آپ بہت بڑے عالم دین اور ولی اللہ تھے خواجہ نظام الدین دہلوی کے خلیفہ تھے اور آپ کے بہترین احباب اور اصحاب میں شمار ہوتے تھے ہندوستان کے اکثر علماء آپ کے شاگرد تھے، آپ کے شاگرد آپ پر فخر کرتے تھے آپ کا اصلی وطن اودھ تھا علم حاصل کرنے کے لیے دہلی آئے اور اس قدر علوم دینی میں کمال حاصل کیا کہ اُس وقت کے علماء میں سے فقہ حدیث اور تفسیر میں کوئی بھی مقابلہ نہ کرسکتا تھا ، آپ نے خواجہ نظام الدین کی کرامات کی شہرت سنی تو شیخ صدرالدین کی وساطت سے حاضر ہوئے اور مرید ہوگئے، تھوڑے ہی عرصے میں باطنی کمالات حاصل کرلیے، ساری عمر تجرید اور تغرید میں گزار دی ساری عمر شادی نہیں کی۔ خلافت حاصل کرنے کے باوجو دکسی کو اپنا مرید نہیں بنایا شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی نے یہ شعر آپ کے اوصاف میں لکھا تھا
سالت العلم من حیاک حقا
فقال العلم شمس الدین یحییٰ
آپ کی وفات سات سو سنتالیس ہجری میں لکھی گئی ہے۔
شمس دین ماہ اوج برج کمال
شد ز دنیا چو در بہشت برین!
رحلتش عابد سخیِ آمد!
ہم بخواں ماہ بدر شمس الدین
مولانا شمس الدین یحییٰ اودی: علمائے مشاہیر میں سے فقیہ،محدث، عالم فاضل،جامع منقول و معقول،حاویٔ فروع واصول تھے اور آپ کے زمانہ میں کسی کو علمائے وقت میں سے علوم فقہ و حدیث و تفسری وغیرہ میں اپ کے سات تاب مقاومت نہ تھی۔اکثر لوگ دور دراز کے اپ سے تلمذ کرتے ار آپ کی شاگردی کو ایک فخر سمجھتے تھے۔شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی نے آپ کی تعریف میں فرمایا ہے ؎
سأ لت العلم من احیاک حقّا فقال العلم شمس الدین یحییٰ
جن دنوں آپ واسطے تحسیل علم کو اودھ سے دہلی میں تشریف لائے،شیخ نطام الدین اولیاء کی کرامات کا نہایت شہرہ ہورہا تھا۔ایک دن آپ بھی ہمراہ مولانا سدر الدین نادی کے شیخ موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے۔شیخ نے آپ سے پوچھا کہ آپ شہر میںکونسی جگہ رہتے ہیں اور کونسی کتاب پڑھتے ہیا؟آپ نے عرض کیا کہ مولانا طہیر الدیناہکری سےاصول بزدوی پڑھتا ہوں،شیخ نے آپ سے بعض مواضع کتاب مذکور کے جراشکال میںمشہور تھے،آپ سے پوچھے۔آپ نے عرض کیا کہ سبق ہمارااسی جگہ تک پہنچا ہے اور یہ باتیں جو آپ نے پوچھیہیں ہم پربھی مشکل رہی ہیں۔اس پر شیخ نے ان تمام مواضع کو ایسا حلکیا کہ آپ شیخ کے معتقدر اسخ ہو گئے اور بعد چندے مرید ہوکر مرتبہ کمالیت کو پہنچے لیکن بعد حسول خلافت کے بہت کم لوگوں کو مرید کرتے تھے۔آپ نے مشارق الانوار کی شرح تصنیف کی اور اس میں یہ روایت نقل کی کہ ماتشاوب النبی قط،یعنی آنحضرتﷺ نے ہر گز اُباسی نہیں لی۔
کہتے ہیں کہ سلطان محمد تغلق نے،جس نے مخلوقات کو نہایت تنگ کر رکھا تھا،آپ کو اپنے پاس طل کر کے حکم دیا کہ اپ جیسے عالم فاضل کا یہاں کیا کام ہے؟اپ کا شمیر کو جائیں اور ہواں خلفقت خدا کو اسلام کی طرف دعوت کریں۔اس وقت تو آپ کا شمیر کا جانا منظور کر کے سلطان کی مجلس سے باہر آگئے مگر لوگوں سے آکر فرمایا کہ میں نے خواب میں اپنے شیخ کو دیکھا ہے کہ وہ مجھ کو اپنے پاس بلاتے ہیں۔دوسرے روز آپ کے سینہ میں ایک دنبل نکل آیا اور آپ بیمار پڑ گئے۔جب یہ خبر سلطان کو ہوئی تو اس نے اس احتمال سے کہ شاید آپ بہانہ کرتے ہیں،اپنے پاس بلایا،ادھر اپ نے ۷۴۷ھ میں اس جہان کووداع کیا اور قبر آپ کی پاران جوترہ میں واقع ہے۔’’زاہد خلق‘‘ تاریخ وفات ہے۔
حدائق الحنفیہ