حضرت خواجہ سیف الدین قدس سرہ
حضرت خواجہ سیف الدین قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
ولادت با سعادت:
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ کے پانچویں فرزند ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت بقولے ۱۰۴۹ھ میں اور بقول مصنف روضہ قیومیہ ۱۰۵۵ھ میں بمقام سرہند ہوئی۔ آپ علوم ظاہری و باطنی اور کمالات صوری و معنوی اور زہد و تقویٰ و اتباع سنت کے جامع تھے۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ آپ کے علو استعداد دیکھ کر ہر دم آپ پر خاص نظر عنایت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے عین ایّام شباب میں اپنے والد بزرگوار سے تمام کمالات مجددیہ کے حصول کی بشارت پائی۔
حق گوئی:
سلطان وقت اورنگزیب عالمگیر نے حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ سے التجا کی کہ اپنا کوئی خلیفہ میری ہدایت و توجہ کے لیے روانہ فرمائیں۔ اس پر حضرت نے اپنی قیومیت کے پینتالیسویں سال اسی صاحبزادے کو دہلی میں بھیج دیا۔ جب حضرت شیخ وہاں پہنچے تو سلطان نے ان کا استقبال کیا اور بڑے اعزاز و اکرام سے ان کو شہر میں لایا اور قلعہ میں لے گیا۔ جب آپ قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو دو ہاتھیوں کی مورتیں دیکھیں جن پر فیلبان سوار تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں قلعہ میں تب داخل ہوں گا کہ یہ مورتیں توڑ دی جائیں۔ چنانچہ وہ ہاتھی اور فیلبان بالکل توڑ دئیے گئے۔ اور آپ قلعہ میں داخل ہوئے۔ دوسرے روز آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمام گویوں، گائنوں، اور بے ریش ناچنے والے لڑکوں اور تمام اہلِ بدعت کو ہندوستان کے ممالک محروسہ سے نکال دیا جائے۔ بادشاہ نے اس ارشاد کی بھی تعمیل کی۔ ایک روز بادشاہ نے حضرت شیخ کو حیات بخش باغ کی سیر کی تکلیف دی۔ وہاں سونے کی مچھلیاں تھیں۔ کہ جن کی آنکھوں میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ حضرت نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ جب تک یہ مچھلیاں نہ توڑی جائیں۔ میں اس جگہ نہ بیٹھوں گا۔ باغ کے محافظوں نے نقصان شاہی کے خیال سے ان کے توڑنے میں تامل کیا۔ لیکن بادشاہ نے فوراً تڑوادیں اور کہا کہ ارشادِ شیخ کی تعمیل میں زیادہ نفع ہے۔
ایک روز بادشاہ شکار کے لیے نکلا تو جنگل میں تمام مطربوں اور گویوں نے مل کر یہ شعر گایا۔ ؎
در کوئے ٹیکنامی مارا گزرِند ادند
گر تو نمے پسندی تغیر کن قضا را
بادشاہ نے کہا کہ حضرت شیخ سے جاکر کہو۔ انہوں نے جب حضرت کا نام سنا تو نا اُمید ہوکر چلے آئے۔ ہزار ہا ڈھولک، طنبور، چنگ رہاب وغیرہ ساز بدعت لا کر توڑے گئے۔ جب مطربوں اور گویوں کو کامل یقین ہوگیا کہ بادشاہ بدعت کا کوئی کام نہیں کرتا تو ایک جنازہ بنا بادشاہ کی سواری کے آگے نکالا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے۔ کہا سرود و نغمہ مرگیا۔ اُسے دفن کرنے چلے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ ایسا دفن کرنا کہ قیامت تک نہ نکلے۔
بادشاہ کی خوشی:
بادشاہ اس امر معروف و نہی منکر سے بہت خوش ہوا۔ چنانچہ اُس نے حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی شکر گزاری میں ایک خط لکھا جس کا جواب حضرت عروۃ الوثقیٰ نے یوں دیا۔
’’سب ستائش و احسان اللہ کو سزاوار ہے۔ کہ فقیر زادہ نظر قبول میں منظور ہوگیا اور اُس کی صحبت کا اثر حاصل ہوگیا۔ اور امر معروف و نہی منکر سے جو فقیر زادہ کا شیوہ ہے آپ نے شکر اور رضا مندی ظاہر کی ہے۔ فقیر اس عطیہ پر اللہ جل شانہٗ کا شکر بجالایا اور زیادہ دعا گوئی کا سبب ہوا۔ یہ کیسی بڑی نعمت ہے کہ باوجود اس تمام شاہی شان و شوکت اور دبدبہ سلطنت کے کلمہ حق سُن کر قبول کیا جائے اور ایک مسکین کی بات موثر ہوجائے۔ ’’فَبَشِّرْ عِبَادِo الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗط اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘ [۱] وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وبارک وسلم۔ (مکتوبات معصومیہ۔ جلد ثالث۔ مکتوب ۲۲۱)۔
[۱۔ پس خوشخبری دے میرے بندوں کو جو سنتے ہیں بات۔ پھر چلتے ہیں اُس کے نیک پر۔ وہی ہیں جن کو ہدایت دی اللہ نے اور وہی ہیں عقل والے۔ زمر۔ ع ۲۔]
حضرت شیخ خود بھی سلطانِ وقت کے حالات اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں لکھتے رہے۔ جن کے مطالعے سے حضرت عروۃ الوثقیٰ بہت خوش ہوا کرتے۔ (دیکھو جلد ثالث۔ مکتوب ۲۲۔ ۲۴۲)
القصہ حضرت شیخ نے امر معروف و نہی منکر اس طرح کیا کہ ان سے پیشتر اس قسم کا احتساب کسی نے نہیں کیا۔ چنانچہ آپ کی سواری میں لوگوں کے احتساب کے لیے ہر روز سات سو لوہے کی لاٹھیاں ہوتیں۔ اسی وجہ سے آپ کے والدہ صاحب آپ کو محتسب اُمت فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی مشیخت و ارشاد اور رجوع خلق اس قسم کا تھا کہ شاہی بارگاہ کے درمیان ایک کرسی مرصع بجواہر بچھائی جاتی۔ اور شیخ اس پر جلوس فرماتے۔ ارد گرد امرا و ملوک و خوانین بڑے ادب سے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے۔ ایک بزرگ ناقل ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ یہ درویش ہیں اور اس قدر تکبر کرتے ہیں۔ بمجرد اِس خطرہ کے شیخ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تکبر ما از کبریائی اوست۔ اس طرح آپ کی برکت سے بادشاہ، شہزادہ و بیگمات و جملہ امیر و وزیر داخل سلسلہ مجددیہ ہوئے۔ بعد ازاں آپ سرہند واپس آگئے اور اپنے والد بزرگوار سے اقتباس انوار و برکات فرماتے رہے۔ اور اُن کے وصال کے بعد اُن کی جانشینی کے اطوار و احوال پورے پورے بجا لاتے رہے۔
تواضع:
آپ اکثر اخیر نصف شب مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ مبارک پر حاضر ہوتے۔ اور گرد پھر کر یہ شعر پڑھا کرتے۔ ؎
من کیتم کہ با تو دم دوستی زنم
چندیں سگانِ کوئے تو یک کمتریں منم
توجہ و ارشاد:
آپ کی خانقاہ میں ہر روز چار سو درویش استفادہ کے لیے جمع ہوتے تھےا ور حسب فرمائش کھانے پکائے جاتے مگر باوجود اس تنعم کے سالک بلند مقامات پر پہنچتے تھے۔ کیونکہ اِس طریقہ کا مدار مرشد کی ہمت و توجہ پر ہے۔
کرامات کا بیان
آپ کے تصرفات و خوارق بہت ہیں جن میں سے صرف چند ذیل میں بیان ہوتے ہیں۔
مرید کی مدد:
آپ کا ایک مرید صوفی پایندہ محمد نام کابل سے عراق کی طرف جارہا تھا کہ اثناے راہ میں ایک رافضی سے ملا۔ رافضی نے حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو گالیاں دیں۔ صوفی نے طیش میں آکر اُسے قتل کردیا۔ لیکن بعد میں وہ ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے ہمراہی آکر مجھے تنگ کریں۔ ابھی اسی خیال میں تھا کہ اچانک ایک برقعہ پوش سوار نمودار ہوا۔ اور اُس نے عصا سے اُس رافضی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ کہ کسی قسم کا اندیشہ نہ کر۔ کیونکہ میں نے اُس کو گدھے کی صورت میں تبدیل کردیا ہے۔ صوفی نے جب رافضی کو گدھے کی شکل میں پایا۔ پھر صوفی نے سوار سے دیدار کی التماس کی۔ جب سوار نے برقعہ اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہے کہ آپ حضرت شیخ سیف الدین ہیں۔ جب اُسی رافضی کے ہمراہی آئے تو انہوں نے گھوڑے کو خالی پر کر جوش و خروش کیا۔ لیکن جب اُس کی لاش کو گدھے کی صورت میں دیکھا تو شرمندہ ہوکر اُسے دفن کردیا اور کچھ نہ کہا۔
خواب میں سرزنش:
ایک ثقہ شخص روایت کرتا ہے کہ ایک روز میں نے دل میں قرار دیا کہ آیندہ کبھی شیخ سیف الدین کی خدمت میں حاضر نہ ہوں گا۔ کیونکہ وہ تکبر بہت کرتے ہیں۔ اُسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کوتوال مجھے پکڑ کر لے گیا ہے۔ اور ڈنڈے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہے وہ جس نے شیخ سیف الدین کے حق میں خیال بد کیا ہے۔ وہ تو محبوبِ پروردگار ہیں۔ آنکھ کھلی تو میں نے توبہ کی اور حاضر خدمت ہوکر آپ کا مرید ہوگیا۔
بیماری سے شفا:
ایک شخص کا بیان ہے کہ مجھے مرض جذام ہوگیا۔ میں نے حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی۔ آپ نے کچھ پڑھ کر دم کیا۔ اُسی وقت شفا ہوگئی۔
کشف:
ایک دفعہ حضرت قیوم رابع خواجہ محمد زبیر قدس سرہ کو پچپن میں سخت مرض لاحق ہوا۔ حضرت شیخ ان کی عیادت کو آئے۔ خواجہ محمد زبیر کی خالہ نے آپ سے دعا کی شفا کی درخواست کی۔ آپ نے متوجہ ہوکر فرمایا کہ حق تعالیٰ اِس لڑکے کا حافظ و معین ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ لڑکا بڑا شیخ ہوگیا ہے۔ اور لاکھوں آدمی ان کے حلقہ میں بیٹھے ہیں۔ پروردگار کو ان سے بہت سے کام لینے ہیں۔ جن میں سے اب تک ایک بھی ظہور میں نہیں آیا۔ حضرت کا یہ کشف صحیح نکلا۔
وصال مُبارک:
آپ کا معمول تھا کہ ظہر و عصر کے درمیان مستورات کو جمع کر کے حدیث سنایا کرتے تھے۔ ایک روز خلاف معمول وعظ جلدی ختم کردیا۔ مستورات نے عرض کیا کہ ابھی بہت وقت ہے۔ کچھ اور پڑھیے۔ فرمایا کہ اور تم محمد اعظم سے پڑھوانا۔ محمد اعظم آپ کے بڑے صاحبزادے کا نام تھا۔ بعد ازاں آپ بیمار ہوگئے اور حدیث سنانے کا اتفاق نہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ اخیر وقت میں ایک طبیب لایا گیا جس کے عقاید خلاف اہلِ سنت وجماعت تھے۔ آپ نے اُسے دیکھ کر فرمایا۔ ایں کدام وقت ہست کہ مخالف مشرب راپیش من مے آرید۔ دور کنید ایں را۔ چنانچہ وہ طبیب اُسی وقت نکال دیا گیا۔ آپ نے ۱۹ جمادی الاولےٰ ۱۰۹۵ھ میں انتقال فرمایا۔ اور حضرت قیوم اول رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ مبارک سے جنوب کی طرف ایک تیر پر تاب کے فاصلہ پر دفن کیے گئے۔ اور مرقد مبارک پر ایک عالیشان گنبد بنایا گیا۔ اور گردا گرد باغ لگایاگیا۔
اولاد پاک:
آپ کی اولاد آٹھ لڑکے اور چھ لڑکیاں تھیں۔ سب سے بڑے صاحبزادے شیخ محمد اعظم جامع علوم ظاہری و باطنی اور صاحب ارشاد تھے۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔ حضرت شیخ سیف الدین قدس اللہ سرہ ایک روز تخت پر تہجد کے لیے وضو کر رہے تھے۔ اچانک وجد و سماع کے ذوق سے جو پڑوس میں ہو رہا تھا۔ آپ پر بیخودی کی حالت طاری ہوئی۔ یکبار زمین پر گر پڑے۔ آپ کے دست مبارک پر سخت چوٹ آئی۔ جب صبح کو ہوش میں آئے اور لوگ عیادت کے لیے جمع ہوگئے تو فرمایا کہ ارباب سماع ہمیں بے درد جانتے ہیں حالانکہ سماع سے یکبارگی میرا یہ حال ہوگیا تھا کہ عنقریب میری زندگی کا رشتہ منقطع ہوجائے اور میری روح کا مرغ قالب عنصری سے اُڑجائے۔ جو لوگ کثرت سے سماع کی رغبت رکھتے ہیں وہ کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ پس انصاف کرنا چاہیے کہ ہم بے درد ہیں یا وہ۔ لیکن وہ معذور ہیں۔ کیونکہ اُن کو ہمارے اندرونی درد کی خبر نہیں۔ اگرچہ ہم ظاہر میں راکھ کی طرح سکون رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے باطن کا آتش کدہ درد و غم کے سوز سے شعلہ زن ہے۔ ؎
باہمہ کس درمیاں و زہمہ کس بر کراں
سوختن و ساختن دین فقیر است و بس
اس لیے ہم وجد و سماع کی طرف میلان نہیں رکھتے۔ اور پردہ نشینان درد و غم کو بالوں سے گھسٹیتے ہوئے خاص و عام کو نہیں دکھاتے۔ کیونکہ ہمارا طریقہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ہے۔ جو ظاہر میں کمال تمکنت و وقار سے آراستہ اور نہایت سکون و استقرار سے پیراستہ تھے۔ اس لیے وہ اکثر اوقات اپنے منہ میں کنکریاں رکھا کرتے تھے۔ [۱] سواے محرمان راز کے اُن کے احوال باطنی کی کسی دوسرے کو خبر نہ تھی۔ مگر وفات کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے گھر میں تشریف لے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر کی چھت جا بجا جلی ہوئی اور سیاہ ہے۔ آپ نے سبب پوچھا تو محرمانِ راز نے جواب دیا کہ آپ کبھی کبھی درد مند دل سے آہ نکلا کرتے تھے جس کی حرارت گرمی اور دھوئیں کے اثر سے یہ گھر جل گیا اور سیاہ ہو گیا ہے۔
[۱۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخبار میں حضرت صدیق اکبر کی نسبت وارد ہے کہ آپ اپنے تئیں کلام سے روکنے کے لیے اپنے منہ میں سنگریزے رکھا کرتے تھے۔ اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے کہ اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں ڈال دیا ہے۔ مرقات شرح مشکوٰۃ۔ جزء رابع۔ ص ۳۴۲)
از دروں شو آشنا و زبروں بیگانہ ہاش
اینچنیں زیبا روش کم مے بود درجہاں
۲۔ اپنے والد بزرگوار کو اپنے معاملہ باطنی کی اطلاع دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
عرضداشت۔ کمترین درویشاں محمد سیف الدین اپنے احوال پراگندہ کے عرض کرنے کی جرأت کر کے گستاخی کرتا ہے۔ اور معافی کی اُمید پر حد سے تجاوز کر کے کلام کو طوالت دیتا ہے۔ قبلہ گاہا! ہر چند فقیر نے چاہا اور چاہتا ہے کہ مباھات کے دائرہ سے قدم باہر نہ رکھے۔ لیکن بن نہیں آتا۔ عم بعزیمت تو اس کے حق میں عنقاے مغرب ہے۔ اور اولےٰ و احوط پر عمل کرنے سے بہت بعید ہے۔ بحمد اللہ کہ باوجود اُس خرابی اور تباہ کاری کے اس درگاہ کے کتوں کی محبت میں مضبوط قدم رکھتا ہے۔ اور اُس آستانہ عالیہ کی جاں نثاری کے اعتقاد میں ممتاز ہے۔ اپنے سرمایہ میں کوئی پونجی اس سے بہتر نہیں رکھتا اور اسی کو مد نظر رکھ کر اپنے بعض حالات سابقہ ولا حقہ کو عرض کرتا ہے۔ ؎
تو مرا دل دہ و دلیری بیں
روبۂ خویش خوان و شیری بیں
حضرت سلامت! اس سے چند سال پہلے آپ نے نہایت ذرہ پروری سے اِس ناچیز کو حقیقت الحقائق سے الحاق اور نسبت ملاحت سے بہرہ ور ہونے کی سعادت سے مشرف فرمایا تھا۔ یہ ضعیف بھی دولت عظمیٰ سے جو کچھ پاتا تھا۔ اُسے عرض کر کے آپ کو تکلیف دیتا تھا۔ بعض وقت یہ نسبت عالیہ اِس قدر زیر بار کرتی تھی کہ اتحاد جسدی بلکہ کمون و بروز کا خیال میں آتا تھا اور اپنے بدن میں کچھ بوجھ محسوس کرتا تھا اور اب بھی اس تعجب انگیز حقیقت کے اسرار کے سمندروں میں غوطہ لگاتا ہے۔ اور ہر چند دور دور جاتا ہے۔ گویا کچھ نہیں گیا ہے۔ اور انواع مختلفہ میں ظاہر ہوتا ہے اور ہر بار نئی فنا و بقا خیال میں آتی ہے۔ ؎
نہ حسنش غایتے دار دنہ سعدی راسخن پایاں
بمیر د تشنہ مستسقی و دریا ہمچناں باقی
اپنا ماوامسکن تعین حبی معلوم کرتا ہے۔ اور اپنے تئیں اِس تعین سے کہ جس سے اوپر کوئی تعین نہیں گھرا ہوا پاتا ہے۔ اور اِسی تعین کے سبب سے اپنے آپ میں عجیب و غریب چیزیں دیکھتا ہے۔ انوار و برکات ابرنیساں کی طرح برساتے ہیں۔ اور ایسے اسرار اس سے بیان کرتے ہیں جن کا پوشید رکھنا ضروری ہے۔ اور بعض اوقات ایسا خیال میں آیا ہے کہ مردار یدو زیور اس فقیر پر نثار ہوتے ہیں۔ اور یہ فقیر اس نسبت سے اِس قدر گھرا ہوا ہے کہ دوسری نسبتیں گویا چھپ گئی ہیں۔ اور نیز اس درویش کو آپ نے کئی بار بغیر حیلولت بشری کے مرتبہ مقدسہ سے اخذ فیوض و برکات کے واسطہ کے مرتفع ہونے کی بشارت دی ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کے ساتھ کمال اتحاد اسی واسطہ کا اُٹھ جانا ہے اور اِس قسم کا اتحاد اقل قلیل کے نصیب ہے جیسا کہ مکتوبات قدسی آیات سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن اِس قسم کے شخص کے حق میں اصالت کا نصیب لازم ہے یا نہیں۔ اُمید ہے کہ اس کے جواب سے یہ درویش ضرور سرفراز ہوگا۔ (روضہ قیومیہ۔ ملفوظات حضرت مرزا مظہر جانجاناں وغیرہ)۔