آپ خواجہ قطب الدین بختیار اوستی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے، ظاہری و باطنی علوم میں بے مثال تھے۔ زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔ فقہ میں بڑا اعلیٰ شان مقام اور رتبہ رکھتے تھے۔
فوائد الفواد کے مصنف نے لکھا ہے کہ بندہ سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر تھا اور عرض کی کہ حضرت آپ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ کی مجلس ذکر میں گئے تھے یا نہیں، فرمایا میں ابھی بچہ تھا ایک دن آپ کی مجلسِ ذکر میں حاضر ہوا میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے مسجد کے دروازے پر اپنے جوتے اُتارے ہاتھ میں اٹھائے اور مسجد کے اندر آ گئے۔ دو رکعت نماز نفل ادا کیا ور پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے وہاں ایک شخص قاری قاسم تھے جنہوں نے چند آیات پر ہیں پھر حضرت شیخ نے اپنی تقریر شروع کی اور فرمایا کہ میں نے اپنے والد کے خط میں لکھا دیکھا ہے ابھی آپ نے یہ بات پوری نہ کہی تھی کہ حاضرین میں اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ ہر طرف لوگ رونے لگے، آپ نے پھر یہ شعر پڑھا
بر عشق تو و بر تو نظر خواہم کرد
جاں در غم تو زیر و زیر خواہم کرد
یہ شعر سنتے ہی لوگوں میں شور برپا ہوگیا، آ پنے دو تین بار یہی شعر پڑھا پھر فرمایا مسلمانو! اس رباعی کے ابھی دو مصرعے باقی ہیں میں کیا کروں وہ مجھے یاد نہیں آ رہے، یہ بات انہوں نے اتنی عاجزی اور انکساری سے کہی کہ حاضرین تڑپ اٹھے، اس کے بعد قاری قاسم نے وہ دو مصرعے بھی آپ کو یاد دلائے ۔
ہر درد و لے نجاک در خواہم شد
برعشق شدی نہ گور بر خواہم شد
آپ نے یہ رباعی مکمل کی اور منبر سے نیچے اُتر آئے۔
معارج الولایت کے مصنف لکھتے ہیں کہ سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے میں سارا سال دہلی میں بارش نہ ہوئی، بادشاہ حضرت شیخ ابوالموید کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کے لیے التجا کی، حضرت شیخ منبر پر بیٹھے اور دعا کے لیے ہاتھ بڑھائے اور آسمان کی طرف دیکھا اپنے دامن کو پھلایا او رزیرِ لب کچھ کہا اسی وقت بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا اور سارے شہر پر چھا گیا، جس وقت بادشاہ اپنے گھر پر پہنچے، مولانا وجیع الدین جو حضرت خواجہ قطب الدین کے مرید بھی تھے اور خلیفہ بھی نے پوچھا کہ یہ کپڑا جو آپ نے ہلایا تھا پھر آپ نے آسمان کی طرف دیکھا پھر زیرِ لب کچھ پڑھا یہ تمام کیسی چیزیں تھی آپ نے بتایا کہ کپڑا تو قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے میری والدہ ماجدہ کو عنایت فرمایا تھا یہ تمام بارش اسی کی برکت سے برسی تھی۔
یاد رہے کہ شیخ نظام الدین ابوالموید رحمۃ اللہ علیہ کو بعض لوگوں نے عبدالواحد غزنوی اور شمس العارفین کے نام سے یاد کیا ہے جس وقت آپ دہلی آئے تو آپ نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا روحانی فائدہ حاصل کیا، اور آپ خاندان چشت کے پیروں سے شمار ہونے لگے، شیخ نظام الدین ابوالموید کو شمس العارفین کا خطاب ان کے پیر روشن ضمیر نے دیا تھا۔
شیخ نظام الدین کی وفات چھ سو بہتر ہجری میں سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد حکومت میں ہوئی۔
چوں نظام الدین شمس العارفین
رفت در جنت از دار فنا
کامل اشرف بگو سالِ وصال
۶۷۳ھ
نیز مہدی بوموید مقتدا
۶۷۳ھ