آپ کو لوگ مصباح العاشقین کہا کرتے تھے۔ ابتداً آپ شیخ احمد رادتی کے مرید ہوئے اور اُنھیں کی خدمت میں رہ کر ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے۔ بعد شیخ جلال گجراتی کی خدمت میں پہنچے اور عشق و محبت کی نسبت انہی کے ذریعہ درست کی آپ کامل شیخ اور صحیح الحال بزرگ تھے، سماع اور وجد کے رسیا تھے۔
ایک غزل خواں آپ کے سامنے وہ اشعار پڑھ رہا تھا جن میں فراق وجدائی کا تذکرہ تھا آپ پر ایسا وجد طاری ہوا کہ مرنے کے قریب پہنچ گئے، آپ کی اس حالت سے ایک شخص باخبر ہوا اس نے غزل خوانوں سے کہا کہ وہ اشعار پڑھو جس میں وصل و قرب کا تذکرہ ہو چنانچہ اس مضمون کے اشعار سنتے ہی آپ میں ایسی بشاشت و فرحت آگئی کہ گویا نئے سرے سے آپ میں جان آگئی۔ ع
الوصل یحیی والفراق یمیت
فمازلت فی العشق حیا و میا
گہ بلطفم می نوازد گہ بنازم مے کشد
زندہ می سازو مرا آں شوخ و بانیم می کشد
ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگ گئی اور گھر کے اندر غلہ وغیرہ جو کچھ بھی تھا سب جل کر راکھ ہوگیا، اسی غلہ کے اندر بغرض تخم ریزی تھوڑے سے دھان بھی رکھے ہوئے تھے چنانچہ بقیہ غلہ کے ساتھ وہ بھی جل گئے، جب تخم ریزی کا وقت آیا تو گھر والوں نے آپ سے گزرا ہوا تمام قصہ بیان کیا اور کہا کہ تخم ریزی کے لیے جو دھان محفوظ رکھے ہوئے تھے وہ بھی تمام غلہ کے ساتھ جل چکے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ ہم سوختہ جانوں کے پاس جلے ہوئے دھانوں کے علاوہ اور کیا ہوگا۔ اس کے بعد وضو کیا اور دو رکعت نماز اداکی اور بایں الفاظ دعا مانگی کہ اے اللہ تو ہمیشہ اپنی حکمت سے کام کرتا ہے اس دفعہ اپنے بندے کے لیے اپنی قدرت کا مظاہرہ فرمائیےگا، اے اللہ میرے پاس جتنے دھان تھے وہ تمام آپ کے حکم کے موافق جل چکے ہیں اب میرے پاس تخم ریزی کے دھان کا کوئی ایک دانہ بھی نہیں ہے بتائیے اب میں کیا کروں۔
کہتے ہیں کہ اس سال اُن کی زمین میں اتنی کثرت سے دھان پیدا ہوئے جنھیں دیکھ کر اس وقت کے بادشاہ سلطان سکندر نے اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میری سلطنت میں ایسے اللہ کے بندے بھی موجود ہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں خدا سے حاصل کرلیتے ہیں۔
ایک دن شیخ محمد ملا وہ سماع سن کر وجد میں محو تھے اسی اثنا میں اس وقت کا ایک غیر مسلم سردار ادھر سے گزرا اور تماشا دیکھنے کی غرض سے اس نے آپ کے کمرے کی کھڑکی میں سر داخل کیا۔ اس نے آپ کے چہرے کو دیکھ کر اپنے دوسرے ہندو ساتھی سے کہا کہ مجھے باہر کھینچ لے وگرنہ میں جارہا ہوں چنانچہ اس کا ہندو ساتھی اس کو کھڑکی سے کھینچ کر مشکل سے اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ ہندو ایک عرصہ دراز تک بے خود مست رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس کے دوستوں اور ساتھیوں نے اس سے بے خودی کی تفصیل پوچھی تو اس نے کہا کہ یہ مسلمان اپنے خدا کو اپنی گود میں لے کر ناچ رہا تھا۔ اگر تم لوگ مجھے کھنچ کر باہر نہ لاتے تو میں اس کی جانب جارہا تھا اور اس کے پاؤں میں گر کر اس کے مذہب میں شامل ہونے والا تھا۔ ع
عشق گرد دہر کہ بکویت گذرد
آری زدرد بام تو میبارد عشق
آپ نے ۹۰۰ھ میں وفات پائی، علاقہ قنوج کے مشہور گاؤں ملا دہ میں آپ کا مزار ہے، بہت سے لوگ آپ کے مرید ہوکر خلافت کے مستحق ہوئے اور راقم الحروف (مصنف اخبار الاخیار) کے دادا بھی آپ ہی کے مریدوں میں سے تھے۔
اخبار الاخیار