خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ کیتھل میں ایک بزرگ رہتے تھے جنہیں لوگ صوفی بدھنی کہا کرتے تھے وہ اس قدر تارک الدنیا تھے کہ ستر پوشی تک نہ کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ جو اس قدر کھائے کہ اس سے بھوک ختم ہوجائے اور قوائے بدن برقرار رہیں، نیز اتنا کپڑا پہنتا ہو کہ اس سے ستر پوشی ہوجاتی ہو تو ایسے آدمی کی اتباع کرنی چاہیے لیکن اس قول کے خلاف ان کا اپنا عمل یہ تھا کہ نہ خود کھاتے اور نہ ہی پیتے تھے، فوائد الفواد میں بھی ان کی یہی کیفیت لکھی گئی ہے۔
خیرالمجالس میں شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی سے نقل کیا گیا ہے کہ صوفی بدھنی کو عبادت کا بے اتہا ذوق و شوق تھا، مسجد میں رہتے اور شب و روز محراب کے سامنے نماز پڑھتے رہتے، اس کے علاوہ آپ کا اور کوئی کام نہ تھا آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ایک دن کچھ علمائے کرام آپ کی خدمت میں تشریف لائے آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا جنت میں نماز ہوگی؟ علمائے کرام نے جواب دیا کہ جنت تو اصل میں جزا کی جگہ ہے جہاں کھانے پینے اور عیش کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا، عبادتیں تمام تر دنیا ہی میں کی جاتی ہیں آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ جس جنت میں نماز نہ ہوگی اس سے میرا کیا تعلق، اس کے بعد ہندی زبان میں ایک جملہ کہا جو قابل تحریر نہیں، اس کے بعد شیخ چراغ دہلوی نے آپ کے اکثر مناقب بیان کیے، منجملہ ان کے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ شیخ صوفی بدھنی کسی بلند جگہ پر چڑھ گئے جہاں ایک مرد غیب سے ملاقات ہوئی، پھر اس مرد سے شیخ صوفی بدھنی نے دریافت کیا کہ صوفی بدھنی کس قسم کا آدمی ہے؟ مرد غیب نے جواب دیا کہ ایک بزرگ ہے لیکن افسوس! اتنا کہنے کے بعد وہ استغفار میں مشغول ہوگیا اور استغفراللہ کہنے لگا، اتنا کہہ کر شیخ صوفی نے کہا کہ اس نے صوفی بدھنی پر آتے وقت استغفار شروع کردیا تھا اگر وہ استغفار نہ پڑھتا تو میں اس کو اس بلندی پر سے ایسا پٹختا کہ اس کی گردن ٹوٹ جاتی۔
شیخ صوفی جب ذکر اللہ میں مشغول ہوتے تو اس وقت آپ کی کیفیت یہ ہوا کرتی تھی کہ ہاتھ، پاؤں، سر، غرض یہ کہ سب اعضا جدا جدا ہوجایا کرتے تھے کسی نے دریافت کیا کہ شیخ صوفی بدھنی کس زمانے کے بزرگ تھے تو شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی نے جواب دیا کہ صوفی بدھنی شیخ الاسلام حضرت فریدالدین کے عہد و زمانے میں موجود تھے، نیز یہ بھی مشہور ہے کہ صوفی بدھنی کے گنبد پر کسی چڑیا کو بیٹھنے یا گزرتے ہوئے کسی نہ نہیں دیکھا۔
لوگوں میں یہ بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور شیخ صوفی بدھنی دونوں چنگیز خانیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، ایک روز تمام تر قیدی سخت بھوکے اور پیاسے تھے، کرامت کے طور پر خواجہ قطب الدین صاحب اپنی بغل سے روٹیاں نکال نکال کر قیدیوں کو تقسیم کر رہے تھے اور صوفی بدھنی ایک ہی لوٹے سے تمام قیدیوں کو پانی پلاتے رہے، اس واقعہ کے بعد خواجہ صاحب کاکی کے لقب سے اور شیخ صوفی بدھنی کے لقب سے مشہور ہوگئے۔ ہندی زبان میں ٹونٹی دار لوٹے کو بدھنی کہتے ہیں، اسی طرح خواجہ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کی نسبت بھی کاک کی طرف اسی مناسبت سے کی جاتی ہے (یعنی روٹی والا) اللہ کی آپ پر رحمتیں نازل ہوں۔
اخبار الاخیار