نام شاہ محمد، کنیت اخوند، لقب لسان اللہ تھا۔ والد کا نام ملّا عبدی۔ جائے ولادت موضع ارکسان، ضلع روستاق۔ علاقہ بدخشاں۔ اوائل عمر ہی طلبِ حق کے لیے وطن سے نکلے۔ پہلے کشمیر آئے۔ یہاں تین سال رہے پھر ہندوستان کا قصد کیا۔ لاہور سے گزر کر آگرہ کو چلے گئے۔ راستہ میں حضرت میاں میر کے حالات سنے۔ اُن سے ملاقات کرنے کے لیے لاہور کا قصد کیا۔مگر رفقاء سفر نے نہ چھوڑا۔ مجبوراً آگرہ پہنچے۔ جستجوئے مرشد میں اِدھر اُدھر پھرے مگر مایوس ہو کر لاہور آئے اور حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے اوصاف و کمالات سے متاثر ہو کر حلقۂ ارادات میں داخل ہوگئے۔ تجرید و تفرید، ریاضت و مجاہدہ اور عبادت و تقویٰ میں حضرت میاں میر کے تمام مریدوں اور خلفاء میں ممتاز تھے۔ فقر و استغنا کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی غلام یا خدمت گار اپنے ساتھ نہیں رکھا۔ کبھی چُولھا گرم نہیں کیا، کبھی چراغ نہیں جلایا حبسِ دم میں بڑا ملکہ صاصل تھا۔ ساری ساری رات صرف ایک سانس لیتے تھے۔ سات سال تک ایک ہی سانس میں رات گزاردی۔ اس حبسِ دم میں ذکرِ خفی کرتے رہتے تھے۔ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز ادا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے مدّت تک آنکھ نا آشنائے خواب رہی۔ کبھی غسلِ ضروری کی حاجت نہیں پڑی۔ خود فرماتے ہیں: احتلام یا مباشرت سے غسل واجب ہوتا ہے اور میرے یہاں نہ نیند ہے نہ بیوی۔
اس زہد و تقویٰ اور ریاضت و مجاہدہ کے ساتھ علومِ ظاہری میں بھی کامل و اکمل تھے۔ شعرو سخن سے شوق تھا۔ اشعار کا ایک مکمل دیوان یادگار چھوڑا ہے۔ داراشکوہ نے سکینتہ الاولیأ میں آپ کی اکثر غزلیں اور رُباعیاں درج کی ہیں۔ تمام کلام عارفانہ و عاشقانہ ہے۔ اکثر و بیشتر مضامین مواجدانہ ہیں۔ نظریۂ وحدت الوجد کے زبردست حامی تھے۔ نظریۂ وحدت[1] الوجد کے زبردست حامی تھے۔
سلسلۂ قادریہ میں تکمیلِ سلوک کے بعد مرشد سے خرقۂ خلافت حاصل کر کے حسبِ ایمائے شیخ کشمیر جا رہے تھے۔ آپ کے فضل و کمال نے بہت جلد عوام و خواص کو اپنی طرف متوجہ کردیا۔ سلسلۂ رشد و ہدایت بڑا وسیع ہوگیا۔ صحابہ کرام سے والہانہ عقیدت تھی۔ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح بر سرِ منبر کرتے تھے۔ یہ امر شیعی حضرات پر بڑا گراں گزرتا تھا۔ اکژشیعہ بحث و تکرار کے لیے آتے مگر اللہ تعالیٰ نے حقائق و معارف بیان کرنے کا ایسا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ جو رافضی بحث و مناظرہ کے لیے آتا وُہ تائب ہو کر جاتا اور سرور کائناتﷺ صحابہ کبار اور حضرت غوثِ اعظم کی زیارت بہ چشمِ ظاہر کرتا۔ اسی طرح سیکڑوں ملحد اور رافضی تائب ہو کر حلقۂ اہلِ سنّت میں داخل ہُوئے۔
داراشکوہ سفینۃ الاولیاء میں رقمطراز کہ ایک دن مجھے رویتِ حق کے مسئلہ میں تردّد ہوا اور یہ بات حضرت ملّا شاہ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر آپ کے رعب و اداب کے باعث گزارش نہ کر سکا۔ مجلس سے آکر بھی دل میں شبہ موجود تھا۔ حضور سرورِ کائناتﷺ کی رُوحِ پُرفتوح کی طرف توجہ دی۔ اسی وقت حضورِ اکرمﷺٓ اور ہر چہار خلفاءِ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ارواحِ پاک جلوہ گر ہوئیں اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے جس طرح چاہے اور اس کی قدرت کا تقاضا ہو اپنے بندوں کو اپنا دیدار کرائے گا۔ اس جواب سے میری مشکل حل ہوگئی۔ دوسرے روز جب میں حضرت ملّاشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے تبسم ہو کر فرمایا: تجھے مسئلہ کا حل مل گیا ہے اور جنھوں نے مجھے جواب دیا ہے انہوں نے مجھے بھی اطلاع دی ہے۔
۱۰۶۹ھ میں وفات پائی۔ مزار مرشد کے روضہ کے باہر ہے۔ ہسٹری آف لاہور میں سیّد محمد لطیف جج آپ کا سالِ وفات ۱۰۷۱ھ لکھتے ہیں۔ لیکن مخبرالواصلین، تحقیقاتِ چشتی اور صاحبِ خزینۃ الاصفیا ۱۰۶۹ھ / ۱۶۵۹ء ہی لکھتے ہیں۔ حضرت ملّا شاہ کی تاریخِ وفات ۱۰۷۱ھ درست نہیں ہوسکتی جب اس کے ساتھ یہ لکھا جاتا ہے کہ ان کے مزار کو ان کے مرید داراشکوہ نے قیمتی پتھروں سے بنوایا تھا مگر داراشکوہ اور عالمگیر کے حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں ۱۰۶۸ھ میں تاج و تخت سے محروم ہوا اور داراشکوہ عالمگیر کے حکم سے ۱۰۷۰ھ میں قتل ہوا۔ شاہ جہان کی معزولی کے بعد داراشکوہ کا اقتدار ختم ہو چکا تھا اور وُہ اپنی بچانے کے لیے مارا مارا پھر رہا تھا۔ ان حالات میں وہ آپ کا مقبرہ کس طرح تیار کراسکتا تھا۔ آپ کا مقبرہ یقیناً داراشکوہ کے بعد تعمیر ہوا ہے اس لیے آپ کا سالِ وفات ۱۰۶۸ھ یا۱۰۶۹ھ ہی قرینِ قیاس ہے۔(مترجم)
شیخ ملّا شاہ شیخ دوجہاں |
|
شد چو از دنیا بجنت یافت جا |
[1]۔ ان کے بعض نظریات و اقوال کے سبب علمائے کشمیر نے کفر کا فتویٰ بھی دیا تھا اور شاہ جہاں بادشاہ جہاں بادشاہ سے شکایت بھی کی تھی۔ خاص اس شعر پر بہت اظہار ناراضی کیا:
پنجہ ور پنجۂ خدا دارم
من چہ پروائے مصطفیٰ دارم
آپ کے مرشد حضرت میاں میر بھی نظریۂ ہمرا دست کے قائل تھے اور مسئلہ وحدۃ الوجود کے متعلق حضرت خواجہ خاوند محمد معروف بہ حضرت ایشاں کے ساتھ مراسلات رہتے تھے کیونکہ حضرت ایشاں جو شخص وحدتِ وجود کا قائل ہوتا تھا اس کی سخت سرزنش کرتے تھے۔ (مترجم)۔