حضرت مخدوم شیخ قطب الدین چشتی صابری
نام ونسب: اسم گرامی: شیخ قطب الدین چشتی صابری۔ سلسلہ ٔنسب: شیخ قطب الدین چشتی صابری بن شیخ پیر بن شیخ بڈھن بن مخدوم الاولیاء حضرت شیخ محمد بن حضرت شیخ عارف بن حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری بن شیخ عمر بن شیخ داؤد۔ ۔حضرت شیخ داؤد ؛ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے مرید تھے۔ان کا مزار مبارک قصبہ ردولی کے جنوب کی طرف موجود ہے۔سلسلہ ٔنسب امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب پر منتہی ہوتا ہے۔وطن اصلی بغداد تھا۔ہلاکو خاں کی ہلاکت خیزیوں سے بچ کر ہندوستان وارد ہوئے تھے۔(اقتباس الانوار، ص555)
تحصیل علم: حضرت شیخ قطب الدین چشتی صابری تمام علوم کے جامع تھے۔منازل سلوک اپنے والد سےطے کیں۔
بیعت و خلافت: اپنے والدِگرامی جناب شیخ محمد کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور ریاضت مجاہدات کے بعد خلافت سے مشرف ہوئے، اور ان کے وصال کے بعد ان کے سجادہ نشین منتخب ہوئے۔
سیرت و خصائص: مخدوم الاولیاء شیخ الاصفیاء ،امام الاولیاء پیکر اخلاص و وفا، حضرت مخدوم شیخ قطب الدین چشتی صابری کا شمار اس طائفہ صوفیاء کے محبین اور محبوبین میں ہوتا ہے۔ آپ شان کریم و عظیم طبع کریم لطف عمیم اور حالت مستقیم کے مالک تھے۔ آپ بڑے عبادت گزار اور مرد مجاہد تھے۔ اور سلوک کی تمام منازل طے کر کے مسلک تجرید میں گامزن ہو کر آپ نے حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا اور مختلف شہروں کی سیر کرتے ہوئے متعدد مشائخ وقت کی صحبت سے مشرف ہوتے ہوئے واپس وطن تشریف لاکر تربیت مریدین میں مصروف مشغول ہوگئے۔آپ اپنے عظیم والد گرامی حضرت شیخ پیر چشتی صابری کےدست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور انہی کے زیر سایہ منازل سلوک طے کر خرقہ خلاف حاصل کرکے سرفراز و ممتاز ہوئے اور درجہ کمال کو پہنچے۔ مشہور صوفی بزرگ جناب شیخ معروف مجذوب جو قصبہ ہانی کے رہنے والے تھے۔ آپ کے مرید خاص تھے۔
حضرت مخدوم پاک کی خدمت میں حاضری: آپ آخری مرتبہ جب کلیر شریف گئے تو آپ نے کلیر شریف میں حضرت مخدو سیدنا علاؤ الدین علی احمد صابری کلیری کی روح پر فتوح سے اکتساب فیض کیا۔اس دوارن ایک دن حضرت مخدوم پاک نے ارشاد فرمایا ۔ کہ اب تمہاراوقت اجل قریب آگیا ہے لہٰذا اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔اور اپنی ہڈیوں کو اپنے اجداد کے پہلو میں رکھو آپ نے عرض کیا کہ حضور میرے آباؤ اجداد کی عمریں تو بہت دراز تھیں۔مجھ سے کیا غلطی ہوگئی کہ پچاس ساٹھ سال کی عمر میں جارہا ہوں۔حضرت مخدوم پاک نے ارشاد فرمایا کہ تم نے اپنی عمر کے بیس سال رحمت خان کو دیئے ہیں۔لہٰذا جاؤ اپنے مشائخ کی امانت کو امانت داروں کے سپرد کر کے فراغت حاصل کرو۔ امانت دار سے مراد آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ حمید الدین ہیں۔
اپنی عمر کے بیس سال رحمت خان کو دینے کا واقعہ: رحمت خان جو بادشاہ جلال الدین اکبر کا مقرب خاص تھا اور آپ کا مرید بھی تھا۔ایک دفعہ سخت بیمار ہوگیا۔ آپ اس عیادت کو گئے تو دیکھا کہ وہ سخت پریشان اور تکلیف میں مبتلا تھا۔ آپ کو اس کی حالت دیکھ کر بہت رحم آیا اور زبان ترجمان سے فرمایا کہ میں نے اپنی عمر میں سے بیس سال رحمت خان کو دیئے اور بارگاہ خداوندی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھادئے۔رب کریم نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رحمت خان بالکل شفا یاب ہوگیا۔حضرت شیخ قطب الدین اس بات کو بھول چکے تھے۔جب حضرت مخدوم پاک نے آپ کو بات یاد دلائی تو آپ نے حضرت مخدوم سے عرض کیا حضور اب میری عمر میں کتنے دن باقی ہیں۔تو حضرت مخدوم پاک نے ارشاد فرمایا کہ صرف تین ماہ باقی ہیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت شیخ قطب الدین فوراً گھر پہنچے اور خرقۂ خلافت اور امانت مشائخ چشت اہل بہشت اپنے فرزند ارجمند شیخ حمید الدین چشتی صابری کے سپرد کی اور تین ماہ کے بعد بفرمان حضرت مخدوم پاک آپ کا وصال باکمال ہوگیا۔
وصال باکمال: آپ کے وصال باکمال کے سن اور تاریخ کے بارے میں اہل فن اور مورخین خاموش ہیں بہر حال آپ کا مزار پُر انوار ردولی شریف ضلع انبالہ انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔ اغلب خیال ہے کہ آپ کا وصال دسویں صدی ہجری میں ہوا۔