آپ سدید اللہ کے مرید اور میر سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ سے تربیت یافتہ تھے۔ مشہور ہے کہ شیخ پیارے جب ابتداً سید محمد گیسو دراز کے ہاں آئے تو سید گیسودراز نے دریافت کیا کہ درویش تم کسی پر عاشق بھی رہے ہو؟
شیخ پیارے نے شرم کرتے ہوئے بڑی تکلیف سے کہا، حُضور! میں تو عشق ہی سیکھنے کے لیے جناب کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ مجھے کچھ خبر نہیں کہ عِشق کیا ہوتا ہے سیّد گیسودراز نے فرمایا کہ میرے اس سوال سے آپ کی حالت کا امتحان اور آپ کے طرزِ طریق کی کیفیت معلوم کرنا ہے اس لیے عشق کے متعلق آپ پر جو بھی واقعہ گزراہو اُسے بلا تکلف بیان کردو۔ چنانچہ شیخ پیارے نے کہا کہ ایک مرتبہ میں ایک غیر مسلم عورت کو دل دے بیٹھا اور اس سے ملنے کا موقعہ کسی طرح ہاتھ نہ آتا تھا چنانچہ اس سے ملاقات کرنے کی غرض سے میں نے اپنے گلے میں زُنار ڈالا اور اس مندر میں چلاگیا جہاں وہ پوجا پاٹ کرنے کے لیے آیا کرتی تھی تاکہ اس کو خوب دیکھوں، اس کے بعد سید گیسو دراز نے ان کو گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ آپ جیسا بُلند ہمت مجھے کون ملے گا، آؤ تمہیں اللہ سے محبت کرنے کا طریقہ سکھاؤں، تمہارا یہ کام تو تمہاری بلندہمتی کی دلیل ہے ایمان سے زیادہ اور کون چیز مَحبوب ہوسکتی ہے اور تم نے اتنی جُرأت کی کہ اس کو محبت کے راستہ پر لُٹا دیا۔ اب میں تم کو حقیقی عِشق کا راستہ بتاؤں گا۔ چنانچہ آپ نے شیخ فرید الدین شکر گنج کے کمرہ میں جو خواجہ بختیار کاکی کے روضہ میں ہے۔ شیخ محمد پیارے کو مسلسل چلہ کرنے کا حکم دیا اور پھر انوار معرفت حاصل کرنے کے قابل بنادیا۔ اس کے بعد حضرت گیسو دراز کے حکم پر شیخ پیارے سدیداللہ کے مرید ہوئے اور سخت محنت کرکے درجہ کمال تک رسائی حاصل کرلی۔
اخبار الاخیار