حضرت امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:امام سفیان بن عیینہ۔کنیت:ابومحمد۔لقب:امام الحرام۔محدث الحرم۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:محدث حرم امام ابو محمد سفیان بن عیینہ بن ابو عمران میمون ہلالی۔ ابن عیینہ کے دادا ابو میمون عمارہ ضحاک کے بھائی محمد بن مزاحم کے غلام تھے والد عیینہ والیِ کوفہ خالد بن عبداللہ قسری کے عمال میں سے تھے۔ 120ھ میں جب خالد کو معزول کردیا گیا تو عیینہ والیِ کوفہ یوسف بن عمر ثقفی کے عتاب کاشکار ہوئے گھر بار چھوڑ کر کوفہ سے پورے خاندان کے ساتھ مکہ آگئے اور حرم ہی میں پناہ لی اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 107ھ کوکوفہ میں ہوئی۔جب وہ مکۃ المکرمہ میں ہجرت کرکےپہنچےتوان کی عمر تیرہ سال تھی۔
تحصیلِ علم: اس وقت کوفہ علم کا بڑا مرکز تھا جہاں محدثین و فقہاء اور اہل فن علماء کی کمی نہ تھی آپ کے والد صاحبِ علم، صاحب ثروت شخص تھے۔انہوں نے اپنے ہونہار فرزند کی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام کے ساتھ کی پہلے قرآن شریف حفظ کرایا گیا سات سال کی عمر میں حفظ سے فارغ ہوئے تو حدیث کی کتابت شروع کرادی گئی 15 سال کی عمر تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔پھرہجرت کرکےمکہ میں آئےتو مکہ مکرمہ اس وقت ائمہ تابعین کا مرکز تھا امام زہری، عمرو بن دینار، ابن جریج اور بہت سے ائمہ قرآن و سنت کی مجلسیں قائم تھیں۔ یہاں آپ باضابطہ تحصیل علم کے لیے آمادہ ہوئے تو تمام علماء مکہ بالخصوص ابن شہاب زہری اور عمرو بن دینار کی مجلس درس میں شریک ہونے لگے اور جب تک یہاں قیام رہا ان سے الگ نہ ہوئے پھر وہ کوفہ آگئے اور وہاں کے اہل علم سے استفادہ کیا۔ آپ نے ستاسی تابعین کی زیارت کی تھی۔ قدرت نے ابن عیینہ کو بلا کا حافظہ اور ذکاوت عطا فرمائی تھی۔حافظہ اور ذکاوت کے بارے میں بیان ہے "ماکتبت شیئا حفظتہ" میں جس چیز کو ضبط تحریر میں لایا وہ مجھے یاد ہوگئی۔ (تاریخ بغداد، ج۹، ص۱۸۲)۔آپ کےشیوخ کثیرتعدادمیں ہیں۔
سیرت وخصائص: امام الحرم،محدث حرم،شیخ المحدثین،رئیس الاتقیاءحضرت امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کے ذوق و شوق ِعلم، سعادت مندی و ذکاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ علم تفسیر و حدیث کے بڑے امام ہوگئے۔ اکابر ائمہ فن نے ان کی عظمت علم کا اعتراف کیا ہے۔امام شافعی فرماتےہیں:"لولا مالک و سفیان لذھب علم الحجاز" امام مالک اور سفیان بن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز کا علم ختم ہوجاتا۔ (تہذیب التہذیب، ج۴، ص۱۰۵)
بشر بن مفضل:"ما بقی علی وجہ الارض احد یشبہ ابن عیینہ" روئے زمین پر کوئی عالم ابن عیینہ جیسا باقی نہیں رہا۔ (ایضاً، ص۱۰۶)ابن وہب:"ما رأیت احدا اعلم بکتاب اللہ من ابن عیینہ" میں نے ابن عیینہ سے بڑھ کر کتاب اللہ کا عالم نہیں دیکھا۔ (ایضاً)امام شافعی:"ما رأیت احداً من الناس فیہ جزالۃ العلم مافی ابن عیینہ وما رأیت احدا آلف عن الفتیا منہ"میں نے علم کی جتنی پختگی امام ابن عیینہ میں دیکھی ہے کسی میں نہیں دیکھی اور میں نے ان سے زیادہ فتویٰ دینے سے گریز کرنے والا کوئی عالم نہیں دیکھا۔ (ایضاً)ابن مہدی: "کان اعلم الناس بحدیث اھل احجاز" وہ اہل حجاز کی حدیثوں کے سب سے بڑے عالم تھے۔ (ایضاً، ص۱۰۷)
ابن حبان: "کان من الحفاظ المتقین واھل الوراع والدین" ابن عیینہ متقن حفاظ حدیث میں تھے۔ وہ صاحب تقویٰ اور دیندار تھے۔ (ایضاً)
ابن خلکان: "کان اماما عالما حجۃ زاھداً ورعاً مجمعا علی صحۃ حدیثہ و روایتہ" وہ امام، عالم، ثبت، حجت، زاہد اور پرہیزگار تھے حدیث کی صحت اور روایت میں وہ متفق علیہ ہیں۔ (وفیات الاعیان، ج۱، ص۳۷۷)
حافظ ذہبی: "العلامۃ الحافظ شیخ الاسلام محدث الحرم۔۔۔ کان امام حجۃ حافظا واسع العلم کبیر القدر" بہت بڑے عالم، نامور حافظ حدیث، شیخ الاسلام اور محدث حرم ہیں۔۔ آپ امام حجت حافظ حدیث، وسیع العلم اور جلیل القدر انسان تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص۲۴۲)
امام احمد بن حنبل:"ما رأیت اعلم بالسنن منہ" میں نے ان سے زیادہ حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں دیکھا۔ (ایضاً)حافظ ذہبی: "اتفقت الائمۃ علی الاحتجاج بابن عیینہ لحفظہ و امانتہ" ابن عیینہ کے حفظ اور امانت میں قابل حجت ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ (ایضاً)
خدمتِ حدیث: اقوال بالا سے ابن عیینہ کی علمی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے، کثرت روایت کے لحاظ سے دوسرے بہت سے تابعین پر فوقیت رکھتے ہیں مگر حدیث میں ابن عیینہ کو جو بات ان کے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے وہ حدیث نبوی کا فہم، تفسیر حدیث کا ملکہ اور وثوق واعتماد ہے ان اوصاف میں کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے احمد بن عبداللہ فرماتے ہیں: ان کے شمار حکماء حدیث میں ہوتا تھا گوکہ ان کی روایتیں صرف سات ہزار تھیں اور انہوں نے حدیث کا کوئی مجموعہ بھی نہیں چھوڑا۔ (تہذیب الاسماء، ج۱، ص۲۳۴)اکابر حدیث آپ کی فقاہت پر متفق ہیں ابو حاتم کہتے تھے مسلمانوں کے لیے ان (ابن عیینہ) کا علم حجت ہے عجلی کا بیان ہے کہ ان کی ذات قابل و ثوق اور قابل اعتماد ہے۔ (تہذیب الاسماء، ج۴، ص۱۳)
جب حضرت سفیان ابن عیینہ کوفہ پہنچےتو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا :"جاء کم حافظ علم عمرو بن دینار" تمہارے پاس عمرو بن دینار کی مرویات کا حافظ آگیا ہے۔ چناں چہ لوگ ان کی مرویات سے استفادہ کے لیے آنے لگے ابن عیینہ کا بیان ہے "اول من صیرنی محدثا ابو حنیفۃ" جس نے مجھے سب سے پہلے محدث بنایا وہ امام ابو حنیفہ ہیں۔ (وفیات الاعیان، ج۱، ص۳۷۷)
ابن عیینہ کا حلقۂ درس بہت وسیع تھا مگر ایام حج میں جب عالم اسلام کے لوگ حرمین شریفین حاضر ہوتے تو ان کے حلقۂ درس میں ازدحام ہوتا تھا۔حضرت امام شافعی،امام عبدالرزاق،امام اعمش،امام وکیع،سفیان ثوری،حمادبن زید،یحیٰ بن قطان وغیرہ آپ کےتلامذہ میں سےہیں۔
ابن عیینہ کی جلالت شان کے معترف صرف عوام اور علماء ہی نہ تھے بلکہ خلفاء اور امراء بھی آپ کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور ان کا نام عزت کے ساتھ لیتے تھے ابو ربیع کہتے ہیں میں ایک بار ہارون رشید سے ملا تو اس نے پہلے ہاشمی عالموں کا حال پوچھا پھر کہنے لگا سید الناس کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا امیر المومنین آپ کے سوا سید الناس کون ہے؟ کہا سفیان بن عیینہ سید الناس ہیں۔ (تاریخ بغداد، ج۹، ص۱۷۰)۔(جب علماءومحدثین کی بادشاہ وامراءقدرکرتےتھے،تواس وقت مسلمانوں کوعروج حاصل تھا۔کفاران کی ہیبت سےکانپتےتھے،لیکن جب اس امت نےاپنےعلماءِ کرام کی قدرکرناچھوڑدی توذلت ورسوائی اس کامقدربن گئی۔آج پوری دنیامیں مسلمانوں کی جوحالت ہےوہ کسی سےپوشیدہ نہیں ہے)۔
زہد و عبادت:امام ابن عیینہ کا پایہ جس قدر علم میں بلند تھا اسی قدر زہد و عبادت میں اپنے معاصرین پر فائق تھے۔ زندگی بڑی سادہ اور بے تکلف گذارتے تھے۔ ایک بار ان کے شاگرد ابو یوسف غسولی آپ سے ملنے گئے تو دیکھا کہ ان کے پاس جو کی دو ٹکیاں رکھی ہوئی ہیں۔ فرمایا چالیس سال سے یہی میری غذا ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال یکم رجب المرجب /198ھ،مطابق 24/فروری 815ءکوہوا۔کوہِ حجون کےقریب مکۃ المکرمہ میں مدفون ہوئے۔
ماخذومراجع: محدثین عظام حیات وخدمات۔