آپ ماہر علم توحید، رندمشرب تنہا پسند ور اہلِ تفرید تھے، بڑے بڑے لوگوں سے مقابلے کرچکے تھے، مشرب عالی اور ہمت بلند کے مالک تھے، 900ھ میں آگرہ آئے، شیخ امان سے بڑے اچھے تعلقات ہوگئے جنہوں نے آپ سے علم توحید حاصل کیا اور فصوص الحکم کو آپ سے پڑھا، جب رات ہوجاتی تو آپ نشہ ذوق و حال میں سرگرم ہوکر شیخ امان سے کہتے دیوانے! کتاب بند کرو اور ہماری باتیں سنو، پھر اس کے بعد حقائق و اَسرار کے واقعات بیان کرتے۔
کہتے ہیں کہ آپ کو بعض نفع رساں علوم کیمیا وغیرہ معلوم تھے، اکثر اوقات آپ شیخ امان سے فرماتے کہ میں میوہ دار درخت ہوں، مجھے ہلاؤ اور پھل چن لو لیکن شیخ امان ہمیشہ ہی جواب دیتے کہ آپ کی علم توحید کی گفتگو میرے لیے ہزار کیمیا سے زیادہ اچھی اور سودمند ہے۔ شیخ امان کی بابت آپ فرمایا کرتے تھے ہمیں ایک جوہر قابل ملا لیکن افسوس یک چشمی ہے، عام گفتگو میں بھی آپ شیخ امان کو کانا ہی کہہ کے مخاطب کیا کرتے تھے، عرصہ تک آگرہ میں مقیم رہے اس کے بعد شیخ امان کی نسبت کی وجہ سے پانی پت جاکر ٹھہرگئے، شیخ امان نے آپ کی ضروریات کا معقول انتظام کردیا، غرضیکہ آپ نے پانی پت میں انتقال کیا، آپ کی اور شیخ امان کی قبر برابر ہی ہے، اللہ آپ سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اخبار الاخیار