمایا کہ تجھ کو کس چیز سے محبت ہے۔ آپ نے عرض کیا حضور میرے گھر میں ایک بھینس ہے جسے میں تمام بھینسوں سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی علیہ الرحمۃ نے آپ کو ذکر جہر تلقین فرمایا اور نماز معکوس کا طریقہ بتا کر حکم دیا کہ ایک چلہ مکمل کرو۔اور اس کے اندر رات دن ذکر جہر اور نماز معکوس میں باری باری مشغول رہو۔اور تصور اور اس بھینس کا رکھو۔کیونکہ تمہارے کام کی کشائش اس میں ہے۔
شیخ کامل حکیم حاذق کی مانند ہوتا ہے:جاننا چاہیے کہ شیخ کامل حکیم حاذق کی مانند ہوتا ہے۔اور مریدین اور مریض کی مانند ہیں۔ حکما بیمار کی نبض دیکھ کر جو دوائی جس مریض کے لیے مفید ہوتی ہے وہی دوا اسے دیتے ہیں تاکہ صحت کاملہ حاصل ہوجائے۔
محققین عارف حضرات فرماتے ہیں۔کہ بعینہٖ مرشد کامل کو بھی چاہیے۔کہ وہ آنے والے سالک کی اندرونی حالت کی تشخیص کرے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اُسے کس چیز سے رغبت و اُنس ہے۔ مثلاً اگر کسی کسی کو اپنے بیٹے سے محبت ہے اور وہ اس کے عشق میں شیدا ہے تو بیٹے کا جمال اس کی نظروں میں شیخ کے جمال سے زیادہ محبوب ہوگا۔اس لیے شیخ کو چاہیے کہ اُسے اپنے تصور کی بجائے اس بیٹ کے تصور کا حکم کرے جس کی محبت میں وہ گرفتار ہے اور اس تصور میں اُس سے اذکار و اشغال کرائے۔ان ازکار و اشغال کی برکت سے اسے مجاز سے کھینچ کر حقیقت کی طرف لایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص جو جمالِ گل و چمن پر عاشق ہے۔ شیخ اسے اپنے تصور کی بجائے اس کا تصور کرائے گا۔ کیونکہ جس خوبی سے کام گل و چمن کے تصور میں ہوسکتا ہے وہ شیخ کے تصور میں نہیں ہوسکتا۔ جب وہ اس کام میں پختہ ہوجائے تو پھر رفتہ رفتہ اُسے مجاز سے نکال کر حقیقت کے ساتھ وابستہ کرنا بہت آسان ہوجائے گا۔
الغرض حضرت شیخ محمد صادق کے فرمان کے مطابق آپ نے ایسی خلوت اختیار کی کہ چالیس روز تک نہ کمرے سے باہر آئے نہہی کسی اور کی طرف توجہ کی اپنے شیخ کے بتائے ہوئےاور ادو وظائف اور ذکر و فکر اور ذکر بالجہر میں اس قدر مشغول رہے کہ ایک ہی چلہ (یعنی چالیس یوم) میں کام مکمل ہوگیا۔
جب چلہ کی مدت پوری ہوئی تو حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی علیہ الرحمۃ نے دروازہ پر آکر دستک دی اور فرمایا شیخ جمال دروازہ کھولو۔آپ نے بحکم دورازہ کھولا تو شیخ کامل نے فرمایا کہ باہر آجاؤ اس لئے کہ تمہارا کام مکمل ہوچکا ہے۔ آپ نے عرض کیا حضور باہر کیسے آؤں دروازہ چھوٹا ہے اور میرے سینگ بڑے ہیں۔یہ سن کر حضرت شیخ نے آپ کا باز و پکڑ کر باہر کی جانب کھینچا اور باہر نکال لیا۔
اس کے بعد تین یوم تک خلوت میں بٹھا کر حقیقت توحید سے آگاہ فرمایا۔حتیٰ کہ آپ کی نظر مین وجود واحد کے سوا کچھ نہ چھوڑا اور ایک نظر میں اسے عالم بے کیف و اطلاق میں پہنچادیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ جمال کو مرتبہ بے رنگی نماز معکوس میں حاصل ہوا۔ بعض حضرات کو یہ مقام ذکر و نفی اثبات سے حاصل ہوتا ہے۔ بعض کو شغل بہونکم سے اور بعض کو شغل سہہ پایہ سے حاصل ہوتا ہے۔
الغرض جب حضرت شیخ جمال چشتی کا چھوی رحمۃ اللہ علیہ مرتبہ کمال کو پہنچے تو مرشد کامل حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی علیہ الرحمۃ نے آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرما کر کا چھوی کی طرف روانہ فرمادیا تا کہ وہاں کے لوگوں کی رشد و ہدایت کا کام سنبھالیں۔ وہاں پہنچ کر آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرما کر کا چھوی کی طرف روانہ فرمادیا تاکہ وہاں کے لوگوں کی رشد و ہدایت کا کام سنبھالیں۔ وہاں پہنچ کر آپ نے خلق خدا کی رشد و ہدایت کا فریضہ سر انجام دینا شروع کردیا۔ بہت سے بے راہوں کو راہ ہدایت ملی بہت سے گمراہوں کو آپ کی برکت سے صراط مستقیم ملی اور بہت سے مرتبہ کمال کو پہنچے۔
وصال باکمال:آپ کا وصال باکمال ۱۹۲۰ ھ کو موضع کا چھو جو کہ کر نال سے غربی جانب پانچ میل کے فاصلے پر انڈیا میں ہوا۔ وہیں آپ کا مزار پُر انوار مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کے بعد آپ کے جانشین ایک مغل ہوا۔ جو کہ آپ کا مرید خاص اور بلند مرتبہ ولادت پر فائز تھا۔