حضرت شیخ رکن الدین فردوسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ خواجہ بدرالدین سمر قندی کے مرید تھے، دہلی آپ کا مسکن تھا اور جب سلطان کیقباد نے کیلو کہری میں نئی شہری آبادی کرنا چاہی تو آپ بھی وہاں تشریف لائے اور دریائے جمنا کے کنارے مقیم ہوگئے۔ غالباً آپ کے اور شیخ نظام الدین اولیاء کے درمیان چنداں محبت و اخلاص نہ تھا۔ سیرالاولیاء میں لکھا ہے کہ شیخ رکن الدین کے نوجوان بیٹے اور دوسرے مرید اکثر و بیشتر کشتی میں بیٹھ کر ناچتے گاتے اور سماع کرتے ہوئے خواجہ نظام الدین اولیاء کے مکان کے نیچے سے گزرا کرتے تھے۔ ایک روز اسی طرح گزر رہے تھے کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کی ان پر نظر پڑی تو (اپنے حجرے سے) سر باہر نکالا اور فرمایا کہ ایک وہ ہے جو برسوں سے خون جگر پی رہا ہے اور اس راہ پر فدا ہوچکا ہے اور دوسرے یہ نوجوان ہیں جو کہتے ہیں کہ تو کیا ہے جو ہم نہیں (یعنی وہ کہتے تھے کہ خواجہ نظام اور ہم میں کیا فرق ہے) اور اپنا ہاتھ آستین سے باہر نکالا اور ان کی جانب اشارہ فرمایا۔ خبردار ہوکر جانا، چنانچہ شیخ رکن الدین کے بیٹے اسی طرح شور و غوغا کرتے ہوئے اپنے گھر کے قریب تک پہنچ گئے اور کشتی سے اتر کر انہوں نے چاہا کہ غسل کرلیں، جونہی وہ لوگ پانی میں داخل ہوئے تو تمام کے تمام غرق ہوگئے۔
(اخبار الاخیار)