نام صدرالدین اور کنیت ابوالمعالی ہے۔ حضرت غوث الاعظم کے بہترین مریدوں سے تھے (صاحبِ سفینۃ الاولیاء شیخ محی الدین ابن العربی کے ارشد مریدوں سے لکھتے ہیں) علومِ ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔ فقہ و حدیث میں یکتائے زمانہ تھے۔ زہدو تقویٰ اور ریاضت و مجاہدہ میں مقامِ بلند پر فائز تھے۔ مولانا قطب[1] الدین علامہ علمِ حدیث میں آپ کے شاگرد تھے۔ کتاب جامع الاحوال خود لکھ کر اُن کے سامنے پڑھی تھی اور اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ اُس وقت کے اولیائے کرام نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اخدِ فیض کیا ہے۔ شیخ سعد[2]الدین حموی اور مولانا جلال الدین[3] رومی سے خاص روابط تھے۔ ۶۳۰ھ میں وفات پائی۔
صدر دین صدرِ اولیائے کرام وصل او ہست آفتابِ علوم ۶۳۰ھ
|
|
شد ز دنیا چو در بہشت بریں نیز والیٔ صدق صدرالدین ۶۳۰ھ
|
[1]۔ جامع منقول و معقول۔ علامۂ عصر اور وحیدالدہر تھے۔ بڑے بڑے علمأ نے آپ سے اکتسابِِ فیض کیا تھا۔ کتابِِ شرح شمیسہ جو قطبیہ کے نام سے مشہور ہے آپ کی بلند پایہ تصنیف ہے۔ ۷۱۰ھ میں وفات پائی۔
[2]۔ محمد بن موید بن ابی بکر نام ، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہٗ المتوفیٰ ۶۱۸ھ کے کامل و اکمل خلفأ سے تھے۔ علوم ظاہری و باطنی میں یگانۂ روز گار تھے۔ صاحبِ تصانیف ہیں۔ سجل الارواح آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ ۶۵۰ھ میں وفات پائی۔
[3]۔ محمد نام، جلال الدین لقب تھا۔ سلطان العلماء حضرت مولانا بہاؤالدین المتوفیٰ ۶۲۸ھ کے نامور فرزند تھے۔ سِلسلۂ نسب حضرت ابوبکر صدیق تک پہنچتا ہے۔ اصل وطن بخارا تھا۔ خطۂ روم (ایشیائے کوچک) میں نشو نما پائی تھی اس لیے رومی مشہور ہوئے۔ علومِ ظاہری و باطنی اپنے والد ماجد سے حاصل کیے۔ حضرت محمد شیخ شمس الدین تبریزی قدس سرہٗ المتوفیٰ ۶۴۵ھ سے بھی اخدِ فیض کیا۔ آپ کی مثنوی جو مثنوی مولانا روم کے نام سے مشہور ہے۔ دنیا کی مقبول ترین اور مشہور ترین کتاب ہے۔ اس مثنوی میں جس قدر حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں۔ کسی شاعرو فلسفی کے کلام میں نہیں پائے جاتے۔ مولانا اپنے زمانے کے بے نظیر عالم اور بے مثال صوفی و متکلم تھے۔ زہدو تقدس، ریاضت و مجاہدہ، علم و عمل اور ذوق و شوق میں یگانۂ روزگار تھے۔ ۶۷۰ھ میں وفات پائی۔ مزار قونیہ میں زیارت گاہِ خلق ہے علامہ اقبال مرحوم آپ کے کلام و فلسفہ سے بے حد متاثر تھے اور مرشدِ رومی کہا کرتے تھے۔