حضرت شیخ محب اللہ چشتی صابری الہٰ آبادی رحمۃ اللہ علیہ
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم وصال | 1057 | ربيع الآخر | 21 |
حضرت شیخ محب اللہ چشتی صابری الہٰ آبادی رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ محب اللہ چشتی صابری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام و نسب: اسم گرامی: شیخ محب اللہ چشتی صابری۔ لقب: امام العارفین۔ آپ کا وطن اصلی ’’صدر پور‘‘ تھا۔پھر یہاں سے ہجرت کرکے الہ آباد منتقل ہوگئے تھے۔
تحصیلِ علم: حضرت شیخ محب اللہ چشتی صابری جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے۔ابتدا میں علوم عقلیہ سے خصوصی شغف تھا۔ آپ کے علمی کمالات کا اندازہ آپ کی تصانیف اور ملفوظات سے عیاں ہے۔ پھر دل میں طلبِ حق پیدا ہوئی، اور روحانیت و معرفت کی طرف منہمک ہوگئے۔
تلاشِ حق: جب آپ علم ظاہری تفسیر و حدیث و فقہ ، فلسفہ ومنطق وغیرہ سے فارغ ہوئے تو دل میں طلبِ حق پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ اس سلسلہ میں بہت سے بزرگان دین کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔بالآخر آپ دہلی تشریف لے گئے وہاں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر معتکف ہوئے، وہاں سے ارشاد ہوا کہ اس وقت حضرت مخدوم سید علاءالدین صابر کلیری کے سلسلہ میں خوب رونق ہے، اوران کے سلسلہ میں حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی چشتی صابری کی ولایت کا بہت شہرہ اور چرچاہے لہٰذا آپ گنگوہ تشریف لے جائیں۔
بیعت و خلافت: دہلی میں خواجہ صاحبسے اشارہ پا کر آپ وہاں سے روانہ ہو کر گنگوہ شریف ضلع انبالہ میں حضرت شیخ شاہ ابو سعید گنگوہیکی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر ان کے دستِ حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ کو بیعت فرمانے کے بعد حضرت شاہ ابو سعید گنگوہی اپنے مرید خاص شیخ مجاہد سے فرمایا کہ دو رکعت نماز نفل ادا کر کے یہ معلوم کرو کہ شیخ محب اللہ کی استعداد کس نبی کی ولایت کے ساتھ ہے۔ تاکہ اس کے موافق تعلیم دی جاسکے۔اُس خادم نے دونفل ادا کر کے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ شیخ محب اللہ کی مناسبت ولایت موسوی سے ہے۔اس کےبعد حضرت شاہ ا بو سعیدگنگوہی چشتی صابری نےذکرنفی و اثبات اور اسم ذات کی تعلیم دےکر چلہ میں بٹھادیا۔اور تصور شیخ کی تاکید فرمائی۔ مرشد کے فرمان سے آپ چلہ میں یکسوئی کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس خلوت میں آپ کو اس قدر تصفیہ حاصل ہوا کہ علوم باطنی آپ پر اچھی طرح واضح ہونے لگے اور تجلیات ملکوتیہ و جبروتیہ سے بہرہ ہوئے۔(اقتباس الانوار، ص746)
مقصود کی تکمیل: ایک مرتبہ حضرت شاہ ابو سعید نے ارشاد فرمایا: اے محب اللہ! میرے نزدیک آؤ تمہیں منزل مقصود تک پہنچادوں۔اس وقت بعض خدام جو عرصہ دراز سے خانقاہ میں مجاہدات کررہے تھے انہوں نے عرض کیا حضرت ہم ایک عرصے سے یہاں پڑے ہوئے ہیں اور ان کی طرف آپ نے التفات بھی نہیں فرمایا، اور ایک نَو وارد شخص جس کو تھوڑا سا عرصہ ہوا ہے، اس کی تکمیل بھی فرمادی، اور خلافت بھی دیدی۔حضرت شیخنے فرمایا: ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔اس کے بعد فقراء کو نصیحتیں فرمائیں کہ ہرشخص کاحال یکساں نہیں ہوتا۔بعض حضرات بڑے مجاہدوں کے محتاج ہوتے ہیں، اور بعض کو تھوڑی سی مشقت میں تجلیات حاصل ہوجاتی ہیں۔پھر حضرت شیخ ابوسعید کی توجہ شیخ محب اللہ پر برابر جاری تھی کہ جس کو آپ زیادہ برداشت نہ کرسکے اور مرشد کی بارگاہ میں عرض کیا حضور اتنا ہی کافی ہے۔اب مزید ہمت نہیں ہے۔آپ کے مرشد نے آپ کے لیے رب کریم بارگاہ میں دعا کی کہ آپ مغلوب الحال نہ ہوں بلکہ تمکین کی حالت میں رہیں۔اس کے بعد آپ اپنے مرشد گرامی سے خرقہ خلافت حاصل کر کے واپس اپنے وطن صدر پور تشریف لے آئے۔(مرآۃ الاسرار، ص 1194)
سیرت و خصائص: امام العارفین، برھان الواصلین،دلیل الکاملین، عالم ربانی حضرت شاہ محب اللہ الٰہ آبادی صدر پوری چشتی صابری گنگوہی ۔آپ اپنےز مانے کے جید عالم دین اور بلند پایہ عارفِ کامل تھے۔ عبادت و ریاضت میں آپ کے یکتائے زمانہ تھے۔ زہد و تقویٰ میں بے مثال فقر و وفاقہ اور ترک و تجرید میں کمال درجہ کی خاصیت رکھتے تھے۔علوم دینیہ میں دسترس حاصل تھی۔ منطق و فلسفہ، اور علم الکلام سےبالخصوص شغف تھا۔ پھر ساری زندگی عبادت و ریاضت اور مخلوق خداکی خدمت میں گزاردی۔آپ کے ملفوظات شریف مختلف کتب میں موجود ہیں جو قابل مطالعہ ہیں۔
صدر پور سے الٰہ آباد میں ورودِ مسعود: گنگوہ شریف سے خرقہ خلافت حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے آبائی علاقہ صدر پور تشریف لے آئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ نے وہاں رہنا پسند نہیں کیا۔اگرچہ یہ علاقہ آپ کا آبائی علاقہ تھا۔ مگر فقر اوردرویشی کے لیے مناسب نہ تھا۔اس لیے آپ نے توکل و تجرید پر عمل کرتے ہوئے اس کو خیر باد کہا اور وہاں سے ہجرت کر کے الٰہ آباد کے لیے روانہ ہوگئے۔
شیخ احمد عبد الحق ردولوی کے مزار پر حاضری: جب آپ صدر پور سے ردولوی شریف پہنچے تو سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کی معروف علمی و روحانی شخصیت حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی صابری مصنف کتاب‘‘ مرآۃ الاسرار’’ بھی ردولوی شریف میں موجود تھے۔جن سے آپ کی پرانی دوستی اور تعلق تھا۔یہ دونوں بزرگ ردولوی شریف میں اکٹھے رہے، اورایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے رہے۔قصبہ ردولوی سے الٰہ آباد کی جانب روانگی اختیار کی اور الٰہ آباد پہنچ کر اس جگہ کو اپنا مستقل مسکن قرار دے کر وہاں ایک خانقاہ قائم کی اور سلسلہ رشد و ہدایت کاآغاز کیا۔ جہاں پر عوام کا جم غفیر ہر وقت آپ کے گرد جمع رہنے لگا۔ ہزاروں افراد آپ کی صحبت سے مستفید و مستفیض ہوئے۔ آپ کی ذات والا صفات علوم ظاہری و باطنی کا مرجع تھی۔ اس لیے آپ کی زبان ترجمان سے حقائق و معارف سن کر کئی گمراہوں کو راہ ہدایت ملی اور کئی طالبان حق اپنی منزلوں کو پہنچے۔ اکثر علماء جو تصوف کے خلاف تھے۔ آپ کے فیض صحبت سے آپ کے گرویدہ ہوگئے اور یہی مسلک اختیار کیا۔آپ نے الٰہ آباد میں تقریباً بیس برس تک مسند ارشاد پر بیٹھ کر خلق خدا کو ظاہری و باطنی و علوم اور دینی دنیاوی دولت سے مالا مال کیا۔آپ کے مسلک و مشرب اور ظاہری و باطنی علوم کا اندازہ آپ کی کتابوں سے لگایا جاسکتا ہے۔کچھ ملفوظات صاحب ’’اقتباس الانوار‘‘ جمع فرمائے ہیں۔ان میں سے چند اہم بیان کئے جاتے ہیں۔
اقسامِ خلافت: اقسام خلافت پر آپنے بہترین کلام فرمایا ہے۔خلافت کی مختلف اقسام اور ان کی تعریفات بیان فرمائی ہیں۔خلافت کی اقسام: خلافت اصالت، خلافت اجازت، خلافت اجماعی، خلافت وراثت،خلافت حکمی، خلافت تکلیف، خلافت اویسی، خلافت مستقل، خلافت نیابت،خلافت صغریٰ، خلافت کبریٰ۔ان میں سے کچھ مقبول اور کچھ مردود ہیں۔
خلافت کا مستحق کون: ہمارے زمانے(1441ھ/2020ء) میں خلافت و اجازت ایسے تقسیم ہورہی ہے کہ لگتا ہے کہ اس سے سستی چیز کوئی اورنہیں ہے۔بےفیض اور روحانیت سے عاری ’’پیروں‘‘ کی بہتات ہے۔جنہیں سلاسل کے صحیح نام تک نہیں آتے، وہ بھی خلافتیں لیے پھرتے ہیں، کچھ حضرات ایسےبھی ہیں کہ جنہیں بے ریاضت مختلف جانشینوں سے خلافتیں حاصل کرنے کا شوق ہے۔اگر ہم سلف صالحین کی کتب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کےلئے کتنی ریاضتیں اور سخت مجاہدات کرائے جاتے تھے۔اس کے باوجود بھی ضروری نہیں تھا کہ خلافت حاصل ہوجائے۔حضرت شیخ محب اللہ فرماتے ہیں: ’’محققین کا کہنا ہے کہ جب سالک مقام فنافی الرسولﷺ اور عالم جبروت تک پہنچ جاتا ہے شیخ کیلئے جائز ہے کہ اُسے خلافت عطا فرمائے۔ لیکن اس مقام پر خلافت عطا کرنا ضروری نہیں ہے ہاں جب سالک کی رسائی شہود ذات تک ہوجائے تو شیخ پرلازم ہے کہ اُسے خلافت دیدے۔ بعض حضرات تو اس شخص کو بھی خلافت دینا جائز سمجھتے ہیں جو عالم ملکوت تک پہنچ جائے لیکن ہمارے مشائخ عظام کا یہ دستور نہیں ہے۔ جیسا کہ منقول ہے کہ جب ایک درویش جو واصلِ ملکوت تھے حضرت شیخ داؤد گنگوہی سے خرقۂ خلافت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ تم ابھی مشائخ عظام کی خلافت کے قابل نہیں ہو۔ اس سے وہ حضرت اقدس سے رنجیدہ خاطر ہوکر چلا گیا آپ نے فرمایا رنجیدہ ہو یا خوش ہو میں تجھے خلافتِ مشائخ نہیں دوں گا۔بعض کہتے ہیں کہ جب مرید خطرۂ شیطانی اور رحمانی کے درمیان تمیز کر سکے تو پیر کیلئے لازم ہے کہ اُسے خلافت دیدے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب حق تعالی کی جناب سے یا حضرت رسالت پناہﷺ کی طرف سے کسی مرید کو خلافت دینے کا حکم ملےتو شیخ پر واجب ہے کہ اُسے خلافت دیدے۔(اقتباس الانوار، ص749)
تاریخِ وصال: 9؍رجب المرجب 1058ھ مطابق 30؍جولائی 1648ء، بروز جمعرات بوقت غروب آفتاب یہ آفتاب ہدایت بھی غروب ہوا۔ مزار پُر انوار الٰہ آباد انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔ (اقتباس الانوار، ص768 / مرآۃ الاسرار، ص 1195/ تاریخِ مشائخِ چشت، ص222 )