حضرت شیخ نجیب الدین متوکل
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0559 | ||
یوم وصال | 0671 | رمضان المبارک | 19 |
حضرت شیخ نجیب الدین متوکل (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت شیخ فریدالحق والدین قدس سرہ کے حقیقی بھائی اور خلیفہ اعظم تھے۔ ظاہر و باطن میں بلند رتبہ رکھتے تھے۔ نہایت متوکل انسان تھے۔ ستر سال تک دہلی میں رہے مگر اس عرصہ میں کبھی کسی دنیا دار کے گھر نہیں گئے، اگرچہ آپ کے پاس نقد اور جنس سے کوئی چیز بھی نہیں تھی، مگر آپ کو یاد خدا میں اتنی مشغولیت رہتی کہ بسا اوقات یہ معلوم نہ ہوتا کہ آج کون سی تاریخ یا کون سا دن ہے، آپ کے نزدیک اپنے بیگانے غریب و امیر ایک ہی جیسے تھے، ایک دن لوگوں نے آپ سے پوچھا، مخدوم! کیا فرید شکر گنج پاک پتنی آپ کے بھائی ہیں، فرمانے لگے ہاں ظاہری تو میرے ہی بھائی ہیں مگر باطنی طور پر کسی اور کے بھائی ہیں، پھر پوچھا کہ نجیب الدین متوکل آپ ہی ہیں فرمایا نجیب الدین تو میں ہی ہوں مگر متوکل کوئی اور ہے میں متوکل نہیں ہوں۔
اخبارالاولیا اور اخبار الاخیار کے مصنفین نے لکھا ہے کہ اک سال عید کے دن بہت سے درویش مل کر حضرت نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ کے گھر آئے اور اصرار کیا کہ آج ہم کھانا آپ کے ساتھ کھائیں گے، آپ اندر گئے اہلیہ سے کھانا مانگا، اس نے بتایا کہ دو دنوں سے اس گھر میں کھانے کی خوشبو تک نہیں آئی، آپ نے فرمایا اگر تمہارے پاس چادر ہو تو مجھے دیں تاکہ اسے گروی رکھ کر دوستوں کو عید کے دن کھانا کھلاؤں، اس نیک بخت نے چادر لاکر دی وہ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ وہ ا س قابل نہ تھی کہ اسے کوئی گروی رکھتا، ناچار ہوکر پانی کا ایک کوزہ بھرا، اور دوستوں کے پاس لے جاکر کہنے لگے، یہی ماحضر ہے، درویش بھی بڑے اہل دل تھے، پانی کا کوزہ لیا اور کھانے کی طرح کھایا اور پیا، اورشکریہ ادا کرکے رخصت لی، چلے گئے، تو حضرت نجیب الدین بڑے شکستہ خاطر ہوئے کوٹھے پر جاکر اللہ کی یاد میں مشغول ہوگئے۔ اس کے دل میں خیال آیا آج تو عیدکا دن ہے، میرے بیوی بچوں نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا اور درویش بھی آخر محروم چلے گئے، ابھی یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ ایک شخص چھت سے اترا اور کہنے لگا نجیب الدین فرشتوں نے تمہارے توکل کا ڈنگا عرش کی بلندیوں میں بجایا ہے اور تم کھانے کے لیے دل میں سوچ رہے ہو، میں بھی کھانا کھانے کے لیے حاضر ہوا ہوں، جاؤ، کہیں سے کھانا لاکر کھلاؤ، حضرت شیخ نجیب الدین نے معلوم کرلیا کہ یہ حضرت خضر ہیں، عرض کی، آج تو میرے گھر کھانا نہیں ہے اللہ جانتا ہے میں اپنی ذات کے لیے سوچ رہا تھا، حضرت خضر نے کہا جاؤ! اور گھر میں تلاش کرو شاید طعام مل جائے، آپ اٹھے نیچے آئے تو صحن ہر قسم کھانوں کے دستر خوان بچھے ہوئے تھے، یہ غیب کی نعمت خیال کرتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے لے گئے اور کچھ کھانا اٹھاکر چھت پر آئے دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام غائب ہیں۔
حضرت نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کے پاس ہی ایک تیمور نامی ترک رہتا تھا اس نے مسجد بنائی اور مسجد کے متصل اپنا مکان تعمیر کیا، تیمور اس مسجد کے متولی بھی تھے اور امام بھی، کچھ عرصہ گزرا تو تیمور نے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہی اور اس پر ایک لاکھ تنکہ خرچ کا اندازہ لگایا، حضرت متوکل رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سخت نصیحت کی کہ اگر اتنا روپیہ غربا و مساکین پر خرچ کردو گے تو بہتر ہوگا ایک شادی پر اتنا اسراف اچھی بات نہیں تیمور آپ کی اس بات سے رنجیدہ ہوگیا اور آپ سے بات کرنا بند کردی اور وظیفہ بھی روک دیا۔ حضرت متوکل نے دہلی کو خیر باد کہا اور پاک پتن آگئے اور تمام صورت حال حضرت خواجہ فرید شکر گنج کی خدمت میں بیان کی آپ نے فرمایا:( ماننسخ من آیۃاو ننسہا نات بخیر منہا اومشلیہا )ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلادیتے ہیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس کی مثل بہم پہنچاتے ہیں فکر نہ کریں اللہ بہتر کرنے والا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت متوکل قدس سرہ دوبارہ دہلی گئے تو اللہ نے ایک اور ترک کو آپ کی امداد و خدمت پر مامور کردیا اور وہ ساری عمر آپ کی خدمات سر انجام دیتا رہا۔
بدایوں میں ایک صاحب دل بزرگ رہا کرتے تھے۔ جن کا اسم گرامی وجیہ الدین تھا۔ حضرت توکل اس کی زیارت کے لیے دہلی سے بدایوں گئے اسے دیکھا کہ وہ ایک بوریے پر بیٹھا ہے حضرت متوکل نے ادباً اپنے جوتے اتارے اور اس کے پاس جا بیٹھے، اس شخص نے نہ تو آپ کی طرف توجہ کی اور نہ احترام بلکہ منہ بناکر بیٹھا رہا، بوریے پر ایک کتاب پڑی ہوئی تھی، حضرت متوکل نے ہاتھ بڑھا کر کتاب اٹھالی اور ایک صفحہ کھول کر پڑھا تو پہلی سطر میں لکھا ہوا تھا کہ آخری زمانہ میں متکبر درویش پیدا ہوں گے، اگر کوئی نیک شخص ان کے پاس جائے گا اور جوتے اتار کر بوریے پر بھی بیٹھ جائے گا تو وہ آتش تکبر میں جلتے رہیں گے احترام کی بجائے انہیں آزار پہنچان ےکی کوشش کریں گے۔
حضرت متوکل رحمۃ اللہ علیہ نے اس درویش کو کتاب دے کر کہا، اس کی پہلی سطر پڑھیں، اس کا مضمون تمہاری حالت بیان کر رہا ہے، درویش نے وہ سطر پڑھی تو بڑا شرمندہ ہوا، شیخ متوکل وہاں سے اٹھےا ور اپنی راہ لی۔
غیاث پور میں ایک صاحب کرامت عورت تھی، وہ اپنی پاک دامنی اور ریاضت کی وجہ سے رابعہ عصر تھی، اس کا نام فاطمہ سام تھا، حضرت خواجہ فرید شکر گنج اس کی تعریف کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ عورت دو ولیوں کے مراتب کی مالکہ ہے اس عورت نے حضرت متوکل قدس سرہ کو اپنا منہ بولا بھائی بنایا ہوا تھا، حضرت متوکل کے گھر تین دن رات فاقہ ہوتا تو اس عورت کو کشفی طور پر معلوم ہوجاتا تھا وہ دو تین سیر کلیجی لے کر پکاتی اور حضرت متوکل کے گھر بھیج دیتی تھی۔ شیخ بھی اس کی اس نذر کو خندہ پیشانی سے قبول فرمالیا کرتے تھے۔
صاحب شجرۂ چشتی ہنے آپ کی وفات ۶۷۱ھ لکھی ہے۔
چوں نجیب الدین متوکل ولی
رفت در جنت ازیں دار ملال
راستی و نیز محمود عاقبت
ہست سال وصل آں اہل کمال