حضرت شیخ سعد الدین الفرغانی
حضرت شیخ سعد الدین الفرغانی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ سعد الدین الفرغانی علیہ الرحمۃ
آپ اہل معرفت میں بڑے کامل اور اصحاب ذوق ودجدان میں بزرگ گذرے ہیں۔کسی شخص نے علم حقیقت کے مسائل کو ضبط و ربط کے ساتھ ان جیسا جو انہوں نے"شرح قصیدہ تائیہ فارفیہ" کے دیباچہ میں بیان کیا ہے"نہیں کیا۔پہلے اس کی فارسی عبادت میں شرح کی اور اپنے شیخ شیخ صدر الدین قونیوی کی خدمت میں پیش کی۔شیخ نے اس کو بہت بہت پسند کیا اور اس بارہ میں کچھ لکھا۔شیخ سعد الدین نے اس تحریر کو بعینہ تبرک و تیمن کے طور پر اپنی شرح فارسی کے دیباچہ میں درج کیا ہے اور دوبارہ اس کی تعلیم اور فائدہ کے پورا کرنے کے لیے اس کو عربی عبارت میں کردیا ہے اور نئے فائدے اس پر بڑھائے ہیں۔جزی اللہ عن الطالبین خیر الجزاء خدا ان کو طالبین کی طرف سے نیک جزا دے۔ان کی اور تصنیفات بھی ہیں۔جس کا نام"مناہج العبادالی المعاد مذاہب آئمہ اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین"کے بارہ میں عبادت اور بعض معاملات کے مسائل میں کہ اس طریق کے سالکوں کو اس سے گریز نہیں اور آداب طریقت میں کہ احکام شریعت کے تصحیح کے بعد راہ حقیقت پر چلنا"اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔صحیح یہ ہے کہ وہ کتاب نہایت ہی مفید ہےکہ ہر طلب و مرید کے لیے ضروری ہے۔وہاں لکھاہے کہ مریدوں کا مشائخ کی طرف منسوب ہونا تین طریقہ سے ہوتا ہے۔ ایک تو خرقہ سے۔دوم تلقین ذکرسے۔سوم صحبت و خدمت وادب سیکھنے سے خرقے دوہیں۔ایک تو خرقہ ارادت ہے اور اس کو سوائے ایک شیخ سے دوسرے سے لینا جائز نہیں اور دوم خرقہ تبرک ہے اور اس کو بہت مشائخ سے تبرک کے طور پر لینا جائز ہے۔اپنی ارادت کے خرقہ کے بارہ میں کہا ہے کہ میں نے شیخ نجیب الدین علی بزغش شیرازی علیہ الرحمۃ سے لیا ہے۔انہوں نے شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے اور انہوں نے اپنے چچا شیخ نجیب الدین سہروردی سے انہوں نے چچا قاضی وجیہ الدین سے انہوں نے اپنے باپ ابو محمد عمویہ اور اخی فرج زنجانی سے ہر ایک کا ہاتھ خرقہ کے پہنانے میں شریک ہے"لیکن ابو محمدﷺ نے احمد اسود دنیوری سے خرقہ پہنا۔انہوں نے ممشاد دینوری سے"انہوں نے ابو القاسم جنید سے"لیکن اخی فرج نے ابو العباس نہاوندی سے" اس نے عبداللہ خفیف شیرازی سے" انہوں نے ابو محمد رویم بغدادی سے"انہوں نے جنید رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے خرقہ کی نسبت کو ابو القاسم جنید سے بڑھ کر آگے ثابت نہیں کیا اور جنید سے مصطفٰی ﷺ تک صحبت کےساتھ نسبت دی ہے۔خرقہ کے ساتھ نہیں"لیکن شیخ مجدالدین بغدادی علیہ الرحمۃ"کتاب تحفہ البررہ"میں لکھتے ہیں کہ خرقوں کی نسبت پیغمبرﷺ تک صحیح حدیث متصل معنعن کے ساتھ ثابت ہےاور فرمایا ہے کہمصطفٰی ﷺ نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو خرقہ پہنایا ہے اور انہوں نے حسن بصری کو انہوں نے کمیل بن زیاد کو انہوں نے عبد الواحد بن زید کو انہوں نے ابو یعقوب نہرجوری کو انہوں نے عمروبن عثمان مکی کو انہوں نے ابو یعقوب طبری کو"انہوں نے ابو القاسم رمضان کو"انہوں نے خاص ابو العباس بن ادریس کو"انہوں نے داؤد خادم کو"انہوں نے محمدمائکیل کو"انہوں نے شیخ اسمٰعیل قصری کو" انہوں نے شیخ نجم الدین کبریٰ کو" انہوں نے مزین فقیر۔یعنی مجد الدین بغدادی کو۔پس اس بناء پر خرقوں کی نسبت مصطفٰی ﷺ تک متصل ہوگی۔واللہ تعالٰی اعلم"لیکن اس فقیر کے ذکر کی تلقین کی نسبت ۔یعنی شیخ سعید رحمتہ اللہ نے اپنے شیخ خرقہ شیخ نجیب الدین علی سے تلقین لی۔انہوں نے شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے"انہوں نے اپنے چچا شیخ ابو نجیب سہروردی سے"انہوں نے شیخ الشیوخ احمد غزالی سے"انہوں نے ابو بکرنساج سے"انہوں نے شیخ ابو القاسم گرگانی سے"انہوں نے ابو عثمان مغربی سے"انہوں نے ابو علی کاتب سے"انہوں نے ابو علی رودباری سے"انہوں نے سید الطائفہ جنید قدس اللہ تعالٰی ارواحہم سےاس کے بعد کہتے ہیں کہ نسبت ارادت اور نسبت تلقین ذکر میں دو شیخ سے خرقہ لینا برا ہے۔ہاں نسبت صحبت میں عمدہ ہے"لیکن بشرط اجازت یا شیخ اول کی صحبت کے فوت ہونے پر جیسا کہ یہ فقیر ضعیف شیخ نجیب الدین علیہ الرحمۃ کی خدمت و صحبت کے فوت ہونے پر مولانا وسیدنا وشیخنا صدرالحق والدین وارث علوم سید المرسلین علیہ الصلٰوۃ والسلام سلطان الحققین محمد بن اسحق قوینوی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہا اور ان کی صحبت وارشاد وہدایت و اقتباس"فضائل آداب ظاہری"باطنی علوم شریعت حقیقت سے تربیت پائی اور نہایت نفع حاصل کیا۔علٰی ہذا شیخ ربانی محی الدین محمد بن السکران بغدادی نور اللہ نفسہاوران کے ماسوا اوراکابر اولیاء سے تربیت حاصل کی اور نفع اٹھایا ہے۔ہر چند میں ان بزرگواروں کی خدمت و محبت کے حقوق کی رعایت سے عہدہ برآنہ ہوا"لیکن ان بزرگوں نے اپنے کرم سے اس بیچارہ کوحسن قبول وارشاد سے تلقین فرمایا"فجزاھم اللہ عنی احسن الجزاء پس اللہ تعالٰی ان کو میری طرف سے بہت عمدہ بدلہ دے۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے شیخ نجیب الدین رحمتہ اللہ علیہ سے سنا تھا کہ شمس الدین صفی جامع مسجد شیراز کے امام بڑے پاک نیک بخت بزرگ تھے۔ان کے تمام اوقات ذکر و تلاوت و طرح طرح کی عبادات میں ہی مشغول و آباد رہتے تھے"لیکن کسی سے ذکے کی تلقین نہ تھی۔ایک دن خواب میں اپنے ذکر کو جو نور کی صورت میں مشکل تھا"مشاہدہ کیا۔۔اس کے منہ سے جدا ہوتا تھا اور زمین میں جاتا تھا۔دل میں کہا کہ یہ علامت بہتر نہیں ہے۔کیونکہ قرآن شریف میں توالیہ یصعد الکلم الطیب ہے۔یعنی اس کی طرف پاک کلمہ پڑھتے ہیں۔جو اس کے برخلاف ہے۔شاید یہ نقصان اس لیے ہے کہ میں نے ذکر کی تلقین کسی شیخ سے حاصل نہیں کی۔پس شیخ روزبھان کے ایک مرید کی کدمت کی طرف رجوع کیا اور ان سے ذکر کی تلقین کی۔اسی رات واقعہ میں اپنے ذکر کو ایسے نور میں مشاہدہ کیا کہ ادھر کو جاتا ہے اور آسمانوں کو پھاڑتا ہے۔اس کے بعد شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردیؒ کی خدمت میں گئے اور پہنچا"جو کہ پہنچا۔
(نفحاتُ الاُنس)