حضرت شیخ قطب الدین منور
حضرت شیخ قطب الدین منور (تذکرہ / سوانح)
آپ خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ کے خاص خلیفہ تھے تجرید و تفرید میں یگانۂ روزگار تھے۔ ساری عمر خلوت میں گزار دی، اپنی مرضی سے حجرے سے ایک قدم بھی باہر نہیں رکھا اور کسی دنیا دار کے گھر نہیں گئے آپ کے والد برہان الدین بن شیخ جمال الدین ہانسوی قدس سرہما تھے، بچپن میں والد کے انتقال کے بعد خواجہ فرید شکر گنج کی خدمت میں حاضر ہوئے، ظاہری و باطنی تعلیم حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی، آپ ہر سال ہانسی سے دہلی آتے اور حضرت محبو ب الٰہی کی صحبت میں رہ کر تربیت پاتے۔
ایک بار سلطان محمد تغلق نے قاضی کمال الدین حیدر جہاں کو حضرت شیخ قطب الدین کی خدمت میں ہانسی بھیجا، اور ساتھ ہی چند مواضعات کی ملکیت کے کاغذات بھی بھیجے۔ اس کی خواہش تھی کہ پہلے آپ کو دنیاوی لالچ میں دے کر زیر کرے پھر شاہی عتاب سے سرنگوں کرے کیونکہ یہ بادشاہ درویشوں اور فقراء کے خلاف تھا قاضی کمال الدین ہاشمی پہنچے اور بادشاہ کے فرامین اور انعامات پیش کیے، مگر آپ نے ایک نگاہ غلط انداز سے انہیں مسترد کردیا، فرمایا جس چیز کو ہمارے پیروں نے قبول نہیں کیا میں کیسے لے سکتا ہوں ان کاغذات کو واپس لے جائیے، ایسی چیزوں کے طالب بہت مل جاتے ہیں۔
ایک بار بادشاہ تغلق ہانسی کے علاقہ میں گیا ہوا تھا، وہ موضع بینی میں جو ہانسی سے صرف چار کوس کے فاصلہ پر لشکر انداز ہوا، اس نے اپنے ایک درشت خو اور سخت گیر حاکم نظام الدین عرف مخلص الملک کو ہانسی میں بھیجا وہ ہانسی کے قلعہ کی دیوار کے پاس سے گزر رہا تھا نزدیک ہی حضرت شیخ قطب الدین کا گھر تھا آپ کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں سے پوچھنے لگا یہ کس کا گھر ہے، لوگوں نے بتایا یہاں قطب الدین منور جو حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں رہتے ہیں، اس نے کہا بڑے تعجب کی بات ہے کہ سارے ہندوستان کا شہنشاہ اپنے لاؤ لشکر کےساتھ ہانسی کے پاس جلوہ فرما ہوا اور خواجہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید انہیں ملنے کو نہ جائے یہ حاکم واپس بادشاہ کے لشکر گاہ میں گیا، اور صورت حال سے آگاہ کیا بادشاہ نے حسن سر برہنہ کو جو ایک بہت بڑا امیر دربار تھا طلب فرمایا اور حکم دیا کہ شیخ قطب الدین کو ہر حالت میں لاکر پیش کیا جائے۔ حضرت کے گھر پہنچا، دہلیز کے پاس کھڑا ہوکر دروازہ کھٹکھٹایا تو شیخ قطب الدین کا بیٹا نور الدین باہر آیا، اور حسن سر برہنہ کو شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے پاس اندر لے گیا اس نے بادشاہ کا پیغام دیا آپ نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں مجھے بھی کچھ اختیار ہے یا آپ لوگوں نے اپنی ہی بات منانی ہے، حسن نے کہا مجھے حکم ہے کہ آپ کو طوعاً کرہاً بادشاہ کے دربار میں پیش کروں، فرمایا الحمدللہ میں اپنے اختیار سے نہیں جا رہا، پھر آپ نے اپنے اہل خانہ کو الوداع کیا، اور جاےنماز کندھے پر رکھی اور پا پیادہ روانہ ہوگئے، حسن نے بڑا اصرار کیا کہ میں سواری لے کر آیا ہوں، مگر شیخ نے قبول نہ کی اور پیدل چلتے گئے راستے میں شیخ جمال الدین اور برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ جو شیخ قطب الدین منور کے باپ اور دادا تھے کے مزارات آتے تھے آپ نے حسن سے پوچھا اگر اجازت ہو تو میں اپنے بزرگوں کے مزارات کی زیارت کرلوں، اُس نے کہا اس میں کوئی مضائقہ نہیں آپ اپنے باپ اور دادا کی قبر کے پاؤں کی طرف کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہنے لگے کہ میں آپ لوگوں کے خلوت کدے سے اپنی مرضی سے باہر نہیں آیا، چند لوگوں نے زبردستی بادشاہ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے میرے گھر کے چند افراد موجود ہیں جن کے لیے میں نے کوئی خرچہ نہیں چھوڑا یہ کہہ کر آپ روضے سے باہر نکلے دروازے پر ایک شخص کھڑا تھا اس نے چاندی کے سکے پیش کیے اور کہا یہ آپ کے اہل و عیال کا خرچہ ہے، آپ نے فرمایا کہ انہیں میرے گھر پہنچا دو کیونکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔
آپ بادشاہ کے لشکر گاہ میں پہنچے تو بادشاہ نے دیدۂ دانستہ آپ کی طرف توجہ نہ دی نہ اپنے پاس بلایا اور وہاں سے دہلی کی طرف روانہ ہوگیا، دہلی پہنچ کر شیخ قطب الدین کو اپنے پاس ملاقات کے لیے طلب کیا، شیخ اندر داخل ہوئے تو وہ بیٹھا ہوا تھا، آپ کو دیکھتے ہی اٹھا اور اس کے ہاتھ میں ایک تیر اور کمان تھا جسے وہ درست کر رہا تھا۔
یہ دونوں چیزیں شیخ کو دیکھتے ہی ہاتھ سے گر گئیں، تعظیم کے لیے آگے بڑھا اور مصافحہ کیا، حضرت شیخ نے بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر اتنا دبایا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، چنانچہ یہ ظالم بادشاہ جو ہزاروں مشائخ اور علماء کو اپنی تلوار کی نوک سے نیچے لاچکا تھا شیخ کا معقتد ہوگیا، کہنے لگا ہم آپ کے شہر گئے تھے آپ نے نہ ہم سے ملاقات کی نہ مہربانی فرمائی اور نہ ہی خوش کیا، حضرت شیخ نے فرمایاکہ درویش اپنے حجرے میں بیٹھ کر تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرتا ہے اس میں ہر چھوٹا بڑا شریک ہوتا ہے فقیروں کو دربار میں آنے سے معذور رکھا کرو، بادشاہ کو آپ کی یہ باتیں بڑی پسند آئیں اور خوش ہوکر کہنے لگا کہ آپ کی جو مرضی ہوگی وہی کروں گا میرے لائق کوئی اور خدمت ہو تو حکم کریں، حضرت شیخ نے کہا کہ میرا حکم یہی ہے کہ مجھے یہاں سے رخصت کردیا جاے تاکہ اپنے خلوت کدہ میں بیٹھ کر ذکر خداوندی میں مصروف رہوں، بادشاہ نے حضرت شیخ کو رخصت کیا اور شیخ فیروز احمد ضیاء برنی کو ایک لاکھ روپیہ دے کر شیخ کے ساتھ بھیجا، حضرت شیخ نے جب روپوں کی تھیلیاں دیکھیں تو فرمایا نعوذ باللہ من ذالک ایک درویش کو ایک لاکھ روپے سے کیا فائدہ ہے اسے بادشاہ کی خدمت میں واپس لے جاؤ بادشاہ نے پچاس ہزار روپیہ رکھ لیا اور پچاس ہزار روپیہ دوبارہ آپ کی خدمت میں بھیجا، آپ نے پھر انکار کیا، آخر کار آپ نے صرف ایک ہزار روپیہ لیا اور وہ بھی شیخ فیروز اور ضیاء برنی کے سامنے غربا میں تقسیم کردیا۔
شیخ قطب الدین منور سات سو ساٹھ ہجری میں فوت ہوئے۔
چون جناب شیخ قطب الدین
رفت از دنیا بفردوس بریں
سال ترحیلش ندا شد از فلک
قطب دنیا آفتاب اہل دین
۷۶۰ھ
ہم بخواں مہر منور قطب حق
۷۶۰ھ
سال وصل آں شہِ اہل یقین
آپ برہان الدین ولد شیخ جمال الدین ہانسوی کے فرزند ارجمند اور خواجہ نظام الدین اولیاء کے جلیل القدر جامع کمالات اور مظہر کرامات خلیفہ تھے، تکلف و تصنع سے آپ کو طبعاً نفرت تھی لوگوں کے شور و غل سے دور رہتے تھے۔ عمر بھر اپنے اختیار سے آپ نے اپنے کمرے سے باہر قدم نہ نکالا تھا، امراء کے دروازے پر کبھی نہ جایا کرتے اور پوری زندگی توکل، صبر و قناعت میں بسر کی۔
ایک مرتبہ سلطان محمد تغلق بادشاہ نے قاضی کمال الدین صدر جہاں کو شیخ منور کے ہاں بھیجا اور ساتھ ساتھ تحریر شدہ ایک فرمان بھی ان کے ہمراہ روانہ کیا جس میں تحریر تھا کہ فلاں فلاں گاؤں ہم نے آپ کو بطور ہدیہ دے دیے ہیں، اس کا مطلب یہ تھا کہ شیخ منور کو دنیاداری کے فریب میں مبتلا کیا جائے، پھر وہ اپنی عادت کے مطابق جیسا وہ دوسرے درویشوں کو تکالیف دیا کرتا تھا ان پر بھی ایذا رسانی کا سلسلہ شروع کردیتا، صدر جہاں جب شیخ کے پاس آئے اور جاگیری مواضعات کا فرمان شاہی پیش کیا اور زبانی بھی بیان کیا تو شیخ منور نے فرمایا سلطان نصیرالدین بن شمس الدین اوچ اور ملتان کی طرف جا رہا تھا تو اپنے امیرالامراء غیاث الدین کو حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر کی خدمت میں ایک فرمان جاگیری مواضعات کا دے کر بھیجا تھا لیکن شیخ فریدالدین نے اسے جواب دیا کہ ہمارے مشائخ نے ایسی جاگیریں قبول نہ فرمائی تھیں، جاگیریں قبول کرنے والے اور لوگ بہت ہیں ان کو دیدی جائیں آپ کو معلوم ہے کہ ہم انہیں کے مرید ہیں ہمیں بھی وہی کرنا چاہیے جو انہوں نے کیا (یعنی ہم جاگیر وغیرہ قبول نہیں کرتے) کہتے ہیں کہ شیخ منور اور سلطان محمد تغلق بادشاہ کی اس وقت ملاقات ہوئی تھی جبکہ بادشاہ ہانسی کی طرف جا رہا تھا اور ہانسی سے آٹھ میل پہلے ہی مقام مبنی میں قیام پذیر تھا بادشاہ نے نظام زر بارے عرف مخلص الملک کو جو بڑا ظالم تھا ہانسی کا قلعہ دیکھنے کے لیے بھیجا تاکہ قلعہ کی تمام کیفیت معلوم کرے کہ وہ ٹھیک ہے یا خراب ہوچکا ہے، نظام زربارے قلعہ کے نیچے ایک گھر پر پہنچا تو پوچھا یہ گھر کس کا ہے لوگوں نے کہا کہ شیخ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ شیخ منور کا، زربارے نے کہا تعجب ہے کہ بادشاہ یہاں آیا ہوا ہے اور یہ ان سے ملنے کے لیے نہیں گیا، پھر نطام زربارے نے بادشاہ کے ہاں لوٹ کو یہ عرض کیا کہ یہاں خواجہ نظام الدین اولیاء کا ایک خلیفہ رہتا ہے جو آپ سے ملنے نہیں آیا، بادشاہ کو حکومت کا نشہ اور غرور تھا (جیسا کہ عموماً ہوا کرتا ہے) اس نے حسن سر برہنہ جیسے عزت دار اور طاقتور کو حکم دیا کہ جاؤ اور شیخ قطب الدین منور کو یہاں پکڑ کر لے آؤ، چنانچہ حسن سر برہنہ شیخ کی بیٹھک میں آکر بیٹھا، شیخ کے فرزند نور الدین باہر تشریف لائے اور کہا کہ ہمارے آقا اور سردار آپ کو اندر بُلا رہے ہیں، حسن سر برہنہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا، مصافحہ کرکے بیٹھا اور عرض کیا کہ سلطان نے آپ کو بلایا ہے، شیخ نے دریافت کیا کہ اس طلب کرنے میں مجھے اختیار ہے یا نہیں؟ حسن سر برہنہ نے عرض کیا کہ فرمان شاہی یہ ہے کہ میں آپ کو لے چلوں، یہ سُن کر شیخ نے فرمایا، الحمدللہ کہ میں اپنے اختیار سے نہیں جا رہا، اس کے بعد اپنے گھر والوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں، پھر اپنی جانماز اپنے کندھے پر رکھی اور لاٹھی ہاتھ میں لے کر پیدل روانہ ہوئے، حسن سر برہنہ نے جب شیخ کے چہرے سے بزرگی کی علامات کو دیکھ لیا تو عرض کیا کہ آپ پیدل کیوں چل رہے ہیں، کوتل گھوڑے ساتھ ہیں کسی ایک پر آپ بھی سوار ہوجائیں شیخ نے فرمایا کہ مجھے گھوڑے پر سوار ہونے کی ضرورت نہیں اتنی طاقت ابھی موجود ہے کہ میں پیدل چل سکتا ہوں، جب آپ اس مقام پر پہنچے جہاں آپ کے آباء و اجداد کی قبریں تھیں تو فرمایا کہ مجھے اجازت ہے کہ میں یہاں کچھ دیر ٹھہر کر دعا کرلوں، حسن سر برہنہ نے اجازت دی، آپ نے وہاں کہا کہ مجھے آپ کی جگہ سے بے اختیاری کے عالم میں لے جایا جا رہا ہے اور میں اپنے اختیار سے گھر سے نہیں نکالا بلکہ مجھے زبردستی لے جایا جا رہا ہے اور چند بندگان خدا کو کس مپرسی کے عالم میں بغیر خرچ وغیرہ کے گھر میں چھوڑ آیا ہوں پھر شیخ قبرستان سے باہر آئے، دیکھا کہ ایک آدمی پچاس روپے لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ پیسے ہمارے گھر دےدینا ان کے پاس کچھ بھی نہیں بہر کیف ان تمام حالات کو حسن سربرہنہ نے بادشاہ سے بیان کردیا لیکن بادشاہ ان حالات سے کچھ متاثر نہ ہوا اور شیخ کو اپنے پاس بلایا ، شیخ نے سلطان محمد کے پاس جاتے وقت باربکی خاندان کے نائب فیروز شاہ سے کہا کہ ہم درویش اور فقیر شاہی مجالس میں داخل ہونے کے آداب اور ان سے گفتگو کرنے کے طرز و طریق سے ناآشنا ہوتے ہیں۔فیروز شاہ نے کہا کہ آپ کے بارے میں لوگوں نے بادشاہ سے بہت سی غلط باتیں کہہ رکھی ہیں، اس لیے روادایر، اخلاق و تواضع وغیرہ کا خوب خیال رکھیں، بادشاہ کو جب معلوم ہوا کہ شیخ آ رہا ہے تو وہ بیٹھا ہوا تھا کھڑا ہوگیا، اس نے اپنی کمان ہاتھ میں لی اور گزانداختی میں مشغول ہوگیا مگر شیخ کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے اور تعظیم و اکرام کی غرض سے آگے بڑھا اور مصافحہ کیا مگر شیخ قطب الدین نے اس کا ہاتھ اس طرح مضبوطی سے پکڑ لیا جو چھڑا نہ سکا، باوجود یہ کہ اس ظالم کے ہاتھ سے بہت سے مشائخ اور علماء تلوار کی نذر ہوچکے تھے مگر شیخ قطب الدین کا اس طرح عقیدت مند ہوا کہ اس بات کے کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم آپ کے علاقے میں آئے ہیں اور آپ نہ ہی ہماری اصلاح و تربیت فرماتے ہیں اور نہ ہی اپنی زیارت کا شرف بخشتے ہیں، شیخ نے فرمایا کہ اولاً تو آپ ہانسی کو دیکھیں رہی ملاقات کی بات سو یہ فقیر اپنے گھر میں پڑا ہے اور اس فقیر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بادشاہ سے ملاقات کس طرح کی جاتی ہے، یہ فقیر ایک کونے میں پڑا ہوا بادشاہ اور دیگر جملہ مسلمانوں کی اصلاح و بہبود کی دعا میں مصروف و مشغول ہے اس وجہ سے میں معذور ہوں، شیخ کی اس گفتگو سے بادشاہ پر بہت اچھا اثر ہوا، اس نے باربک نائب سلطان فیروز شاہ سے کہا کہ شیخ جو کچھ چاہتے ہیں وہ پورا کردیا جائے، یہ سن کر شیخ قطب الدین نے فرمایا کہ میرا مطلب صرف درویشی اور اپنے آباء و اجداد کی جھونپڑی میں قیام ہے، پھر بادشاہ نے فیروز شاہ اور ضیاء برنی کو حکم دیا کہ شیخ کی خدمت میں ایک لاکھ روپیہ پیش کیا جائے، شیخ نے جب اس گرانقدر انعام کو سنا تو فرمایا نعوذ باللہ فقیر اس کو ہرگز قبول نہیں کرے گا، چنانچہ فیروز شاہ اور ضیاء برنی دونوں نے بادشاہ سے عرض کیا کہ شیخ اس کو قبول نہیں کرتے، بادشاہ نے فرمایا پچاس ہزار روپے اور دیدیے جائیں (غالباً بادشاہ یہ سمجھا ہوگا کہ شیخ کم ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کر رہے) شیخ نے وہ بھی قبول نہ کیے اور فرمایا سبحان اللہ، فقیر کو دو سیر کھچڑی اور ایک چھٹانک گھی کافی ہے ہزاروں کی ضرورت نہیں، اس پر فیروز شاہ اور ضیاء برنی نے عرض کیا کہ ہم اس سے کم عطیہ کادربار شاہی میں تذکرہ بھی نہیں کرسکتے، آخر کار ضرورت کے موافق انعام شاہی میں سے شیخ نے کچھ رقم قبول فرمالی جس میں سے کچھ رقم اپنے بزرگان عظام کی قبروں پر خرچ کردی اور بقیہ دوسرے فقیروں کو تقسیم کردی،ا س کے تھوڑے دنوں بعد شیخ قطب الدین منور ہانسی روانہ ہوگئے، آپ کا مزار بھی آپ کے پردادا کے مقبرے میں ہے۔
تختِ سکندری پر وہ تھوکتے نہیں ہیں
بستر لگا ہوا ہے جن کا تیری گلی میں
خبار الاخیار
کانِ صفا معدنِ وفا ظاہر و باطن محبت و عشق سے آراستہ۔ عشق و محبت کے ذوق میں دنیا و عقبیٰ کی لذت سے دل برخاستہ موافقت دوست میں عزت باختہ شیخ قطب الدین منور ہیں (خدا تعالیٰ ان کی قبر کو انوار قدس سے منور و روشن کرے)
شیخ قطب الدین منور نور اللہ مرقدہ کے اوصاف اور
کثرتِ بُکا اور درونی ذوق و شوق
آپ علم و عقل وفا و عشق ورع و بکا کے ساتھ موصوف و مشہور اور اسقاط تکلف کے ساتھ مخصوص تھے۔ غوغائے خلق کا مطلقاً خیال نہ رکھتے تھے اور اپنے آبا و اجداد کے اس گوشہ میں جہاں انہوں نے اپنی عزیز عمریں خدا کی محبت و عبادت میں صرف کی تھیں انتہائے عمر تک نہایت خوشی کے ساتھ بسر کردی اور کسی وقت کسی طرح دنیا اور اہل دنیا کی طرف میل نہیں کیا۔ جو کچھ غیب سے تھوڑا بہت پہنچتا تھا اسی پر قناعت کرتے کسی کے دینے لینے کی کبھی کچھ پروانہ کرتے کسی بزرگ نے کیا ہی اچھا کہا ہے۔
شیر نر بوسد بحرمت مرد قانع راقدم
پیر سگ خاید بد ندان پائے مرد ھر درے
(شیر حرمت و عزت کے ساتھ قانع آدمی کے قدم کو بوسہ دیتا ہے اور جو شخص ہر دروازہ پر بیٹھتا ہے اس کے پاؤں کو بوڑھا کتا دانتوں سے چباتا ہے۔)
اس جلیل القدر اور محترم شیخ نے کسی وقت کسی صورت میں کسی دروازہ اور دربار کا منہ نہیں دیکھا اور اس کا پاؤں مبارک جو حقیقت میں اولیا کے سر کا تاج تھا بجز نما زجمعہ یا اپنے آباؤ اجداد کی زیارت کے کبھی جگہ سے نہیں ہلا۔ اور ہانسی سے کسی وقت قدم باہر نہیں نکلا۔ اطرافِ عالم میں خلائق جوق جوق سعادتِ قدم بوسی حاصل کرنے کی غرض سے خطۂ ہانسی میں آتی تھی جو ان دنوں آپ کے وجود مبارک کی وجہ سے بہشت کا ایک خوشنما قطعہ نظر آتا تھا آپ حضرت سلطان المشائخ کے ایک معزز و ممتاز خلیفہ تھے اور امام اعظم ابو حنیفہ کوفی کے عظیم الشان و محترم خاندان کے چشم و چراغ تھے جن کی صدارت و امارت ہمیشہ غلام رہی ہے اور جنہیں ہر زمانہ میں خلافت کا معزز تمغہ ملتا رہتا ہے۔ آپ کے باطن مبارک میں عجب شوق اور عجب درد مضمر تھا جس کا بد یہی اثر یہ تھا کہ آپ کی تقریر دل کش سے دم بدم محبت و عشق کی آگ بھڑکتی تھی کسی عزیز نے کیا خوب فرمایا ہے۔
ناز نینا مھر تو سوزے میان جان نھاد
شعلھائے آتشین در سینۂ بریان نھاد
(اے نازنین تیری محبت نے ایک سوز جان میں پیدا کر دیا ہے اور سینۂ بریان میں آگ کے شعلہ بھڑکائے ہیں۔)
اس عاشقِ صادق کے جگر سوز آنسو عشاق کی عشق کی آگ کو بھڑکاتے اور عشق و محبت کو تیز کرتے تھے۔ بندۂ ضعیف عرض کرتا ہے۔
اے کان عشق و مایۂ سوز و نشان و درد
از گریۂ تو آتش عشاق شعلہ زد
(اے عشق کی کان سوز کی پونجی درد کے نشان تیرے گریہ سے عشاق کی آگ بھڑک اٹھی۔)
سبحان اللہ عجب زندگانی تھی کہ ساری عمر عزیز اپنے پیر کی محبت و شوق میں صرف کی۔ آپ کا حال یہ تھا کہ جب آپ کے سامنے پیر کا نام لیا جاتا تو بمجرد نام کے سنتے ہی اس قدر گریۂ و بکا غالب ہوتا کہ آپ کے رونے سے وہ لوگ بھی زارو قطار رونے لگتے جو راہ درویشی میں صادق ہوتے امیر خسرو فرماتے ہیں۔
بیاد قامتِ آن نازنین سر شک دو چشم
بھر زمین کہ بر آید درخت ناز بر آید
(اس نازنین کے قد کی یاد میں آنکھ کے آنسو جس زمین پر گرتے ہیں وہاں درخت ناز پیدا ہوتا ہے۔)
بندہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
در عشق تو حاصلم ھمیں گریۂ خون است
آخر نظرے کن کہ حال این سوختہ چونست
(تیرے عشق میں مجھے بھی خون کا رونا حاصل ہوا ہے آخر دیکھ کر اس سوختہ کی کیا کیفیت ہے۔)
شیخ قطب الدین منور اس انتہا درجہ کی حضوری اور باطنی محبت کی وجہ سے جو اپنے پیر کی خدمت میں رکھتے تھے سلطان المشائخ کی زیارت نہ کرسکے جیسا کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس سرہ العزیز نے بوقت رخصت حضرت سلطان المشائخ سے فرمایا تھا کہ گوتم بظاہر ہم سے غائب ہو لیکن باطن میں ہر وقت ہمارے ساتھ ایک جا ہو۔ شیخ شیوخ العالم کے اس کہنے کا یہی مطلب تھا کہ زیارت کے لیے آمد و رفت کرنا کوئی چیز نہیں باطنی اعتقاد و محبت بڑے کام کی بات ہے۔ اسی لحاظ سے شیخ قطب الدین منور اپنے پیر کی زیارت کو کبھی نہیں گئے ایک بزرگ فرماتے ہیں۔
از بسکہ دو دیدہ در خیالت دارم
درھر چہ نگہ کنم توئی پندارم
(از بسکہ میری دونوں آنکھیں تیرے خیال میں محو ہیں۔ میں جس چیز کو دیکھتا ہوں تجھی کو تصور کرتا ہوں۔)
شیخ سعدی فرماتے ہیں۔
از خیال تو بھر سوکہ نظرے کردم
پیش چشمم درو دیوار مصور مے شد
(تیرے خیال میں جس طرف میری نظر جاتی ہے ہر درو دیوار میں تو ہی نظر آتا ہے۔)
شیخ قطب الدین منور اور شیخ نصیر الدین محمود کے حضرت
سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کے با عظمت دربار
سے ایک ہی مجلس میں تمغۂ خلافت پانے کا بیان
روشن ضمیرانِ عالم پر واضح ہو کہ جب حضرت سلطان المشائخ کے حکم سے خلفاء کے خلافت نامے لکھے گئے جیسا کہ اس کی مفصل کیفیت اسی باب کے ابتدا میں لکھی جا چکی ہے تو یہ دونوں بزرگ اس زمانہ میں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ نے اول شیخ قطب الدین منور کو بلایا اور اپنے دست مبارک سے خلافت کا معزز خلعت دے کر وصیت فرمائی شیخ قطب الدین منور کا خلافت نامہ جو پہلے ہی تیار کیا گیا تھا سلطان المشائخ کی نظرِ مبارک میں یعنی آپ کے سامنے ان کے دست مبارک میں لوگوں نے دیا اور حکم ہوا کہ جاؤ دو رکعت نماز بطور شکرانہ ادا کرو۔ شیخ منور فوراً جماعت خانہ میں آئے اور دوگانہ ادا کیا۔ یاروں نے آپ کو مبارکبادی دی اور آپ نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ اسی اثناء میں شیخ نصیر الدین محمود بلائے گئے اور آپ کو بھی خلعتِ خلافت عنایت کیا گیا اور حسب المعمول وصیت کی گئی لوگوں نے سلطان المشائخ کے سامنے خلافت نامہ ان کے دست مبارک میں دیا ابھی شیخ نصیر الدین محمود سلطان المشائخ کی خدمت میں دست بستہ کھڑے ہی تھے کہ شیخ قطب الدین منور دوبارہ طلب کیے گئے جب آئے تو سلطان المشائخ نے شیخ منور سے فرمایا کہ تم شیخ نصیر الدین محمود کو خلافت کی مبارکبادی دو۔ شیخ قطب الدین منور نے ایسا ہی کیا۔ ازاں بعد شیخ نصیر الدین محمود کو حکم ہوا کہ تم شیخ قطب الدین منور کو خلافت کی مبارکبادی دو۔ شیخ نصیر الدین محمود نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اب تم دونوں باہم بغل گیر ہوجاؤ کیونکہ تم دونوں آپس میں بھائی بھائی ہو۔ تقدیم و تاخیر کا کچھ خیال نہ رکھو۔ چنانچہ دونوں صاحبوں نے ایسا ہی کیا۔ جب یہ دونوں بزرگ اس ابدی سعادت اور سرمدی دولت سے مالا مال ہوکر سلطان المشائخ کی خدمتِ مبارک سے اٹھ کر باہر تشریف لائے تو شیخ نصیر الدین محمود نے شیخ قطب الدین منور کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ سلطان المشائخ نے جو وصیت تمہیں کیا ہے اسے مجھ پر ظاہر کرو تاکہ میں اس وصیت کو جس میں سلطان المشائخ نے مجھے حکم فرمایا ہے تمہارے آگے بیان کروں۔ شیخ قطب الدین منور نے کہا۔ برادرِ من! سلطان المشائخ نے جو وصیت مجھے فرمائی ہے وہ حقیقت میں ایک مخفی بھید ہے جسے حضور نے اپنے غلام پر ظاہر کیا ہے۔ اب تم ہی انصاف کرو کہ یہ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ پیر کا بھید کسی پر ظاہر کیا جائے تمہارا بھید تمہارے ساتھ اور میرا بھید میرے ساتھ ہے۔ سلطان المشائخ نے جو وصیت اپنی زبان دُرفشاں پر جاری فرمائی ہے وہ اس شعر کے بہت ہی مناسب ہے۔
عشقے کہ ز تو دارم اے شمع چگل
دل داندو من دانم ومن دانم و دل
(تیرے عشق میں جو میرا حال ہے اس کو میں اور میرا دل ہی جانتا ہے۔)
شیخ نصیر الدین محمود نے اس جواب دل کشا کی تعریف کی اور انصاف سے کہا کہ واقعی یہی بات ہے جو تم نے بیان کی۔ معتبرین ثقات سے منقول ہے کہ جب شیخ قطب الدین منور رخصت ہونے لگے تو سلطان المشائخ نے فرمایا کہ قطب الدین منور! عوارف کا وہ نسخہ جو شیخ جمال الدین ہانسوی تمہارے جد بزرگوار نے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت سے خلافت کا معزز تمغہ پانے کے وقت حاصل کیا تھا اور جب دنوں میں کہ یہ ضعیف شیخ شیوخ العالم کے حضور سے سعادتِ خلافت حاصل کر کے ہانسی میں شیخ جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا تھا اور انہوں نے پرلے درجے کی تربیت و پرورش کے بعد عوارف کا یہ نسخہ میرے آگے رکھ کر فرمایا تھا کہ میں نے یہ نسخہ بڑی بڑی نعمتوں کے ساتھ شیخ شیوخ العالم سے حاصل کیا ہے۔ آج تمہیں اس امید پر بخشش کرتا ہوں کہ میری اولاد میں سے ایک فرزند تم سے تعلق پیدا کرے گا تم اس کے حق میں ان دینی و دنیاوی نعمتوں میں سے جو تمہارے ساتھ ہیں کوئی نعمت دریغ نہ رکھو۔ اور اسے ان نعمتوں سے سرفراز کرو۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا اب میں یہ نسخہ مع ان نعمتوں کے تمہیں بخشتا ہوں تم اسے اپنے ساتھ لے جاؤ اور احتیاط و حفاظت سے رکھو۔ چنانچہ وہ نسخہ اس وقت تک شیخ قطب الدین منور کے واجب الاحترام خاندان میں موجود ہے یعنی آپ کے فرزند رشید ستودہ صفات شیخ زادہ نور الدین نور اللہ قلبہ بنور المعرفتہ کے پاس جو الولدسر لا بیہ کے مطابق اپنے آبا و اجداد کی سیرت پر چلتے ہیں خدا سے امید ہے یہ فرزند نونہال دلوں کا قبلہ ٹھہرے اور بتعظیم تمام اس نسخے کو محفوظ رکھے۔
شیخ قطب الدین منور رحمۃ اللہ علیہ کی بعض کرامات
منقول ہے کہ شیخ قطب الدین منور کی نسبت حاسدوں نے سلطان محمد ابن تغلق انار اللہ برہانہ سے طرح طرح کی چغلیاں کھائیں او رآپ کی طرف وہ باتیں لگائیں جو بادشاہ کے مزاج کے سراسر مخالف تھیں اگرچہ اس لگائی بجھائی سے بادشاہ کا مزاج بگڑ گیا لیکن اسے کوئی ایسی بات ہاتھ نہ لگی جس کی وجہ سے شیخ قطب الدین جیسے بزرگ کو کچھ کہے یا کسی طرح کا مکابرہ کرے اس لیے اس نے چاہا کہ اول شیخ کو دنیا سے فریفتہ کرے بعدہ اس قوت سے خصومت و ایذا کا دروازہ کھولے۔ اس بنا پر بادشاہ نے دو گاؤں کا فرمان شیخ کے نام لکھوا کر صدر جہان مرحوم یعنی قاضی کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ یہ فرمان شیخ قطب الدین منور کے پاس لے جاؤ اور جس طرح ممکن ہو اور جو طریقہ کہ تم جانتے ہو ایسا کرو کہ شیخ اسے قبول کرے قاضی کمال الدین صدر جہان مغفور ہانسی میں آئے اور بادشاہ کا فرمان دستار میں لپیٹ کر شیخ کی خدمت میں گئے۔ جب شیخ نے سنا کہ صدر جہان آئے ہیں تو آپ چبوترے کے اس طاق میں جہاں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کا قدم مبارک پہنچا ہے بیٹھ گئے۔ قاضی کمال الدین نے نہایت ادب کے ساتھ سلام کیا اور بادشاہ کا فرمان شیخ کے سامنے رکھ دیا اور اس کی طرف سے بہت سے اخلاص و محبت کا اظہار کرکے کہا کہ بادشاہ آپ کا کمال معتقد ہے اور اسے شیخ کی خدمت میں بہت کچھ اخلاص و محبت ہے۔ شیخ قطب الدین منور نے فرمایا کہ جس زمانہ میں سلطان ناصر الدین اوچہ اور ملتان کی طرف جاتا تھا تو اس وقت سلطان غیاث الدین بلبن الغ خان تھا وہ بادشاہ کے حکم سے دو گاؤن کا فرمان لے کر شیخ شیوخ فرید الحق والدین کی خدمت میں پہنچا شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ ہمارے پیروں نے اس قسم کے فتوح قبول نہیں کی ہیں اس کے طالب دنیا میں اور بہت ہیں انہیں دنیا چاہیے ہم نہیں لیتے چنانچہ یہ بیان شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی کرامات کے بیان میں نہایت بسط و شرح کے ساتھ لکھا جا چکا ہے۔ اس حکایت کے نقل کرنے کے بعد شیخ قطب الدین منور رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی کمال الدین سے یہ بھی فرمایا کہ تم صدر جہان اور مسلمانوں کے واعظ ہو اگر کوئی شخص اپنے پیروں کے طریقہ کی مخالفت کرے تو تمہیں اسے نصیحت کرنا اور اس خیال واہی سے منع کرنا چاہیے نہ کہ اُلٹی ترغیب و خواہش دو۔ قاضی کمال الدین شیخ قطب الدین منور کا یہ جواب سن کر نہایت شرمندہ ہوئے اور معذرت کر کے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سلطان محمد ابن تغلق کی خدمت میں پہنچ کر شیخ منور کی عظمت و کرامت کا ذکر کیا اور ان کی بزرگی و جبروت کی اس ڈھنگ سے تقریر کی کہ سلطان کا دل بالکل نرم ہوگیا اور جو شکوک شیخ کی طرف سے حاسدوں نے بادشاہ کے دل میں ڈال دیے تھے یک لخت مٹ گئے۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ شیخ قطب الدین منور یاد حق میں مشغول تھے کہ ایک قلندر آیا اور حماقت و بے حیائی کی باتیں کرنی شروع کیں اور بے ادبی اور گستاخی کرنے لگا۔ شیخ جو اسے دیتے تھے اس پر قانع نہ ہوتا تھا اور حرص و خواہش کی وجہ سے کچھ زیادہ مانگتا تھا جب اس نے بہت ہی گستاخی کی اور بے شرمی کی حد سے تجاوز کر گیا تو شیخ نے فرمایا اول اس مردار کو جو کمر میں باندھ رکھا ہے خرچ کر ڈال پھر مانگیو۔ اس وقت سید حمال الدین آپ کے مرید و معتقد خدمت میں کھڑے ہوئے تھے جوں ہی شیخ نے زبان سے یہ الفاظ سنے فوراً درویش کو لپٹ گئے اور اس کی کمر سے کافی مقدار سونے کی نکال لی۔ کاتب حروف نے خواجہ کافور سے جو درویشوں کے باب میں نہایت پاک و اعتقاد رکھتے تھے سنا ہے کہتے تھے کہ میں ایک دفعہ تین اور آدمیوں کے ساتھ بادشاہ وقت کے قید خانہ میں محبوس کیا گیا تھ اور ایسی صورت واقع ہوئی تھی کہ ہم چاروں آدمیوں نے مال و جان کے خیال سے ہاتھ اٹھالیا اور حیات عزیز سے دل برداشتہ ہوکر صاحب دلوں کے بُر اثر نفس اور مقبول دعا پر کان رکھ دئیے تاکہ شاید کسی مخلص اور صادق نفس کی دعا کے تصدق رہائی پائیں چنانچہ ہم چار آدمیوں نے اتفاق کر کے شہر دہلی سے ایک شخص کو شیخ قطب الدین منور کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ تو اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو کر ہمارے لیے فاتحہ کی درخواست کر لیکن ہمارے قید ہونے کی کیفیت بیان نہ کی جیئے۔ جب وہ شخص دہلی سے چل کر اس صاحبدلان عام کے سرتاج کی خدمت میں پہنچا تو بعد سعادت قدم بوسی کے فاتحہ کی التماس کی۔ شیخ نے فاتحہ پڑھی۔ ازاں بعد فرمایا کہ وہ چار شخص جو بادشاہ کی قید میں گرفتار ہیں ان میں سے تین آدمی تو نجات پائیں گے لیکن چوتھا شخص گرچہ میرا مرید و معتقد ہے لیکن اس کی کمر کا بیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور عنقریب چھلکنا ہی چاہتا ہے جوں ہی یہ بات شیخ قطب الدین منور کی زبان مبارک پر جاری ہوئی وہ شخص وہاں سے لوٹ آیا اور ہمیں خوشخبری پہنچائی۔ اس کے چند روز بعد ہم تین آدمیوں نے قید سے رہائی پائی اور چوتھا شخص ساغر شہادت منہ سے لگا کر راہی جنت ہوا۔
شیخ قطب الدین منور قدس اللہ سرہ کا
سلطان محمد تغلق سے ملاقات کرنا
ثقات سے منقول ہے کہ جس زمانہ میں سلطان محمد تغلق خطہ ہانسی کی طرف گیا اور بنسی میں نزول اجلال فرمایا جو ہانسی سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے تو نظام الدین عرف مخلص الملک کو جو ظلم و ستم کی مجسم تصویر تھا ہانسی کے قلعہ کے دیکھنے کےلیے بھیجا تاکہ قلعہ کی درستی و خرابی کی کیفیت معلوم کرے جب نظام الدین تلاش و تفتیش کرتا ہوا شیخ قطب الدین منورکے مکان کے قریب پہنچا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کس کا مکان ہے لوگوں نے جواب دیا سلطان المشائخ کے معزز خلیفہ شیخ قطب الدین منور کا۔ کہا تعجب کی بات ہے کہ یہاں بادشاہ آئے اور یہ شیخ اس کی ملاقات کو نہ جائے۔ الغرض جب نظام الدین قلعہ کی کیفیت معلوم کر کے بادشاہ کے پاس پہنچا اور واقعی حال بیان کیا تو اثناء گفتگو میں یہ بھی بیان کیا کہ یہاں سلطان المشائخ کے خلفاء میں سے ایک شخص رہتا ہے مگر افسوس ہے کہ بادشاہ کی زیارت کو نہیں آیا۔ بادشاہ کی نخوت و غرور کی رگ حرکت میں آئی اور اس نے فوراً شیخ حسن سر برہنہ کو جو سر سے پاؤں تک صورتِ جاہ تکبر تھا۔ شیخ قطب الدین منور کے لانے کے لیے بھیجا۔ حسن برہنہ شیخ قطب الدین منور کے مکان کے متصل پہنچا تو ہمراہیوں کو مکان سے دور چھوڑ دیا اور تنہا پیادہ آکر شیخ کے مکان کی دہلیز میں زانو پر سر رکھ کر بیٹھ گیا اور اس طرح بیٹھا کہ کوئی شخص اسے دیکھ نہ سکے۔ اس بات کو تھوڑا عرصہ گزرگیا شیخ منور باورچی خانہ کے کوٹھے پر جو دہلیز کے پاس ہی تھا مشغول بحق تھے جب مشغولی سے فارغ ہوئے تو نور باطن سے معلوم کیا کہ حسن سر برہنہ دہلیز میں بیٹھا ہوا ہے آپ نے شیخ زادہ نور الدین سے فرمایا کہ ایک آنے والا شخص دروازہ کے پاس منتظر ہے اسے طلب کر کے یہاں لے آؤ۔ شیخ زادہ دہلیز میں آیا تو شیخ حسن سر برہنہ کو اسی ہئیت پر بیٹھا پایا اس پر شیخ زادہ نے فرمایا کہ تمہیں شیخ بلاتے ہیں۔ حسن سر برہنہ شیخ قطب الدین منور کی خدمت میں آیا اور سلام کے بعد مصافحہ کر کے بیٹھ گیا پھر کہا کہ حضور کو بادشاہ نے یاد کیا ہے شیخ منور نے فرمایا کہ اس بلانے میں مجھے اپنا مختار کیا ہے کہ نہیں حسن نے جواب دیا نہیں۔ بلکہ مجھے شاہی حکم ہوا ہے کہ آپ کے پاس آؤں اور بادشاہ کے پاس لے جا کر حاضر کروں فرمایا الحمد اللہ کہ میں اپنے اختیار سے بادشاہ کے پاس نہیں جاتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے اپنا منہ مبارک اہل خانہ کی طرف کر کے فرمایا کہ میں نے تمہیں خدا کو سونپا۔ یہ کہہ کر مصلّا کندھے پر ڈالا لکڑی ہاتھ میں لی اور پیادہ روانہ ہوگئے۔ جب آپ اپنے آبا و اجداد کے خطیرہ کے پاس پہنچے تو شیخ حسن سر برہنہ سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں اپنے بزرگوں کی زیارت کروں۔ کہا بہتر ہے شیخ منور اپنے جدِ بزرگوار اور واجب الاحترام والد کی قبروں کی پائینتی کی طرف گئے اور زیارت کے بعد عرض کیا کہ میں آپ کے بتائے ہوئے گوشہ اور اپنے گھر سے باختیار خود نہیں نکلا ہوں بلکہ بادشاہ کے بھیجے ہوئے آدمی کشان کشان لیے جاتے ہیں مجھے بجز اس کے کسی بات کا افسوس نہیں کہ چند بندگانِ خدا کو بے خرچ اور بغیر کسی ظاہری بھروسہ کے چھوڑے جاتا ہوں یہ کہہ کر وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔ جب روضہ سے باہر آئے تو ایک شخص کو دیکھا کہ کافی مقدار چاندی ہاتھ میں لیے کھڑا ہے شیخ نے فرمایا یہ کیا ہے۔ عرض کیا کہ حضرت میں نے منت مانی تھی میرا مطلب حاصل ہوگیا۔ یہ آپ کی خدمت میں شکرانہ لایا ہوں شیخ نے اس شکرانہ کو قبول کر کے فرمایا۔ میرے گھر والے بے خرچ ہیں اس رقم کو انہیں پہنچادے۔ خلاصہ یہ کہ جب شیخ مقام ہنسی میں پیادہ پہنچے جو ہانسی سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر واقع تھا تو سلطان کو شیخ کے آنے کی خبر ہوئی اور شیخ حسن سر برہنہ نے جو معاملہ اس بزرگ کا اپنی آنکھ سے دیکھا تھا بے کم و کاست بادشاہ سے ظاہر کردیا لیکن بادشاہ نے انتہا درجہ کی تکبر و نخوت کی وجہ سے اغماض کیا اور شیخ کو اپنے سامنے طلب کر کے روانہ دہلی ہوگیا۔ دہلی میں پہنچ کر دوبارہ شیخ کو ملاقات کے لیے طلب کیا۔ جب شیخ بادشاہ کی ملاقات کو جانے لگے تو آپ نے سلطان السلاطین فیروز شاہ خلد اللہ ملکہ و سلطانہ سے مل کر پوچھا جو اس زمانہ میں نائب باریک تھے کہ ہم درویش لوگ ہیں بادشاہوں کی مجلس میں جانے اور ان سے باتیں کرنے کے آداب نہیں جانتے تم جیسا اشارہ کردو ویسا ہی کیا جاے۔ اس بادشاہ حلیم و کریم نے شیخ کے جواب میں کہا کہ چونکہ میں نے سنا ہے کہ چغل خوروں نے آپ کی بابت بادشاہ سے بہت سی بیہودہ باتیں لگائی ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ بادشاہوں اور سلاطین کی طرف مطلق ملتفت نہیں ہوتے ان کی ذرّہ بھر مراعات نہیں کرتے۔ اگر واقع میں ایسا ہی ہے تو میں مشورہ دیتا ہوں کہ آپ کو بادشادہ کی خدمت میں تواضع اور نرمی و اخلاصی کرنا چاہیے۔ غرضکہ آپ بادشاہ کی طرف چلے۔ جس اثناء میں کہ شیخ سلطان کی طرف جا رہے تھے شیخ زادہ نور الدین (خدا انہیں مردانِ کامل کے تبہ کو پہنچائے) شیخ کے پیچھے پیچھے چلے جا رہے تھے بادشاہ کے دربار کے امرا وزرا کے ہجوم نے اس کے دل پر رُعب ڈالا اور درباری ہیبت نے اس قدر اثر کیا کہ دل قابو سے نکل گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ شیخ زادہ کم عمر اور نا تجربہ کار تھا۔ کبھی بادشاہوں کا دربار نہ دیکھا تھا اور سلاطین کی شوکت و عظمت کا مشاہدہ نہ کیا تھا اسی اثناء میں شیخ قطب الدین منور نور باطن سے شیخ زادہ کے احوال پر مطلع ہوئے اور سر نیچے کر کے فرمایا۔ بابا نور الدین العظمۃ والکبریا ءللہ۔ یعنی ساری عظمت و بزرگی خاص خدا کے لیے ہے۔ جوں ہی شیخ زادہ کے کان میں یہ لفظ پڑے باطن میں ایک طرح کی تقویت ظاہر ہوئی اور اطمینان و تسلی حاصل ہوئی حتی کہ وہ رعب و ہیبت ان کے دل سے باکل جاتا رہا اور دربار کے امرا و وزرا ان کی نظر میں بکریوں جیسے معلوم ہونے لگے۔ چونکہ بادشاہ کو پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ اس وقت شیخ تشریف لائیں گے لہذا وہ بیٹھے بیٹھے دفعۃً کھڑا ہوگیا۔ اور کمان ہاتھ میں لے کر تیر اندازی میں مشغول ہوا۔ یہاں تک کہ شیخ قطب الدین منور قدس اللہ سرہ العزیز تشریف لائے۔ جب بادشاہ نے شیخ کے فراخ و نصیبہ ور پیشانی میں مردان حق کی علامتیں دیکھیں تو بڑی تعظیم سے پیش آیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا شیخ نے مصافحہ کرتے ہوئے بادشاہ کا ہاتھ ایسی مضبوطی کے ساتھ پکڑا کہ پہلی ہی ملاقات میں ایسا جبار و قاہر بادشاہ جس نے اولیاء خدا کو تیغِ ظلم سے خاک و خون میں ملایا تھا بدل معتقد ہوگیا اور کہا مجھے صرف اس بات کا رنج اور رنج کے ساتھ افسوس ہے کہ میں آپ کے شہر میں گیا اور آپ نے کسی قسم کی تربیت نہیں فرمائی او راپنی ملاقات سے مشرف و معزز نہیں فرمایا۔ شیخ نے فرمایا کہ اول تو آپ ہانسی کو دیکھیے پھر اس درویش بچہ کی طرف نظر کیجیے۔ یہ درویش اس قدر وقعت نہیں رکھتا کہ بادشاہوں کی ملاقات کو جائے۔ ہاں تنہا گوشہ میں بیٹھ کر بادشاہ اور تمام مسلمانوں کی دعا گوئی میں مشغول رہتا ہے اور جب یہ ہے تو مجھے اس عتاب سے معذور رکھنا چاہیے۔ سلطان محمد کا دل شیخ قطب الدین منور کے اخلاق و صفات اور آپ کی دلکشا تقریر سے جو تصنع اور بناوٹ سے محض خالی تھی موم کی طرح پگھل گیا۔ سلطان السلاطین فیروز شاہ کو جو جبلی حلم اور فطری اخلاق سے موصوف تھے حکم کیا کہ جو شیخ کا مطلوب و مقصود ہوا اس کی فوراً تعمیل کی جائے۔ شیخ قطب الدین منور نے فرمایا کہ خدا وند عالم مجھ فقیر کا مقصود و مطلوب وہی اپنے آبا و اجداد کا کونہ ہے۔ چنانچہ اس کے بعد شیخ کو نہایت اعزاز و احترام کے ساتھ رخصت کیا گیا اور آپ وہاں سے پلٹ کر ہانسی میں تشریف لے آئے۔ منقول ہے کہ اعظم ملک کبیر معظم مرحوم و مغفور جو عدل و خلق اور کرم و فتوت کے ساتھ موصوف تھا۔ کہتا تھا کہ سلطان محمد مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ مشائخ زمانہ میں جس نے مصافحہ کے وقت میرا ہاتھ پکڑا ضرور اس کا ہاتھ کاپنے لگا مگر بزرگ شیخ منور نے اپنی دینی قوت سے میرا ہاتھ نہایت مضبوطی سے پکڑا اور ذرہ لرزہ واقع نہیں ہوا۔ مجھے فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ بزرگ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کی باتیں حاسدوں نے مجھ تک پہنچائی ہیں۔ میں اس کی پیشانی سے دین کی ہیبت سے مرعوب ہوا اور صاف تاڑگیا کہ یہ نہایت بزرگ شخص ہیں اس کے بعد بادشاہ نے سلطان السلاطین فیروز شاہ کو اور مولانا ضیاء الدین برنی کو شیخ منورکی خدمت میں ایک لاکھ تنکہ دے کر بھیجا کہ شیخ کے حضور میں بطریق نذر پیش کریں شیخ منور نے فرمایا۔ نعوذ باللہ کہ یہ درویش لاکھ تنکہ قبول کرے۔ جب یہ دونوں صاحب شیخ سے رخصت ہوکر سلطان کی خدمت میں آئے اور بیان کیا کہ شیخ آپ کے اس عطیہ کو قبول نہیں فرماتے تو حکم ہوا کہ اچھا پچاس ہزار تنکہ جا کر دو۔ دونوں بزرگ پھر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے انہیں بھی قبول نہیں کیا۔ ازاں بعد بادشاہ نے فرمایا کہ اگر شیخ یہ مقدار بھی قبول نہ فرمائیں گے تو خلق مجھے کیا کہے گی میری سخت بے عزتی ہوگی اور لوگ مجھے نظر حقارت سے دیکھیں گے۔ جب اس گفتگو نے بہت طول پکڑا تو سلطان السلاطین فیروز شاہ اور مولانا ضیاء الدین برنی نے مجبور ہوکر ایک ہزار تنکہ پیش کیے اور کہا کہ ہم بادشاہ کے سامنے اس مقدار سے کم ہر گز بیان نہیں کرسکتے اور یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ شیخ اس قدر بھی قبول نہیں فرماتے۔ پس یہ آپ کو ضرور قبول کرنا پرے گا۔ شیخ نے فرمایا سبحان اللہ درویش کو صرف دوسیر کھچڑی اور ایک دانگ گھی کفایت کرتا ہے وہ ہزاروں لے کر کیا کرے گا۔ لیکن اس کے بعد آپ نے مخلصوں کی کمال اصرار و الحاح اور بادشاہ کی دفع مضرت کے لیے دو ہزار بہزار حیلہ قبول کیے۔ اور اس میں سے اکثر حصہ تو سلطان المشائخ اور شیخ الاسلام قطب الدین بخیار کو روضۂ اقدس اور شیخ نصیر الدین محمود کی خدمت میں بھیجا اور جو باقی رہا اسے ہر کس و ناکس کو تقسیم کر دیا پھر چند روز کے بعد عظمت و کرامت اور نہایت وقعت و عزت کے ساتھ ہانسی کی جانب روانہ ہوگئے۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
گر قدم برچشم ما خواہی نہاد |
|
دیدہ دررہ مے نہم تا میروی |
(اگر تو میری آنکھوں کے رستہ آنا چاہے میں آنکھوں کی پتلیاں راستہ میں بچھاؤں گا۔ سعد کی جان اور آنکھیں تیرے ساتھ ہیں تجھے اکیلا ہونے کا خیال نہ ہونا چاہیے۔)
شیخ منور نور اللہ قبرہ بانوار القدس کا سماع سننا
کاتب حروف محمد مبارک العلوی المدعو با میر خورد عرض کرتا ہے کہ جس زمانہ میں شیخ قطب الدین منور کو سلطان محمد دہلی میں اپنے ساتھ لایا تو ان ایام میں سلطان المشائخ کے روضہ میں عرس کی دعوت تھی اس مجمع میں شیخ قطب الدین منور اور مولانا شمس الدین یحییٰ اور شیخ نصیر الدین محمود قدس اللہ ارواحہم موجود تھے وہ انوار سعادت جو اس سماع میں غیب سے نازل ہو رہے تھے کاتب حروف برابر مشاہدہ کر رہا تھا۔ شیخ منور کو سماع میں عجیب گریۂ و ذوق اور صفائی حاصل تھی۔ آنسوؤں کے قطرے آپ کے چشم مبارک سے ڈاڑھی شریف پر ٹپک ٹپک کر اس طرح بہتے تھے جیسے چمکیلے موتی مصفا فرش پر لڑھکتے ہیں۔ آپ اس مجلس میں عین حالت رقص میں سر مبارک حاضرین مجلس کے قدموں میں رکھتے اور زارو قطار روتے تھے۔
پائے بزرگان گرفت گریۂ عشاق تو
اور یہ بیت زبان حال سے فرماتے تھے۔
زندہ ام بیاد شیخ بلے
جان من یاد شیخ شد آرے
(میں اپنے شیخ کی یاد میں زندہ ہوں۔ فی الواقع شیخ کی یاد میری جان ہے۔)
شیخ قطب الدین منور کے اس ذوق و شوق کا اثر جو آپ کو اس مجلس میں حاصل تھا کاتب حروف اپنے دل میں اس وقت تک محسوس پاتا ہے اور اس عاشقانہ انبساط کا مزا اب تک زبان پر موجود ہے۔ وہ شخص نہایت مبارک ہے جس کی یاد سے دلوں کو راحت میسر ہو۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
خو شوقت آن کسے کہ ازورا حتے رسد
بر جان اھل عشق کہ مشتاق حضرت اند
ان ہی دنوں کا یہ بھی ذکر ہے کہ شیخ قطب الدین منور سلطان المشائخ کے روضہ میں ایک رات مشغول ہوئے۔
شب محرم عاشقان است شبہاش طلب
اور اپنے مخدوم و شیخ سے راز و نیاز کی باتیں کرنے لگے۔ کاتب حروف کے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ نے کھانا پکا کر میرے ہاتھ اس اہل محبت کے سردار کی خدمت میں بھیجا میں دیکھتا ہوں کہ یہ بزرگوار چہار دری عمارت کے اندر خواجہ جہان مرحوم کے گنبد کے متصل قبلہ رخ حضوری تمام کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں۔ جب میری نظر آپ کے چہرۂ مبارک پر پڑی تو دیکھتا ہوں کہ ایک جلیل الشان اور مقتدر بادشاہ صاحب ولایت جلوس فرما ہے جس کا ظاہر اس کے عشق آمیز باطن کی حکایت بیان کر رہا ہے وہ صفائی و ذوق عجیب و غریب صفائی و ذوق ہے جو حق تعالیٰ نے ان کی مبارک ذات میں ودیعت رکھی تھی۔ آپ کھانا کھاتے جاتے اور نہایت خوش آئند مسکراہٹ کے ساتھ میں اس سے فرماتے جاتے تھے کہ یہ کھانا تمہاری انہیں بزرگوار دادی کے ہاتھ کا پکا ہوا ہے جو شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز سے بیعت رکھتی تھی میں نے کھانا بہت کھایا اور نہایت رغبت سے کھایا ہمارے تم پر اور تمہارے ہم پر بے انتہا حقوق ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح سے پیوستہ رکھے۔ کاتبِ حروف کو چونکہ محترم و برگزیدہ شیخ کے ساتھ کھانا کھانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اس لیے امید ہے کہ خدا اس کے سر پر بخشش کا تاج رکھے کیونکہ حدیث میں آیا ہے۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اکل مع مغفور فقد غفرلہ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی بخشے ہوئے کے ساتھ کھانا کھاتا ہے خدا اسے بھی بخش دیتا ہے۔ الحمد اللہ علی ذالک۔