آپ شہر لکھنؤ کے بڑے ولی اللہ تھے، آپ کا نام شیخ محمد تھا، شیخ قوام الدین نے بچپن میں آپ کو اپنی زیر تربیت رکھا اور نعمتوں سے نوازا، پھر آپ شیخ سارنگ کے مرید ہوئے اور تصوف کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
شیخ قوام الدین کے ایک لڑکے کا نام محمد تھا جسے لوگ مینا کہا کرتے تھے، لکھنؤ کے محاورہ میں مینا ہنرمند اور باعزت سردار کو کہتے ہیں، شیخ محمد مینا جوانی میں دنیا داروں کی طرح خواہشات نفسانیہ کے زر خرید اور اسی طرح دیگر فضولیات کے رسیا تھے، اس وقت آپ اپنے زمانہ کے بادشاہ کے ملازم تھے، چونکہ اکثر احکام و امرا آپ کے والد بزرگوار شیخ قوام الدین کے مرید اور عقیدتمند تھے اس لیے وہ تمام لوگ شیخ قوام الدین آپ کی عاندات شنیعہ سے سخت بیزار تھے اور بیٹے کی جانب سے باپ کی رضا مندی کے آئینہ میں گرد و غبار جمع ہوچکا تھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ محمد مینا بادشاہ کے حکم سے لکھنؤ سے کسی باہر علاقہ میں متعین تھے وہاں سے انہوں نے اپنے والد مکرم کو خوش کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے (مگر اب تقدیر بدل چکی تھی اس لیے ) انہوں نے اپنے والد محترم کے روبرو اپنے جرائم و گناہ معاف کرانے کی غرض سے لکھنؤ آنے کا اِرادہ کیا، جب آپ لکھنؤ آگئے تو لوگوں نے آپ کے والد کو ان کے آنے کی اطلاع دی تو آپ کے والد صاحب نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ ایسانامعقول آدمی میرے سامنے آئے چنانچہ اس کے بعد ایسا ہوا کہ وہ ابھی اپنی جگہ سے روانہ بھی نہ ہوا تھا کہ اسے ایک ایسی مہلک بیماری لاحق ہوئی جو بالاخر جان لیوا ثابت ہوئی۔ اور وہ وہیں مرگیا، اس کے بعد شیخ قوام الدین نے اپنے ایک خادم شیخ قطب سے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے ہاں جب بیٹا پیدا ہو تو اس کا نام شیخ محمد مینا رکھا جائے اور وہ تمام اولاد کا نعم البدل ہو، چنانچہ شیخ قطب کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور اس کا نام شیخ محمد مینا رکھا گیا، شیخ قوام الدین نے اس نومولود کو اپنے بچوں کی مانند رکھتے اور اس سے غایت درجہ کی محبت فرماتے تھے۔
شیخ محمد مینا کو جب مکتب میں داخل کیا گیا تو آپ نے پہلے ہی دن ا ب ت ث کے وہ رموز اور حقائق بیان فرمائے کہ جن کو سُن کر تمام حاضرین انگشت بد نداں رہ گئے۔ حضرت محمد مینا آخر دم تک تارک الدنیا رہے، اور نہ ہی شادی کی، سلوک کے زمانے میں آپ نے بے انتہا ریاضت کی، لوگوں میں مشہور ہے کہ شیخ محمد مینا اپنے شیخ اور پیر شیخ سارنگ کے مزار پر جو لکھنؤ سے تقریباً چالیس میل کے فاصلہ پر ہے ہمیشہ کھڑاؤں پہن کر یا ننگے پاؤں پیدل زیارت کرنے جایا کرتے تھے، جس راستہ سے آپ جاتے تھے وہ بہت خراب تھا اور اکثر مقامات پر خار دار درخت بھی تھے مگر آپ ان تمام تکالیف شاقہ کو برداشت کرکے اپنے مرشد کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ آپ جب سلوک کے مراحل طے فرما رہے تھے تو آپ کی ریاضت اور مجاہدہ کا یہ عالم تھا کہ رات کو اکثر و بیشتر دیوار پر ا س لیے عبادت کیا کرتے تھے کہ اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو دیوار سے زمین پر گر کر بیدار ہوجایا کروں اور اگر کبھی زمین پر عبادت کرتے تو اپنے اردگرد بہت سے کانٹے جمع کرلیا کرتے تھے کہ اگر نیند کا غلبہ ہوا تو ان کانٹوں پر گروں گا جن کے چبھنے سے بیدار ہوجایا کروں گا۔اکثر و بیشتر آپ ردیوں میں اپنے کپڑے بھگو کر مرشد کے مزار کے پاس صحن میں بیٹھ کر اللہ کی یاد کیا کرتے تھے۔ آپ کا مزار بھی لکھنؤ میں ہے جس کی لوگ زیارت کرکے برکت حاصل کرتے ہیں۔
اخبار الاخیار