آپ شیخ فریدالدین گنج شکر کے بھائی اور خلیفہ مجاز تھے، معاملات میں سخت (یعنی شریعت کے پابند) اور نہایت متوکل تھے، ستر برس کی مدت تک شہر میں رہے، اگرچہ غلہ وغیرہ کی کوئی مستقل آمدنی نہ تھی اور آپ کے بیوی بچے بھی تھے مگر اس کے باوجود اتنے خوش و خرم رہتے تھے کہ آپ کو یہ بھی خبر نہ ہوا کرتی کہ آج کون سا دن، مہینہ اور کتنی رقم ہمارے گھر میں موجود ہے۔ ایک مرتبہ عید کے روز آپ کے گھر پر چند درویش جمع ہوگئے، اتفاق سے اس دن آپ کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا، آپ اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے، آپ نے اپنے دل میں کہا کہ کیا آج عید کا دن یونہی گزر جائے گا اور میرے بچوں کے منہ میں کیا کوئی غذا نہ پہنچے گی، اور کیا یہ مہمان بھی یونہی لوٹ جائیں گے، اتنے میں دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی مکان کی چھت پر آیا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا۔
بادل گفتم دلا خضر رابینی!
دل گفت اگر مرانماید بینم
ترجمہ: (میں نے اپنے دل سے کہا کہ کیا آپ خضر علیہ السلام کو دیکھتے ہیں؟ تو دل نے مجھے جواب دیا کہ اگر وہ مجھے دکھائی دیں تو دیکھوں) پھر اس بوڑھے نے کھانا بھرا ہوا خوان پیش کیا اور کہا کہ عرش پر ملاء اعلیٰ کے فرشتے آپ کے توکل کی تعریف کر رہے ہیں، آپ نے جواب دیا کہ خدا شاہد ہے کہ میں اپنے لیے اس کی طرف مائل نہیں ہوا بلکہ دوستوں کی ضروریات نے مجھے اس کی طرف مائل ہونے پر مجبور کردیا اور غالباً کھانا لانے والے حضرت خضر علیہ السلام تھے۔
ہاتھ اٹھتے ہی بر آئے ہر مُدعا
وہ دعاؤں میں مولا اثر چاہیے
(میغلان مدینہ)
دینوی حکومت طلب مت کرو:
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا بیان ہے کہ حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر کی ارادت سے پہلے ایک روز میں خواجہ نجیب الدین متوکل کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا میں نے اس محفل میں کھڑے ہوکر اہلِ محفل اور شیخ نجیب الدین متوکل سے درخواست کی کہ آپ لوگ ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ کر میرے لیے دعا کریں کہ میں کہیں کا قاضی مقرر ہوجاؤں اس پر شیخ مسکرائے اور فرمایا قاضی نہ بنو کچھ اور بنو۔
جو مانگے مال اُسکو مال جو چاہے تاج اُس کو تاج
مجھے روضہ دِکھا دیجیے مجھے طیبہ بلا لیجیے
(سائل)
شیخ فریدالدین گنج شکر کی خدمت میں ایک دن شیخ نجیب الدین متوکل حاضر ہوئے اور کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ مناجات میں یا رب کہتے ہیں جس کا جواب آپ خدا کی طرف سے یہ سنتے ہیں، لبیک عبدی (کہ اے میرے بندے میں حاضر ہوں) آپ کی یہ بات سننے کے بعد شیخ فریدالدین نے فرمایا کہ الارجاف مقدمتہ الکون (کہ افواہیں واقعات کی پیش خیمہ ہوتی ہیں) اس کے بعد شیخ متوکل نے یہ بھی کہا کہ حضرت خضر آپ کے پاس تشریف لایا کرتے ہیں اور لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابدال بھی آپ کی خدمت میں آتے ہیں، یہ سننے کے بعد آپ نے فرمایا کہ آپ بھی تو ابدال ہیں، ایک دن ایک فقیر نے شیخ متوکل کے پاس آکر عرض کیا کہ شیخ نجیب الدین متوکل آپ ہیں، آپ نے جواب دیا، ہاں میں ہی نجیب الدین متوکل ہوں، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے راستہ میں سلطان محمد عادل بادشاہ کی مشہور عمارت جسے منڈل کے سامنے شیخ نجیب الدین متوکل کا مزار ہے خواجہ نظام الدین اولیا اور آپ کا مکان بھی اسی جگہ پر تھا۔
اخبار الاخیار