حضرت شیخ شرف الدین احمد
حضرت شیخ شرف الدین احمد (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت یحییٰ منیری کے فرزند تھے آپ کا ہندوستان کے مشہور مشائخ میں شمار ہے۔ آپ کے فضائل و مناقب محتاج بیان نہیں، آپ کی تصنیفات بھی کثرت سے ہیں، جن میں سے ’’مکتوبات‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی بے نظیر اور بہترین کتاب ہے کہ اس میں آداب طریقت اور رموز حقیقت درج کیے گئے ہیں۔ اگرچہ آپ کے ملفوظات بھی ایک مرید نے جمع کیے ہیں، لیکن مکتوبات میں لطافت و شیرینی کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ نیز یہ بھی مشہور ہے کہ آپ نے رسالہ آداب المریدین کی بھی ایک (نامعلوم) شرح لکھی تھی۔ آپ شیخ نجیب الدین فردوسی کے مرید تھے۔ کہتے ہیں کہ شیخ شرف الدین احمد ایک مرتبہ اپنے وطن سے خواجہ نظام الدین سے مُرید ہونے کے شوق سے دہلی روانہ ہوئے۔ ابھی آپ دہلی پہنچے بھی نہ تھے کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کا انتقال ہوگیا۔ شیخ نجیب الدین اس زمانہ میں دہلی میں موجود تھے۔ جب شرف الدین احمد آپ کے پاس پہنچے اور ملاقات کی، تو شیخ نجیب الدین فردوسی نے فرمایا کہ برسوں سے تمہارے انتظار میں ایک امانت لیے، یہاں بیٹھا ہوں جو تمہارے سپرد کرنی ہے، چنانچہ شیخ شرف الدین شیخ نجیب الدین فردوسی سے بیعت ہوئے پھر شیخ سے انعامات لے کر اپنے وطن واپس تشریف لائے۔
نیز لوگوں میں یہ بھی مشہور ہے کہ دہلی سے واپس آتے وقت آگرہ کے جنگلوں میں کئی برس تک عبادتِ الٰہی میں مشغول رہے اور اس کے بعد وطن واپس تشریف لائے۔ آپ کی قبر صوبہ بہار کے قصبہ مُنیر میں ہے۔ ایک فارسی کی کتاب میں چودہ خانوادوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کے مؤلف نے لکھا ہے کہ فردوسی خاندان کی ابتداء سلسلہ سہروردیہ سے متعلق ہے۔ شیخ نجم الدین کبریٰ فردوسی اور شیخ علاؤالدین فردوسی مجاہدہ اور ریاضت میں تقریباً ہم پلہ تھے اور دونوں کمال کی انتہا تک پہنچے ہوئے تھے۔ یہ دونوں بزرگ روزے رکھتے اور ایک ہفتہ کے بعد افطار کیا کرتے تھے، جو کی روٹی اور جنگلی ساگ اکثر ان کی غذا ہوتی تھی۔ ایک دفعہ یہ دونوں بزرگ مل کر شیخ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ عمر ختم ہو رہی ہے اور ابھی تک کوئی کام نہیں ہو پایا، اگرچہ ریاضت و مجاہدہ بہت کیا ہے، مگر ابھی تک مقصود حاصل نہیں ہوسکا۔ شیخ ضیاء الدین ابو النجیب نے فرمایا بھائیو! میں بھی اسی مرض کا مریض ہوں۔ علاج یہ ہے کہ کسی سے بیعت ہوجائیں، چنانچہ یہ تینوں بزرگ شیخ وجیہہ الدین ابوحفص بن عمر بن عمویہ کے پاس تشریف لائے، شیخ وجیہ الدین نے ضیاء الدین اور علاؤالدین کو ایک مدت کے بعد خلافت دے کر روانہ فرمادیا اور شیخ نجم الدین کبریٰ کو شیخ نجیب فردوسی کے حوالہ کیا اور فرمایا کہ انہیں اپنے پاس رکھو، چنانچہ سات ماہ کے بعد شیخ نجیب الدین فردوسی نے شیخ نجم الدین کبریٰ کو خلافت دےدی اور فرمایا کہ تم فردوسی مشائخ میں سے ہو، اس روز کے بعد یہ فردوسی خاندان معرض وجود میں آیا۔ شیخ شرف الدین احمد خیری کے مشہور مجموعہ مکتوبات کے سوا اور دیگر خطوط بھی ہیں۔ جو شیخ مظفر بلخی کو تحریر کیے گئے تھے جو آپ کے مرید اور خلیفہ اور صاحب اَسرار بزرگ تھے۔
کہتے ہیں کہ پچیس برس تک شیخ مظفر کو سلوک کی حالت میں جو واقعات و معاملات اور حالات پیش آئے آپ وہ تمام کے تمام اپنے شیخ کی خدمت میں لکھتے رہے اور شیخ ہر ایک کا جواب دیتے رہے۔ شیخ شرف الدین نے بعض خطوط کے نیچے تحریر فرمایا ہے کہ برادر عزیز کی تمام مشکلات و معاملات کا میں نے حل تحریر کیا ہے۔ یہ خطوط کسی کو نہ دکھلانا، اس لیے کہ یہ ربوبیت کے اسرار کے افشا کا موجب اور سبب ہوگا۔ جب کبھی شیخ مظفر کے مرید آپ سے شیخ شرف الدین کے خطوط بغرض استفادہ نقل کرنے کی درخواست کرتے تو اپنے شیخ کی وصیت کی حفاظت اور خدا کے سر کو ظاہر نہ ہوجانے کے ڈر سے کسی کو نہ دِکھاتے اور خطوط کو مہر لگا کر اپنے پاس رکھتے تھے۔ اس حکایت کا ناقل کہتا ہے کہ ان خطوط کی تعداد دو سو سے زائد تھی۔ چنانچہ شیخ مظفر نے اپنے انتقال سے قبل یہ وصیت کی کہ یہ خطوط میرے کفن میں رکھ دیے جائیں، آپ کی وصیت کے مطابق وہ تمام خطوط آپ کے کفن میں رکھ دیے گئے تاکہ اپنے بزرگ کے اسرار مخفی رہیں۔ ایک تھیلی کے اندر ایک شیخ الاسلام کے دستخطوں سے مصدقہ خطوط کا ایک بنڈل باقی رہ گیا۔ ان خطوط میں سے چند کو نقل کیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے اور سننے والوں کے لیے دینی نفع کا باعث ہوں، مگر میں نے ان تمام خطوط میں سے سالکین اور طالبین کے مناسب کچھ کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں دو تین ہی شاید مکمل تھے جو ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
مکتوب اول
دائماً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔
ہر بلا ایں قوم راحق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
ترجمہ: (ہر مصیبت جو اللہ نے اس قوم کو دی ہے، اس کے ضمن میں خزانہ کرم مخفی رکھا ہے)
برادر عزیز مظفر! سلام و دعا، اپنے کام میں مردانہ وار مشغول رہو۔ شدائد امور، کثرت ابتلا اور گوناگوں امتحانات جو سالک کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اپنے کسی کام میں قصور نہ کرنا۔
برادرِ عزیز! عظمت انبیاء کے بارے میں منقول ہے کہ اللہ کے کاموں میں متنوع ہے، اس کے کام ہمیشہ ایک ہی نہج اور طریقے پر جاری نہیں رہتے، اس لیے کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کس کو کس طرح سے اقبال مندی اور کشائش سے نوازے گا۔ نعمت، مشقت، عطاء اور مصائب کے واسطہ سے سرفرازے گا۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آگ کے تنور میں ڈالا، پھر ایک صندوق میں محبوس کیا۔ پھر دریا میں ڈالا بعد میں دشمنوں کے سپرد کردیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ایک قبطی مارا گیا جس کے قتل کے باعث آپ کو وطن چھوڑ کر پردیس میں رہنا پڑا، پھر دس برس تک بکریوں کو چراتے رہے، اسی زمانہ میں ایک رات کو آسمان پر سیاہ بادل چھاگئے بجلی چمکنے لگی اور جنگل سے بھیڑیے نکل آئے، بکریاں بھاگ گئیں، آپ راستہ بھول گئے، آپ کی بیوی کو درد زہ کی شدت نے پکڑ لیا، سخت سردی پڑنے لگی، آگ دور دور تک نہ ملتی تھی اور سردی اتنی سخت تھی کہ چقماق رگڑنے سے بھی آگ نہ نکلتی تھی۔ جب تمام طریقہ آگ کے استعمال کرنے کے باوجود بھی کامیاب نہ ہوسکے اور حصول آگ سے عاجز ہوگئے تو اسی دوران میں غیبی امداد نے دستگیری کی اور آپ نے کہا انی انست نارا (میں آگ دیکھنا چاہتا ہوں) جب آپ آگ لینے گئے تو وہاں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ قرآن میں یوں ارشاد ہے۔ (میں آپ کا پروردگار ہوں، اپنے دونوں جوتے اتاریے کیونکہ آپ پاکیزہ مقام طویٰ پر ہیں اور ہم نے آپ کو چُن لیا اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے غور سے سنیے)۔
اسرار ربوبیت غیر معلوم ہیں اور اگر بندے پر اللہ کے احوال ایک ہی نہج طریقہ سے ہمیشہ جاری رہتے تو بندے کا علم اپنے خدا کی صفات کا احاطہ کرلیتا، حالانکہ اللہ کی صفات کا احاطہ ناممکن ہے (لہٰذا معلوم ہوا کہ اللہ کے احکام اور احوال تمام بندوں پر ایک ہی طرح کے جاری نہیں ہوتے۔)
ہر چہ در خلق سوزی و سازے است
اندراں مرخدائے رازے است
ترجمہ: (مخلوق کے اندر جو کچھ بھی سوز و ساز ہے ان کے اندر خدا تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی راز ضرور ہے)
مکتوب دویم
اے برادر! انسان ایک چیونٹی کی مانند جنگلات میں پڑا ہوا یہ خواہش و تمنا کرتا رہتا ہے کہ میں مکہ معظمہ پہنچ جاؤں (اگر وہ اس کے اسباب تیار نہیں کرتا تو اس کا مکہ میں چلا جانا محال ہے۔
رباعی
درد اکہ غم کوہ بکاہ افتادہ است
معشوق دل مورچہ ماہ افتادہ است
ایں واقعہ طرفہ براہ افتادہ است
درویش بعشق بادشاہ افتادہ است
ترجمہ: (ہائے افسوس کہ پہاڑ کا غم گھاس کو ہے اور چیوٹی کا دل چاند کے عِشق میں مبتلا ہے۔ یہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ درویش بادشاہ کے عشق میں مبتلا ہوگیا)
اے برادر! عاشق کو اس قسم کا معشوق چاہیے کہ اگر وہ مہربان ہو تو عاشق سے اپنی مراد حاصل کرے، اگر وہ عاشق پر غضبناک ہو تو عاشق اس سے اپنی مراد پوری کرلے۔ عاشق اور معشوق کی مراد مل کر تمام ہوتی ہے اور عاشق صادق وہی ہے جو اپنی تمام تر خواہشات کو معشوق کے قدموں پر قربان کردے اور اس کی صلاحیت بجز اس آدمی کے اور کوئی نہیں رکھتا، جو دنیا اور آخرت کے تمام مشاغل سے فارغ البال ہو، لیکن جس عاشق کو کچھ دوسرے مشاغل ہوں یا اس کے قلب پر اپنی عقبیٰ اور آخرت کا سودا سوار ہو تو وہ اپنے آقا کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتا، اور بزرگوں نے کہا ہے کہ دنیا دار اپنے دنیاوی دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور آخرت کے طلب گار اپنی اُخروی زندگی کو درست کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں اور جہنمی ان کاموں میں مشغول ہیں، جن کی وجہ سے انہیں آخر کار عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ پس کون شخص ہے جس کو دنیا اور آخرت میں اپنے آقا کی خبر ہے (یعنی ہر ایک اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے اور مولا سے بالکل بے خبر ہے)
مکتوب سوئم
اے امام مظفر! جاننا چاہیے کہ اس قسم کا معاملات سے کوئی علاقہ نہیں، بلکہ یہ مکاشفات سے متعلق ہے اور مکاشفات کو دائرہ تحریر میں لانے کی فرصت نہیں البتہ جو کچھ لکھا گیا وہ یہ ہے کہ محسوسات کو عالم ملک (دنیا) اور معقولی موجودات وک عالم ملکوت، موجودات بالقوے کو عالم جبروت، اور اس سے بلند تر کو عالم لاہوت کہتے ہیں۔ اس مضمون کو اس عنوان سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے کہ دنیا کو عالم شہادت، ملکوت کو عالم غیب اور جبروت کو غیب الغیب کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ غیب غیب الغیب ہے۔ اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ عالم دنیا کو عالم ملکوت کی لطافتوں سے کوئی نسبت نہیں، کیونکہ عالم ملکوت نہایت ہی لطیف ہے اور عالم ملکوت کی لطافت کو عالم جبروت کی لطافتوں سے کوئی نسبت نہیں۔ اسی طرح عالم جبروت کو ذات باری تعالیٰ سے کوئی نسبت نہیں، اس لیے کہ خدا تعالیٰ ذات لطیف لطیف اللطیب ہے۔ عالم دنیا اور عالم ملکوت کا کوئی ذرہ ایسا نہیں، جس پر عالم جبروت محیط نہ ہو اور عالمِ دُنیا، ملکوت اور عالم جبروت کے ذروں سے کوئی ذرہ ایسا نہیں جس پر خدا کی قدرت محیط نہ ہو۔ اور خدا تعالیٰ اس سے آگاہ نہ ہو۔ وہ لطیف و خبیر ہے، وہی لطیف مطلق ہے جب وہی لطیف مطلق ہے تو محیط مطلق بھی وہی ہے، اس لیے کہ جو جتنا زیادہ لطیف ہو اسی قدر وہ محیط بھی ہوگا، اسی جگہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ (تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے)۔
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر صراحۃً فرماتا ہے۔ (کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں)۔
آنچہ تو گم کردہ گر کردہ!
ہست اندر تو تو خود را پردہ
ترجمہ: (اگر تو نے اپنے کو پوشیدہ کرلیا ہے تو کیا ہوا (ہم جانتے ہیں کہ) تو نے اپنے کو اپنے اندر چھپا کر پردہ ڈال لیا ہے۔)
اسی وجہ سے مشہور ہے کہ عالم دنیا، ملکوت، جبروت اور اللہ تعالیٰ کی ذات تیرے ہمراہ ہیں اور انسان کی حقیقت بھی اسی کی مظہر ہے، کیونکہ انسان فی الواقع ربوبیت کی حقیقت کا سر ہے۔
تانیاید جان آدم آ شکار
رہ ندانستند سوئے کردگار
رہ پدید آمد چوں آدم شدپدید
زو کلید ہر دو عالم شدپدید
ترجمہ: (جب تک آدم میں روح آشکارا نہ ہوئی تھی، اس وقت تک یہ اللہ کی راہ سے نا آشنا تھا، راہ کھل گئی جب آدم پیدا ہوئے اور دو عالم کی کنجی ہاتھ میں آگئی)
اس سے زیادہ اس مضمون پر لکھنے کی قدرت نہیں، اپنے خاص اوقات میں (خاتمہ) بالایمان کی دعا سے یاد کرلیا کریں۔ والسلام
اے بھائی! تمام کو ترک کردینا حقیقت میں تمام کو پالینا ہے جو شخص تمام سے علیحدگی اختیار کرتا ہے وہ تمام کو پالیتا ہے (اسی لیے عربی کا مُحاورہ ہے) ترجمہ: (کہ کل کو وہی حاصل کرتا ہے جو کل سے علیحدہ ہوجاتا ہے)
کمال عشق کا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہے کہ (عاشق کامل کے نزدیک) منع اور عطاء، رد و قبول، مہربانی اور نفرت برابر ہوں، یہی وہ کمال ہے جس سے بلند اور کوئی کمال نہیں اور جو کمال کہ (مذکورہ چیزوں میں) افراق اور امتیاز پیدا کرتا ہو وہ فی الواقع کمال نہیں بلکہ ناکارہ پن ہے، اسی کو کسی نے کسی مرد مہجور کے متعلق کہا ہے۔
ہجر تو خوشتر از وصال دگراں
منکر شدنت بہ از رضائے دگراں
ترجمہ: (آپ کا فراق دوسروں کے وصال کی بہ نسبت بہتر ہے اور دوسروں کی رِضا کی بہ نسبت آپ کا انکار بہتر ہے)
نیز ایسے عاشقوں کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو رحمت سے دوری پر اتنا فخر ہے جتنا دوسروں کو رحمت پر، ایسے ہی عاشق کو ایک بار کہا گیا کہ رحمت سے دوری کا سیاہ کمبل اپنے کاندھے سے کیوں نہیں اتار دیتے تو اس نے جواب دیا،
می نفروشم گلیم می نفروشم
گر بفردشم برہنہ ماندرشم
ترجمہ: (میں اپنی گدڑی اور کمبل کو ہرگز فروخت نہ کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو پھر میرا کندھا برہنہ ہوجائے گا)
یہ بات عقل سے بالاتر ہے۔ عقل اس معنی کے سمجھنے سے مادرزاد مفلس و قاصر ہے، عشق تو اللہ تعالیٰ سے اتنی محبت کرنے کا نام ہے جو حد جنون تک پہنچ جائے اس لیے کہتے ہیں کہ دیوانوں کا راستہ اور ہے اور عقل مندوں کا راستہ اور ہے۔
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں
پاؤں جب تحفِ حرم میں تھک گئے سر پھر گیا
(حدائقِ بخشش)
اے بھائی! وہ احوال و کیفیات جن پر تمہارا بھائی چل رہا ہے اگر وہی احوال آپ کو ابتداً ہی حاصل ہوجائیں تو آپ میں پختگی پیدا نہ ہوسکے گی۔ کسی کیفیت کا ظاہر ہونا اور بعد میں اس پر عمل کرنا دو جداگانہ کیفیات ہیں اس طرح سے اس راہ پر چلنے والا روز بروز پختہ کار ہوتا ہے جیسا کہ ہر میوہ پر جب تک دو کیفیات طاری نہیں ہوتیں اس وقت تک وہ پختہ نہیں ہوسکتا۔ ایک سایہ اور دوسرا دھوپ۔ اسی طرح لینا، دینا، جمع کرنا، خرچ کرنا، عدم اور وجود دوگانہ حکمت ہے، دیگر بشری صفات حقائق کے منافی ہیں۔ جب تک انسان میں صفات بشریت باقی ہیں، اسی لیے اس کو بقا نہیں، اس لیے کہ بقا اور فنا دونوں کا اجتماع محال ہے یہاں تک یہ مسئلہ ختم ہوگیا۔
اے بھائی! اپنے دل کو مضبوط اور ہمت بلند اور امید سچی رکھو اس لیے کہ یہ ایسی دولت ہے جس کے سمجھنے کے لیے فرشتوں اور انسانوں کی عقلیں حیران ہیں شعیب علیہ السلام نے ایک مرد کو مزدوری پر رکھا اور ایک صالحہ خاتون کی خاطر اس سے دس برس کی مزوری طے پائی۔ اس نے آگ کی تلاش کی تو نور قدیم نظر آیا، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں کی خوشخبری سنا کر خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا، بتائیے اس بات کو عقل کیا سمجھ سکتی ہے یہ تمام باتیں جو اس مرد کو ملیں وہ کوئی ان چیزوں کے مستحق نہ تھے بلکہ ایسی چیزیں تو اللہ کے فضل و کرم سے ملا کرتی ہیں۔
دیکھیے! فرعون کے جادوگر (ایک) صبح کو اپنے جادو کے غلط راستوں پر گامزن اور مستغرق اٹھے اور اپنے جادو کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ستم و جور کی ٹھانے ہوئے تھے، لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آئے تو اللہ کی مدد نے ان کی یاوری کی اور تھوڑی دیر کے بعد ان کے سروں پر اللہ نے اپنی معرفت کا تاج رکھا اور توحید کے تخت پر بٹھا دیا اور انہوں نے اسی وقت دنیا کی حقارت اور آخرت کی بھلائیوں کو ملاحظہ کرلیا، غیب سے ندا آئی (اللہ ہی کی ذات بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے)۔
برادر من! آپ کو رحمت کے خم خانہ سے جو عطا کیا جا رہا ہے اس کو گھونٹ گھونٹ کرکے بطیب خاطر پیو اور اس انعام کے ملنے پر مستی اور فخر نہ کرو اور سنو
ہر کراں آفتاب ایں جابتافت
انچہ آنجا وعدہ بود اینجا بیافت
ترجمہ: جو کوئی بھی آفتاب یہاں چمک رہے یہ اللہ کا وہ وعدہ ہے جس کو اس نے یہاں پالیا) خوش رہو، مبارک ہو اور تِشنۂ محبت رہو
ہست دریائے محبت بے کنار
لاجرم یک تشنگی شد صدہزار
ترجمہ: (محبت کا دریا تو ناپید کنار ہے، اس کا ایک بار کا پیاسا لازماً ہزار بار پیاسا ہو) اس دنای کے تمام تر کاروبار ہمت پر موقوف ہیں جس کی ہمت جتنی بلند ہوگی اس کی تشنگی بھی اتنی زیادہ ہوگی۔
ہر کہ صاحب ہمت آمد مردشد
ہمچو خورشیداز بلندی فردشد
ترجمہ: (جو صاحب ہمت ہے فی الواقع مرد وہی ہے، مانند خورشید کی بلندی سے نیچے ہو) گردش ایام میں صبر کے کڑوے گھونٹ پینے کے علاوہ چارہ کار نہیں۔ سختیوں میں جینا سیکھو ورنہ کچے اور خام رہ جاؤ گے، یہ تیرے لیے نہیں ہے بلکہ تمام سالکین کا یہی طریقہ رہا ہے۔
تانگردی نقط درد اے پسر
کے تواں خواندن ترامرد اے پسر
ترجمہ: (جب تک نہ ہووے تو مجسمہ درد اے بیٹے، اس وقت تک مجھے مرد کہنا ٹھیک نہیں) اے بھائی! توحید کا راستہ کہ جو مردوں اور بہادروں کا دین ہے یہ ایک ایسا بیکراں دریا ہے کہ جس میں علم و عقل تمام غرق ہیں۔ کیسا لکھنا اور کہاں کا کہنا اس دریا میں جو پڑتا ہے عالم حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہےا ور اس کی مثال یہ ہوتی ہے۔
قطرہ کو غرق در دریا بود
ہر دو کو نش جز خدا سوا بود
برادر من! جو آدمی سکر اور غلبہ عشق میں کوئی بات کہ دیتا ہے تو وہ معزور ہو بہترین عادت اس گروہ کی یہ ہے کہ
(کہ شریعت پر ثابت قدم رہنا اور راز ہائے سربستہ کو مخفی رکھنا)
اے بھائی! اگر ان تماشا گاہوں میں کسی کو اتفاق سے (آپ نے اس کو دیکھا جو اپنی خواہشات کو اللہ بنائے ہوئے ہے) سامنے آئے اور اس کی کیفیت یہ ہو کہ لا کے دائرہ میں بند ہو اور الا کی پاسبانی اور نگرانی کا قیدی ہو تو اچھی طرح سمجھ لے کہ الا کا نگراں اور دربان وہ ہے جس کا نام ابلیس ہے جو لوگوں سے کہتا ہے۔
معشوقہ مراگفث نشیں بردرمن
مگذار دروں ہر کہ ندار و سرمن
ترجمہ: (معشوقہ نے مجھ سے کہا کہ تو میرے دروازے پر بیٹھ جا اور ہر اس آدمی کو اندر نہ آنے دے جو ہمارا راز دار نہ ہو)
اے بھائی! شیطان نے مردود ہوکر عالم ملکوت میں یہ گل کھلائے ہیں کہ متعدد ان لوگوں اور بزرگوں کو گمراہ کردیا جن کو یقین ہوچکا تھا کہ ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکے ہیں۔ سبحان اللہ ایک مہجور فرقت اور جدائی کی مصیبتوں میں مبتلا کا واقعہ سنو!
زادالارواح میں حضرت وہب بن منبہ سے مروی ہے کہ میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ شیطان نے کوہ طور کے قریب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی۔ باتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ابلیس سے فرمایا کہ تو نے جو آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا یہ کوئی اچھا کام نہ تھا، ابلیس نے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ اچھا کیا، میں اپنے دعویٰ سے انکار کرکے تمہاری مانند نہیں بننا چاہتا، کیونکہ میں نے دعویٰ کیا تھا کہ خدایا تیرے بغیر کسی کو سجدہ نہیں کروں گا، میں نے سزا تو برداشت کرلی مگر جھوٹ نہیں بولا، اور آپ نے محبت کا دعویٰ کر رکھا ہے چنانچہ اللہ نے آپ سے فرمایا کہ پہاڑ کی جانب دیکھیے اگر وہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو آپ مجھے دیکھ سکیں گے اگر میں آپ کو نہ بچالیتا تو آپ کو ضرور دیکھ لیتے۔
اہلِ محبت اور ذوق کو دنیا میں بہت سے کام اور راز صیغۂ راز میں رکھنے ہوتے ہیں۔ عین القضاے حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ تجھے کیا معلوم کہ ابلیس کیا ہے دنیا میں جبرائیل علیہ السلام جیسے اوصاف اختیار کرکے اس کے چوری کے کاموں پر نظر رکھو، اسی لیے کہا گیا ہے۔
سر تافتہ آں رہ رواز سجدہ غیراؤ
گر مرؤ رہ اوئی کم زانت نبایدبد
اہلِ محبت کو خوب معلوم ہے کہ دنیا میں الفت و محبت والوں کو کیا کیا مشکلات آتی ہیں، یوسف علیہ السلام جب اپنے والد کے ہاں سے چلے گئے تو یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں آنکھیں چلی گئیں چنانچہ جب تک انہوں نے یوسف کو نہیں دیکھا اس وقت تک اس کے دوسرے بھائیوں کو بھی نہیں دیکھا اور جب یوسف علیہ السلام کے پیرہن کی برکت پائی تو انکھوں کی بنیائی پھر سے لوٹ آئی اسی لیے کہا گیا ہے۔
ہر کہ اور ایوسف گم کردہ نیست
گرچہ ایماں آورد آوردہ نیست
(ہر وہ آدمی جس نے یوسف کو گم نہیں کیا، اگرچہ وہ ایمان دار ہے مگر ابھی تک اس کا ایمان کامل نہیں)
اے بھائی! بفرض محال اگر دنیا کے تمام لوگ تیرے دروازے پر حاضری دیں اور تجھے یہ کہیں کہ جو تیرے دل میں آئے آپ وہ تصرف کریں تو خبردار! اس سے ہوشیار اور مجتنب رہنا کیونکہ دنیا اور آخرت سے جو قوت زیادہ ہے وہ دراصل محبوب اور مستور ہے کہیں ان کی باتوں میں آکر بہک نہ جانا وہی کہتے اور کرتے رہو جو عارف کہتے ہیں۔
دنیا است بلا خانہ و عقبی ہوس آباد
ماحصل ایں ہر دوبیک جو نستانم
سلطان العارفین خواجہ بایزید فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں عیسیٰ کی روحانیت اور موسیٰ کی اللہ سے ہمکلامی اور خلیل جیسی خلت عطا کردی جائے تو اس سے زائد کا مطالبہ کرو کیونکہ اللہ کے خزانوں میں اس سے بھی زیادہ عطائیں موجود ہیں۔
اے بھائی! ہر زمانے میں عالمِ محبوب سے ہر عاشق کو یہ خطاب ہوتا ہے کہ اے مشرق کے مسافر، اے مغرب کے مجاہد، اے بلندیوں پر نظر رکھنے والے، اے ثریا تک کمند ڈالنے والے تو مجھے جہاں تلاش کرے گا مجھے وہیں پائے گا۔
عارِف کون؟
اے برادر! جب آپ کا خط پہنچا اس وقت بہت شور و شغب تھا، اے بھائی جب امام شبلی سے لوگوں سے پوچھا کہ عارف کے اوصاف کیا ہیں تو فرمایا کہ عارف وہ ہے جو بہرا، گونگا، اندھا ہو۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ زبان کو قابو میں رکھیں کیونکہ شور و غوغا میں کوئی فائدہ نہیں اور اس بات کے موافق (جو عارِف کی تعریف میں گزری) سوختہ جان ہوجانا چاہیے، مصیبتوں کو برداشت، ماتم اور نوحہ کو پی جانا چاہیے اور ڈکار تک نہیں لینا چاہیے یعنی بھولے سے بھی ماتم نہیں کرنا چاہیے اور صبر و تحمل سے زندہ رہنا چاہیے نیز اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ اور دنیا داروں کا بھی یہ قاعدہ ہے کہ وہ جب تک دنیا میں زندہ رہتے ہیں مندرجہ بالا بات کے بالمقابل روتے رہتے ہیں اور دنیا سے جاتے وقت بھی روتے اور پیٹتے ہوئے جاتے ہیں۔ آج جو قبرو ں میں سو رہے ہیں وہ قبروں سے اسی کیفیت کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جس کیفیت سے مرے تھے۔
اے بھائی! گندگیوں میں ملوث ہونے کے باوجود دعویٰ قدس و طہارت جو اللہ کو لائق ہے ہمارے لیے نامناسب اور ممتنع الوجود ہے، یقین کرو کہ گناہوں سے پاک رہنا یا تو پیدائش سے پہلے تھا اور یا ختم ہونے کے بعد ہوگا اسی لیے عارف لوگ کہتے ہیں کہ (کہ میں عدم کو چاہتا ہوں جس کا وجود نہیں)۔
اے بھائی! تم نے جس منزل میں قدم رکھا ہے اس منزل کے مرد میدان یہ کہہ رہے ہیں۔
(میں تیری ذات میں متحیر ہوں میری امداد فرمائیے اور آپ اس کے لیے دلیل ہیں جو آپ کی ذات میں پریشان ہوجاتا ہے)
اے بھائی! یہ سب کچھ لکھنا اور پڑھنا ظاہری اور بیرون پردہ ہے اور در پردہ یہ ہے۔
چوں سرازل طعمہ ابدال شود
آں جملہ قیل و قال پامال شود
ہم مفتیٔ شرح راجگر خوں گردد
ہم خواجہ عقل رازباں لال شود
ترجمہ: (جب اسرار ازلی ابدال کی غذا بن گئے، تو تمام قیل و قال ختم ہوگئی۔ شریعت کے مفتی کا جگر خون ہوگیا، اور اہل عقل کی زبان بند ہوگئی)۔
اخبار الاخیار