حضرت شیخ شرف الدین
حضرت شیخ شرف الدین (تذکرہ / سوانح)
آپ پانی پت کے رہنے والے تھے، آپ کو بو علی قلندر بھی کہتے ہیں، بڑے مشہور مجذوب اور ولی اللہ تھے، مشہور ہے کہ اوائل عمر میں آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی تمام تر توجہات کو سلوک و طریقت کی طرف مبذول کردیا تھا اور تمام کُتب کو دریا برد کرکے مجذوب بن گئے، یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کس سے بیعت تھے البتہ بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرید تھے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ خواجہ نظام الدین اولیاء سے بیعت تھے ، لیکن یہ دونوں روایتیں بلا دلیل و بلا حجت ہیں آپ کے کچھ مکتوبات بھی ہیں جو آپ نے عشق و محبت کی زبان میں اختیار الدین کے نام تحریر فرمائے جس میں یہ مضامین ہیں۔
(1) توحید کے معارف و حقائق (2) ترک دنیا (3) طلب آخرت (4)محبت الٰہی آپ کا ایک دوسرا رسالہ بھی عوام الناس میں حکم نامہ شیخ شرف الدین کے نام سے مشہور ہے لیکن ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسالہ آپ کا نہیں بلکہ وہ عوام کی اپنی اختراعات ہیں واللہ اعلم۔
منقول ہے کہ ایک بار شیخ شرف الدین کی مونچھیں بہت بڑھ گئیں، مریدوں میں سے کسی کو یہ جرأت نہ تھی کہ آپ سے یہ کہہ دے کہ حضرت انہیں درست کروالیجیے چنانچہ ایک دفعہ مولانا ضیاء الدین سنامی جو شریعت کا کوڑا ہاتھ میں لیے پھرتے تھے ایک دفعہ آپ کے ہاں تشریف لائے تو آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر قینچی منگوائی اور ایک ہاتھ سے ڈاڑھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے آپ کی مونچھوں کو درست کردیا، کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ اپنی ڈاڑھی کو یہ کہہ کر چوما کرتے تھے کہ یہ شریعت کی راہ میں پکڑی گئی ہے۔
آپ کا روضہ پانی پت میں ایک پر رونق جگہ پر ہے لوگ آپ کی قبر پر برائے حصول برکت زیارت کو آتے ہیں وہاں آپ کے ایک محبوب مرید مبارک خاں کی بھی قبر ہے۔
مکتوب
اے بھائی! جب تجھ پر اللہ کی عنایت ہوئی تو اس نے تیرے اندر ایک جذبہ پیدا کردیا اور تجھے خود رائی سے بچالیا اور پھر تم میں عشق پیدا کرکے حسن کا جلوہ دکھادیا، جب تم عشق کو پہچان لو گے اور جب معشوق اور عاشق ایک دوسرے سے ملیں تو تجھے معشوق کے طریقہ اور عاشق کے فریضہ کے نقش پا پر چلنا ہوگا تاکہ تو عاشق و معشوق کو پہچان سکے۔
اے بھائی! معشوق کو بھی آپ ہی کی شکل و صورت میں اللہ نے پیدا کیا ہے اور معشوق کو تمہارے اندر اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ وہ تمہیں صحیح راستہ کی رہنمائی کرے۔
اے بھائی! اللہ نے جنت اور دوزخ دونوں کو پیدا فرماکر ان دونوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میں تم کو بھروں گا اور پر کروں گا، معشوق کو اس کے عاشقوں سمیت جنت میں داخل کیا جائے گا اور شیطان کو اس کے چیلوں سمیت دوزخ میں جھونکا جائے گا۔
اے بھائی! جنت اور دوزخ میں عاشق ہی اپنے حسن عشق اور خراب عشق کی وجہ سے داخل کیے جائیں گے۔ بہشت دوستوں سے وصال کا مقام ہے اور دوزخ دشمنوں سے فراق کا، یہ فراق کافر اور منافق لوگوں کے لیے ہوگا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں کے لیے وصال ہوگا۔
میں ان کے در کا بھیکاری ہوں فضل مولا سے
حسن فقیر کا جنت میں بِسترا ہو گا
(ذوقِ نعت)
اے بھائی ذرا آنکھیں کھول کر دیکھ کہ عاشق نے اپنے عشق سے کیا کیا پیدا کیا اور دنیا کو کیسا تماشا گاہ بنایا، اور اپنے حسن کو ہر درخت میں پنہاں رکھا اور مختلف الاقسام میوہ جات پیدا فرمائے اور ہر میوے کا علیحدہ علیحدہ مزہ بنایا اور اس درخت کو خود اپنی اور پھول و پھل کی خبر تک نہیں اور اسی طرح اس نے گنے کو تیرے لیے شیریں بنایا اور اس کو اپنے مٹھاس کی خبر نہیں، اسی طرح ہرن کی ناف میں مشک رکھا اور اس کو بھی اس کی خبر نہیں، سمندری گاؤ سے عنبر پیدا کیا اور اس کو اس کی خبر نہیں اور مشک بلاؤ سے تمہارے لیے زباد پیدا کیا اور اس کو اس کا علم نہیں، اور ایک قسم کے درخت سے کافور پیدا کیا اور کافور کو اس کی خبر نہیں، صندل کو تمہارے لیے پیدا کیا اور اس کو اس کا علم نہیں۔
اے بھائی! عاشق بنو اور اس جہان کو معشوق کا حسن سمجھو، اسی طرح اپنی ذات کو بھی معشوق کا حسن سمجھو، عاشق نے اپنے عشق سے تجھے پیدا کیا تاکہ تیرے آئینہ میں اپنے حسن و جمال کا مشاہدہ کرے اور تجھے اپنا محرم اسرار بنائےا ور الانسان سری تمہارے ہی شان میں ہے، عاشق بن کر ہمیشہ حسن دیکھتے رہو اور دنیا اور آخرت کو اس طرح تصور کرو کہ آخرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مملکت ہے اور دنیا شیطان کی، تم ان دونوں کے متعلق معلوم کرو کہ یہ کس لیے پیدا کی گئی ہے اور ان کا مطالبہ کیا ہے۔ اے بھائی! اپنے نفس کو خوب سمجھ لے، جب تو اپنے نفس کو پہچان لے گا تو دنیا کی حقیقت خود بخود تیرے سامنے واضح ہوجائے گی اسی طرح روح کو بھی پہچانو اس لیے کہ روح کی معرفت پر آخرت کی معرفت موقوف ہے۔
اے بھائی! اس دنیا میں جو حسن تزین کفر اور اہل کفر کو دیا گیا ہے اسے عاشق لوگ ہی پہچانتے ہیں، سو جو دنیا کا عاشق ہے اس کا معشوق حسن کفر ہے۔
اے بھائی! تجھے کیا خبر کہ کفر نے اپنے غم خوردہ حسن سے اہل دنیا پر کیسے کیسے جو رو ستم کروائے اور انہیں اپنا عاشق بنایا۔
اے بھائی! اپنی معرفت حاصل کرو اور اپنی ذات کو پہچانو، جب اپنی ذات سے روشناس ہوجاؤ گے تو عشق کے اسرار خود بخود تم پر کھلتے جائیں گے اور جب عشق کو اپنے حسن پر دیکھو گے تو ہر ایک کی زبان پر اپنا چرچا پاؤ گے، خلاصہ یہ کہ عاشق بن جاؤ اور معشوق کو اپنے اندر ہی معائنہ کرو اور حسن کو اپنے دل کے آئینہ میں دیکھو۔
آں شاہد معنی کہ ہمہ طالب ادیند
ہم اوست کہ از چادر تو ساختہ سر پوش
دربادیہ ہجر چرابند بمانیم
در عین و صالیم نگار است در آغوش
ترجمہ: (وہ معشوق ہے جس کے تمام طالب ہیں، یہ وہی ہے جس نے تمہاری چادر سے اپنا سر چھپا لیا ہے، ہم ہجر کے غم سے جنگلوں میں کیوں جائیں، اس لیے کہ معشوق تو ہمارے آغوش میں ہے)
اے بھائی! گڑ کا ایک ٹکڑا لو اور اس سے سو گولیاں بناؤ اور ہر ایک کا الگ الگ نام رکھو، مثلاً اُن میں سے کسی کا نام گھوڑا اور کسی کا نام ہاتھی وغیرہ رکھو، تو جب تک وہ چیزیں ان ہی شکلوں میں ہیں جو تم نے بنائیں اور ان کے نام رکھے اس وقت تک تو ان کے وہی نام رہیں گے لیکن اگر ان تمام شکلوں کو ملادو تو ان کے نام ختم ہوجائیں گے اور وہی نام یعنی گڑ رہ جائے گا۔
آپ ایک دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں کہ اے بھائی! کچھ خبر نہیں کہ لوگوں کو کیوں پیدا کیا گیا ہے، لوگ کیا کر رہے ہیں، کیا کریں گے اور انہیں فی الواقع کیا کرنا چاہیے۔ میں ہر وقت اسی شش و پنج میں مبتلا ہوں اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کبھی یہ خیال آتا ہے کہ وہ ہمارے آئینہ دل کو اس لیے صاف و ستھرا کر رہا ہے تاکہ عاشقوں کو اس میں اپنا جمال دکھائےا ور عاشق خستہ حال کو بتلادے کہ میں معشوق ہوں، عاشق کا فریضہ اور کام یہ ہے کہ وہ معشوق کے احکام کی فرمانبرداری اور اُسی کے طریقے پر چلنے کی کوشش کرے اور اپنے کو عشق اور حسن معشوق سے معمور کرے اور اس حسن میں محو ہوکر عاشق سب کو فراموش کردے اور باطن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر اس پر عمل کرے۔
اے بھائی! کبھی نفس کا خیال آتا ہے تو فوراً ہی حال میں بھی خیال کی موافقت کا دم بھر کر دنیا کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور دنیا کی زیب و زینت اس خیا ل کو مزید ترقی دیتی ہیں اور اس خیال میں مبتلا ہوکر حیراں و سرگرداں ہوکر دنیا کے معشوقوں کے دروازوں کا چکر لگاتا ہوں حالانکہ اس راہ کے عاشق و معشوق دونوں ہی ذلیل و خوار ہیں اور ان دونوں کو دنیاوی زیب و زینت میں محو ہوکر اپنی ذات و خواری کی خبر نہیں رہتی، اور اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ کس سے ایفائے عہد کیا جائے اور کس سے نہ کیا جائے اور یہ حالت ایسی دوام پذیر ہوجاتی ہے کہ انہیں موت تک کی فکر نہیں رہتی اور یہ دنیا کے عاشق دنیا کے حسن و جمال میں اس طرح کھو جاتے ہیں اور انہیں اس بات کی بالکل خبر نہیں رہتی کہ تمام دنیا پر معشوق حقیقی کا قبضہ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اور چاہے گا ویسا کرے گا، علاوہ ازیں دنیا کے عاشق اس بات سے بھی صرف نظر کرلیتے ہیں کہ ہمیں آخرت کا کٹھن سفر بھی درپیش ہوگا۔
اے بھائی! غور وفکر اس بات کی کرو کہ تمہیں ایک زبردست مہم حل کرنی ہے اس لیے تمہیں اپنے لیے ایک مونس و ہمدرد کی ضرورت ہے، ذرا ہوش کرو اور اس بات کا یقین کرلو کہ تم بحالت موجودہ اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے غلام بن چکے ہو اس سے کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنے کی تدبیر کرو۔
اے بھائی! کچھ معلوم نہیں کہ خیالات و افکار تمہیں کس بدحالی تک لے جائیں (اب تو کچھ معلوم نہیں ہو رہا) البتہ جب بد نصیبی اور بدقسمتی ظاہر ہوگی تو معلوم ہوگا کہ یہ بدبختی اور بدنصیبی دراصل برے خیالات اور نفس کی اتباع کا ہی نتیجہ ہیں۔
اے بھائی! مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں مجھے اپنے کسی فعل کی خبر نہیں، البتہ میری زبان اللہ کے قبضہ میں ہے اس لیے چاہتا ہوں کہ ایسی باتیں کہوں جو دو عالم میں پسندیدہ ہوں۔
اے بھائی! مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ تم خودی پیدا کرو اور خودی ہی کے متمنی اور خواہشمند رہو اللہ تعالیٰ نے جو چاہا سو کردیا اور جو چاہے گا وہی کرے گا، کسی کو اس کے ارادے میں دخل اندازی کا حق نہیں۔
اخبار الاخیار