حضرت شیخ صدرالدین حکیم
حضرت شیخ صدرالدین حکیم (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے اجلاء خلفاء میں سے تھے علاوہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے منظور نظر تھے، آپ کے والد بزرگوار ایک بڑے تاجر تھے، اور خواجہ صاحب کے معتقدین میں سے تھے، ان کی عمر تقریباً بڑھاپے تک پہنچ چکی تھی اور اس عرصہ میں ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی (جیسے عموماً لوگوں کو اولاد کے نہ ہونے کا قلق ہوتا ہے) ان کو بھی اس کا قلق اور افسوس تھا، ایک دن خواجہ نظام الدین پر حال کی کیفیت طاری ہوئی تو اسی عالم میں خواجہ صاحب نے اپنی پیٹھ ان کے والد بزرگوار کی پیٹھ سے رگڑی اور فرمایا کہ جاؤ تمہارے لڑکا ہوگا آپ نے چونکہ خواجہ صاحب کے نہایت ہی عقیدت مند تھے اس لیے بچے کی خواہش میں اپنی بیوی کے پاس گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ عزوجل کے حکم سے ان کی بیوی کو حمل ہوگیا، جب صدرالدین پیدا ہوئے تو ان کے والد ان کو خواجہ صاحب کے پاس لے گئے چنانچہ شیخ نے انہیں اپنی گود میں لے لیا، جب تک صدرالدین خواجہ صاحب کی گود میں رہے تو خواجہ صاحب کے چہرے ہی کو دیکھتے رہے، صدرالدین کی آنکھوں سے اس وقت شعور کے اثرات مترشح ہو رہے تھے جس کا حاضرین نے بھی احساس کیا، پھر خواجہ صاحب نے اپنی قیاس سے تھوڑا سا کپڑا پھاڑ کر صدرالدین کا کُرتہ سیا، اور ان کو شیخ نصیرالدین دہلوی کے سپرد کردیا، اور آئندہ چل کر ان کے عظیم المرتبت اور رفیع الدرجت بزرگ ہونے کی پیش گوئی بھی کردی۔
شیخ صدرالدین نے چند کتابیں لکھی ہیں جن کی عبارت نہایت شستہ اور عمدہ ہے، جن میں معارف، حقائق، وعظ و پند اور حکمت کی باتوں کو بیان کیا ہے، علاوہ ازیں صدرالدین فن طب میں بھی بے انتہا مہارت و کمال رکھتے تھے حکیم صدرالدین کو ایک مرتبہ پریاں اڑا کر کہیں لے گئیں تاکہ ان سے ایک بیماری پری کا علاج کرائیں، اللہ تعالیٰ نے دستِ فیض سے اس پری کو صحت اور شفا عطا فرمائی، تو آپ جب واپس ہونے لگے تو اس پری نے حکیم صدرالدین کو لکھ دیا اور کہا کہ فلاں گلی میں جو ایک کتا پڑا رہتا ہے یہ خط اس کو دکھا دینا، چنانچہ حکیم صاحب اس پتہ پر اس گلی میں پہنچے اور وہاں اس کتے کو وہ خط دکھایا تو وہ کتا آپ کے آگے آگے چلنے لگا، کچھ فاصلہ کے بعد وہ کتا ٹھہر گیا اور زمین کُریدنے لگا۔ حقیقۃً وہاں ایک بہت بڑا خزانہ دفن تھا جس کی وہ کتا نشاندہی کر رہا تھا مگر صدرالدین نے دوسرے درویشوں کی طرح بلند ہمتی کا ثبوت دیا اور اس خزانے کی طرف مطلقاً کوئی توجہ نہ دی، آپ کا مزار پرانی دہلی میں قلعہ علائی کے اندر ہے، آپ کے خطوط حقائق اور معارف سے لبریز ہوا کرتے تھے۔
مکتوب (عقبات کے بیان میں)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائی! اللہ رب العزت ہر دو عالم میں آپ کو معزز بنائے، آپ کے مقاصد حل کرے اور آپ کا انجام بہتر کرے، عقبات کے متعلق مجھے تو کچھ خبر نہیں اس کو تو کوئی کامل پیر ہی جانتا ہوگا، لیکن آپ نے دریافت کیا ہے اس لیے عرض ہے کہ عقبہ اولیٰ، تو معاسی اور جرائم ہیں اور اللہ تعالیٰ دیکھنے والا اور مافی الضمیر چیزوں سے آگاہ اور خبردار ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت عزوجل ہے۔
کان، آنکھ، دل تمام کے تمام اللہ کے دربار میں یہی سوال کیے جائیں گے۔
اور حدیث شریف میں آتا ہے (کہ اگر تو اللہ کو نہیں دیکھتا تو اس بات کا یقین کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے)
اس بات کا ہمیشہ خیال رکھو، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، موت انتظار کر رہی ہے اس لیے تمنائیں اور آرزوئیں حتی المقدور کم سے کم کردو اگر آپ نے اس پر دوام اختیار کرلیا تو آپ پر شرم و حیاء غالب رہے گی اور دشمن (نفس و شیطان) مغلوب ہوجائے گا۔
اور دوسرا عقبہ پیٹ اور فرح کی شہوت ہے جو فی الواقع شیطانی معجون ہے اس کی وجہ سے شیطان ابن آدم کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ اس کے راستوں کو تنگ کرنے کے لیے بھوک اور پیاس کا نسخہ استعمال کرے اور اس بھوک سے جو فرحت و راحت آنے والی ہے دل کو اس سے خوش رکھے، صدیقین کا سمجھانا بھوک ہے تو بھی اسی دستر خوان سے یہی حاصل کر اور روزے کے کوثر سے پانی پی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ روزے کی جزاء میں ہوں ان چیزوں سے اس کا علاج کر تب شفاء پائے گا۔
تیسرا عقبہ یہ ہے کہ اپنی ذات اور اپنے دیگر اسلامی بھائیوں کی ہلاکت وغیرہ کا کوئی غم نہ کرو، اور اگر فطری اور طبعی اعتبار سے کبھی غم آئے تو اس کو یہ آیت پڑھ کر دور کردیا کرو۔
جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور رسول کے لیے ہجرت کرکے نکلے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم ہوگیا۔
اور اس بات کا بھی یقین کرلو کہ زندگی اور رزق مقرر اور مقسوم ہے جو دوڑو دھوپ کرنے سے کم و بیش نہیں ہوتا، جب رزق بلا کسی شرط کے ملتا ہے تو پھر کیا ہی بہتر ہو کہ انسان اپنی عمر کو اللہ کی عبادت میں گزار دے اور سلوک کی آخری منزل تک رسائی حاصل کرے، امیر و غریب سب اسی کے بندے ہیں وہ سب کو رزق دیتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔
کوئی جاندار زمین میں ایسا نہیں جس کو اللہ رزق نہ دے۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔
ہم تمہیں اور تمہاری اولاد کو رزق دیتے ہیں۔
دوسری جگہ قسم یاد فرما کر فرماتا ہے۔
آسمان اور زمین کے رب کی قسم رزق دینا ہمارا حق ہے جس طرح کہ تم کہتے ہو۔
میرے باہمت اسلامی بھائی! جو اس بات کا یقین نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں بلکہ کافر ہے رزق ملنے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کے کام کرو اور اللہ کے لطف و کرم پر مکمل بھروسہ رکھو اور اپنے کو ہیچ اور ناکارہ سمجھ کر تمام مخلوق سے مایوس اور نا امید ہوجاؤ، اور اس بات کا یقین کرو کہ دو غم ایک دل میں اور دو تلواریں ایک نیام میں جمع نہیں ہوسکتیں۔
ایک بزرگ نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر موتی میں لاکھوں خوبیاں ہوں اور تمام مخلوق میری عیال ہوجائے تو اللہ کی قسم میں ان کی جانب کوئی توجہ نہ کروں گا چوتھا عقبہ یہ ہے کہ فرائض اور سنتوں پر اکتفا کرکے نوافل کو ترک نہ کرو، سرکار مدینہ راحتِ قلب و سینہ فیضِ گنجینہ صاحبِ مُعطر پسینہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
بندہ میرا مقرب نوافل کی وجہ سے بنتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں اور جب محبوب بنالیتا ہوں تو پھر میں اس کا کان، آنکھ، ہاتھ اور زبان بن جاتا ہوں پس وہ میری آنکھ سے سنتا اور دیکھتا ہے اور میرے ہاتھ سے پکڑتا ہے اور میری زبان سے بولتا ہے۔ (حدیث قُدسی)
بے نمازوں سے کہو کہ اللہ عزوجل نے ہم پر نماز پنج گانہ فرض فرمائی ہے اور پنج گانہ نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، اور نماز میں اس بات کا خیال رکھنا فرض عین ہے کہ ہم اللہ کے ہاں حاضر ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے،
حُضُورِ قلب کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی۔
اور یہ حضور قلب پنج گانہ نماز میں از اول تا آخر ضروری و لابدی امر ہے جیسا کہ نماز کے مکتوب میں ان شاء اللہ اس کو مکمل تحریر کروں گا اور اگر کسی فرض کفایہ سے فرض عین میں خلل واقع ہوتا ہو تو اس فرض کفایہ کو ترک کردینا چاہیے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عبادت لازمیہ سے عبادت متعدیہ بہتر ہے ان کو جواب دو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں دین دار اپنے دین کو محفوظ نہیں رکھ سکے مگر ایک بلندی سے دوسری بلندی تک اور ایک بستی سے دوسری بستی تک راہِ فرار کرے گا، تاکہ دین محفوظ رہ سکے، جب کسی پر ایسا زمانہ آجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ عبادت خاصہ یعنی عبادت لازمہ پر ہی اکتفا کرے (اس میں اس کی خیریت ہوگی ورنہ بے دینی کے سیلاب کی متلاطم موجوں میں دوسرے کی مانند یہ بھی بہہ جائے گا) قرآن کریم میں ہے،
اے ایمان والو! تم پر اپنے نفسوں کو بچانا ضروری ہے۔
پانچواں عقبہ یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ انسان مال و دولت اور عزت و شان کے بغیر حقیر و ذلیل سمجھا جاتا ہے تو ان کے سر پر
(عزت تو حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے) کی تلوار مارو اور ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہٗ کی تیغ ان کے سینہ پر مارو اور بکاف عبدہ کا خنجران کے گلے میں گھونپ دو، یہ ان کے لیے کافی ہوگا، اور پھر یہ کہو کہ اپنی ہستی کو دیکھو اور مستی نہ کرو۔
بادوست کنج فقر بہشت است و بوستاں
بے دوست خاک برسرجاہ و توانگری
چھٹا عقبہ یہ ہے کہ اگر آپ کے دوست متعلقین اور اہل و عیال اپنے اخراجات میں اضافہ کا مطالبہ کریں تو ان کو قرآن کریم کا یہ کھلا اور صاف حکم سنادو۔
اپنی ازواج سے کہہ دیجیے کہ اگر تم کو دنیاوی زیب و زینت درکار ہے تو آؤ میں تم کو سامان اور نان و نفقہ دے کر اپنے گھر سے رُخصت کردوں، اور اگر تم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ و آخرت کی بھلائیاں درکار ہیں تو پھر اس بات کا یقین کرلو کہ اللہ نے تم جیسی نیک عورتوں کے لیے اجر عظیم مقرر کیا ہے۔
اور ان کا مطالبہ اگر حد سے بڑھ جائے اور وہ اپنے مطالبہ سے باز نہ آئیں تو انہیں مہر دے کر رخصت کردو، اور اگر خود نہیں مہر ادا کرسکتے تو کسی سے قرض لے کر ادا کردو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اپنے کو جیل کے حوالہ کردو اور جیل خانہ کی تنہائیوں میں خوش رہو، لیکن اتنی بات اور بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر سالک اور صوفی اپنے کام میں سچا ہے تو اس کے اہل و عیال لازماً اس کی رائے سے اتفاق کریں گے اور بالاخر وہ لوگ بھی اسی کا راستہ اختیار کریں گے اور اس کی صحبت کی برکات سے اہل و عیال کے علاوہ دوسرے رشتہ دار بھی فیضیاب ہوں گے۔
ساتواں عقبہ یہ ہے کہ خدا نخواستہ اگر تمہارے والدین تمہیں شرک کرنے پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات ہرگز نہ مانو،ا گرچہ یہ عدم تسلیم بھی شرک خفی ہے مگر رب العزت اس کو معاف کردے گا اس لیے کہ تم نے والدین کو ادب اور نرمی سے جواب دو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو ادا کرنے میں ہمیشہ چاق و چوبند رہو اور اگر اس پر رشتہ دار وغیرہ اعتراض کریں تو ان سے کہو۔
نہ ہمر ہی تو مراراہ خویش گیرو برو
تراسعادت بادا مرانگونساری
اسلامی بھائی! جو شخص تمہیں اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے منع کرے وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن کی بات پر کبھی توجہ نہ دیا کرو،
آٹھواں عقبہ یہ ہے کہ فضول محنت و مشقت اور بے وقت کی ریاضت و مجاہدہ کے لیے مرشد کی ضرورت ہے تاکہ اس محنت و ریاضت پر کوئی ثمرہ مرتب ہوسکے، اللہ کی رضا مندی کے لیے جو مواقع پیش آتے ہیں انہیں مرشد ہی جانتا ہے اور ان موانعات کو ایمان و یقین کے ذریعہ دور کرتا ہے۔
نواں عقبہ یہ کہ لوگوں کے اعتقادات کی اچھے اخلاق اور تواضع سے اصلاح کرو اور ان کے اندر اللہ کے رو برو عاجزی و انکساری کرنے کی قوت پیدا کرو، اور ساتھ ساتھ اپنی ذات کو ایک مُردہ کی مانند تصور کرو اور دیگر مخلوق کو پتھر اور مٹی کے ڈھیلے کی مانند سمجھو اور اس بات پر کامل یقین رکھو کہ اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی نفع و نقصان مارنے اور زندہ کرنے کا مالک نہیں ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب انسان عاجز و لاچار ہے تو وہ دوسروں کو نفع یا نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے اور یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ کسی کو اپنے انجام کی خبر نہیں تو پھر کیا معلوم کہ کس کی طاعت و عبادت قبول ہو اور کس کی مردود، اور سب اعمال اللہ کی توفیق ہی سے ہوتے ہیں، ان باتوں کو اپنے دل کی تختی پر لکھ لو تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ تمہیں تمام مصائب سے محفوظ رکھیں۔
باہمت اسلامی بھائی! یہ راستہ بڑا لمبا اور طویل ہے اس کو تقریر و تحریر کے ذریعہ طے نہیں کیا جاسکتا، میں اس سے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس راستہ کو طے کرنے کے لیے مرشد کامل کی ضرورت ہے وہ سوچ سمجھ کر تمہیں اس راہ پر چلائے گا، اور دراصل بات تو یہی ہے کہ سب چیز کی توفیق اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے اس لیے تمام تعریفیں دو جہانوں کے پالنے والے کے لیے ہیں اور درود و سلام ہوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات اور آپ کی آل و تمام اصحاب پر والسلام۔
اخبار الاخیار