آپ ’’ملک یار پرآں‘‘ سے مشہور اور کامل درجے کے ولی تھے، آپ کا اصلی وطن لار تھا، وہاں سے اپنے مرشد کی اجازت سے دہلی تشریف لائے تھے، آپ سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے کے شیخ وقت تھے، خواجہ نظام الدین اولیاء آپ کے مزار پر کبھی کبھی تشریف لایا کرتے تھے، خیال ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی عین حیات میں ملاقات ہوئی ہوگی مگر اس پر کوئی خارجی ثبوت موجود نہیں، سیرالاولیاء میں خواجہ نظام الدین اولیاء سے نقل کیا گیا ہے کہ میں کیلو کہری کی جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے جایا کرتا تھا، چنانچہ میں ایک روز جامع مسجد کو جا رہا تھا اور اتفاق سے اس دن میں روزے سے تھا، سخت گرم لو چل رہی تھی گرمی کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ مجھے چکر آنے لگے اور میں ایک دوکان میں بیٹھ گیا اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ آج اگر میرے پاس سواری ہوتی تو اس پر بیٹھ کر چلا جاتا پھر شیخ سعدی کا یہ شعر مجھے یاد آیا
ماقدم از سر کنیم در طلب دوستاں
راہ بجائے نبرد ہر کہ بدقدام رفت
ترجمہ: (ہم دوستوں کی تلاش میں سر کے بل جاتے ہیں اور جو قدموں کے ذریعہ گیا وہ منزل تک نہ پہنچ سکا) پھر میں نے سوال کے خیال او رارادہ سے توبہ کی، اس واقعہ کو گزرے ہوئے تین ہی دن ہوئے تھے کہ شیخ ملک یار پراں کا ایک خلیفہ گھوڑی لایا اور مجھ سے فرمایا کہ اسے قبول فرمائیے، میں نے اس سے کہا کہ تم خود فقیر آدمی ہو میں تم سے کیوں اور کیسے گھوڑی لوں تب انہوں نے فرمایا کہ پرسوں رات شیخ ملک یار پراں سے میری خواب میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ گھوڑی خواجہ نظام الدین کو تحفۃً دےدو، میں نے اس سے کہا کہ یہ تو تمہارے پیر نے فرمایا ہے اگر میرے پیر فرمائیں گے تو قبول کرلوں گا، پھر دوسری مجلس میں وہ گھوڑی لایا تب میں نے تحفۂ رب العزت سمجھ کر اس کو قبول کرلیا اس کے بعد ہمارے گھر میں گھوڑوں کی بہتات اور کثرت ہوگئی، بعض لوگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ جس وقت شیخ ملک یار پراں دہلی تشریف لائے تو پہلے پہل وہیں قیام کیا جہاں آج کل ان کا مزار ہے، اس وقت وہاں ایک شیخ ابوبکر طوسی قلندر رہتے تھے انہوں نے آپ سے لڑنا شروع کیا (کہ تم یہاں کیسے آئے ہو) آپ نے فرمایا کہ میرے پیر نے مجھے یہاں بھیجا ہے، شیخ ابوبکر طوسی نے اس بات کا ثبوت مانگا تو آپ نے دہلی سے دور اس مقام پر جہاں آپ کے شیخ جلوہ افروز تھے اتنی تھوڑی سی دیر جس میں عام طور پر لوگ آمد و رفت نہیں کرسکتے آن کی آن میں اپنے شیخ سے جاکر اجازت نامہ لیا اور وہ آکر اس بزرگ کو دکھایا اس وقت سے لوگ آپ کو ملک یار پراں کہنے لگا، واللہ اعلم۔
آپ کا مزار دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے شیخ ابوبکر طوسی قلندر کی خانقاہ کے سامنے ہے جو نہایت خوبصورت اور باعظمت مقام ہے بعض لوگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ اس جگہ پریاں رہتی ہیں۔
اخبار الاخیار