آپ شیخ معروف جونپوری کے مرید تھے جن کے پیرومرشد مولانا اللہ داد تھے جنھوں نے کافیہ اور ہدایہ کی شرح لکھی ہے۔
آپ صاحب حال مجذوب و سالک تھے۔ سکر و جذب کی حالت آپ پر غالب تھی ابتدائے سلوک میں بڑی بڑی ریاضتیں کی تھیں۔ آپ صاحب باطن تھے اور کشف ظاہر میں اُونچا مقام رکھتے تھے جو شخص آپ کے پاس گیا اس نے آپ کی کرامتیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ خود قوالی نہیں سنتے تھے اور مریدوں کو بھی قوالی سے معنوی و ظاہری پرہیز کرنے کا حکم دیا کرتے اور کہتے اگر باز کی آنکھوں پر پٹی نہ باندھیں اور اسکو شکار کرنے کی ترکیب نہ سکھائیں تو وہ جنگلی چڑیوں کا شکار کرنے لگے اور اس جب تربیت دے دیتے ہیں تو وہ کلنگ کا شکار کرتا ہے۔
قوالی کی بابت ارشاد فرماتے تھے کہ مفت اختلاف میں کیوں پڑتے ہو، اگر تقلید کرتے ہو تو سلف اور بزرگوں کی تقلید کیا کرو، اور جب آپ پر حالت طاری ہوتی تو آپ کے جسم میں آگ لگ جاتی اور بعض اوقات خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہتے، اور خوب تکلیفیں برداشت کرتے اکثر و بیشتر سلوک کے فضائل بیان کرتے تھے لیکن کبھی کبھی اپنے ہمرازوں کے ساتھ توحید کے حقائق بھی بیان کرتے تھے۔
آپ کا یہ دستور تھا کہ صبح صادق ہوتے ہی مسجد میں تشریف لا کر نماز پڑھتے تھے۔ حسب معمول ایک دن آپ خلوت سے مسجد آئے اور باہر کے صحن میں کھڑے ہوکر فرمایا ہم یہیں نماز پڑھیں گے، ہوسکتا ہے پہلی والی جگہ پر کوئی موذی چیز ہو چنانچہ جب لوگوں نے تحقیق کی تو دیکھا کہ آپ کی بچھی ہوئی جانماز کے ایک کونہ میں سانپ لپٹا ہوا ہے 981ھ میں آپ نے انتقال کیا۔
اخبار الاخیار