آپ شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی قدس سرہ کے خلیفہ اعظم تھے حضرت سلطان المشائخ کے منظور نظر تھے، آپ کے والد ماجد ایک بہت بڑے تاجر تھے، مگر حضرت نظام الدین محبوب الٰہی کے عقیدت مند تھے، بڑھاپا آگیا، مگر آپ کے ہاں اولاد نہ ہوئی، آپ اولاد کی محرومی کو اکثر محسوس کرتے تھے، ایک دن حضرت خواجہ نظام الدین حالت وجد میں تھے کہ آپ نے اولاد کے لیے سوال کردیا، حضرت شیخ نے اپنی پشت ان کی پشت سے لگادی، اور خوشخبری دی کہ اللہ تمہیں بیٹا دے گا ان کی منکوحہ بھی ضعیف ہوچکی تھی، مگر قدرت خداوندی سے اسی رات حاملہ ہوئی اور نو ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا، جس کا نام صدرالدین رکھا گیا، والد نومولود کو اٹھا کر حضرت کی خدمت میں لے گیا، آپ نے اٹھایا گود میں بٹھایا، چہرے سے کپڑا ہٹایا اور اپنے ہاتھ سے خرقہ تیار کرکے پہنایا، اور شیخ نصیرالدین کی گود میں دے کر کہا کہ ا س بچے کی ظاہری باطنی تعلیم و تربیت میں پوری پوری کوشش کرنا چنانچہ آپ کو حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی نے پرورش کی اور کاملین وقت سے بنادیا۔
آپ بڑے فصیح و بلیغ قلم و زبان کے مالک تھے۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں جو معارف و حقائق پر مشتمل ہیں، آپ علم طب میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔
کتابوں میں لکھا ہے ایک بار حضرت شیخ صدرالدین کو پریاں اٹھا کر لے گئیں، ان کی ایک شہزادی پری سخت بیمار تھی جو کسی علاج سے صحت یاب نہیں ہوئی تھی، یہ اٹھا کر آپ کو کوہِ قاف میں لے گئیں جب تک وہ پری صحت یاب نہ ہوئی آپ کو وہاں ہی رکھے رکھا، آخر انہیں اٹھاکر جہاں سے لے گئیں تھیں لا رکھا، اور آپ کے ہاتھ میں ایک خط دے دیا، اور کہا کہ آپ فلاں شہر کی فلاں گلی میں ایسے رنگ اور شکل کا کتا رہتا ہے یہ خط اسے دکھا دینا حضرت شیخ نے ایسے ہی کیا کتے نے خط کو دیکھا تو آپ کے آگے آگے ہولیا اور شہر کے باہر ایک جگہ لے گیا اور ایک مقام سے زمین کھودنا شروع کردی زمین سے ایک پرانہ خزانہ برآمد ہوا، شیخ وہاں سے بے پناہ دولت اٹھا لائے اور غریبوں میں تقسیم کرتے رہے۔
شجرۂ چشتیہ میں آپ کا سال وصال ۷۵۹ھ لکھا ہے۔
رفت چوں از جہاں بخلد بریں
شیخ اہل یقین صدرالدین
شاہ جنت بگو تواریخش
ہم بخواں شاہ دین صدر دین
۷۵۹ھ