آپ ترکستان کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے ہندوستان تشریف لائے اور بمقام نارنول قیام فرما ہوئے آپ کو سلطان ترک اور بر ترک کے نام سے پکارا جاتا تھا اور حضرت شیخ عثمان ہارونی کے مرید خاص اور خلیفہ تھے، آپ کو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہ نے بھی خرقۂ خلافت عطا کیا تھا وہ ایک عرصہ تک نارنول میں رہے اور خلق کو ہدایت کی راہ دکھاتے رہے، ابتدائے کار میں نارنول میں ہندوؤں کی اکثریت تھی، اور آپ کے ہمراہ ہی مسلمان تھوڑے تھے، ہندوؤں نے پروگرام بنایا کہ مسلمانوں کو قتل کردیا جائے وہ مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے۔ عیدالفطر پر مسلمان نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے شہر سے باہر جمع ہوئے جب تمام نماز مین کھڑے ہوئے تو ہندوؤں نے مل کر اچانک حملہ کردیا اور بہت سے مسلمانوں کو سجدہ میں ہی شہید کردیا، حضرت شیخ بھی اسی موقع پر جام شہادت نوش کرگئے اور اپنے حجرے میں دفن کردیے گئے اس مقام پر شہیدوں کا مشہد بنایا گیا مگر ان میں سے دو شہید بڑے مشہور ہوئے، ایک کو شہید بلند کہا جاتا تھاجن کا مزار ایک بلند جگہ واقع ہے دوسرے شہید نشیب کے نام سے مشہور ہیں جن کا مزار مبارک ایک پست جگہ پر ہے ان کی کرامات آج تک ان کے مزارات سے ظاہر ہوتی ہیں کئی لوگوں نے ان مزارات سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز بھی سنی ہے یہ آواز جمعہ اور جمعرات کو تو خصوصیت سے آتی ہے۔
اخبار الاخیار کے مولف (حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلی) لکھتے ہیں کہ ایک بار حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی قدس سرہ کو بادشاہ وقت نے ناراض ہوکر ٹھٹھہ جانے کا حکم دیا۔ شیخ نارنول کے راستہ سے روانہ ہوئے، نارنول سے ایک میل دور تھے کہ اپنی بیہلی سے اُتر آئے اور پیادہ پا ہوکر نارنول کی طرف چل پڑے۔ جب حضرت شیخ کے مقبرے پر پہنچے تو وہ مقبرے کے سامنے بہت بڑا پتھر پڑا تھا چند لمحے اس پتھر کو دیکھتے رہے اور ہاتھ باندھے کھڑے رہے، تھوڑی دیر کے بعد مزار کی زیارت سے فارغ ہوئے تو کسی شخص نے آپ سے پوچھا تو فرمایا یہ کیسے خدمت گزار ہیں کہ خود ان کے آقا اُن کی خیریت دریافت کرنے تشریف لاتے ہیں، میں جب پہلے روضے کی طرف داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس پتھر پر جناب سرور کائنات شاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح اس پتھر پر آفتاب کی طرح جلوہ فرما ہے جب تک حجور کی مبارک صورت میرے رو برو رہی میں پتھر کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہا، صورت اوجھل ہوئی تو میں مزار پر انوار کی زیارت کے لیے آگے بڑحا مجھے قوی اُمید ہے کہ جس شخص کو بھی کوئی مشکل پیش آئے گی اور اس روضے کی طرف آئے گا تو نا اُمید نہ لوٹے گا حاضرین مجلس میں سے ایک بے باک شخص نے کہا آپ بھی ایک مشکل میں گرفتار ہیں، اس آسانی کے لیے دعا فرمائیں، آپ نے فرمایا ہماری مشکل بھی آسان ہو جائے گی۔ شیخ نصٰرالدین محمود نارنول سے روانہ ہوئے تھے خبر آئی کہ دہلی کے بادشاہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ اُسی وقت واپس ہوئے اور دہلی پہنچ گئے کہتے ہیں کہ وہ پترھ اب تک حضرت شیخ محمد ترک کے مزار کے پاس موجود ہے اور بے پناہ خلقت اس کی زیارت سے مستفید ہوتی ہے۔
تذکرۃ العاشقین میں شیخ محمد ترک کی وفات چھ سو بیالیس ہجری میں لکھی ہے
چوں ز دنیائے دوں محمد رفت
سال ترحیل آں شہِ ذی شاں
اولاً محب لاثانی
۶۴۲ھ
بعد ازاں متقی محمد خوان
۶۴۲ھ