شیخ محمد صادق گنگوہی
شیخ محمد صادق گنگوہی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ محمد صادق بن حضرت شیخ بن فتح اللہ گنگوہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے برادر زادہ بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے وجد و سماع ذوق شوق میں کمال رکھتے تھے مریدوں کی تکمیل و تربیت میں بڑا کام کیا تھا آپ کی کرامات اور خوارق زمانہ میں مشہور ہوئیں تھیں۔
ایک بار آپ سہارنپور شہر کے بازار میں جارہے تھے آپ کی نگاہ ایک مالدار اور دولت مند ہندو دکاندار پر پڑی اس ہندو کے دل میں عشق الٰہی کی آگ بھڑک اٹھی دکان سے اٹھا شیخ کا دامن پکڑ لیا مسلمان ہوگیا مرید ہوگیا آپ نے اس کا نام عبد السلام رکھا ذکر حق کی تلقین کی اور کاملانِ وقت سے بنادیا۔
صاحب سواطع الانوار (اقتباس الانوار) نے لکھا ہے کہ ایک بار حضرت سفر کے دَوران جگناتھ کے مقام پر پہنچے بازار میں ایک پتھر کے بت کو نصب دیکھا جسے ہندو پوجا کر رہے تھے آپ بھی کھڑے ہوکر دیکھنے لگے بت نے کہا انا الْمعبود کَ تَعبد سَوَائی میں تمہارا معبود ہوں میرے سوا کسی کی عبادت نہ کرو حضرت شیخ اگرچہ اس وقت مغلوب الحال تھے مگر آپ نے قبلہ رو ہوکر سجدہ کیا اور بت کو نظر انداز کردیا ہندو اس بت کو سجدہ کرتے رہے پھر آواز آئی فاَین ماتو لو فثم وجہ اللہ جس طرف بھی سجدہ کرو گے ہر طرف اللہ کو پاؤ گے؟ حضرت شیخ نے جواب دیا تم تم سچ کہتے ہو لیکن ہمارے محبوب مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایمان کے باجود کہ اللہ ہر طرف موجود ہے کعبۃ اللہ کو سجدہ کا قرار دیا ہے میں آپ کے احکام کی نافرمانی کیسے کرسکتا ہوں بت نے یہ بات سنی تو خواجہ محمد صادق کی تعریف کی اور کہا تم سچے ہو بت کے منہ سے آپ کی سچائی سن کر بہت سے ہندو مسلمان ہوگئے۔
آپ کا ایک مرید عبدالحق نامی تھا اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی آپ اس کے باغ میں سیر کرنے گئے ان دنوں باغ میں آموں کے درختوں پر پھل موجود تھا آپ نے عبدالحق کو فرمایا ہمارے آم لاؤ ان دنوں آموں کا آخری موسم تھا عبدالحق کئی درختوں پر چڑھ کر آپ کے لیے بڑی مشکل سے سات آم لایا اور پیش کیے چھ تو ان میں سالم تھے مگر ایک ناقص تھا آپ نے کھا کر فرمایا تمہیں اللہ تعالیٰ سات لڑکے دے گا ان میں سے ایک ناقص اور بیمار ہوگا چنانچہ اس کے چھ لڑکے تندرست و توانا ہوئے اور ایک معذور تھا وہ گیارہ سال کا ہوگیا تو گونگا تھا حضرت شیخ کو ایک بار شیخ عبدالحق کے گھر جانے کا اتفاق ہوا وہاں کے علاقہ کے لوگوں نے آپ کی خدمت میں بہت ساری مٹھائی پیش کی حضرت نے مٹھائی تمام حاضرین میں تقسیم کردی عبدالحق کے بیٹے بھی لینے آئے مگر انہوں نے اپنے گونگے بھائی سے اس کا حصہ زبردستی چھین لیا اس نے فریاد کی آپ نے فرمایا اس بچے کو میرے پاس لاؤ وہ خود واقعہ بیان کرے وہ آیا حضرت نے آبِ دہن اس کے منہ میں ڈالا وہ اسی وقت باتیں کرنے لگا۔
آپ کی وفات ۱۸؍ محرم ۱۰۵۷ھ میں ہوئی تھی آپ کا مزار گنگوہ میں ہے آپ کے بہت سے خلفاء تھے مگر ہم چند ایک کے اسمائے گرامی یہاں لکھے جاتے ہیں۔
۱۔ شیخ دادو رحمۃ اللہ علیہ (آپ کے بیٹے بھی تھے)
۲۔ شیخ محمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (آپ کے دوسرے بیٹے)
۳۔ شیخ ابراہیم مراد آباد رحمۃ اللہ علیہ
۴۔ شیخ عبدالسبحان سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ
۵۔ شیخ عبدالجلیل الہہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ
۶۔ شیخ جمال کاچھو رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ شیخ مبارک رحمۃ اللہ علیہ
۸۔ شیخ یوسف کابلی قدس سرہ رحمۃ اللہ علیہ م
رفت صادق چوں زدارے حیات
سال ترحیلش بصد صدق و یقین
وارث دین محمد صادق است
بار دیگر صادق جنت نشین[۱]
[۱۔ صاحب اقتباس الانوار نے آپ کے حالات و مقامات کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے آپ کے احوال اور کرامات کی تفصیل دی ہے پھر آپ کی روحانی تربیت اور اسلام خلق کے معاملات کو قلمبند کیا ہے آپ کے خلفاء کا تفصیلی تذکرہ اسی کتاب میں ملتا ہے آپ کے انتقال اور خصوصی مجاہدات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔]
حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آں مراۃ جمال بے مثال، فارغ از مستقبل وحال، سیاح باویہ وجود، آوں بہ نورِ حق باقی وجود، بر قلب ہمہ اولیاء متصرف و مالک ، و در نظر بصیر تش اسم غیرو غیریت ناٹک، مجروجان تیغ فراق کیلئے حکیم حاذق، قطب وحدت شیخ المشائخ حضرت محمد صادق بن شیخ فتح اللہ گنگوہی الحنفی قدس سرہٗ کا شمار مستان جمال احدیت اور محبوبان بارگاہ صمدیت میں ہوتاہے۔ حق تعالیٰ نے آپکو وہ ولایت و تصرف عطا کیا تھا کہ اولیاء متاخرین میں سے بہت کم کو نصیب ہوا ہے بلکہ متقدمین میں سے بھی بہت کم حضرات اس قسم کی ولایت و تصرف کو پہنچے ہونگے۔ آپ کے نور ہدایت سے تمام اطراف واکناف منور تھے۔ آپ قطب الاقطاب حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی حنفی قدس سرہٗ کے برادر زادہ اور خلیفۂ جانشین تھے آپ ذوق وسماع، درد اور سواز گداز میں بے نظیر تھے۔ حالت سماع میں آپ جس شخص کی طرف توجہ فرماتے تھے اُسے بھی زوت حاصل ہوجاتا تھا۔ بلکہ بکہ تجلی ذاتی اس پر جلوہ گر ہوجاتی تھی۔ تربیت مریدین میں آپ بلند ہمت تھے آپکی نسبت نہایت قوی تھ ی اور تھوڑی سی توجہ سے ساکنان عالم سفلی کو عالم علوی میں پہنچادیتے تھے۔ آپ نفس قانع کے مالک تھے۔ آپکی زبان مبارک سے جو کچھ نکلتا تھا خواہ لطف ہو یا قہر فوراً وقوع پذیر ہوجاتا تھا۔ آپ بیحد خوبصورت اور خوب سیرت تھے۔ یہاں تک کہ تمام اولیاء علما ومشائخ وقت آپکے کمال با جمال ولایت پر فریفتہ تھے اور حسن خلق کے شیفتہ تھے اور کسی شخص کو آپ کے کمال باجمال پر اعتراض کرنے کی مجال نہ تھی۔ آپکے کشف وکرامات کی نہ کوئی حد تھی نہ آپکے سیر مقامات کی کوئی انتہا۔ آپ کو حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت کے ساتھ عجیب نسبت تھی، بلکہ آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات میں آپکو فنائے خاص حاصل تھی۔ یہاں تک کہ حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ حضرت خواجۂ کونینﷺ کے جمال باکمال کے آئینہ بن چکے تھے اور اُسی طرح آپکا خوان ہدایت ہر کافر ومسلمان کیلئے عام تھا۔ جو مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا علائق دنیا سے اسکا دل سرد ہوجاتا تھا اور جو کافر آپکا رخ انور دیکھ لیتا زنگ کفر اسکے دل سے مٹ جاتا تھا۔ اور فوراً مسلمان ہوجاتا تھا۔ آپ اکثر اوقات سیر وتفریح کی خاطر قصبۂ سہارنپور میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ بازار میں جارہے تھے کہ آپکی نظر مبارک ایک امیر کبیر ہندو تاجر پر جا پڑی جو اپنی دکان کے اندر بیٹھا تھا۔ جونہی اس کافر نے آپکے جمال کو دیکھا صدق دل سے کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلما ن ہوگیا اور جاکر آپکے قدموں میں گر گیا۔ اسکے بعد آپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ آپ نے اسکا نام شیخ عبدالسلام رکھا اور ذکر تلقین فرمایا۔ تھوڑے عرصے میں وہ آپکی توجہ سے واصلان حق میں سے ہوگیا۔ شیخ عبدالسلام بڑے صاحب وجد و سماع تھے۔ اور اپنے ہندی گانوں سے لوگوں کے دل موم کردیتے تھے۔ سماع میں آپ رقص بھی کرتے تھے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کے حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ سے بیعت ہونے کا واقعہ جو مشائخ عظام سے تواتر کے ساتھ پہنچا ہے یوں ہے کہ جب حضرت شیخ ابو سعید اپنے مرشد حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری قدس سرہٗ سے خلافت ونعمت دو جہان حاصل کر کے شہر بلخ سے قصبۂ گنگوہ پہنچے اور مسندِ ارشاد پر متمکن ہوئے تو طالبان صادق آپکی طرف آنے لگے لیکن آپ اپنے آپ کو چھپاتے بہت تھے۔ اور اپنے جمال ولایت کو نظر اغیار سے پوشیدہ رکھتے تھے اُن ایام میں حضرت شیخ محمد صادق نو جوان اور بڑے حسین وجمیل تھے اور آپکو ورزش اور شکار کا بہت شوق تھا۔ لیکن آپکے دل میں ہمیشہ حق تعالیٰ کیلئے تڑب موجود تھ ی ایک دفعہ عید کے دن آپ لباس فاخرہ زیب تن کر کے اپنے چچا جان حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کی خدمت میں سلام کیلئے حاضر ہوئے۔ جب حضرت اقدس کی نظر انکے حسن و جمال پر پڑی تو آپ نے اپنے خاص اصحاب سے فرمایا کہ مجھے اپنی ولایت کا نور اس بچے کی پیشانی میں نظر آرہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت انکا دل اپنی باطن توجہ کے دام میں پکڑ لیا۔ جسکی وجہ سے انکے دل میں بیعت کا شوق پیدا ہوا اور مرید ہوگئے۔ حضرت اقدس نے آپکو شغل نفی اثبات واسم ذت تلقین فرمایا اور آپ رات دن اسی کام میں منہمک ہوگئے۔ جب آپکے والدین کو اس بات کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ شیخ ابو سعید نے ہمارے بیٹے کو خراب کردیا ہے۔ ہم جاکر ان سے کہیں گےکہ وہ ہمارے بیٹے کو اپنے پاس نہ آنے دے اور اپنی طرح بکار نہ بنائے۔ جب حضرت شیخ ابو سعید کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے شیخ محمد صادق سے فرمایا کہ تمہارے والدین کیا کہتے ہیں تمہارا کی ارادہ ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ بندہ کیلئے اختیار اور ارادہ کیا معنی رکھتا ہے۔ میرا ارادہ وہی ہے جو حضرت اقدس کا ہے اور مجھے حضرت اقدس کی ذات بابرکات کے سوا دنیا وآخرت کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ کا دیدار بھی اگر حضرت پیر دستگیر کی صورت میں ہوا تو زیارت کرونگا ورنہ نہیں۔ سبحان اللہ! حضرت شیخ کی ذات میں کس قدر فنا آپ کو حاصل تھی۔ اسکا تصور ہی نہیں ہوسکتا ۔ آپکی اپنے شیخ کی ذات میں فنا بعینہٖ حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کی فنا کی طرح تھی جو آپ کو اپنے شیخ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ کی ذات میں تھی۔ اور جو فنا حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہٗ کو اپنے شیخ حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کی ذات میں تھی حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اگرمجھے قیامت کے دن حضرت حق تعالیٰ نے میرے شیخ حضرت قطب الاقطاب کی صورت میں دیدار کرایا تو کرونگا ورنہ اس طرف سے نگاہ پھیر لونگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہمریدین صادق کو حق تعالیٰ انکے شیخ کی صورت میں دیدار کرائیں گے۔ بلکہ اب بھی مریدین صادق کو آنحضرتﷺ کا جمال اپنے شیخ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ وہ لوگ جنکو شیخ کامل سے نسبت نہیں ہے یا نسبت پیدا کرنے کے بعد ثابت قدم نہیں رہے تو وہ دونوں جہانوں میں محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں فرمادیا ہےمَنْ کان فی ھذہٖ اعمیٰ فَھُوَہ فی الآخرۃ اعمیٰ (جو شخص اس دنیا میں مشاہدۂ حق سے محروم ہے آخرت میں بھی محروم ہوگا۔)
غرضیکہ جب حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کو یقین ہوگیا کہ حضرت شیخ محمد صادق اپنے اعتقاد میں پکے اور طلب مولا میں ماں باپ کی محبت سے زیادہ مستحکم ہیں تو آپ نے بلا کر فرمایا کہ بابا محمد صادق انے والدین سے آزادی طلب کروتاکہ وہ تجھے اپنا حق بخش دیں۔ اور راہِ حق پر چلنے کے لیے آزاد کردیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے والدین کے پاس جاکر معروضہ پیش کیا اور اُنکے حقوق سے فارغ البال ہوکر مجاہدہ وریاضت میں پوری طرح منہمک ہوگئے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب آپکے والدین نے آپکو حضرت شیخ ابو سعید کی محبت اور ذکر واذکار سے منع کرنے کی کوشش کی تو آپ نے جذبۂ عشق میں گھر بار چھوڑ د یا اور سفر پر روانہ ہوگئے تاکہ آزادی سےکام کریں۔
آپ سے ایک بُت کا ہمکلام ہونا
اتفاقاً آپ دوران سفر میں ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں ایک بُت تھا جس کا نام جگنا تھ تھا۔ اس پر ہمیشہ پردہ پڑا رہتا تھا۔ اور کافر اسکی پوجا کرتے تھے صبح کے وقت اسکے منہ سے پردہ ہٹایا جاتا تھا اور تمام کفار اسکے سامنے سجدہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کیمشیت اس طرح تھی کہ ایک صبح جب اس بت کے منہ سے پردہ اٹھایا گیا تو حضرت شیخ محمد صادق وہاں پہنچ گئے۔ جونہی بت کے منہ سے پردہ اٹھا اس بت کی صورت ذاتی نے ظاہر ہوکر حضرت حضرت اقدس سے کہا انا المعبود لا تعبد سوائی(میں معبود ہوں میرے سوا کسی کی پرستش نہ کرو) یہ سنکر حضرت اقدس غلبہ حال میں آکر سجدہ میں گر پڑے لیکن بت کی طرف نہیں بلکہ قبلہ کی طرف۔ لیکن کفار نے بُت کی طرف سجدہ کیا۔ اسکے بعد اس بت نے دوبارہ حضرت اقدس کو مخاطب کر کے کہا کہ اَیْنَمَا تُوَلُّوْ فَثَم وَجْہُ اللہُ (جدھر منہ کرو ادھر ذات حق ہے) کو تم بھول گئے ہو۔ یہاں تم نے کسی غیر کو دیکھا ہے کہ سج دہ قبلہ کی جانب کر رہے ہو۔ حالانکہ شہود ذاتی تجھے میرے اندر حاصل ہوا ہے لہذا میری جانب سجدہ کرو۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ حق وہی ہے جو تم کہہ رہے ہو لیکن حضرت رسالت پناہﷺ باوجود کمالمشاہدہ حق تعالیٰ کوہر وقت اور ہر جگہ سمت قبلہ میں سجدہ کرتے تھے۔ میں نے بھی آنحضرتﷺ کی متابعت میں قبلہ ک ی جانب سجدہ کیا ہے۔ یہ سنکر اُس بت نے آپ کی تعریف کی اور خاموش ہوگیا۔ یہ مشاہدہ دیکھ کر بیشمار کفار مسلمان ہوگئے اسکے بعد آپ دوسری طرف تشریف لے گئے۔
غرضیکہ جب کافی عرصہ آپ نے ریاضت و مجاہد زندگی گذاری تو عالمِ ملکوت اور عالم جبروت کے واقعات منکشف ہونے لگے۔ لیکن آپ کی ہمت اس قدر بلند تھ ی کہ آپ نے ان تجلیات کی جانب توجہ نہ فرمائی اور حضرت ابراہیم حلیل اللہ کی طرح لااحب الافلین (میں گم ہوجانے والوں سے محبت نہیں کرتا یعنی عارضی مکشوفات سے) کہتے ہوئے حضرت بے کیف اور بے مثال کے شہود کے طالب رہے۔ ایک دن آپ نے اپنے شیخ حضرت مخدوم ابو سعید قدس سرہٗ کے سامنے مطلوب حقیقی تک نارسائی اور ہجرو فراق کا شکوہ کیا اور عرض کیا کہ مجھے شغل بہونکم وسہ پایہ تلقین فرمایں شاید کہ اس سے میری عقدہ کشائی ہوجائے۔ اور جمال محبوب کی رونمائی ہو حضرت شیخ نے فرمایا کہ بابا صادق میں نے راہِ خدا میں جس قدر مجاہدات کیے ہیں میں نے انکا ثواب تجھے منتقل کردیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جلد مطلوب حقیقی تک رسائی ہوجائیگی۔ لیکن چونکہ تم اشغال کو پسند کرتے ہومیں تجھے یہ دونوں شغل اور دوسرے تمام شغل کرنے کی اجازت دیتا ہوں تاکہ تمہارے مریدین و متعلقین کے کام آئیں۔ اگر تجھے راہِ حق میں جدو جہد کا شوق ہے اور اپنی زندگی ان اذکار میں بسر کرنا چاہتے ہو تو شغل سہ پایہ کی پابندی کرو اس وجہ سے کہ یہ بہت سریع الاثر (جلدی اثر کرنے والا) اور تمام کمالات انفسی وآفاقی کی طرف لے جانے والا ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت شیخ محمد صادق کو شغل بہونکم وشغل سہ پایہ اور اس قسم کے دیگر مشاغل تلقین فرمائے اورل یہ بھی فرمایا کہ کچھ عرصہ شغل سہ پایہ ہمت اور حوصلہ سے کرو جس سے تجھے کما حقہ استعداد ذاتی حاصل ہوگی۔ حضرت لاکیف کے جمال کا جلوہ حاصل ہوگا۔ اسکے بعد جو چاہو کرو کیونکہ میں نے جو کچھ تمہارے لیے کرنا تھا کردیا ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ محمد صادق حضرت شیخ کے فرمان کے مطابق رات دن شغل سہ پایہ میں مشغول ہوگئے اور اس شغل کو نہایت تک پہنچادیا۔ اور مطلوب حقیقی کی طلب کے بغیر ایک لمحہ آرام سے نہیں رہتے تھے۔ حتیٰ کہ ناگاہ محبوب حقیقی کا شہود حاصل ہوا جس سے آپ پر کمال محویت وبے خودی طاری ہوگئی اور رسوم بشری اور صفات انانیت میں سے آپکے اندر کچھ باقی نہ رہا۔ اس استغراق میں آپ پر ذاتِ بے کیف کے ایسے اسرار منکشف ہوئے کہ بیان سے باہر ہیں۔ ایک دن اسی بے خودی میں ورأ الورا کی حقیقت منکشف ہوئی اور اس کشف کے دوران میں آپ نے دیکھا کہ آپکا سینہ شک ہوا ہے اور ایک سوراخ پیدا ہوگیا ہے۔ جب آپ نے اس سوراخ کے اندر دیکھا تو نورِ سرخ کا ایک صحرا نظر آیا جسکی سرخی بہت تیز تھی۔ اس صحرا میں آپکو بیشمار صورتیں نظر آئیں۔ اور آپکو یہ معلوم کرایا گیا کہ یہ تمام صورتیں فاینما تولوا فثم وجھہ اللہ کا جمال ہے جو آپ کی نظروں میں جلوہ گر تھا۔ اسکے بعد آپکو نور سرخ کے تین شیر دکھائی دیئے جنکی آنکھیں سورج کی طرح رعب و جلال سے چمک رہی تھیں۔ اس وقت آپکو یہ معلوم ہوا کہ یہ تین شعر حضرت رسالت پناہﷺ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ ہیں۔ اسکے بعد وہ شیر انسانی شکل میں ظاہر ہوئےاور وہاں ایک تخت نمودار ہوا جس پر انہوں نے اتفاق رائے سے آپ کو بٹھایا اور فرمایا کہ حق تعالیٰ نے تجھے مقام محبوبت عطا فرمایا ہے اور تجلیات ذات وصفات حق تمام آپکی طالب ہیں اور آپ ان کے مطلوب ہیں۔ اب جس مشاہدہ میں آپ چاہیں رہ سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میری خواہش سوائے مشاہدۂ ذاتی کے اور کوئی نہیں ہے۔ اسکے بعد حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت نے مجھے ایک نوری چادر عطا فرمائی اور فرمایا کہ یہ چادر محبوبیت و کبریائی اور خلافت کبریٰ اور میری نیابت کی چادر ہے اس کا اچھی طرح حق ادا کرنا کیونکہ شہود ذاتی کے دوام اور مقام مشیخیت وارشاد جو لوازم کمالات نبوت ہیں کے حصول کا ذریعہ یہی چادر ہے۔ اسکے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روحانیت نے مجھے نور خالص کی ایک تلوار عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ تلوار ولایت مطلقہ کے تصرفات کی صورت ہے یہ میں نے تجھے عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کی روحانیت نے مجھے ایک ایسا آئینہ عطا فرمایا جو نورِ سرخ کا تھا اور نہایت صاف و چمکدار تھا اور فرمایا کہ یہ آئینہ صورت علمی کا الٰہی ہے جو میں نے تجھے عطا کیا ہے۔ اسکے بعد فرمایا کہ خبردار ہو کہ ت جلیات ذات وصفات جو تمہاری مشتاق ہیں تمہاری ملاقات کیلئے آئینگی۔ اسکے بعد بیشمار تجلیات کا جوق در جوق ظہور شروع ہوگیا اور میری دیدۂ شہود میں اس قدر تجلیات جلوہ گر ہوئیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ آخر میں نور ذات ایک ایسی حسینہ وجمیلہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوا کہ جسکا بیان زبان کی طاقت سے باہر ہے۔ اس نے آتے ہی کہا کہ حدیث حبب الی من دیناکم ثلث الطیب والنساء وقرۃ عینی فی الصلویۃ (مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں خوشبو عورت اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے) میرا شان نزول ہے۔ یہ بات کہہ کر میری طرف معشوقانہ انداز میں دیکھا۔ اس وقت اسکی آنکھوں سے نور بے کیف اور بے مثال کی وہ تجلیات چمکیں کہ میرے شہود مثالیہ کی تجلیات کو تاخت و تاراج کردیا اور آیہ کریمہ اِنَّ الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلہ (جب کسی بستی پر بادشاہوں کاگذر ہوتا تو اُسے پامال کردیتے ہیں اور لوگوں کی عزت کو ذلت میں مبدل کردیتے ہیں) کی سی حالت مجھ پر طاری ہوگئی اور تجلیات معنوی کی بیخ و بن کو میرے دل کی زمین سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور اسکے آثار کو نیست ونابود کردیا۔ کسی ن ے خوب کہا ہے؎
آنجا کہ سلطان خیمہ زد غوغا نماند عام را
(جس جگہ بادشاہ خیمہ لگاتا عوام کا گذر اور شور و شغ بند ہوجاتا)
ایک ماہ تک یہی حالت رہی اور مجھے عالم کون و مکاں کی کچھ خبر نہ رہی۔ اسکے بعد جب افاقہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرا سارا جسم نفحات ربانیہ سے معطر ہے اور میرا حجرہ عطریات حقانیہ سے پُر ہے۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ فنا احدیت میں تمہاری اتنی نمازیں قضا ہوگئی ہیں۔ جب حساب لگایا تو ایک ماہ کا عرصہ ہوا۔ چنانچہ میں نے تمام نمازیں ادا کیں اور پھر حضرت شیخ کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا کام بن چکا ہے اور تمہارے واقعات سے اس بات کی بو آتی ہے کہ تم جہانگیر بنو گے اور تمہارا ارشاد حضرت سلطان المشائخ کی طرح سارے جہان میں پھیل جائیگا۔ اسکے بعد آپ نے اپنے مشائخ کی امانت معہ اسم اعطم وخرقۂ خلافت وسجادگی مجھے عطا فرمایا اور طالبان حقِ کی ہدایت کیلئے مامور فرمایا۔ اور تمام اصحاب اعلیٰ کی تربیت کا کام بھی میرے سپرد فرمایا۔ نیز مشائخیّت کلے تمام امور بھی میرے سپرد کیے۔ اور خود بالکل فارغ ہوکر بیٹھ گے۔ اسکے بعد جو شخص بیعت و تربیت کیلئے حاضر ہوتا تھا آپ میرے پاس بھیج دیتے تھے ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ جب حضرت شیخ محمد صادق اپنے شیخ حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی قد سرہٗ کے حکم سے مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کی ولایت کا شہرہ اس قدر بلند ہوا کہ ہر طرف سے خلق خدا کا ہجوم ہونے لگا۔ ایک جہان آپ کے فیض سے بہرہ ور ہوا اور بہت سے سالکین مرتبۂ تکمیل وارشاد کو پہنچے بیشتر لوگ آنحضرتﷺ کے اشارے سے حضرت اقدس کی خدمت میں ھاضر ہوئے اور شرف بیعت حاصل کر کے مرتبۂ تکمیل رشد و ہدایت تک پہنچے۔
(اقتباس الانوار)