آپ قرآن کریم کے حافظ تھے ابتدائی عمر میں مخدوم جہانیاں کی صحبت میں رہے اور برسوں تک وہاں کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہے، دوسرے ائمہ جو علوم ظاہری حاصل کرچکے تھے وہ جب مخدوم جہانیاں کی عنایات اور نوازشات کی آپ پر بارش ہوتے دیکھتے تو آپ پر رشک کرتے تھے، چنانچہ مخدوم جہانیاں کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ سراج جب تک خانہ کعبہ کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کرلیتے اس وقت تک تکبیر تحریمہ نہیں کہتے، مشہور ہے کہ بہت سی کرامات اور خوارق عادات آپ سے خود بخود معرض وجود میں آتی رہتی تھیں، اگرچہ آپ ان کو مخفی رکھنے کی بے حد کوشش کرتے تھے۔
شاہ مدار شیخ سراج کے زمانہ میں ہر مز سے کالپی تشریف لائے، اُن کے پاس لوگوں کا ایک جمِ غفیر ہمیشہ جمع رہتا تھا چنانچہ وہ چند ہی دنوں میں اس علاقے کے اندر بہت مشہور ہوگئے، شاہ مدار کی کچھ باتیں بظاہر خلاف شرع تھیں، اسی زمانہ میں قادر شاہ ابن سلطان محمد جو سلطان فیروز شاہ تغلق کے خاندان سے تھے وہ اپنےوالد کے انتقال کے بعد اس علاقہ، کے حاکم اعلیٰ مقرر ہوئے تھے وہ شاہ مدار کی شہرت سن کر ملاقات کے لیے شاہ مدار کی قیام گاہ پر آیا، خادموں نے قادر شاہ سے کہہ دیا کہ اس وقت شاہ مدار سے ملاقات نا ممکن ہے کیونکہ وہ ایک درویش کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کررہے ہیں، یہ سن کر قادر شاہ نے شاہ مدار کے خادموں سے کہہ دیا کہ شاہ مدار سے کہ دینا کہ وہ ہمارے شہر سے چلا جائے، یہ کہہ کر قادر شاہ اپنے گھر آگیا چنانچہ جب شاہ مدار کو شاہی حکم کی اطلاع ہوئی تو وہ اس شہر سے نکل کر ندی پار چلے گئے اور نکلتے وقت قادر شاہ کے لیے بد دعا بھی کردی، چنانچہ آپ نے اپنے خادموں سے کہا کہ تین دن کے بعد مجھے بادشاہ کی کیفیت سے مطلع کرنا، جب شاہ مدار ندی پار چلے گئے تو قادر شاہ بادشاہ کے جسم پر پھنسیاں نکل پڑیں جس کی سوزش سے قادر شاہ بیتاب ہوکر شیخ سراج سوختہ کے پاس آیا، شاہ مدار نے اپنا کرتہ اُتار کر قادر شاہ کو پہنایا، چنانچہ پھنسیاں اسی وقت ختم ہوگئیں اور کوئی سوزش باقی نہ رہی شاہ مدار کے ارادتمندوں نے جب دیکھا کہ قادر شاہ نے شاہ مدار سے پناہ حاصل کرلی ہے تو وہ تین روز تک انتظار کرکے ندی پار چلے گئے اور شاہ مدار کو تمام حالات بتلادئیے اس کے بعد شاہ مدار جونپور چلے گئے اورپھر وہاں سے قنوج کے ایک قصبہ لکن پور میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
اخبار الاخیار