حضرت شیخ سیف الدین
حضرت شیخ سیف الدین (تذکرہ / سوانح)
مجھ مصنف کتاب اخبار الاخیار کے والد ماجد تھے، آپ اپنے پیرومرشد شیخ امان سے نہایت درجہ محبت و اعتقاد رکھتے تھے، اکثر اوقات اُن کے ذکر سے رطب اللسان رہتے تھے اور فرماتے کہ ہمارے پیرومرشد کسی حالت میں بھی وجد و حال گریہ و زاری اور جوش سے خالی نہیں رہتے تھے، آپ کے تمام دوست احباب آپ سے اس طرح ملتے تھے، جس طرح شاگرد اپنے استاد سے ملتے ہیں بخلاف اس کے والد بزرگوار کو آپ سے محبت کے ساتھ ارادت بھی تھی، والد بزرگواز فرماتے تھے کہ میری عمر سات برس کی تھی اس وقت سے مجھ کو درویشوں کا درد طلب اور شوق بندگی ہے، فرماتے تھے کہ میں بہت سے درویشوں کے پاس پہنچا لیکن شیخ امان کے یہاں مقصد پورا ہوا اور پیرومرشد کے ذریعہ سے جو قلبی لگاؤ حاصل ہوا وہ کسی اور سے میسر نہیں ہوا اس وجہ سے پیرومرشد نے والد بزرگوار کو اپنی عنایات کے ساتھ مخصوص کرکے خرقہ خلافت پہنادیا اور پہلے اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھا جس میں مسودۂ خلافت اور مختلف اقوام کے علوم بھی تحریر کئے اور یہ سب کچھ میرے حوالہ کردیا نیز والد نے شغل قلب جس کو سجدۂ قلب کہتے ہیں آپ سے حاصل کیا اور کتب تصوف سے بعض مقامات جو ضروری تھے راہ تصوف کے لیے شیخ سے پڑھا، میرے والد ماجد نے پہلے کسی سہروردی بزرگ سے بیعت کی تھی لیکن جب شیخ امان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کی محبت غالب آگئی تو والد ماجد نے عرض کیا کہ میں پہلے بیعت کرچکا ہوں لیکن آپ کی محبت غالب ہے اب بتائیے کیا کیا جائے، شیخ امان نے جواب میں فرمایا کہ کوئی پرواہ نہیں ہے اس لیے کہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے محبوب سے تعلق رکھے اور اس دنیا میں محبت و الفت کا اعتبار صحیح ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اچھا اپنے حالات و تصورات سے کچھ بیان فرمائیے، میں نے جواب میں عرض کیا کہ میرا کوئی حال نہیں ہے اس لیے میرے تصورات و حالات کیا ہوں گے۔
شیخ نے فرمایا کہ میں نے اس لیے پوچھا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آپ کی طبیعت کا میلان کس طرف ہے، میں نے جواب میں عرض کیا کہ مجھے اکثر اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے عرش تک تمام عالم میرے احاطہ میں ہے اور میں سب پر محیط ہوں، شیخ نے فرمایا کہ تمہارے اندر تخم توحید موجود ہے، اس کے بعد شیخ نے میری تربیت کی اور تلقین فرمائی، ایک رات آپ نے مجھے اپنی خاص خلوت گاہ میں طلب فرمایا اور کہا کہ ایک راستہ وہ ہے جس سے دو قدم میں اللہ تک رسائی ہوجاتی ہے اور ایک راستہ وہ ہے جس سے ایک ہی قدم میں اللہ تک پہنچ جاتے ہیں جس کی حقیقت یہ ہے کہ وجود ہو یا عدم۔ رہا عدم جو دراصل کوئی چیز ہی نہیں ہے، اس لیے صرف وجود ہی رہ جاتا ہے اور وجود ہی حق ہے اور اسی راستہ سے ایک قدم میں اللہ تک رسائی ہوجاتی ہے اور اسی کو سجود قلب کہتے ہیں، اس کے بعد فرمایا کہ پانی پر چلنا، ہوا میں اُڑنا، آگ میں کودنا یہ سب چیزیں تو باآسانی حاصل ہوجاتی ہیں، لیکن سجود قلب مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔
کتاب کے خاتمہ پر ان شاء اللہ تعالیٰ والد ماجد کے حالات و کلمات تحریر کئے جائیں گے، اب شیخ امان کے رسالہ اثبات احدیث کی کچھ عبارت نقل کرتا ہوں، انہوں نے رسالہ کی ابتداء میں لکھا ہے کہ محققین عرفاء، دور نگاہ رکھنے والے، وحدت وجود کے قائلین، اور فائزان سعادت و معرفت و شہود کا ارشاد ہے کہ ہم کو کشف وجدان کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقت وجود کا عین ہے اور تمام موجودات کے ساتھ ظاہرومشہود ہے، بعض صوفیوں نے وحدت الہی کو نئے زاویہ نگاہ سے سمجھا اور انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔
صوفیائے کرام کی دو قسمیں ہیں جن کے نظریات کے نتائج علیحدہ علیحدہ سپرد قلم ہیں تاکہ حق و باطل اور ناقص و کامل میں فرق ہوسکے، جان لوکہ جناب مولانا جلال الدین رومی نے اپنی رباعیات کی شرح میں لکھا ہے کہ بعض قاصروں نے جب محققین سے یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ عین ذات وجود ہے تو یہ مطلب سمجھے کہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کے درمیان جامعیت مشترکہ رکھتا ہے اور جب انہوں نے علمائے عقلیہ سے یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ کلی طور پر موجود نہیں ہے بلکہ ضمن افراد میں موجود ہے تو اس سے یہ معنی اخذ کیے کہ اللہ تعالیٰ موجود نہیں ہے مگر ضمن افراد ممکنات میں اس کا وجود ممکنات کے وجود پر موقوف ہے۔ اس کی صفات کا انحصارف ممکنات کی صفات میں ہے یعنی جس طرح انسان گفتگو کرتا ہے اسی طرح اللہ عزوجل گفتگو کرتا ہے، غرضیکہ یہ لوگ جہالت اور گمراہی میں ہیں اس کے بعد کہتے ہیں کہ مجھے اس قسم کے لوگوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا ہے جب انہوں نے یہ کہا کہ وجود باری تعالیٰ منحصر ہے ضمن وجود کائنات میں، اور اللہ کا علم و کلام منحصر ہے ممکنات کے علم و کلام میں تو میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا ہے کہ آپ کے اس قول سے لازم آتا ہے کہ بعض ممکنات حق کو معلوم ہوجائے اور بعض معلوم نہ ہوں جیسے بارش کے قطرات اور ریگستان کے ریت کے ذروں کی تعداد کسی انسان کو معلوم نہیں ہے اور تمہارے دعویٰ کے پیش نظر لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے جاہل رہے اور نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ ممکنات خود بخود پیدا ہوگئے ہیں بغیر موجد کے اس لیے کہ ممکنات کے لیے موجد سوائے حقیقت وجود کے اور کوئی چیز نہیں بن سکتی ہے اور حقیقت وجود کو انہوں نے امر مشترک تسلیم کیا اور جو برا نتیجہ اس سے نکلتا ہے یہ لوگ اسے سے بے خبر رہے۔
ان لوگوں نے جو یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ متعین نہیں ہے ورنہ ذات باری کا مشخص ہونا لازم آتا ہے، یہ صحیح نہیں ہےاس لیے کہ ہر موجود جو کسی وجود سے موجود ہوتا ہے چاہے اس کا وجود حقیقی ہو یا اعتباری، عینی ہو یا علمی، لفظی ہو یا خطابی بغیر تعین کے نہیں ہوتا ہے اس لیے کہ موجود کے لیے تمیز و امتیاز ضروری ہے اور تمیز و امتیاز متلزم ہے تعین کو، پس لامحالہ ہر موجود کے لیے تعین ضروری ہے خواہ تعینات مطلقہ ہو اس طرح پر کہ اس کا تعین شرکت تعینات عالم سے مانع نہ ہو، جیسا کہ حقیقت مطلقہ کہ سارے حقائق عالم کا اصل ہے اور سب پر صادق آتا ہے، اگرچہ فی نفسہ متعین ہے خواہ اخص تعینات کے ساتھ ہو، یعنی اس کا تعین شرکت غیر سے مانع ہو جیسے تعین زید و عمر، ان کا تعین سوائے ان کے اور کسی چیز پر صادق نہیں آتا ہے۔ چاہے اعم من وجہ واخص من وجہ کے ساتھ ہو مانند حقائق کلیہ متوسطہ کے کہ وہ حقیقت سے زائد ہوں یا عین حقیقت ہو، راز اس میں یہ ہے کہ ہر موجود جسمی ترکیب ہے اس کا تعین و امتیاز حقیقت سے زائد ہے جیسا کہ مثال کے طور پر اگر موجود قائم بذاتہ ہو تو اس کو جوہر کہتے ہیں اور اگر قائم بذاتہ نہ ہو تو اس کی عرض کہتے ہیں، بلاشک اس کا تعین و امتیاز ان کی حقیقت مشرکہ سے زائد ہے اور وہ موجود جسمی ترکیب نہیں ہے بلکہ واحد بوجدہ حقیقی ہے اس کا تعین عین حقیقت ہے اگر ایسا نہ ہوتو وہ واحد نہیں رہے گا جبکہ وہ واحد ہے پس لا محالہ غیر ذات موجود بنفسہ قائم بذات متعین بنفسہ نہیں ہوتا ہے لیکن وہ ذات جس کو وجود مل جائے اسے اپنی ذات سے تمیز و امتیاز مل جاتا ہے اور وہ قائم بنفسہ و متعین بذاتہ ہوتا ہے یعنی اس کا وجود عین ذات ہے اور ذات خود بخود متعین ہے اس قسم کا وجود سوائے وجود مطلق اور ذات باری تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے، وجود حق تعالیٰ عین ذات باری تعالیٰ ہے اسی طرح تعین بھی عین ذات ہے، اس مقام میں تعین اپنے نفس میں وہی فائدہ دے گا جو تعین خارجی خارج کے اندر قائم دیتا ہے۔
محققین علیہم الرحمۃ فرماتے ہیں، یہ ظاہر ہے کہ موجودات متعینہ کا سلسلہ غیر متعین تک پہنچتا ہے، چونکہ ہر متعین مسبوق ہے بلا تعین کے ساتھ اور ہر متعین چاہتا ہے کہ پہلے کوئی غیر متعین ہو اس لیے کہ تعین کے لیے ایک مبداء و محل کی ضرورت ہے جس کو وہ عارض ہو لا محالہ کوئی غیر متعین ہوگی اور اس غیر متعین کو عارض ہوں اس لیے کہ یہ قانون ہے کہ ثبوت فرع ہے وجود مثبت لہٗ کا، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماہیات قطع از تعینا و تمیزات سے موجود نہیں ہے، تاکہ ان کو کوئی چیز عارض ہوسکے بلکہ ماہیت نام ہے اعراض و تعینات کے لیے چنانچہ اس کو ہم دلال سے واضح کرتے ہیں کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں جب حقائق موجودات کو تحلیل کیا جاتا ہے توبجز اعراض کے اور کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی ہے، مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے کہ انسان حیوان ناطق ہے، ناطق و حیوان جسم نامی ہیں جو متحرک بالا رادہ ہیں اور جسم ایک ایسا جوہر ہے۔ جو ابعاد ثلاثہ کو قبول کرتا ہے اور جوہر موجود فے الموضوع ہے اور جوہر کے لیے تحقق وحصول ثابت ہے، اس وقت اس میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے وہ قبیل اعراض میں سے ہے بخلاف اس ذات مبہم کے جو ان میں موجود ہے جیسا ناطق میں مبہم ہے ذات من لہ نطق اور نامی میں ذات من لہ نمو ہے یہ اپنے وجود پر قائم ہے، اگر ایسا نہ ہو تو اعراض اس کے ثابت نہیں ہوتے ہیں حالانکہ یہ سارے کے لیے معروض ہے،لا محالہ یہی ذات پر قائم ہے اور اعراض کے لیے مفہوم ہے اور ہر تعین کے ساتھ اس کا علیحدہ ایک نام و احکام و آثار ہے۔
صوفیہ کے نزدیک ذات مبہم موجود خارجی ہے اور مطلق حقیقی ہے اس میں کسی قسم کا تعین و تعدد و تکثر ممکن نہیں ہے ورنہ مسبوق بلا تعین لازم آتا ہے غرضیکہ وجود مطلق نہ کلی ہے نہ جزی، نا عام ہے نہ خاص نہ واحد ہے نہ کثیر، نہ مطلق ہے نہ مقید بلکہ سارے قیودات سے مطلق ہے حتیٰ کہ قید اطلاق سے بھی اگر مقید کیا گیا قید اطلاق سے مراد ضد تقید نہ ہو بلکہ مطلق ہوکر کثرت و وحدت سے اور جمع بین لا طلاق و تقید سے، اس صورت میں نسبت ثبوتیہ اور سلبیہ برابر ہوں گی، اس کو کشف صریح اور ذوق صحیح سے تسلیم کیا جاتا ہے باقی عقل جمع بین اضداد کا منکر ہے اس موجود حقیقی میں سارے اضداد مجتمع ہیں اور ایک دوہرے کے عین ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محکوم علیہ نہیں بن سکتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ نسبتوں کا اس کی حقیقت میں کوئی دخل نہیں ہے، اگرچہ خارج میں ان کے ذریعہ سے موجود ہوتا ہے جیسا کہ اہل ظاہر نے کہا ہے ماہیات کے متعلق کہ نہ وہ کلی ہیں نہ جزی اس کا معنی یہ ہیں کہ نسبت کلی و جزی کو ماہیت میں کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ نسبت زائد ہے اگر اس کے ساتھ کلی کو اعتبار کیا جائے تو کلی ہوجائیں گی اوراگر جزی کو اعتبار کیا جائے تو جزی ہوگی، اور اگر کسی بھی نسبت کو اعتبار نہ کیا جائے تو موجود جامع بین اضداد ہوگا اس صورت میں نہ وہ اول ہے نہ آخر نہ ظاہر ہے نہ باطن، اول بھی ہے آخر بھی، ظاہر بھی ہے باطن بھی، اول اس جہت سے کہ آخر ہے اور آخر اس جہت سے کہ اول ہے اور ظاہر اس حیثیت سے کہ باطن ہے اور باطن اس وجہ سے ہے کہ ظاہر ہے یہی حال دیگر اضداد کا ہے۔
سوال۔ یہ بات مشہور ہے کہ جو چیز خارج میں موجود ہوتی ہے وہ متعین ہوتی ہے اور جو چیز متعین ہوئی وہ مطلق نہیں ہوسکتی اس قاعدہ کے ماتحت ذات باری تعالیٰ خارج کس طرح مطلق ہوسکتی ہے؟
جواب: مطلق کے وہ معنی مراد نہیں ہیں جو فلسفی کہتے ہیں بلکہ مطلق سے مراد یہ ہے کہ وہ اس قسم کا تعین ہے جو دوسرے تمام تعینات کے منافی نہیں ہے بلکہ جامع ہے سارے تعینات کو جو اسے لاحق ہوتے ہیں مراتب تنزلات میں اور اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ مطلق نے نفسہ متعین نہ ہو ایسے تعین کے ساتھ جو کلیہ و اطلاق سے خارج ہو بلکہ وہ اپنی ذات و حقیقت کے اعتبار سے خارج میں متعین ہے اور دیگر تعینات کے اعتبار سے مطلق ہے، متعین اور مطلق دونوں ہے اور اس کے تعین و اطلاق میں کوئی منافات نہیں ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ کلی طبعی بعض عقلاء کے نزدیک خارج میں موجود ہے اس کے باوجود وہ کلی ہے اور اس کا وجود خارجی ہونے کے لیے منافی نہیں ہے اگرچہ بعض حضرات کے نزدیک وجودخارجی اور کلی ایک دوسرے کے منافی ہیں اس وجہ سے وہ کلی طبعی کو موجود نہیں مانتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وجود مطلق کا تعین مثل تعینات متعینہ نہیں ہے اس لیے کہ تعینات متعینہ کسی اور تعین کے مقابلے میں آتے ہیں اور اس کے ساتھ جمع نہیں ہوتے ہیں، بخلاف تعین وجود مطلق کے کہ اس میں تغایر و تقابل نہیں ہے بلکہ عین ہے تعین علوی و سفلی و صوری و معنوی کا، اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ وجود خارجی اطلاق کے لیے منافی نہیں ہے، بلکہ وہی موجود متعینہ خارجیہ مطلق ہے اطلاق حقیقی کے ساتھ، جیسے کہ بعت سے کمالات میں تجلی کرکے اپنے آپ کو صور متعینہ اور موجودات متکثرہ میں نمودار کیا، اس کے ساتھ قبل البروز والی حالت میں جو احدیت تھی وہ باقی ہے، گویا اس میں تعدد صوری ہے، واحدت معنوی، اس طرح پر کہ اگرچہ ذات باری تعالیٰ اس حیثیت سے کہ وہ عین ذات ہے آنکھوں سے نظر نہیں آتا ہے لیکن بصیرت فہم سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودات کی نسبت ذات باری تعالیٰ سے باعتبار تمایز و تغایر اس طرح ہے کہ جب موجودات کونیہ میں سے دو صورۃ ہوں گی تو اللہ تیسرا ہے اور جب موجودات تین صورۃ ہوں گی تو حق تعالیٰ چوتھا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے، مایکون من نجوی ثلاثۃ الا ہو رابعہم ولا خمسۃ الا ہو سادسہم ولا ادنی من ذالک ولا اکثر الا ہو معہم۔ ترجمہ: (تین آدمی سرگوشی نہیں کرتے ہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چوتھا ہے اور اور سرگوشی نہیں کرتے پانچ آدمی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کا چھٹا ہے نہ اس سے کم نہ زیادہ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔
اگر حق تعالیٰ عالم کا غیر نہ ہوتو یہ آیت صحیح نہ ہوگی حالانکہ آیت صحیح ہے تو لا محالہ اللہ تعالیٰ عالم کا غیر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیریت بحسب حقیقت ممکن نہیں، لا محالہ بحسب تعین و تقید ہوگا، اس صورت میں ضروری ہے کہ ذات سبحانہ کے لیے ایک تعین اور افراد عالم کے لیے مستقل تعینات ہوں اور وحدت معنوی اس طرح پر ہے کہ موجودات روحانی وجسمانی کا عین نہ ذات باری تعالیٰ ہے یہی حالا ہوتہ کا ہے وہ عین ہے غیر نہیں ہے اگر حق سبحانہ و تعالیٰ کو احدیت ذاتیہ و ہویہ عینہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تمام عالم اس میں پوشیدہ ہے اور وہ عالم کا عین ہے۔
اور اگر حالت ظہور کا لحاظ کیا جائے تو خود اللہ تعالیٰ ان کی صورتوں میں جلوہ نما ہے دونوں صورتوں میں غیرت کا سوال پیدا نہیں ہوتا ہے، بجز اس کے کہ تقید و تعین کا لحاظ کیا جائے۔ غرضیکہ غیریت با عتبار صورت ہے اور عینہ بلحاظ حقیقت ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے و اللہ من وراھم محیط کشف صریح اور ذوق سلیم سے دو حیثیت کو تسلیم کیا گیا اور ان کے لیے علیحدہ علیحدہ احکام و آثار ثابت کیا گیا۔
محققین کاملین اور عارفین مدققین کی معرفت یہ ہے کہ کثرت بالکل ختم ہوجائےبلکہ حقیقت یہ ہے کہ کثرت حقیقی و تغایر نفس الا مری کو تسلیم نہ کیا جائے اور تغایر صوری و غیرت اعتباری کو مان لیا جائے تاکہ وحدت و کثرت اپنے اپنے مقامات میں برقرار رہ سکے اور ہر ایک کے لیے احکام و آثار کا ثبوت ہو، یہ لوگ نہ ثبوت عالم کے قائل ہیں جس طرح کہ اہل ظاہر قائل ہیں اور نہ عدم عالم کے قائل ہیں جیسا کہ اہل باطن مانتے ہیں، بلکہ ثبوت و نفی دونوں کے قائل ہیں نہ کہ عالم کو غیر حق سمجھتے ہیں اور نہ حق سبحانہ کو وراء عالم تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ حکماء متکلمین نے کیا تھا، نہ عالم کو عین ذات حق تعالیٰ کہتے ہیں، نہ حق سبحانہ کو عین عالم بتلاتے ہیں جس طرح کہ اہل توحید نے تسلیم کیا تھا، بلکہ یہ گروہ عالم کو عین ذات و غیر ذات تسلیم کرتا ہے، غرضیکہ یہ لوگ وحدت حقیقی احدیت معنوی کے اعتبار سے عینیت کے قائل ہیں اور بلحاظ تعدد صوری و غیریت اعتباری غیرت ماننے والے ہیں، ان کی عینیت غیریت کی منافی نہیں ہے اور غیریت عینیت کی منافی نہیں ہے، حق سبحانہ و تعالیٰ من وجہ وراء عالم ہے اور من وجہ وراء عالم نہیں ہے نیز عالم بھی من وجہ وراء حق سبحانہ ہے اور من وجہ عین باری تعالیٰ ہے۔
اس تحقیق کے پیش نظر تم جو چاہو کہو اپنے متعلق، میں اللہ ہوں اور اللہ میں ہوں اس لیے کہ حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ اعتباری فرق ہے یہی ہے جمع بین حقیقت العینہ اور بین غیریتہ الصوریتہ، تم اگر چاہو کہو کہ میں عین ذات باری تعالیٰ ہوں اس لیے کہ میرا کوئی وجود نہیں ہے یہ سب ذات خدا وندی ہے کیونکہ وجود مطلق کے سوا اور کوئی وجود نہیں ہے اس صورت میں میرا وجود کس طرح ہوسکتا ہے اور ذات باری تعالیٰ بھی میں ہوں اس لیے کہ اطلاق معدوم ہے اور مظہر میں بجز تقید کے اور کچھ نہیں ہے لھو اللہ تعالیٰ میرا عین کس طرح بن سکتا ہے اور میرا وجود بھی اللہ کا عین نہیں ہے اگرچہ موجود ہے وہاں پر، چونکہ وہاں اطلاق ہے اور میرا وجود اطلاق سے خالی ہے اور اللہ اختصاص سے پاک ہے اللہ تعالیٰ میرا عین نہیں ہے اگرچہ مجھ میں موجود ہے، چونکہ باری تعالیٰ تقید سے پاک ہے، میں میں ہوں ثبوت تقید کی وجہ سے، اور تو تو ہے ثبوت اطلاق کی وجہ سے، میں تو ہوں با اعتبار اتحاد مظہر ظاہر کے ساتھ باطن کے لحاظ سے، اور اللہ میرا وجود ہے بااعتبار اتحاد ظاہر مظہر کے ساتھ بلحاظ ظہور، حق سبحانہ کے لیے کمال ہے وراء ان کمال کے اور وہ کمال ذات ہے بشر کی طاقت نہیں کمال باری کا ادراک کرسکے اور اللہ تعالیٰ اول ہے ابد ہے کسی مقام پر رکتا نہیں ہے اس لیے کہ وہ کمال اسمی نہ ظہور و صفی ہے اگرچہ بجز غیریت کے متحقق نہیں ہوتا ہے لیکن تقید سے بھی پاک ہے اور اس کا انحصار جہت، دن جہت نہیں ہے بلکہ ساری جہات پر محیط ہے، غرضیکہ اگرچہ اس کمال میں تعدد و تکثر ہے لیکن اجمال ذات بھی مضمر ہے، لامحالہ اللہ تعالیٰ انحصار سے پاک ہے اس لیے کہ انحصار منافی کمال ہے۔
من باتو چنا نم اے نگار ختنی
کامذر غلطم کہ من توام یا تو منی
نے من منم و نے تو توی نے تومنی
من ہم منم وہم تو توئی ہم تومنی
شیخ امان پانی پتی نے اس رسالہ میں بہت کچھ لکھا ہے کہاں تک نقل کیا جائے،میں نے جتنا نقل کیا وہ مسلک سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے باقی اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔
اخبار الاخیار