حضرت شیخ رکن الدین چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ رکن الدین چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ رکن الدین چشتی صابری
نام و نسب: اسم گرامی: شیخ رکن الدین چشتی صابری۔لقب: عارف باللہ۔ سلسلہ نسب: حضرت شیخ رکن الدین چشتی صابری بن قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی بن شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین۔آپ کےجد امجد حضرت شیخ صفی الدین، حضرت میرسیداشرف جہانگیرسمنانی کے مریدتھے۔آپ کاسلسلۂ نسب چندواسطوں سےحضرت امام ابوحنیفہ پرمنتہی ہوتاہے۔(اقتباس الانوار، ص604)
تحصیل علم: آپ جامع علوم نقلیہ و عقلیہ تھے۔ آپ کی ابتدائی تربیت اپنے والد گرامی کے ہاتھوں ہی ہوئی اور بعد ازاں قابل ترین اساتذہ کرام سے علوم دینیہ کی تحصیل سے فراغت پاکر خدمت اسلام میں مصروف ہوگئے۔آپ کے علمی کمالات کا اندازہ آپ کی تصانیف’’لطائف قدوسی‘‘ اور ’’مجمع البحرین‘‘ جو حقائق و معارف پر مشتمل ہیں ان سے کیا جاسکتا ہے۔
بیعت وخلافت: اپنے والد گرامی قطب العالم حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہیسے بیعت ہوئے اور سلوک و مجاہدات کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔حضرت قطب العالم کے وصال کے بعد ان کے سجادہ نشیں منتخب ہوئے۔ (اقتباس الانوار، ص668)
سیرت و خصائص: عارف باللہ، فنافی اللہ،شیخ کبیر، حضرت شیخ رکن الدین بن قطب العالم حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیھما۔حضرت قطب العالم کے تمام فرزند عالم، عارف، عابد و زاہد اور اپنے وقت کے مشائخ میں سے تھے۔لیکن ان میں سے حضرت شیخ رکن الدین درجۂ کمال پر فائز تھے۔ہمیشہ اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے۔صاحب سیر الاقطاب فرماتے ہیں:’’ کہ حضرت قطب العالم کے تمام سات بیٹے ولی کامل اور عالم و فاضل تھے۔ لیکن ان سب میں حضرت شیخ رکن الدین کشف و کرامات کے میدان میں بڑھے ہوئے تھے ۔چنانچہ قطب العالم نے بارہا فرمایا کہ اگر حق تعالیٰ نے مجھ سے قیامت کے دن دریافت فرمایا کہ دنیا سے ہماری بارگاہ میں کیا لائے ہو تو ایک ہاتھ سے شیخ جلال الدین تھانیسری اور دوسرے ہاتھ سے شیخ رکن الدین کو لیکر عرض کروں گا ان کو لایا ہوں۔(اقتباس الانوار، ص668)حضرت شیخ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی کی بیعت اگر چہ حضرت قطب العالم سے تھی۔ لیکن آپ نے تربیت حضرت شیخ جلال الدین تھانیسر ی اور حضرت شیخ رکن الدین سے حاصل کی۔
بھری محفل سے اچانک غائب ہونا پھر آجانا: ایک مرتبہ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی چشتی صابری کی خانقاہ شریف میں محفل سماع ہورہی تھی کہ آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی، عین وجد کی حالت میں آپ سب کے سامنے نظروں سے اوجھل ہوگئے اور کچھ دیر حاضرین کی نظر میں ماسوائے آپ کے خالی پیراہن رقص کناں کے اور کچھ نظرنہ آتا تھا۔پھر حضرت قطب العالم نے آذان دی جس سے آپ عالم غیب سے عالم شہود کی واپس آئے۔
یہ وہی شیخ رکن الدین ہیں کہ جنکے وصال کے چند سال بعد جب کسی وجہ سے آپکی مرقد مبارک کو کھولا گیا تو صندوق میں سوائے داڑھی کے چند بالوں کے کچھ نہ تھا جو آثار بشریت موجود تھے۔
اس فقیر نے ثقات سے سُنا ہے کہ ایک دن حضرت قطب العالم کی خانقہ میں مجلس سماع منعقد ہوئی تو حضرت شیخ رکن الدین پر وجد طاری ہوگیا۔ جب آپ مرتبہ شہود اور تنزیہہ پر پہنچے تو صفات کثرت سے مجرد ہوکر آپ عین وجد کی حالت میں لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئے اور دیر تک لوگوں کے سامنے صرف آپکا پیراہن رقص کرتا ہوا نظر آرہا تھاا باقی کچھ نظر نہ آیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اُس وقت حضرت قطب العالم نے اذان دی جس سے انہوں نے عالم غیب سے عالم شہادت ک ی طرف رجوع کیا۔ اور لوگوں کو نظر آنے لگے۔ بعض کہتے ہیں کہ آعپ عین رقص کی حالت میں ہوا میں پرواز کر گئے اور آسمان کی طرف اس قدر اوپر تشریف لے گئے کہ نظروں سے غائب ہوگئے۔ بہر حال نور ذاتِ معشوق نور ذات عاشق پر اس قدر غالب آیا کہ عاشق کو اپنے جمال و جلال کے جلوؤں کے اندر م خفی کردیا بلکہ اس وقت شیخ رکن الدین عین نورِ ذات ہوگئے تھے۔ فھم من فھم چنانچہ جس طرح حضرت قطب العالم کے مکتوبات میں سے ہر مکتوب بحرِ ذات بے کنار کے اسرار و معارف کا گ نجینہ ہے اسی طرح حضرت شیخ رکن الدین کی تصنیف مجمع البحرین بھی حقائق و معارف ذات وصفات کا مجموعہ ہے۔ حضرت شیخ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقہ کی بیعت اگر چہ حضرت قطب العالم کے ساتھ تھی لیکن آپ نے تربیت حضرت شیخ جلال الدین تھانیسر اور حضرت شیخ رکن الدین سے حاسل کی۔ حضرت شیخ رکن الدین اک وصال یکم ماہ شوال عین عید فطر کے دن ہوا اور قصبۂ گنگوہ ہی میں اپنے والد ماجد کے آستانہ میں مدفو ن ہوئے۔
وصال باکمال: آپ کا وصال یکم شوال المکرم بروز عید الفطر971ھ کو ہوا۔ مزار پُر انوار والد گرامی کے پہلو گنگوہ شریف ضلع انبالہ انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔