حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ
حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آں کلید مخزن ذوالجلال، متصرف ہمہ اسماء وافعال، مبداء عروجش منتہاء عرش عظیم، م رجع نزولش انا احمد بلامیم، ہادئ سالکان صرط مستقیم، قتیل خجزِ رضا وتسلیم، از مستی شیراب عشق ہوشیار، در بزم یک رنگی ہمکنار دلدار، دربطن ام بہ واحدانیت حق موقن (یقن کرنے والا) قطب افراد حضرت شیخ سوندہا ابن عبدالمون قدس سرہٗ، آپکا شمار محتشمان بارگاہِ کبریا اور محبوبان درگاہ مولا میں ہوتا ہے۔ تربیت مریدین میں آپ ایسے صفت اکسیر اعظم کے مالک تے تھوڑی سی توجہ سے تا بنے کو سونا بنادیتے تھے۔ اور ایک رنگی کے بوتے میں ڈال دیتے تھے۔ آپ بوتان ہدایت کے ایسے خوشبو دار پھول تھے کہ جسکی ولایت کی مہک سے طالبان راہِ خدا کے دماغ معطر ہوجاتے تھے۔ واصل مرتبۂ جاں گدازری خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر آپ پر صادق آتا ہے؎
یارب ایں نوگل خنداں کہ نمودی بہ منش
(یا الٰہی تونے یہ کیسا گل خنداں مجھے دکھایا ہے)
مریدین کو عقدہ کشائی میں آپ دست قوی، اور کشف و کرماات کے اظہار میں قوت جلی رکھتے تھے۔ آپ اپنے پیر ومرشد حضرت شیخ داؤد کے خلیفۂ جانشین تھے۔ اور اپنے تمام احباب سے سبقت لے گئے تھے۔ آپ وجد و سماع کے شیفتہ تھے اور حالت شوق میں جس شخص پر نظر ڈالتے تھے۔ شہود ذات لاکیف سے مشرف کردیتے تھے۔ جو شخص آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا آپ نگاہ کے اثر سے عالم محویت اور بیخودی میں چلا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت شاہ جلال الدین تھانیسری کے عرس کے موقعہ پر روضہ اقدس کے قریب بیٹھے تھے کہ یکا یک آپ پر محویت طاری ہوگئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت خواجۂ بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت کواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی روحانیت سامنے ہے اور آپ فرمارہے ہیں کہ ہم اس مجلس سے جارہے ہیں کیونکہ آنحضرتﷺ کی روحانیت بھی یہاں موجود تھی۔ لیکن بعض شرعی ممنوعت کی وجہ سے آنحضرت کی طبیعت منفض ہوگئی ہے جسکی وجہ سے آپ تشریف لے جارہے ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کونسی ممنوع چیز تھی، فرمایا مجلس میں امارد (بے ریش لڑکے) موجود تھے۔ جن کے متعلق آپ کی یہ ح دیث ہے اِتَّقُوْ مِنْ ابناء الملک فانَّ لھم شھوۃ کشھوۃ النسا
نیز فرمایا کہ ہماری اور آنحضرتﷺ کی روحانیت کے یہاں آنے کی وجہ یہ تھی کہ شیخ جلال الدین تھانیسری نے استدعا کی تھی تاکہ اہل مجلس ذوق و شوق اور احوال باطن سے مستفیض ہوں۔ چونکہ یہ لوگ آداب شریعت کا پاس نہیں کرتے ہم یہاں سےجارہے ہیں۔ جب حضرت اقدس نے یہ بات سُنی تو اپنےمشائخ کے عتاب کی ہیبت سے آپکی محویت میں اضافہ ہوا اور آپ نے فوراً تمام بے ریش لڑکوں کو مجلس سے نکال دیا۔ اسکے بعد تمام اہل مجسل پر ایسی پر کیف حالت طاری ہوئی کہ سب محویت واستغراق میں آکر غیر وغیریت سے آزاد ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشائخ چشت کے نزدیک جس طرح سماع میں اخوان وزمان، مکان شرط ہے اسی طرح بے ریش لڑکوں اور عورتوں کی عدم موجودگی بھی شرط ہے۔ صاحب مراۃ الاسرار حضرت شیخ روز بہان بقلی سے جو سلسلہ جنیدیہ کے اکابر مشائخ میں سے ہیں نقل کرتے ہیں کہ قوال خوبصورت ہونا چاہیے۔ کیونکہ عارفین محفل سماع میں راحلت قلبی کیلئے تین چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ارواح طیبہ، وجہ صبیح (خوبصورت چہرہ) اور صوتِ ملیح (خوش آواز)
سلسلۂ نسب
متواتر روایات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ قطب افراد حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ کا سلسلۂ نسب حضرت رسالت مآبﷺ کے خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی شیخ عبدالمومن تھا۔ جو بڑے صاحب جاہ وحشمت تھے۔ آپ قصبۂ سفید ون کے باشندہ تھے جو پانی پت سے غرب کی جانب چودہ کوس اور براس سے اٹھارہ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ قصبۂ بر اس راقم الحروف کا وطن ہے۔ قصبۂ سفیدون کے والد بادشاہ کے ملازم تھے۔ آپکے ایک بھائی تھے جنکا صغیر سنی میں انتقال ہوگیا تھا انکا مدفن بھ ی اسی قصبہ میں ہے۔ غرضیکہ جب حضرت اقدس اپنے والد بزرگوار کے زیر تربیت سن تمیز کو پہنچے تا آپ کے دل میں محبوب حقیقی کی محبت میں خلوت گزینی کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ تک آپ نے اس صوت حال کو فن سپاہ گری میں پوشیدہ رکھا۔ اس زمانے میں آپکا عقد ن کاح پانی پتکے ایک شریف گھرانےمیں ہوگیا۔ اس وجہ سے بھی آپ نے اپنی باطنی کیفیت کو ظاہری صورت میں پوشیدہ رکھا۔ کچھ عرصہ کے بعد آپکی منکوجہ کا انتقال ہوگیا اور حضرت اقدس کو تعلقات ظاہری سے خلاصی حاصل ہوئی۔ اب کیا تھا وَیَھْدِیْ اللہُ لِنُوْرہٖ مَنْ یَّشَاءُ (حق تعالیٰ ہدایت دیتا ہے اپنے نور سے جسکو چاہے) کے بمصداق ہدایت حق کے فوارے جاری ہوئے یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّونَہٗ ( اللہ اُن سے محبت کرتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں) کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ اور آپ اپنے خان و مان کو چھوڑ کر نکل پڑے کسی نے خوب کہا ہے؎
مارا نہ مرید وردِ خوان مے باید |
|
نے زاہد ونے حافظ قرآن باید |
صاحب دردے سوختہ جان مے باید |
|
آتش زدۂ بہ خان و مان مے باید |
(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیں نہ دود وظائف پڑھنے والے مرید کی ضرورت ہے نہ زاہد اور حافظ قرآن کی ضرورت ہے۔ ہمیں تو ایسے صاحب درد اور سوختہ جان کی ضرورت ہے جو اپنے خان و مان کو آگ لگادے)
تلاش مرشد
پس آگپ گھر سے روانہ ہوکر تلاش شیخ میں پانی پت پہنچے اور حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کے روضۂ اقدس کے قریب قیام فرمایا جب نمازِ عشاء سے فارغ ہوکر آپ نے آرام فرمایا تو حضرت شیخ جلال الدین کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت شیخ داؤد کی صورت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ تمہارے پیر ہیں انکا نام شیخ داؤد ہے اور قصبۂ گنگوہ میں رہتے ہیں۔ اُنکے پاس جاؤ مطلوب حقیقی حاصل ہوجائیگا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو حضرت شیخ داؤد کی صورت کو اپنہ لوحِ قلب پر منقش پایا۔ صبح ہوتے ہی آپ گنگوہ کی طرف روانہ ہوئے۔ انکی خانقاہ میں پہنچتے ہی حضرتِ شیخ کے حسن وجمال کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اور دل و جان سے انکی محبت میں گرفتار ہوگئے اور فوراً آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت شیخ سوندہا کی بیعت حضرت شیخ محمد صادق ابن شیخ فتح اللہ گنگوہی سے تھی اور تربیت وخلافت شیخ داؤد سے حاصل کی۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے۔ روایت ہے کہ جب آپ حضرت شیخ داؤد کی خدمت میں پہنچے تو حضرت شیخ معشوقانہ انداز میں استغناء سے پیش آئے اور چھ ماہ تک بیعت میں قبول نہ فرمایا۔ اور اُن سے کشیدہ رہے۔ بلکہ وقت کے دوسرے مشائخ سے بیعت ہونے کا اشارہ فرماتے رہے۔ لیکن چونکہ حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کے باطنی اشارہ کی وجہ سے آپ حقیقت حال سے آگاہ ہوچکے تھے آپ آستانہ عالیہ میں مقیم رہے اور زبان حال سے یہ کہتے رہے؎
ہمہ شہر پر زخوباں منم وخیال ما ہے |
|
چکنم کہ چشم بدخو نکند بکس نگا ہے |
(سارا شہر ح سینوں سے پُر ہے لیکن میں اپنے محبوب کی محبت میں مست ہوں اور میری نگاہ میں کوئی نہیں جچتا) ایک دن آپ نے موقعہ پاکر حضرت شیخ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضرت شیخ جلال الدین کا بھیجا ہوا ہوں جیسا کہ حضور اقدس کو معلوم ہے لیکن حیرت ہے کہ اس فقیر کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ یہ سنکر آپ نے تبسم کر کے فرمایا کہ تم روزِ اَلَست کے مقبول ہو۔ لیکن میں تمہارے صدق کے کمال کی آزمائش کر رہا تھا کہ کہاں تک ہے۔ الحمدللہ کہ تم صدیق ثابت ہوئے ہو اور تمہاری استعداد و نہایت اعلیٰ اور وسیع ہے اسکے بعد آپ نے انکو بیعت کا شرف بخشا۔ اور ارشاد فرمایا کہ تین دن روزہ رکھو اور اس اثناء میں ایک لاکھ ختم کلمہ طیبہ کرلو۔ چوتھے روز غسل طریقت کر کے عشا کی نمازکے بعد میرے پاس آنا۔ چنانچہ آپ نے اس پر عمل کیا اور جب چوتھے دن حاضر خدمت ہوئے تو حضرت اقدس نے آپکو ذکر نفی واثبات اور ذکر اسم ذات بطریق جہر تعلیم فرمایا اور حکم دیا کہ ایک تنگ و تاریک حجرہ میں بیٹھ کر دن رات اسکی مداومت کرو۔ انشاء اللہ تعالیٰ جلدی فتح باب نصیب ہوگی۔ اسکے بعد کلاہ چار ترکی اپنے سر سے اتارکر اُن کے سر پر رکھی اور شجرۂ مشائخ بھی عطا فرمایا۔
ضرورت بیعت
یاد رہے کہ بیعت حق تعالیٰ کا حکم اور آنحضرتﷺ کی سنت ہے ور جب تک حق تعالیٰ ک ی عنایت شامل حال نہیں ہوتی بیعت جیسی عظیم سعادت نصیب نہیں ہوتی۔ لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے وقت کے کسی شیخ کامل سے بیعت کرلے ورنہ کفر اور جالیت کی موت مریگا۔ جیسا کہ رسول خداﷺ فرمایا ہے مَنْ مَات ولم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ جاھلیۃ (جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا اور مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا) ائمہ دین اور صوفیائے اہل یقین کے مابین اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا۔ بیعت فرض ہے، واجب ہے، سنت ہے مستحب، جو حضرات بیعت کو فرض قرار دیتے ہیں یہ آیت پیش کرتے ہیں یا ایھاالذین امنو اتقو اللہ واتبغوا الیہ الوسیلۃ( اے ایامن والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وسیلۃ تلاش کرو)۔ نیز اس آیت کو بھی پیش کرتے ہیں جو حضرت صدیق اکبر کی شان میں نازل ہوئی ہے اِتَبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلیَّ (اس بندۂ کدا کا اتباع کرو جسکو میں اپنا بنالیتا ہوں) چنانچہ بیعت کو فرض ماننے والے حضرات ان دو آیات سے بیعت کی فرضیت ثابت کرتے ہیں اور اکثر مفسرین حضرات نے ان آیات کی یہی تفسیر کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ابتغا وسیلہ اور بندۂ مومن کی اتباع سے مراد بیعت ہے۔ مومنین کی رسول خداﷺ کے سات اگر چہ اسکے متعلق انہوں نے دیگر رموز بھی بیان کیے ہیں۔ بہر حال یہ صیغۂ امر ہے جس سے بیعت کا فرض ہونا ثابت ہے اور جب تک بیعت کے فرض ہونے کی نفی کی کوئی اور دلیل پیش نہیں کی جاسکتی اس سے انکار کرنا حقیقت سے رو گردانی کےمترادف ہے۔ اور چونکہ اسکی نفی کی کوئی دلیل نہیں ملتی بیعت کا فرض ہونا صحیح ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ بیعت واجب ہے اور ان دونوں آیات میں صیغۂ امر سے بیعت کا واجب ہونا ثابت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بیعت فرض ہوتی تو اسکا منکر کافر ہوتا۔ حالانکہ مقتدایان دین اس بات پر متفق ہیں کہ بیعت کا منکر کافر نہیں ہوجاتا۔ بعض ان ایات سے بیعت کا مستحب ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ بیعت سنت ہے۔ انکا کہنا ہےکہ اگر بیعت فرض یا واجب ہوتی تو اسکے ترک کرنے والے کیلئے کوئی وعید نازل ہوتی۔ اور بیعت کا تارک فاسق و فاجر قرار دیا جاتا۔ حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ کاتب حروف کا عقیدہ یہ ہے کہ بیعت ہر مرد وزن کیلئے لوازمات اور ضروریات دین میں شامل ہے خواہ اسکا نام فرض رکھا جائے یا واجب اور سنت کہا جائے۔ نیز تارک بیعت کیلئے وعید بھی وارد ہوئ ہے اور یہ وعید اس حدیث پاک میں جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے یعنی جس نے بیعت نہ کی اور مرگیا تو جاہلیت کی موت مرا ۔ اور بیعت کا مقصد مرید کا ہاتھ پکڑ نا، اپسے پند ونصیحت کرنا اور مرید کیلئے پیر کے حکم کی تابعداری کرنا، گوش دل سے سننا اور قبول کرنا اور ہمیشہ یاد حق میں رہنا ہے اور جب تک مرید پیر کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیتا اور پیر اسکے سر پر مقراض نہیں چلاتا اور اُسے خرقہ عطا نہیں کرتا بیعت درست نہیں ہوتی۔ اور خرقہ سے مراد کپڑا یا کپڑے کا کوئی ٹکڑا یا کلاوہ ہے۔ اور بعض حضرات خرقہ ومقراج کو ضروری نہیں سمجھتے لیکن اسکا اثر اس قدر ہوتا ہے کہ کوئی اس کام کو ترک نہیں کرتا۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے۔ اَلْمُریْد لایکنو مریداً حتیٰ لا یا خذ الشیخ شعر راسہ ولا یعطی لہ خرقہ (مرید اس وقت تک مرید نہیں کہلاتا جب تک شیخ اسکے سر کا بال نہ لے اور اسے خرقہ نہ عطا کرے) سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہٗ کے زمانے میں یہ فتویٰ دیا جاچکا تھا کہ بیعت ہوئے بغیر مریدنہیں ہوسکتا۔ حضرت شاہ میں اس بات پر اختلاف ہے کہ مرید کسے کہتے ہیں۔ اور مراد اور شیخ ی تعریف کیا ہے۔ بعض کایہ خیال ہے کہ جب کوئی شخص کسی بزرگ صاحب ولایت کی خدمت میں آکر انکی حرکات وسکنات کی متابعت کرتا ہے تو اُسے مرید کہتے ہیں۔ اور بیعت لینے والے بزرگ کو مراد یا شیخ کہتے ہیں۔ لیکن اصلی رکن بیعت ہے جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔
طریق بیعت
غرضیکہ جب کوئی شخص مرید ہونا چاہتا ہے تو پیر پہلے اُسے غسل دلاتے ہیں یا ضو کراتے ہیں اور پھر دو رکعت نفل پڑھاتے ہیں کہ یہ ہاتھ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ ہے اور انبیاء علیہم السلام گواہ ہیں۔ اسکے بعد تین بار تینوں کلمے پڑھاتے ہیں یعنی پہلا کلمہ طیبہ، دوسرا شہادت تیسرا کلمہ تمجید، اسکے بعد اَمَنْتُ باللہ آخر تک معنوں کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ اور تمام لوازمات مشئاخ ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں۔ لیکن اصل رکن پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے جب تک ہاتھ نہیں دیتا مرید نہیں ہوتا پیر کو چاہیے کے بعد مرید کی پیشانی سے تین بال کاٹ لیں اور بال کاٹتے وقت تین بار تکبیر یا لفظ حق بآواز بلند کرے۔
تین بالوں سے کیا مراد ہے
تین بالوں سےمراد تین حجاب ہیں۔ پہلا حجاب نفس ہے، دوسرا حجاب دنیا اور تیسرا حجاب عقبیٰ ہے۔ اور بالوں کے دائیں طرف یا بائیں طرف کاٹنے کے بارے میں بھی مشائخ کے مختلف اقوال ہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ تین بال دائیں طرف سے، دو بال بائیں طرف سے اور ایک بال پیشانی سے لیے جائیں۔ اسکے بعد ان بالوں کو زمین میں دفن کیا جائے۔
قینچی چلانے کی رسم کب شروع ہوئی
قینچی کا چلانا حضرت شیث علیہ السلام سے شروع ہوا ہے۔ اور ادِ چشتیہ کے مصنف نےمعدن المعانی سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنے ہر بیٹے کو کسی نہ کسی کام اور کسبک میں لگادیتے تھے۔ لیکن جب حضرت شیث علیہ السلام پیدا ہوئے تو ابتدا سے وہ خلوت پسند واقع ہوئے اس وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام تامل کر رہے تھے کہ انکو کس کام لگایا جائے اس اثناء میں جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اے آد شیث صوفی ہے اسکے بعد حضرت شیث علیہ السلام رات دن خلوت میں مشغول ہوگئے۔ یہاں تک کہ خلق خدا ان سے تعلق پیدا کرنے اور مرید ہونے لگی۔ جب لوگوں کی آمد ورفت بڑھ گئی تو جبرئیل علیہ السلام نے آ آکر شیث علیہ السلام کو قینچی دی اور فرمایا کہ جو شخص آپ سے تعلق پیدا کرتا ہے اس قینچی سے اسکے سر کے بال لیا کریں تاکہ آپکے اور اس کے درمیان تعلق مضبوط ہو۔ یہ ہے قینچی چلانے کا اصل مطلب۔
لفظ صوفی کب سے مروج ہوا
حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر قدس سرٗ نے حضرت خواجہ حسن بصری سے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی روایت کی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صاحب نسبت باطن پر لفظ صوفی کا اطلاق حضرت شیث علیہ السلام سے شروع ہوا یعنی حضرات صوفیائے کرام عالی مقام نے یہ اسم مبارک حضرت شیث علیہ السلام سے اور حضرت شیث علیہ السلام نے حق تعالیٰ عزوجل سے لیا ہے۔
رسالہ قشریہ میں لفظ صوفی کی وجہ تسمیہ
مولاناجامی نے اپنی کتاب نفحات الانس میں امام قشیری سے روایت کی ہے کہ جن حضرات کو رسول اللہﷺ کی صحبت نصیب ہوئی انکو صحابہ کرام کے نام سے موسوم کرتے تھے کیونکہ آنحضرتﷺ کی صحبت سے زیادہ افضل کوئی چیز نہ تھی۔ جن حضرات کو صحابہ کرام کی صحبت کا اثر حاصل ہوا انکو تابعین کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اسی طرح جن حضرات کو تابعین کی صحبت ملی انکو تبع تابعین کہا گیا۔ لیکن بعد میں جب مراتب و مشارب کے نظریّے میں تبدیلی واقع ہوئی اور لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو صحبت کے تعلق کی زیادہ اور عباد (جمع عابد) کے ناموں سے موسوم کیا جانے لگا۔ اسکے بعد لوگوں کے درمیان جب بدعت بڑھ گئی تو ہر طائفہ ہر شخص کو اپنے طریق کے نام پر موسوم کرنے لگا۔ اور ہر فرقے کا یہ دعویٰ تھا کہ زہاد کا وجود ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے زہاد کے لفظ نے شہرت پکڑی۔ چنانچہ خواص اہل سنت جو اپنے ہر سانس کا حساب کرتے تھے صفت تصوف سے منفرد ہوگئے اور یہ حضرات صوفیاء کے نام سےمشہور ہوگئے۔ اور اس کا عام اطلاق ہجرت کے دو سو سال بعد شروع ہوا۔ اور نفحات میں یہ بھی آیا ہے کہ پہلے بزرگ جو صوفی کے نام سے مشہور ہوئے مفردین کے سردار حضرت شیخ سوندہا ہیں۔ جب آپ مرتبۂ ملکوت و جبروت سے گذر کر مقام بے کیفی پر پہنچے اور آپکا دل نقوش تجلیات صوفیہ و معنویہ سے پاک ہوا تو حق تعالیٰ کی جانب سے آپکو صوفی سوندہا کا خطاب ملا۔ اسکے بعد آپ خلقت میں بھی اسی نام سےمشہور ہوگئے۔ اور طالب حق اسم صوفی کا مستحق اس وقت ہوتا ہے جب بحر لا کیف اور لا مثال اسکے قلب میں موجزن ہوتی ہے اور فنائے حقیقی کے بعد تجلیات مثالیہ کی بیخ کنی ہو جاتی ہے۔ اسی سبب سے قطب وقت حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی قدس سرہٗ نے صوفی کی تعریف میں فرمایا ہے کہ صوفی نہ رسومات وعادت سے صوفی بنتا ہے نہ نماز، روزہ، تسبیح اور مصلے سے صوفی بنتا ہے بلکہ صوفی وہ ہے جو نہیں ہے[1]۔ اور وہ سالک جو اس مقام تک نہیں پہنچا ُسے صوفی نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ متصوف کہلاتا ہے (یعنی تصوف کی کوشش کرنے والا) اگر وہ طالب حق ہے تو متصوف کہلاتا ہے ورنہ عابد یا زاہد کہلاتا ہے۔
دوسرا ماخذ
بعض کہتے ہیں کہ اسم صوفی اصحاب صفہ سے ماخوذ ہے ور اہلِ سنت اسی وجہ اسم مبارک کے ساتھ مخصوص ہوئے ہیں۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ مورخین کا ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ مدینہ منورہ میں کچھ لولگ رہتے تھے جو فقر اور توکل کا شیوہ رکھتے تھے اور شغل مع اللہ (یعنی بادِ اصلِ حق) کے سوا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک مکان میں رہتے تھے اس وجہ سے مدینہ کے لوگ انکو اہل صفہ کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ لوگ اہل صفا بھی تھے اور اسی صفائے بطن کی وجہ سے آنحضرتﷺ کے ساتھ بدرجۂ اکمل واتم عقیدت اور اخلاص رکھتے تھے۔ جب آنحضرتﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو وہ تمام لوگ کمال نیاز مندی سے آنحضرتﷺ کی اتباع میں مشغول ہوگئے اور فیض صحبت سے بہرہ ور ہوئے۔ چنانچہ کلام الٰہی میں اسکا ذکر آیا ہے۔ آنحضرتﷺ ان لوگوں کو کسب وجہاد وغیرہ میں شامل نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ انکو اُسی توکل وتجرد پر چھوڑ رکھا تھا۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے وہ اصحاب صفہ مہاجرین میں سے تھے۔ صاحب کشف المحجوب نے ان میں سے چوتیس صحابہ کے اسمائے گرامی لکھے ہیں۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی حذیفہ یمانی، بلال حبشی اور مقداد رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اصحاب صفہ میں سے تھے اصحاب صفہ امت کے وہ فقرا تھے جو مسجد نبوی میں رہتےتھے اور دنیا اور کسب رزق وغیرہ سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اور احادیث نبوی میں ان حضرات کے بہت فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ جب پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام انکو دیکھتے تھے تو کھڑے ہوجاتے تھے۔ نیز انکے دلوں میں فقر و مجاہدہ کی محبت دیکھ کر آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ تم لوگوں کے لیے بھی بشارت ہے جو تمہارے بعد تمہارے مسلک پر ہونگے۔ پس جب اہل صفہ کی آنحضرتﷺ سے یہ نسبت قرب ثابت ہوگئی تو صوفیانِ اہل صفا کیوں نسبت کو اختیار نہ کریں۔ آمدیم بر سر مطلب۔
پیر طریقت کو چاہے کہ مرید کے سر پر قینچی چلائے اور اسے کلاہ عنایت کرے ار اد چشتیہ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی اور حضرت شیخ نظام الدین بدایونی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرتﷺ کی خدمت میں بہشت سے چار کلاہ (ٹوپی) یعنی یک ترکی، دو ترکی اور چار ترکی لائے اور عرض کیا کہ یہ ٹوپیاں اپنے سر پر رکھ کر تبرک بنائیں اور پھر جسے چاہیں عطا کریں۔ آنحضرتﷺ نے اُں ٹوپیوں کو اپنے سر پر رکھ کر کلاہ یک ترکی حضرت ابو بکر کے سر پر رکھی، کلاہ دو ترکی حضرت عمر کے سر پر کلاہ سہ تر کی حضرت عثمان کے سر پر اور کلاہ چات ترکی حضرت علی کے سر پر اپنے ہاتھ مبارک سے رکھی اور فرمایا کہ تم چاروں اصحاب کو خلافت الٰہی مبارک ہو۔ چنانچہ مشائخ عظام کا اپنے مریدین کو کلاہ عطا کرنا اسی سنتِ رسولﷺ کی وجہ سے ہے۔
کلاہ یک ترکی، دوترکی، سہ ترکی چہار ترکی سے کیا مراد ہے؟
یاد رہے کہ کلاہ ایک ترکی سے یہ مراد ہے کہ جو شخص اسے سر پر رکھتا ہے یاد خدا اور محبت حق تعالیٰ کے سوا اسکے دل میں کوئی اور چیز نہیں آتی۔کلاہ دو ترکی کا مطلب یہ ہے کہ ایک ترکِ دنیا کرے دوسرے یہ کہ اگر کوئی چیز اُسے ملے تو شام تک نہ رکھے۔ کلاہ سہ ترکی یہ ہے کہ اول ترک دنیا کرے، دوم اہل دنیا سے پرہیز کرے، سوم حسد کو دل سے نکال دے۔ کلاہ چہار ترکی کا مقصد یہ ہے کہ اول ترک دنیا کرے، دوم ترک لسان یعنی لذت طعام اور کلام مخش سے پرہیز،سوم یہ کہ جو چیز حرام ہے اسکا دیکھنا ترک کرے۔ چہارم طہارت قلب یعنی دل کو ظاہری وباطنی کدورت سے پاک کرے۔ جو شخص ان تمام خصائل سے ایک بھی نہیں رکھتا اسکے لیے سر پر کلاہ رکھنا حرام ہے۔ غرضیکہ پیر مرید کو داخل سلسلہ کرنے اور ٹوپی پہنانے کے بعد اسےمشائخ عظام کا شجرہ عطا کرتے ہیں اور چشتیہ میں بھی یہی لکھا ہے۔
شجرۂ مشائخ
حضرت قطب العالم شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ عظام کا شجرہ اور اوراد کا طریقہ یہ ہے کہ پیر پہلے شجرہ کی ابتدا اپنے نام سے کرتے ہیں اور پھر دوسرے مشائخ اور آنحضرتﷺ کے اسمائے گرامی کے ذریعے مناجات کیے جاتے ہیں۔ جب یہ فقیر حقیر خود شجرہ لکھتا ہے تو ادب کی خاطر اپنے نام کے ساتھ فقیر وحقیر لکھتا ہے اگر کوئی دوسرا لکھتا ہے وہ عام دستور کے مطابق لکھتا ہے نیز ترک ادب کے خوف سے بعض مشائخ شجرہ ش ریف کی ابتدا رسول مقبولﷺ کے اسم گرمای سے کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے سلسلے میں ابتدا پیر کے نام سے کی جاتی ہے اور بعد میں دوسرے مشائخ کی خدمت میں توجہ اور التماس کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ شجرہ عطا کرنا مشائخ متاخرین کی سنت ہے اس میں راز یہ ہے کہ مشائخ کے اسمائے گرامی یاد ہوجائیں تاکہ انکے لیے فاتحہ دیا جائے۔ مشائخ متقدمین اس لیے شجرہ شریف نہیں دیتے تھے کہ وسائل کی کمی تھی اور لکھنے کی بجائے مریدین شجرہ شریف یاد کرلیتے تھے۔ لیکن اب چونکہ وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے شجرہ دینا ضروری ہے۔ اور ادِ چشتیہ میں لکھا ہے کہ مرید کو چاہیے کہ اپنے مشائک کا شجرہ یاد کر کے ہر فرض نماز کے بعد ایک دفعہ پڑھا کرے اس سے بیشتر از بیشتر برکات کا نزول ہوتا ہے۔ اگر ہر نماز کے بعد نہیں پڑھ سکتا تو دن رات میں ایک بار پڑھنا چاہیے اس وجہ سے کہ مرید اپنے پیر کو بجائے قبلہ دیکھتا ہے۔ جس طرح ظاہری قبلہ کی طرف منہ کرنا شریعت میں فرض ہے پیر کا یاد کرنا بھی طریقت میں فرض ہے کیونکہ پیر باطنی قبلہ ہے۔ جب سالک ظاہری وباطنی قبلہ کی شناخت کرلیتا ہے اس وقت وہ مسلمان موحد ہوتا ہے۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری فرماتےہی کہ اگر مرید کو کوئی دینی یا دنیوی م ہم (مشکل ) پیش آئے تو ایک بار سورت فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھے انشاء اللہ تعالیٰ ض رورت پوری ہوجائیگی۔ اور جب مرید فوت ہوجائے تو شجرہ کو اسکی قبر کے[2] اندر سرہانے کی طرف طاق بناکر رکھ دیا جائے۔ اور طاق ایسی جگہ بنایا جائے جو میت کے سر سے اوپر ہوتا کہ شجرہ شریف گندگی سے محفوظ رہے۔ نیز کلاہ شیخ یا کوئی کپڑا جو تبرکاً ملا ہو اسکو بھی اس طاق میں رکھ دے۔ بعض کےنزدیک شجرہ شریف میت کے زینے پر رکھنا چاہیے۔ دوسرے تبرکات جو مشائخ سے ملے ہوں انکے متعلق بھ ی یہی حکم ہے شجرہ کے متعلق مزید ہدایات اپنی جگہ پر آرہی ہیں۔
پردہ دار عورت کا مرید ہونا
اور ادِ چشتیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئ ی پردے دار عورت مرید ہونا چاہے تو پیر کو چاہیے کہ پہلے درمیان میں پردہ کھڑا کرے اسکے بعد اپنے ہاتھ کو صندل، زعفران یا گلی مٹی سے آلودہ کر کے سفید کپڑے پر اس طرح ہاتھ رکھے کہ اسکا نقش تیار ہو جائے۔ اسکےبعد اس نقش کو عورت کو دیکر اس سے کہے کہ اپنا دایاں ہاتھ اس نقش پر رکھے اور پھر رسومات بیعت پورا کرے۔ بعد میں وہ کپڑا اس عورت کو بخش دے۔ عورت کا ہاتھ پکڑنا اہل معرفت نے جائز نہیں رکھا۔ نیز اس کے سر کے بال کاٹنا بھی جائز نہیں ہے۔ بعض مشائخ یوں کرتے ہیں کہ عورت کا ایک وکیل مقرر کردیتےہیں جو عورت کا محرم ہوتا ہے اور اس وکیل کے ذریعے رسومات بیعت ادا کیے جاتے ہیں۔ بعض کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ جب پردہ در عورت مرید ہونا چاہے تو پیر کو چاہیے کہ پردہ لگاکر درمیان میں ایک پانی کا برتن رکھ دے اور پیر ومرید دونوں اپنی شہادت کی انگلی پان میں ڈال کر رسومات بیعت ادا کریں۔
غیر حاضر شخص کا مرید ہونا
اگر کوئی شخص پیر کی خدمت میں نہیں جاسکتا اور کسی دور دراز مقام پر بیٹھے مرید ہونا چاہتا ہے تو پیر کو چاہیے کہ یا اپنے ہاتھ کا نقش اسکے پاس بھیج کر اس پرمرید کا ہاتھ رکھوائے یا کسی شخص کو اپنی طرف سے وکیل مقرر کرے اس وکیل کے ذریعے اسکو بیعت کرے اگر یہ طریقے اختیار نہیں کیے جاتے تو پھرمرید غیب کی بیعت شک میں پڑجائیگی نیز مرید غیب کے پاس شجرہ اور کلاہ ارسال کرنا اور مرید کا قبول کرنا بھ ی اسکی بیعت قبول کرنے کی دلیل ہے۔ مشائخ عظام نے بیعت کی صحت کیلئے سات شرائط مقرر فرمائے ہیں۔
بیعت کی پہلی شرط
پہلی شرط یہ ہے کہ پیر زندہ ہو۔ پیر کی وفات کے بعد اسکے ساتھ بیعت کرنا جائز نہیں۔ نیز قبر سے بیعت کرنا اور لوگوں کو مرید بنانا بھی ناجائز ہے۔
دوسری شرط
دوسری شرط یہ ہے کہ مرید بالغ ہو اور اپنا نفع ونقصال سمجھ سکے ۔ بعض حضرا ت بلوغت کی شرط ضروری نہیں سمجھےت اور کہتے ہیں کہ نابالغ کا مرید کرنا بلکہ اسکی پیدائش سے بھی پہلے نیز ماں کے پیٹ میں آنے سے بھی پہلے اگر پیر کو بذریعہ کشف معلوم ہوجائے تو جائز سمجھتے ہیں اور بعض حضرات مردہ شخص کو دفن سے پہلے بیع کرنا بھی روا رکھتے ہیں اسکی تفصیل کتاب سبع سنابل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر کسی نابالغ لڑکے کو اسکا باپ کسی بزرگ سے بیعت کرانا چاہے تو جائز ہےکیوں کہ باپ کے حکم میں کوئی لغزش یا گروش نہیں ہے۔ اگر باپ مرگیا ہے اور نابالغ بچے کا ولی اسکو مرید کراتا ہے تو پھر بچے کو اختیار ہے کہ بلوغت کے بعد بیعت پر قائم رہے یا منحرف ہوجائے۔ جیسا کہ نکاح میں ہوتا ہے۔
تیسری شرط
تیسری شرط بیعت ہے پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا۔
چوتھی شرط
قینچی چلانا (یعنی سر کے چند بال لینا)
پانچویں شرط
کلاہ یا خرقہ پہنوانا۔
چھٹی شرط
بیعت سے پہلے دوگانہ نماز ادا کرنا۔
ساتویں شرط
پیر کا نصیحت اور وعظ کرنا لیکن لازمی شرط وہی ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے۔ اور دوسری شرائط زائد ہیں۔ اگر پوری کی جا ئیں تو درست ہے ورنہ کوئی مضائقہ نہیں۔
تجدید بیعت
حضرت سلطان المشائخ فوائد الفواد میں فرماتے ہیں کہ اپنے پیر کے ساتھ تجدید بیعت کرنا بھی سنت ہے کیونکہ ہمارے رسول مقبولﷺ نے فتح مکہ سے پہلے تجدید بیعت کا حکم فرمایا اور درخت کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ یہ بیعت بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت سلطان المشائخ اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ مرید کے تجدید بیعت کرنے سے یہ مراد ہے کہ اگر اسکے اعتقاد میں کوئی لغزش واقع ہوئی ہے تو تجدید بیعت کے ذریعے بیعت محکم ہوجاتی ہے۔ اور مرتے وقت مرید حقیقی مرید مرتا ہے۔
آدابِ تبرکات
بعض معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر مدیو کو اپنے پیر سے کوئی خرقہ، دستار یا ٹوپی یا کوئی اور کپڑا ملا ہے تو اُسے دھونا نہیں چاہیے اور نہ ہی اُسے خود پہنے نہ دوسروں کو پہننے دے۔ اگر میلا ہو جائے تب بھی نہ دھوئے یا اگر بہت میلا ہوگیا تو دھوسکتا ہے۔ ن یز جتنی بار مرید کو پیر کی طرف سے خرقہ یا پیر ملتا ہے تو اُسے پہنے اور دوگانہ نفل ادا کرے اورپیر کی خدمت میں کوئی چیز شکرانہ کے طور پر پیش کرے اور قبول کی التجا کرنے جب قبول ہوجائے تو پابوسی کرے اور آداب بجالائے۔
بیعت اور توبہ کے بعد تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں
معتبر راویوں نے روایت کی ہے کہ جب مرید بیعت ہوتے وقت توبہ کرتا ہے تو اسکے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ نیز لوگوں کو بھی چاہیے کہ اُسے سابقہ گناہوں کی تہمت نہ لگائیں نہ عیب جوئی کریں کیوں کہ وہ اُن گناہوں سے پاک ہوگیا ہے۔
پیر بیعت اور پیر صحبت
اخبار الاخیار کی عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیر بیعت ایک ہونا چاہے۔ ایک سے زائد مشائخ سے بیعت کرنا کفر و ضلالت ہے لیکن پیر ارشاد اور صحبت زیادہ ہوسکتے ہیں۔ جب طالب حق کو معلوم ہوجائے کہ پیر بیعت میں کمالیت ارشاد وہدایت نہیں[3] ہے تو اسے چاہیے کہ اُن سے اجازت لیکر دوسرے مرشد سے تعلق پیدا کرے اگر اجازت نہ ملے تو بغیر اجازت پیر کامل کے پاس جائے لیکن پیر بیعت اُسی پیر کو سمجھے البتہ اگر پیر بیعت کامل اور مکمل ہیں تو انکو چھوڑ کر دوسرے کے پس جانا کفر ہے (یعنی کفرِ طریقت) کتاب اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ کسی نے سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص اپنے پیر بیعت پر اکتفانہ کرے اور دوسرے پیر کےپاس جائے تو اسکے حق میں کیا فرمان ہے۔ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا میرے نزدیک یہ جائز نہیں ہے میں اس کام کو روا نہیں رکھتا۔ بیعت وہی ہے جو پہلے پیر سے ہوچکی ہے خواہ دوسرا بزرگ کتنا برگزیدہ ہو[4]۔ مرید کو چاہیے کہ ہر جائی نہ بنے۔ یک گیر و محکم گیر (ایک کو پیر پکڑ اور مضبوط پکڑ)
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری اور ادِ غوثیہ میں فرماتے ہیں کہ بیعت کرنا مرید کا کام ہے اسکے بعد اختیار پیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر مرید بیعت سے منحرف ہونا چاہتا ہے تو نہیں ہوسکتا خواہ سوجگہ بیعت کرلے مرید نہیں ہوسکتا۔ بیعت وہی قائم رہے گی جو پہلے کر چکا ہے اسکا رد کرنا اور قبول کرنا پیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے عقدِ نکاح کی طرح۔ نکاح مجازی تعلق ہے اور یہ حقیقی ہے۔ اگر اس سے منحرف ہوتا ہے تو مرتدِ طریقت ہے۔ شریعت میں دو معبود سمجھنا کفر ہے اور طریقت میں دو موجود سمجھنا۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرد بالغ علم نہیں رکھتا تھا اور رسمی طریقہ سے کسی سے بیعت کرلی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس سے بیعت کی ہے وہ بالکل صاحب معرفت نہیں ہے (یعنی کامل نہیں ہے)۔ اور ایک دوسرا بزرگ آیا ہے جو کامل ہے اور اس سے معرفت حق حاصل ہوسکتی ہے تو ایسی حالت میں وہ رمی بیعت تیمم کا ح کم رکھتی ہے اور درویش کامل پانی کی طرح ہے چنانچہ مسئلہ یہ ہے کہ چوں آب آمد تیمم برخواست (جب پانی مل جائے تو تیمم ختم ہوجاتا ہے)بعض کہتے ہیں کہ رسمی بیعت کو چھوڑنا نہیں چاہیے اور دوسرے ولئ کامل کو پیر صحبت سمجھ کر اس سے تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ تمام بزرگانِ دین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی شخص کو جبراً بیعت کرایا جائے تو وہ بیعت نہیں ہے جب تک کہ اسکی اپنی طبیعت نہ چاہے۔ نیز اگر کوئی صاحب تصرف درویش کسی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بیعت کرلے وہ بالکل انکار نہ کرے بلکہ بیعت قبول کرلے تو بیعت درست ہوگی۔ ہاں اگرکوئی شخص مست ہے یا دیوانہ ہے یا جنات کے اثر میں ہے اور بیعت کرلے تو اسکی بیعت صحیح نہیں ہوتی۔ اُسے چاہیے کہ صحت یابی کے بعد پھر بیعت کرے۔ اسی طرح اگر کوئی زر خرید غلام اپنے آقا کی مرضی کے خلاف بیعت کرے تو بیعت صحیح نہیں ہے۔
بعض محققین کہتے ہیں کہ ایسے پیر سے بیعت کرنا جو صاحب معرفت نہیں ہے خالی مصافحہ کا حکم رکھتا ہے جو ہر مومن کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہزار غیر عارف اور محجوب (جو حجاب میں یعنی کامل نہ ہو) پیروں سے بیعت کرلے وہ مرید نہیں ہوتا اور اسکی بعت صحیح نہیں ہوتی۔ اسکی یہ بیعت مصافحہ کا حکم رکھے گی۔ بیعت وہ ہے جو عرف کامل ومکمل کے ساتھ ہو جو شخص اس کے بزرگ ساتھ بیعت کرتا ہے تو گویا وہ پیغمبر اسلام علیہ السلام کے ساتھ بیعت کرتا ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ برگ آنحضرت کے طفیل مرتبہ فرق سے نکل کر بحر جمع (وصال) میں غوط لگاتا ہے اور مقام جمع الجمع میں پہنچ کر ہدایت خلق کا منصب انجام دیتا ہے۔
پیر بیعت کی وفات یا مکمل جدائی کی صورت میں
اگر کسی شخص نے پیر بیعت یاپیر طریقت کے ہاتھ پر بیعت کی اور سفر یا موت کی وجہ سے اُس سے مفارقت ہوگئی ہے اور مرید کے اندر طلب خدا دانی باقی[5] ہے تو اسے ایسا پیر خرقہ یا پیر صحبت اختیا کرنا چاہے جو علم شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت سے واقف ہو یعنی علماً اور شہوداً[6] اور اسکے فیض کو پیر بیعت کے طفیل سمجھنا چاہے جس نے شروع میں اسکے دل میں طریقت کا پودا لگایا تھا۔ لیکن پودے کی نگہبانی اور اُسے پانی دینے اور پرورش کا کام پر صحبت کی وجہ سے تمام ہوا۔
حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ اپنے ایک خط میں جو آپ نے شیخ راجو سروانی کو لکھا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کامل بزرگ کے ساتھ منسلک ہوا ہے اور اس بررگ کا انتقال ہوگیا ہے تو اس شخص کیلئے فرض ہے کہ وقت کے کسی اور بزرگ کامل کے ساتھ منسلک ہوتا کہ اسکے کام میں خلل یا فتور واقع ہونے سے پہلے وہ انکی خدمت میں جاکر اپنا کام پورا کرلے خواہ بیس سال ہوں، چالیس سال ہوں، یا ستر سال۔ مرید کا کام اُس مرغی کے انڈے کی طرح ہے جو مرغی کےنیچے رکھا گیا ہو۔ لیکن مرغی کو بلی مار ڈالے۔ اب انڈے سے بچہ حاصل کرنے کیلئے ضروری کیلئے ہے کہ اس میں خلل یا فساد واقع ہونے سے پہلے اُسے کسی دوسری مرغی کے نیچے رکھا جاتا ہے اس کوچہ میں اصل چیز صدق ہے۔ پیر کے ساتھ مرید کا صدق جس قدر زیادہ ہوگا مطلوب حقیقی تک رسائی اتنی زیادہ جلدی ہوگی۔ اگر کسی مرید کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میرے شیخ جنکا وصال ہوگیا ہے کے برابر کوئی شیخ نہیں جو میری تکمیل کرسکے تو یہ خیال شیطان ملعون کی طرف سے وسوسہ سمجھے۔ پیر کی محبت کا بہانہ دیکر شیطان اُسےکافر بنانا چاہتا ہے۔ پس مرید کو چاہیے کہ پیر کی محبت کے جذبہ میں آکر اپنے آپکو تباہ نہ کرے۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ مومن گناہ کی و جہ سے کافر نہیں ہوتا لیکن مرید لغزش کی وجہ سے مردتد ہوتا ہے کسی نےحضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ سے سوال کیا کہ ایک شخص بہت عابد وزاہد ہے لیکن اپنے پیر کے ساتھ اُسے محبت زیادہ نہیں ہے اور دوسرا شخص ہے جو زیادہ عابد وزاہد نہیں ہے لیکن پیر کے ساتھ اُسے شدت سے محبت واعتقاد ہے ان میں سے کونسان شخص بہتر ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ شخص بہتر ہے جسے پیر کے ساتھ اعتقاد راسخ ہے کیونکہ یہی ایک صفت باقی تمام صفات پر بھاری ہے۔ آمدیم برسر مطلب
حضرت شیخ سوندہا کا اتمام سلوک
جب ہمارے شیخ قطب افراد حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ اپنے پیر حضرت شیخ داؤد قدس سرہٗ کے فرمان کے مطابق شب وروز ذکر جہری کرنے لگے تو آفتاب کے نور کی طرح ایک نور اُن پر رونما ہوا۔ نیز جب رات کے وقت آپ اٹھ کر نماز تہجد پڑھ کر ذکر میں مشغول ہوتے تھے آپ کے لطیفۂ قلب سےماہتاب اور لطیفہ روح سے آفتاب نکل کر سامنے اجاتے تھے۔ لیکن جب آپ ذکر سے فارغ ہوتے تھے تو آفتاب و ماہتاب دونوں آپکے جسم کے اندر جاکر گم ہوجاتے تھے جب آپ نے یہ ماجرا اپنے شیخ علیہ رحمۃ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تجلی خلیلی اور فتح بطن کی ابتدا ہے۔ تجھے چاہیے کہ لَااُحِبُّ الآفلین (میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں کرتا[7]) کی تلوار سے عالم مجاز کی جو کہ مرتبہ صور اور مثال ہے بیخ کنی کرے اور عالم حقیقت میں قدم بڑھائے اسکے بعد آپ نے ریاضت ومجاہدہ میں قدم تیز کیا اور چند دنوں کے بعد رات کے وقت ذکر کے دوران آپ پر عالم محویت طاری ہوا۔ اور یہ دیکھا کہ آفتاب و ماہتاب، آسمان و زمین، عرش وکرسی غرضیکہ تمام موجودات آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ جب آپ نےحضرت شیخ کی خدمت میں یہ ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تجلی یوسف علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کی ہے اور مقام جبروت سے تعلق رکھتی ہے۔ تجھے چاہیے کہ حکومت کا خیال ترک کردے اور بندہ بن جائے۔ تجھے چاہیے کہ ہر چیونٹی کو سلیمان سمجھے اور خود ساجد بن جائے اور شہود محمدی میں پہنچ کر عبدہ ورسولہ کو اپنا امام بنائے (یعنی مقام عبدیت حاصل کرے جسکا دوسرانام بقا باللہ ہے)
ایک رات آپ گنگوہ شریف میں اپنے حجرہ کے اندر مشغول تھے کہ فنا کی حالت قائم ہوگئی ور اپنے آپ کو قصبۂ پان پت میں پایا اور یہ دیکھا کہ ایک ایسے بت کے آگے سجدہ کر رہے ہیں جس کے سامنے آفتاب و ماہتاب شرمندہ ہیں۔ صبح کے وقت آپ نے یہ واقعہ حضرت شیخ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ تجھے پانی پت جانا چاہے کیونکہ تمہارے بعض امور کا سر انجام ہونا اسی مقام پر موقوف ہے۔ چنانچہ آپ پانی پت چلے گئے اور کبھی حضرت شیخ جلال پانی پتی اور کبھی حضرت شاہ شمس الدین کے روضۂ اقدس پر مشغول رہتے تھے۔ ایک دن آپکا بازار میں گذر ہوا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نہایت ہی حسین و جمیل نوجوان بزازی کی دکان پر مال و متاع لیے بیٹھا ہے۔ چونکہ اسکی صورت اس محبوب کے ساتھ ملتی جلتی تھی جسے آپ نے گنگوہ میں سجدہ کیا تھا۔ آپ دل و جان سے اس پر فریفتہ ہوگئے۔ مولانا روم نے خوب فرمایا ہے؎
زر گر پسرے برسرِ بازار بر آمد۔ صراف جہاں شد
ہر دم بہ لباس دگر آں یار بر آمد گہ پیر وجوان شد
(اس مستہزاد کا مطلع یہ ہے؎
ہر لحظ بہ شکل آں بتے عیار بر آمد۔ دل برد ورواں شد)
اس واقعہ کے بعد آپ سارا دن اس دکان کے سامنے کھڑے رہتے تھے اور رات میں مقام شہدا میں شغل باطن کرتے تھے جو پانی پت میں واقعہ ہے اور صاحب اسرار شہد کا مدفن ہے۔ وہاں دیوار بناکر اسکے اندر ایک محراب بنایا گیا ہے۔ حضرت اقدس ساری رات اس محراب میں مشغول رہتے تھے اور بعض آفتاب کی صورت میں آپ پر ظاہر ہوتے تھے اور ہمکلام بھی ہوتے تھے نیز فیوض اسرار باطن سے بھی مشرف کرتے تھے۔ حضرت اقدس ان شہداء کو بعض اوقات اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھتے تھے اور کبھی جسدِ عنصری سے باہر آکر جسم مثالی سے انکے ساتھ میل جول کرتے تھے اور فیض حاصل کرتے تھے۔ آ پ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں محراب کے اند ربیٹھا ذکر میں مشغول تھا کہ ناگاہ میرے دل کے اندر سے ایک فریاد بر امد ہوئی کہ یا الٰہی مجھے کب تک اس ظاہری وباطنی جہان میں مقید رکھوگے۔ میری تمنا یہ ہے کہ ان دونوں جہانوں سے نکال کر کسی اور جہان سے آشنا کریا جائے۔ اس خیال کے آتے ہی اس محراب سے آواز آئی کہ اگر بے کیفی چاہتے ہو تو اس محراب کی طرف دیکھو۔ میں نے فوراً اس محراب کی طرف نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ محراب پھٹ گیا ہے اور وہاں سے ماہتاب اور آفتاب کی شکل جدا جدا دکھائی دی۔ اسکے بعد دونوں شکلیں ملکر ایک ہوگئیں اور ان میں سے نورِ سرخ نکلا جو بہت ہی تیز سرخ تھا اور ساری کائنات پر محیط ہوگیا۔ اسکے بعد وہ نور ایک چودہ سالاہ نہایت ہی خوبصورت حسین وجمیل نو جوان کی شکل میں تبدیل ہوگیا اور کہنے لگا اَلْاِحْسانُ اَنْ تَعْبداللہ کانَّکَ تراہ (مقام احسان یہ ہے کہ تو خدا تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اُسے دیکھ رہا ہے۔۔ حدیث) کا مطلب میرا دیدار ہے۔ اس وقت میری زبان حال سے حافظ کا یہ شعر نکلا؎
لے دو سالہ ومعشوق چہاردہ سالہ
ہیں بست است امرا صحبت صغیر وکبیر
(دوسالہ شراب اور چودہ سال معشوق ساری خلقت کی صحبت سے مجھے یہی بہتر ہے) اسکے بعد وہ نور ایک حسینہ وجمیلہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوا اور کہا رَأتَ رَبّی فی صورۃ عائشہ (میں نے اپنے رب کو عائشہ کی صورت میں دیکھا) کا مطلب میرا دیدار ہے۔ اسکے بعد عالم بے کیف وبے مثال سے ایک صورت ظاہر ہوئی جسے نہ عورت کہا جاسکتا تھا نہ مرد نہ کچھ اور۔ اس نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا مَنْ رأنی فقد رائی الحق (جس نے مجھے دیکھا حق کو دیکھا) کا مطلب میں ہوں۔ اسکے بعد اس صورت میں ایک ایسا نور چمکا کہ جس نے میرے ظاہری وجود کو محو اور لاشے کردیا اور میری ہستی کا نام و نشان تک نہ رہا۔ حتیٰ کہ تیرہ دن میرا جسم اسی محراب میں بے حس وحرکت پڑا رہا اور مجھے کوئی خبر نہ رہی۔ نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اس بات کا علم ہوا اور حق تعالیٰ براہِ راست میرا محافظ تھا۔ جب تیرہ دن کے بعد مجھے افاقہ ہوا تو میں فوراً گنگوہ کی طرف روانہ ہوا۔ اور حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر حقیقت حال عرض کی۔ یہ سنکر آپ بے حد خوش ہوئے اور کھڑے ہوکر مجھے بغلگیر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر چہ تمہاری محبوب حقیقی تک یعنی حضرتلاکیف ولامثال تک رسائی ہوگئی ہے تاہم تمہاری باطنی نسبت میں اب تک پوری استقامت نہیں آئی بلکہ حضور حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی تم ابو الوقت اور ابو الحال ہوئے ہو تاکہ عروج اور نزول تمہارے اختیار میں آجائے اور جس وقت چاہو نسبت حضور میں چلے جاؤ نیز فرمایا کہ جو کچھ تم نے دیکھا ہے مشاہدات آفاقیہ میں سے تھا۔ لیکن تم نے مشاہدات النفسیہ میں سے بہت تھوڑا دیکھا ہے۔ پس تم چند روز مجاہدہ طے کرلو تاکہ ہمیشہ کیلئے آرام سے رہو۔ اسکے بعد آپ نے شگل بہونکم اور شغل سہ پایہ تلقین فرمایا۔ چنانچہ میں نے کمر بستہ ہوکر سارا دن شغل بہونکم میں اور ساری رات شغل سہ پایہ میں بسر کرنی شروع کردی۔ ایک دفعہ میں اپنے حجرہ میں مشغول بیٹھا تھا کہ غلبۂ حال ہوا چنانچہ وہاں سے اٹھ کر باہر گیا۔ اور حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کے روضۂ اقدس کے نزدیک جاکر دیکھا کہ نہ روضہ کا نام و نشان ہے نہ قبر کا۔ اسکی بجائے وہاں ایک نورانی تخت پڑا ہوا ہے اور اس تخت پر حضرت اقدس بیٹے ہیں۔ جب آپ نے مجھے دیکھا۔ تو میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ میں نے کہا بَلیٰ۔ اسکے بعد میں نے دیکھا کہ اَلَسْت کے قابل میں ہوں۔ جب مجھ پر یہ حالت طاری ہوئی تو بے اکتیار میری زبان پر الست بربکم جاری ہوا اور عالمِ ارواھ میں سے روحیں صف در صف ظاہر ہوئیں۔ اس وقت میں نے خود کو خالق اور تمام موجودات کو مخلوق پایا۔ جب میری زبان سے یہ الفاظ نکلے تو لوگ میرے گرد جمع ہوگئے اور میرے شیخ علیہ رحمہ کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان گیا۔ آپ فوراً تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر حجرہ میں لے گئے اور باہر سے قفل لگادیا۔ چار دن کے بعد جب مجھے افاقہ ہوا تو اندر سے آواز دی اور لوگوں نے دروازہ کھولا۔ یہ خبر سنکر حضرت اقدس بھی تشریف لے آئے اور مجھ سے بغلگیر ہوکر بہت مہربانی فرمائی اور فرمایا کہ مشرب جنیدی اور شبلی تجھے مبارک ہو۔
حضرت اقدس یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جس بزرگ کی زبان سے کلمات شطحیات بر آمد ہوئے حق تعالیٰ کی طرف سے ان پر اسی جہان میں عتاب ہوا چنانچہ منصور نے انا الحق کہا تو تختۂ دار پر اُسے لٹکایا گیا۔ عین القضات ہمدانی نے قم باذنی کہا تو علمائے ظاہر نے اسکی کھال اتاردی۔ اور مجھ سے کلمۂ الست بربکم سر زد ہوا تو مجھ پر مرض و جع مفاصل مسلط کردی جس سے آپکے اعضائیں اس قدر درد ہوتا تھا کہ ہر وقت ٹانگوں پر مُکے مارتے رہتے تھے۔
اس فقیر نے حضرت اقدس کی زبان سے سنا کے ایک دفعہ میں خلوت میں بیٹھا تھا کہ ایک ایسا نور نمودار ہوا کہ جس سے سارا جہان منور ہوگیا۔ اور وہ نور ذرات عالم میں سے ہر ذرہ میں ساری ہوگیا۔ جس طرح کہ آفتاب سے منورہ ہوتا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ نور حضرت سلطان علی احمد صابر قدس سرہٗ کی روحانیت سے ظاہر ہوا ہے جب اس حالت سے مجھے افاقہ ہوا تو حضرت شیخ داؤد رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت لیکر کلیّر شریف پہنچا۔ جب روضۂ اقدس پر حاضر ہوا تو حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ کی روحانیت مجسم ہوکر قبر سے باہر آئی اور مجھ پر بے حد عنایت و نوازش فرمائی۔ اور مجھے حقیقت نور الانوار سے کما حقہٗ آشنا فرمایا۔ نیز فرمایا کہ اس نور کا فیضان تجھے بلا واسطہ میری روحانیت سے ہوا ہے ۔ اب تجھے چاہیے کہ گنگوہ چلے جاؤ کیونکہ کمالات تامہ کے حصول کا دارو مدار تمہارے پیر شیخ داؤد کی توجہ پر ہے۔ ہم نے اپنی تمام نعمت انکے دادا شیخ عبدالقدوس حنفی کو دی ہے۔ جو شخص چاہے وہاں سے لے سکتا ہے۔ اسکے بعد احاطل مزار سے باہر آکر میں نے رات مسجد میں بسر کی اور ساری رات حضرت مخدوم صابر کو جسمانی صورت میں اپنے ساتھ پایا آپ ہر وقت مجھے یہی تاکید فرماتے رہے کہ جلدی گنگوہ جاؤ کیونکہ شیخ داؤد تمہارے لیے بے چین ہیں۔ جب صبح ہوئی تو میں گنگوہ کی طرف روانہ ہوا راستے میں تھک کر ایک درخت کےنیچے آرام پذیر ہوا کیونکہ چار پانچ روز سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر کے بعد لیٹ گیا لیٹتے ہی عالمِ فنا مجھ پر طاری ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حق تعالیٰ عرش عظیم پر متجلی ہیں اور مجھے دو نورانی بزرگ سامنے لے گئے ہیں۔ حق تعالیٰ نے مجھ سے دریافت فرمایا مَنْ رَبُّکَ اس وقت میں نے دیکھا کہ میں عین حق تعالیٰ ہوکر عرش پر بیٹھا ہوں اور بے اختیار میری زبان سے نکلا نا اور ربی اور غیب سے آواز آئی کہ نَم کنومۃ العروس (سوجاؤ دولہا کی نیند) ایک پہر تک میں اس حالت میں رہا۔ جب مجھے ہوش آیا تو اٹھ کر گنگوہ کی طرف کہ چار پانچ دن ہوئے میں بھی تیری طرح بھوکا ہوں۔ اسکے بعد طعام طلب فرمایا ور مجھے اپنے ساتھ بٹھاکر کھلایا اور خود بھی کھایا۔ نیز فرمایا کہ دوسری بار یہ کامن ہ کرنا۔ تم نے دیکھا میں کس طرح تمہیں وہاں سے نکال لایا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہ تمام واقعات دہرائے جو مجھے پیش آئے تھے۔ حالانکہ میں نے کسی سے انکا ذکر میں ساری ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ تجھے مشاہدات النفسی حاصل ہوئے ہیں۔ اب چند ایام میں تم مقام قطبیّت کبریٰ تک پہنچ جاؤ گے۔ اور مقام فردیّت تم پر محقق ہوجائیگا۔ اور وہ سوال من ربک اور جواب اناربی جو تم کو کلیر شریف سے واپسی پر پیش آیا اس بات کی علامت ہے کہ تجھے تجلی بے کیفی نصیب ہوئی ہے۔ اسکے بعد فرمایا کچھ عرصہ مزید مجاہدہ کرو تاکہ یہ جو نسبت بے کیفی تجھ پر جلوہ گر ہوئی ہے مستحکم اور مکمل ہوجائے اور تیرا مقام بن جائے۔ اور تم ذاتِ کی طرح مفرد ہوجاؤ۔ اسکے بعد میں نے اس قدر مجاہدہکیا کہ طاقت بشری سے باہر ہے۔ اور شغل بہونکم کو ایک سانس میں چار سو تک اور شغل سہ پایہ کو دوسوبار اور تین سو بار تک پہنچادیا۔ اس سے عالم اطلاق پیش آیا اور موجودات کا وجود نظروں سے اٹھ گیا۔ لیکن پھر بھی مرتبہ اطلاق میں کما ح قہٗ تحقیق نہ ہوئی۔ ایک دن نماز معکوس میں حبس دم کر کے ایک آدھ پہر تک مشغول رہا جس سے عالم محویت رونما ہوا اور رسول اللہﷺ کی آمد امد کا شور برپا ہوا۔ میں آنحضرتﷺ کے جمال جہاں آرائے کے شوق میں اپنے مقام سے اٹھ کر باہر دوڑا جب حضرت شاہ عبدالقدوس کے روضہ کے قریب پہنچا تو شہدا کی جماعت کو دیکھا جو آنحضرتﷺ کے ہمراہ تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آنحضرتﷺ کی سواری کہا ہے۔ انہوں نے کہا آگےجاؤ نزدیک آرہی ہے۔ جب میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ اولیاء کبار کی جماعت آرہی ہے جو آنحضرتﷺ کے ہمراہ تھے۔ حضرت محی الدین عبدالقادر جیلانی اور حضرت خواجۂ بزرگ معین الدین چشتی اس جماعت کی پیشوائی کر رہے تھے۔ اور ان دونوں حضرات کے سر پر آفتاب ہدایت کے تاج روشن ہیں۔ میں بھاگ کر انکے پاؤں میں جا پڑا اور پابوسی سے مشرف ہوا انہوں نے مجھ پر مہر بانی فرمائی اور فرمایا کہ آگے گیا تو کی دیکھتا ہوں کہ آنحضرتﷺ ایک نورانی تخت پر سوار ہوکر تشریف لارہے ہیں اور اصحاب کرام ہمر کاب ہیں۔ لیکن آنحضرتﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہیں اور حقائق و معارف بیان فرمارہے ہیں۔ جب حضرت صدیق اکبر کی نظر کی مبارک مجھ پر پڑی تو فرمایا مرحبا بک یانبی اور مجھے آنحضرتﷺ کی پابوسی سے مشرف کرایا۔ حضرت رسالت مآبﷺ نے تین بار میری پشت پر ہاتھ مار کر مجھے تین مقامات یعنی فنافی الشیخٰ، فنافی الرسول اور فنا فی اللہ سے مشرف فرمایا۔ اور مقام خلافت کبریٰ عنایت فرمایا اسکے بعد مجھے ہندی زبان میں فرمایا تم اس مقام پر یعنی مقام ارشاد وتکمیل اور مشیخیت پر متمکن ہوجاؤ اور میرےنائب بن جاؤ۔ اس اثنا میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی روحانیت ظاہر ہوئی اور آنحضرتﷺ کی پابوسی سے مشرف ہوئی۔ اسکے بعد آنحضرتﷺ کی روحانیت کواپنے مزار کے احاطہ میں لے جاکر تخت کو وہاں اتار اور میری جانب اشارہ کر کے عرض کیا کہ میرا روحانی فرزند شیخ سوندہا اُس بار امانت وخلافت اٹھانے کے قابل ہوگیا جو فرشتوں اور آسمانوں اور زمین سے نہ اٹھ سکا۔اسکے بارے میں اب کیا حکم ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک سجادہ سورہ عم یتسالونَ سے منقش، ایک خرقہ سورہ یٰسین سے منقش، ایک دستار سورۂدلناز غات سے منقش، ایک عصائے نور سرخ جسکی چار شاخیں تھیں، ایک شاخ کا سرا مشرق تک دوسری کا سر مغرب تک، تیسری کا جنوب تک اور چوتھی کا شمال تک پہنچ رہا تھا۔ قطب العالم حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ میں تمہارے روحانی بیٹے شیخ سوندہا کو اپنا نائب مطلق اور جانشین برحق مقرر کیا ہے۔ یہ دستار اسکے سرپر،یہ اکرقہ اسکے جسم پر سجادہ اسکے کاندھے پر اور عصا اسکے ہاتھ میں دیدو۔ حضرت قطب العالم نے آنحضرتﷺ کے فرمان پر عمل کیا اسکے بعد آنحضرتﷺ اور تمام اولیائےکرام نے میرے حق میں دعا کی اور مجھے مبارک باد دی۔ اور آنحضرتﷺ نےمیری طرف منہ کر کے فرمایا یہ صا اس شخص کی ولایت کی ظاہری صورت ہے۔ جو تمہارا سجادہ نشین اور جانشین ہوگا اور علوم اولین وآخرین تمہارے نام پر جاری کرے گا۔ وہ ولایت صغریٰ اور کبریٰ کے کمالات کا جامع ہوگا اور کمالات نبوت و نسبت ولایت محبوبی اور ولالیت عاشقی کا جامع ہوگا۔ اور عصا کی چار شاخیں جو ہیں انکا اشارہ اسی طرف ہے۔ نیز اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ اس شخص کی ولاتی میں سے چار شخص مرتبہ جہانگیری اور خلافت کبریٰ تک پہنچیں گے۔ اور انکی ولایت کا تصرف باطنی طور پر سب پر محیط ہوگا خواہ ظاہری طور پر انکو کوئی نہیں جانے گا۔ اس شخص کے نام سے بھی آنحضرتﷺ نے مجھے آگاہ فرمایا۔ ان تمام واقعات میں حضرت شیخ داؤد رحمۃ اللہ علیہ کو ابتدا سے انتہا تک میں نے اپنے ساتھ شریک پایا اسکے بعد آنحضرتﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی مجھے دکھائی اور فرمایا کہ اسکے اندر دیکھو۔ میں نے غور سے دیکھا تو تمام تجلیات عالم ملکوت، جبروت اور لاہوت کو اسکے اندر پایا۔ اسکے بعد اس انگلی مبارک سے نور لاہوت محمدی اور لا کیف احمدی ظاہر ہوا اور میرے تمام مشاہدات کو تاخت و تاراج کردیا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے عالمِ ارواح اور عالم مثال کی طرف نزول کیا اور دیکھا کہ حضرت رسالت پناہﷺ کا تخت وہاں سے روانہ ہوگیا ہےجب قصبۂ گنگوہ سے باہر ہوا تو مجھے وہاں روک دیا گیا۔ اور فرمان ہوا کہ جاؤ ہم نے تجھے لنگر دارِ عالم ب نایا۔ اور مرتبۂ ہدایت وارشاد وتصرفات میں ہم نے تجھے اپنا نائب مطلق مقرر کیا۔ جب اس حالت سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اب تمہارا کام پورا ہوگیا ہے اور تم حضرت رسالت پناہﷺ کی نیابت و ولایت کے مرتبہ پر پہنچ گئے ہو۔ اسکے بعد آپ نے آنحضرتﷺ کے اتباع میں ظاہری طور اس فقیر کواپنی خلافت دنیابت کا خرقہ عطا فرمایا اور اسمِ اعظم جو سینہ بہ سینہ مشائخ سے آرہا تھا وہ بھی تلقین فرمایا اور جانشین خلیفہ مقرر فرمایا۔ لیک یہ بھی فرمایا کہ جب تک میں زندہ ہوں یہ کام میرے پاس رہے گا میرے انتقال کے دس روز بعد میرا بھائی شیخ محمد سجادہ اور دستار، عصاد مصلیٰ تسبیح، اور مشائخ عظام کی پوری امانت جو مجھے ملی ہے تجھے دیدیگا۔ اور میرا مقام واحوال تمہاری ذات میں منتقل ہوجائیگا۔ چنانچہ یہی ہوا حضرت شیخ داؤد کے وصال کے دس روز بعد مشائخ ک ی امانت اور سجادگی میرے پیر حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ کو مل گئی۔ اسکی تفصیل یہ ہے کہ وصال سے دس بارہ دن پہلے حضرت شیخ سوندہا اپنے دوست شیخ بولاقی کے ساتھ جنکا مجمل ذکر پہلے آچکا ہے سیر و سیاحت کی خاطر قصبۂ کیتھلی کی طرف جانے لگے تو اپنے شیخ سے اجازت طلب کی۔ آپ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ جاؤ تقدیر میں یہی لکھا ہےکہ میری وفات کے وقت تم نہیں ہوگے اور یہی ہمارے شیخ کی سنت ہے کہ صاحب سجادہ اپنے پیر کی وفات کے وقت اکثر موجود نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت خواجہ گنجشکر قدس اپنے شیخ حضرت خواجہ قطب الدین قدس سرہٗ کی وفات کے وقت اور حضرت قطب صاحب اپنے شیخ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ کی وفات کے وقت حاضر نہیں تھے لیکن میں تمہاری امانت اپنے چھوٹے بھائی شیخ محمد کے حوالہ کردونگا جو وفات کے دسویں دن تجھے مل جائیگی۔ تجھے چاہیے کہ قصبہ جوہر میں اس مقام کے صاحب ولایت سید معز الدین کی اجازت سے جو حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی کے خلیفہ ہیں سکونت اختیار کرو اور تمہارا دفن تمہارا آبائی وطن سفیدون ہوگا۔ تم اپنی آخری عمر وہاں بسر کرنا۔ یہ سنکر میرے شیخ نے عرض کیا کہ اگر حکم ہوتو میں یہاں رہ جاؤں کیونکہ میرا یہ سفر ضروری نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں تم چلے جاؤ تقدیر یہی ہے۔ چنانچہ آپ ح ضرت شیخ بولاتی کے ہمراہ گریہ کرتے ہوئے وہاں سے بھوہر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو آب وہوا آپکو پسند آئی اور چند روز وہاں قیام فرمایا۔ وہاں آپکو وہاں کے صاحب ولایت حضرت شیخ معز الدین سے قوی نسبت پیدا ہوگئی اور مکمل حضور نصیب ہوئی۔ انہوں نے حضرت شیخ سوندہا سے کہا کہ آپ یہاں ہمارے ساتھ رہیں۔ آپ نے رہنے کا وعدہ کیا لیکن کچھ عرصہ کیلئے شیخ بولاتی کے ساتھ کتھل چلے گے۔ وہاں ایک رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے ایک بڑا تخت اٹھائے زمین سے آسمان کی طرف جارہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کہ اس مظہر رحمانیت کو تم لوگ جبراً آسمان کی طرف کیوں لےجارہے ہو۔ فرشتوں نے جواب دیا کہ جس طرح عالمِ سفلی (یعنی دنیا) کے لوگ ان سے مستفیض ہوئے ہیں عالم علوی کے لوگ (فرشتے) بھی اُن سے مستفیض ہونگے۔ جب بیدار ہوئے تو سمجھ گئے کہ میرے پیر حضرت شیخ داؤد کا وصال ہوچکا ہے۔چنانچہ آپ فوراً گنگوہ کی طرف روانہ ہوئے اور وفات کےن ویں روز وہاں پہنچے اور مزار مقدس کے سامنے سرِ نیاز رکھ دیا۔ دسویں دن حضرت شیخ محمد نے وصیت کےمطابق مشائخ کی امانت آپکے سپرد کی اور فرمایا کہ میرے بھائی شیخ داؤد نے آپکو اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے۔ اور اپنا مقام آپکو عطا فرمایا ہے۔ آپ انکے طریقہ پر مستقیم رہیں اور خلق خدا کو نفع پہنچائیں۔ یہ امانت لیکر چوتھے دن میرے شیخ قصبہ بھوہر کی طرف رونہ ہوئے اور وہاں جاکر قیام پذیر ہوئے۔ اس وجہ سے آپ شیخ سوندہا بھوہری کے نام سےمشہور ہوئے ورنہ آپکا اصلی وطن قصبہ سفید دن ہے اور قصبل بھوہر تھانیسر سے پانچ چھ کوس مغرب کی جانب اور اس فقیر کے وطن قصبۂ براس سے بارہ تیرہ کوس شمال کی جانب واقع ہے۔ بعضکا خیال ہے کہ حضرت شیخ داؤد نے کسی کو خلافت نہیں دی تھی۔ بلکہ آپ کے وصال کے بعد آپ کے اصحاب نے متفقہ طور شیخ سوندہا اور شیخ بولاقی کو خلیفہ مقرر کیا۔ یہ بات بھی سنت نبوی کے مطابق ہے کیونکہ آنحضرتﷺ نے بھی ا پنی زندگی میں کسی کو خلیفہ مقرر نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کے وصال کے بعد صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو متفقہ طورپر خلیفہ رسول مقرر کیا۔ لیکن صحیح روایت وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے۔
ریاضت شاقہ
غرضیکہ جب میرے شیخ قدس سرہٗ نے قصبۂ بھوہر میں سکونت اختیار کرلی تو ریاضت و مجاہدات میں مشغول ہوگئے اور شب وروز شغل باطن میں رہنے لگے۔ اپنے نفس کو ایک ساعت آرام نہیں دیتے تھے۔ ابتدائے حال میں بھی آپ بڑا سخت مجاہدہ کرتے تھے۔ روایت ہے کہ بارہ سال متواتر آپ نے زمین سے پہلو نہ لگایا اور نیند وآرام ترک کردیا۔
چالیس صوم طے
روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت شیخ داؤد شیخ علی احمد صابر قدس سرہٗ کی زیرت کیلئے کلیر تشریف لے گئے۔ آپکے اصحاب مثل حضرات شیخ سوندہا اور شیخ بولاتی ہمراہ تھے۔ جب زیارت سے مشرف ہوئے تو حضرت شیخ داؤد نے فرمایا کہ سب لوگ چالیس دن طے کا روزہ رکھیں تاکہ حضرت شیخ علی احمد صابر کا فیض حاصل ہوا۔ آپ نے بھی چالیس روز صوم وصال[8] کی نیت باندھ لی۔ چنانچہ تمام اصحاب نے روزہ رکھ لیا۔ لیکن بعض دس دن روزہ رکھ سکے، بعض پندرہ دن، بعض بیس دن اور کوئی شخص چالیس دن تک روزہ نہ رکھ سکا۔ سوائے حضرت شیخ داؤد قدس سرہٗ، حضرت شیخ سوندہا اور حضرت شیخ بولاقی کے۔ ان تینوں حضرات نے چالیس دن متواتر روزہ رکھا۔ چالیس دن کے بعد میرے شیخ اور حضرت شیخ بولاتی نے روزہ افطار کیا لیکن حضرت شیخ داؤد نے پچاس دن روزہ رکھا۔ پچاسویں دن غیب سے ایک ولیہ آئی اور اس نے مریدین سے کہا کہ آج اپنے شیخ کو کچھ کھلاؤ ورنہ وہ اس دنیا سے رحلت کر جا ئیں گے۔ اسکے بعد شیخ سوندہا اور شیخ بولاقی نے حضرت شیخ کو منت سمجت کر کے کھانا کھلایا۔
یاد رہے کہ صوم وصال صرف آنحضرتﷺ کا خاصہ ہے دوسرا کوئی اس قسم کا روزہ نہیں رکھ سکتا۔ وہ صوفیائے کرام جو طے کا روزہ رکھتے ہیں شام کے وقت پانی کے چند قطروں سے افطار کرلیتے ہیں تاکہ صوم وصال نہ ہونے پائے اور انبیاء علیہم السلام کے خاص عمل میں قدم نہ رکھا جائے۔ اس سے ظاہر ہےکہ حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ کی ریاضت کیسی تھی جب آپ خلوت میں بیٹھتے تو چالیس دن سے پہلے قدم باہر نہیں رکھتے تھے۔ اور خلوت خانہ کا دروازہ کھولتے تھے۔ غرضیکہ آپ کی ریاضت و مجاہدہ کا حال تحریر میں نہیں آسکتا حضرت اقدس کےکمالات اس سے زیادہ کیا ہوسکتے ہیں کہ حضرت شیخ داؤد قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ ’’سوندہا داؤد ہے اور داؤد سوندہا‘‘ اور بعض اوقات حضرت شیخ داؤد حضرت شیخ داؤد حضرت شیخ سوندہا سے یہ بھی فرمایا کرتے کہ ’’میں نے سب کچھ تجھ پر نثال کردیا ہے اور کچھ باقی نہیں چھوڑا اور میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ تمہارے فرزندان معنوی (مریدین) ہر زمانے میں مقبول اور مسعود (سعادت منت) رہیں۔ اور تمہارےمریدین اور مریدین کے مریدین کے مریدین میں سے ہر زمانے میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا کریگا کہ میرے حال پر ہوگا۔
مردہ زندہ کرنا
نیز روایت بھی صحیح ہے کہ اایک دفعہ میرے شیخ حضرت شیخ سوندہا قد سرہٗ ابتدائے حال میں گھر سے دور موضع بھوہر میں وہاں کے صاحب ولایت بزرگ کے عرس پر حاضر ہوئے۔ اتفاق سے حاکم کا محبوب بیٹا مرگیا۔ چونکہ وہ حاکم وقت حضرت اقدس کی خدمت میں لے آیا اور عرض کیا کہ اے شیخ ’’یُحِی‘‘ کا کیا مطلب ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ پیر کامل مرید کے مردہ دل کو نور معرفت سے زندہ کردے۔ اسکے بعد اس حاکم نے التماس کیا کہ یہ تاویل ہے اسکا ظاہری مطلب یہ ہے شیخ کامل مردہ جسم کو از سر نوزندہ کر سکتا ہے۔ ظاہری معنی چھوڑ کر ٍ تاویل (مرادی معنوی) کرنا صحیح نہیں ہے۔ نیز حدیث علماء اُمَّتِی کا انبیاء بنی اسرائیل (میری امت کے علماء (اولیاء) بنی اسرائیل کے انبیا کی مانند ہیں) اس وقت صحیح ہوسکتی ہے کہ جب وہ مردوں کو زندہ کر کے دکھائیں۔ اسکے علاوہ وہ حاکم بیٹے کے غم میں اس قدر رویا کہ اسکی حالت زار پر رحم آیا، آپ پر حالت طاری ہوئی اور مرتبۂ اطلاق (فنافی اللہ) میں ج اکر اُس بچے کو مخاطب کر کے ہندی زبان میں فرمایا ’’اُٹھ وے نینگر‘‘ (اے جو ان اُٹھ کھڑا ہو) یہ کہتے ہی وہ بچہ زندہ ہوگیا۔ حاضرین مجلس نے شور وغل برپا کیا اور اس قدر خلقت جمع ہوگئی کہ شمار سے باہر ہے۔ لیکن آپ فوراً لوگوں کی نظروں سے گم ہوگے اور راتوں رات بھوہر پہنچ گئے۔ یہ حضرت اقدس کا ادنیٰ کمال ہے۔
فنائے تامہ
ایک دفعہ حضرت اقدس نے اس فقیر سے فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں چلہ کر رہا تھا تو مجھ پر ایسی ھالت طاریہوئی کہ اگر میں چاہتا تو دنیا کے تمام مردوں کو زندہ کردیتا۔ بندہ نے عرض کیا کہ وہ کونس حالت تھی۔ فرمایا اس وقت میں باقی نہیں تھا۔ بلکہ حق باقی تھا۔ اس وقت میری زبان مثل شجر طوری تھی اور حق میرے مظہر میں تصرف کر رہا تھا اور میری زبان سے ناطق تھا۔
طعام میں برکت
نیز حضرت شیخ کے مریدین خاص میں سے ایک بزرگ تھے جن کے ساتھ میری بے حد محبت تھی۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ میں حضرت شیخ کے ہمراہ قصبۂ بہری میں تھا جو براس سے پانچ کوس دور ہے۔ حضرت اقدس کے ساتھ بیس اور شخص بھی تھے جن میں سے بعض مرید اور بعض مرید نہیں تے۔ ایک شخص نے آکر حضرت اقدس کو ان تمام لوگوں سمیت کھانے کی دعوت دی۔ اور سامان خورد و نوش فراہم کرنے کیلئے گھر چلاگیا۔ اسکے بعد بیس اور آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب وہ شخص حضرت اقدس کو لینے کیلئے آیا تو آپ نے فرمایا کہ کھانا یہاں لے آؤ تاکہ ہمارے پاس جو بیس آدمی اور آگئے ہیں ہم اُن سے م لکر کھائیں لیکن اس نے کہا کہ حضور آپ تمام درویشوں کے ہمراہ غریب خانہ پر تشریف لے چلیں جو کچھ موجود ہے پیش کردونگا آپ نے وہاں پہنچ کر صاحب دعوت سے ک ہا کہ کھانے کی دیگ یہاں لے آؤ۔ اس نے فوراً وہ دیگ لاکر پیش کردی۔ اور عرض کیا کہ میرے پاس صرف یہی گوشت اور چاول موجود تے۔ میں نے انکو باہم ملاکر پکالیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر جس قدر چاول چاہو دیگ سے نکالتے رہو اور جسے چاہو دیتے رہو لیکن دیگ کو الٹا نہ کرنا۔ چنانچہ اس نے دیگ میں سے کھانا نکالنا اور درویشوں کو دینا شروع کیا حتیٰ کہ حضرت اقدس کے ہمراہ تمام درویش، صاحب دعوت کے تمام اہلِ خانہ اور دیگر احباب اور قربانے جو تین سو کے قریب تھے سب نے سیر ہوکر کھان اکھایا اور دیگ اسی طرح کھانے سے پُر تھی۔ حالانکہ اس شخص نے دیگ میں بیس آدمیوں سے زیادہ کھانا نہیں پکایا تھا۔ یہ دیکھ کر تمام حاضرین حیرت زدہ ہوئے اور حضرت شیخ کے دل و جان سے شیدائی بن گئے۔
جسم پھولنے کی وجہ
حضرت اقدس کے اسی مرید نے ایک دن مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں حضرت اقدس کے ساتھ خلوت میں بیٹھا تھا اور کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت اقدس کا وجود مبارک بڑنے لگا ہے یہاں تک کہ سارا حجرہ آپ کے جسم سے بھر گیا اور میں ایک گوشہ میں رہ گیا۔ اس سے مجھ پر خوف طاری ہوا اور حیران تھا کہ اب کیا ہوگا اس کے بعد حضرت اپنے اصلی جسم میں واپس آگئے اور میری طرف نگاہِ لطف بڑھاکر فرمایا کہ جب عارف پر تجلی جمال ہوتی ہے تو خوشی کے عالم میں اسکا جسم پھول جاتا ہے حتیٰ کہ آسمان سے زمین تک اور شرق سے غرب تک پر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت بایزید بسطامی کے جسم کا پھول جانا اس تجلئ جمال کی شہادت دیتا ہے۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اب بھی حضرت بایزید بسطامی جیسے بزرگ موجود ہیں۔ الحمدللہ کہ مجھے ایسے کامل اور مکمل اولیاء کرام کی صحبت نصیب ہوئی ہے۔
پانی میں غرق نہ ہونے دینا
رویات ہے کہ ایک دن حضرت اقدس سکرو مستی میں ایک گہرے تالاب میں گر گے اور اسکی تہ میں جاکر بیٹھ گئے۔ اس وقت دو خوبصورت شکلیں آپکے سینہ مبارک سے نکل کر ظاہر ہوئیں۔ ایک خوبصورت بے ریش نوجوان کی صورت میں دوسری اک حسینہ وجمیلہ عورت کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔ اور حضرت اقدس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئیں اور کہنے لگیں کہ نوشہ اور دولہا تو آپ خود ہیں۔ آپ نے کیوں اپنے آپکو تکلیف میں ڈال رکھا ہے۔
آگ بھی آپکو نہ جلاسکی
اسکے بعد اُسی سکر ومستی کی حالت میں ایک بھٹے میں جاگرے اور گردن تک آگ میں غرق ہوگئے اس وقت بھٹے میں آگ تیزی سے دہک رہی تھ ی اور شعلے مار رہی تھ ی لیکن گرمی کی شدت کی وجہ سے کسی شخص میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آپکے پاس جاسکے۔ آپ ایک پہر تک آگ م یں کھڑے رہے حتیٰ کہ تمام لوگ آپکی زندگی سے مایوس ہوگے۔ جب یہ خبر حضرت شیخ داؤد تک پہنچی تو فوراً قوالوں کے ساتھ لاکر موقعہ پر پہنچے اور اس جگہ سے دور کھڑے ہوکر قوالوں کو حکم دیا یہ ڈوہرہ گائیں بجی جھجہاوسن کی سنیں سوگڈ مڈ ہوئی بہتے سر تابچہ رہے بہر نہ نکسا نہ سنکر حضرت اقدس فوراً آگ سے باہر آگئے اور قوالوں تک پہنچ گئے لیکن جسم کا ایک بال بھی نہیں جلا تھا۔ آپکے نہ جلنے کا راز یہ تھا کہ نارِ حامیہ باذات باری تعالیٰ نے آپ کے وجودمیں ایسا جوش مارا کہ سارا وجود مجسم آگ بن گیا۔ اب آگ کو آگ کس طرح جلاسکتی ہے۔
روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ایک بلند بالا خانہ سے زمین پر گر پڑے جس سے آپکا سرپھوٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ لیکن آپ کو اسکی کچھ خبر نہ ہوئی اور تین دن اسی ھال میں مغلوب رہے۔ آخر جب افاقہ ہوا تو لوگوں نے کہا کہ آپ کے سر پر سخت چوٹ آئی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ خیریت ہوئی ہے آپ نے فرمایا کہ یرے دل میں جو زخم ہے اس سر کے زخم سے زیادہ سخت ہے اس لیے سر کے درد کی مجھے کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ قصبۂ کیتھل میں شیخ بدھنی کے عرس کےمقع پر آپ موجود تھے اس وقت میں آپکے ایک رفیق شیخ شیخ عبدالقادر ھی موجود تھے جن پر سماع میں وجد طاری ہوا اور پکار کر کہنے لگے کہ دوستو! دکھو حضرت خواجہ معین الدین نبئ ہند موجود ہیں۔ اس مجلس میں شہر کا قاضی بھی موجود تھا آپکی زبان سے یہ کلمات سنکر اس کے کہا کہ یہ درویش کافر ہوگیا ہے کہ غیر نبی کو نبی کہہ رہا ہے۔ پس اُسکا قتل کرنا واجب ہے۔ میرے مرشد نے قاضی سے کہا لا یواخذ العشاق بما یصدرمنھم (عاشقواں کی زبان سے جو کچھ نکل جائے اسکا مواخذہ نہیں ہوسکتا) نیز بزرگوں نے فرمایا ہے کہ؎
دیوانہ بدست خویشتن نیست
(دیوانہ اپنے قبضے نہیں ہوتا)
جب دیوانہ کو شریعت نے معاف کیا ہے اور حق تعالیٰ اسکو کوئی تکلیف نہیں دیتا تم کس لیے بندگانِ خدا کی گرفت کر رہے ہو۔ حالانکہ اس درویش کی حالت کا علم نہیں ہے کہ کس حال میں یہ کلمات کہے ہیں۔ ممکن ہے وہ اس وقت مقام فنافی الرسول میں ہوں اور آنحضرتﷺ کو حضرت خواجہ معین الدین کی صورت میں دیکھا ہو۔ یہ کلمات غلبہ شوق میں انکی زبان سے سرزد ہوئے ہیں۔ نیز لفظ نبی کا اطلاق ہر ولی پر بھی ہوسکتا ہے۔ جسکا مطلب ہے کہ ذات وصفات حق کی خبر دینے والا کہ منصب نبوت ورسالت رکھنے والا۔ غرضیکہ حضرت اقدس نے اس جاہل قاضی کو جس قدر دلائل پیش کیے اس پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ محضر قائم کرنے پر آمادہ ہواگیا۔ جب حضرت اقدس نے دیکھا کہ قاضی اپنی موت پر راضی ہے تو ایک دم جلال ولایت صابر نے جوش مارا اور آپکی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’اے قاضی تو ناحق درویشوں کے قتل پر آمادہ ہے انشاء اللہ تعالیی تو کتے کی طرح بھون بھون کر مرجائیگا‘‘۔ ان الفاظ کا آپ کی زبان مبارک سے نکلنا تھا کہ قاضی تپ دق میں مبتلا ہوگیا اور روز بروز اسکی حالت زبون تر ہوتی گئی اور قریب المرگ ہوگیا۔ لوگ اسکو اٹھاکر حضرت اقدس کے پاس قصبۂ بوہر میں لے آئے۔ اس نے جس قدر آہ وزاری کی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آپ نے فرمایا تیر نشانہ پر بیٹھ چکا ہے۔ اب اسکا واپس لا نا محال ہے۔ چنانچہ لوگ اُسے اٹھاکر کتھیلی کی طرف لے گئے۔ لیکن وہ راستے میں مرگیا۔ کسی نے خوب کہا ہے۔؎
جراحات النسان لھا الیتام |
|
ولا یلتام ماجرح اللسان |
(نیزوں کے مجروح شفایاب ہوسکتے ہیں لیکن اولیاء کی زبان کے مجروح کا کوئی علاج نہیں ہے)
روایت ہے کہ جب قصبہ بہو ہر میں حضرت اقدس سخت بیمار ہوگئے اور لوگ آپکی زندگی سے مایوس ہوگئے تو ایک رات شدت مرض میں آپ پر ایسی محویت کی حالت طاری ہوئی کہ آپکی روح نے جسم سے باہر آکر مثالی صورت اختیار کرلی اور ہوا میں پرواز کرنے لگی اور آسمانوں اور عرش اور کرسی سے نکل کر قبۂ شوق میں پہنچے اور وہاں رسول خداﷺ کو چاریاروں کے ساتھ بیٹھا دیکھا کہ شرفِ پابوسی حاصل کیا۔ اسکے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق سے فرمایا کہ کلاہ شفا اپنے اس فرزند کے سر پر رکھو۔ انہوں نے آنحضرتﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور کلاہِ شفا آپکے سر پر رکھا۔ اسکے بعد کلاہ ہدایت آپکے سر پر رکھا اور پھر شغل لطائف ستہ جو مقام صدیقیت سے منسوب ہے تلقین فرمایا۔ صدیق اکبر نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت رسالت پناہﷺ کی رضا اسی میں ہے کہ آپ کے یومِ وصال پر شیرو برنج یک جا پکاکر حضور اکرمﷺ کی روحانیت مبارک کو پیش کیا جائے اور اس فاتحہ کے دوران مجھے بھی یاد رکھنا۔ جب وہ حالت رفع ہوئی تو آپ کو مکمل تندرستی نصیب ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بیماری نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی آپ نے ایک عظم الشان دعوت کا انتظام فرمایا۔ سارا دن مجلس وجد و سماع گرم رہی، شام کو طعام پر آنحضرتﷺ، حضرت ابو بکر صدیق اور دیگر اصحاب کا فاتحہ دیکر لوگوں کو کھلایا۔ اسکے بعد جب تک قید حیات میں رہے بارہ ماہ ربیع الاول کو ہمیشہ اس قسم کی مجلس منعقد کرتے رہے۔ اگر چہ آپ اکثر فقر و فاقہ میں زندگی بسر کرتے تھے لیکن بارہ ربیع الاول کو جو کچھ آپ کے گھر میں ہوتا آنحضرتﷺ کے عرس پر خرچ کردیتے تھے۔ نیز آپ اپنے پیر دستگیر حضرت شیخ داؤد کا عرس بھی بڑی شان و شوکت سے مناتے تھے اور گھر میں جو کچھ موجود ہوتا خرچ کر ڈالتے تھے ایک دفعہ آپ براس میں حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے عرس کی تقریب میں شرک تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد آپ اس شہر کی مسجد سادات میں قبلہ روہوکر بیٹھے تھے۔ یہ فقیر اسکے والد بزرگوار بھی حاضر تھے۔ اس مسجد کے قریب ایک ڈیرہ تھا جہاں لوگ بعد ن ماز بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ وہاں ایک درویش بھی تھا جسکا نام خیراتی یا محمدی تھا اور موضع نیسنگ کا رہنے والا تھا جو براس سے دو کوس جنوب کی طرف واقع ہے۔ اس نے بھنگ رگڑنا شروع کیا جب اسکی آواز حضرت اقدس کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے حاضرین مجلس سے پوچھا کہ یہ کیا آواز ہے۔ اس فقیر کے والد ماجد نے جواب دیا کہ کوئی بھنگ رگڑ رہا ہے چونکہ آپ پر اس وقت فنافی الرسول کا غلبہ تھا آپ نے فرمایا کہ اسکو روک دو۔ چند آدمیوں نے اس کے پاس جاکر منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور اپنے کام میں مصروف رہا۔ جب حضرت اقدس کو اسکی اطلاع تو آپ شریعت کی غیریت میں آکر اٹھے اور ڈنڈا لے کر اسکی طرف روانہ ہوئے حالانکہ اس وقت آپ کی عمر نوسے سال سے اوپر اور ایک سو سال کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اور آپکے اندر کھڑا ہونے کی طاقت بھی نہ تھی بلکہ دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوتے تھے اور بول و براز کو جاتے تھے۔ لیکن آپکے دل میں شریعت کی اس قدر عزت تھ ی کہ بغیر کسی شخص کا سہارا لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈنڈا لیکر اسکی طرف بڑھے۔ آپکا جلال دیکھ کر وہ آدمی بھاگ گیا اورموضع نیسنگ میں جاکر پناہ لی۔ اور آپکے قہر جلال سے چند یوم کے اندر مرگیا۔ اسکے پیچھے آپ اس تیزی سے جارہے تھے کہ آپکو کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا تھا۔ آخر اس فقیر کے غریب خانہ ک ے پیچھے تالاب کے کنارے ایک املی کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور ہم لوگ آپکو پالکی میں اٹھاکر مسجد واپس لے گئے۔ اس فقیر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس کا اتقا اس قدر تھا کہ جب قصبۂ سفیدون سے براس یا ہابڑی کی طرف تشریف لاتے تو راستے میں کسی گاؤں میں کھانا نہیں کھاتے تھے کیونکہ وہاں کے لوگ مفسد اور حرام خور تھے۔ آپکے احباب کا ب ھی یہی دستور تھا۔ آپ گھر سے کھانا ساتھ لاتے تھے اور خود بھی کھاتے تھے اور احباب کو بھی کھلاتے تھے۔
روایت ہے کہ آخر عمر میں جب آپ کسی کے سہارے بغیر کھڑے بھی نہیں ہوسکے۔ مجلس سماع میں آپ خود بخود کھڑے ہوجاتے تھے اور رقص و تواجد کیا کرتے تھے۔ اس وقت آپکے اندر ایسی قوت آجاتی تھی کہ دس آدمی بھی آپکا مقابالہ نہیں کرسکتے تھے۔ سید چاند جو حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے خاندان میں سے تھے اور حضرت اقدس کی ہمشیرہ کے داماد بھی تھے فرمایا کرتے تھے کہ جب بادشاہ محمد عالمگیر اور رنگ زیب نے وفات پائی اور اسکے دونوں بیٹوح محمد اعظم اور محمد معظم کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو میں نے حضرت شیخ سوندہا کی خدمت میں عرض کیا کہ ان دونوں شہزادوں میں سے سلطنت کس کو ملے گی تو آپ نے جواب دیا کہ ارنگ زیب کے بعد محمد معظم بادشاہ بنے گا۔ آخری وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔
نقل ہے کہ ایک دن آپ بیٹھے اپنے اصحاب کے سامنے اسرار ورموز بیان فرمارہے تھے کہ اچانک ایک نقشبندی آیا اور کہنے لگا کہ ہمارے سلسلے میں مقصود جلدی حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً جہاں دوسرے سلسلوں میں دور دراز کا سفر کر کے آدمی کسی مکان کے اندر داخل ہوتا ہے ہمارے ہاں ایک جست لگاکر مکان میں پہنچ جاتا ہے۔ حضرت اقدس نے مسکراکر فرمایا کہ حق تعالیٰ نے خود کلام پاک میں مکان میں دروزاے کے ذریعے داخل ہونے کا حکم فرمایا اور پیچھے کی طرف سے کود کر داخل ہونے سے منع فرمایا ہے چنانچہ فرمایا واتو البیوت من ابوابھا ولا تاتوھا من ظھورھا (گھروں میں انکے دروازوں سے داخل ہواکرو اور پیچھے مت داخل ہوا کرو) یہ نقشبندی درویش حضرت اقدس سے یہ جواب سنکر آپکی محبت میں فریفتہ اور شیفتہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ اس جیسا کوئی قطب صاحب اسرار لدنی میں آج تک نہیں دیکھا ۔ الحمدللہ کہ اب اسکی صحبت نصیب ہوئی ہے۔
اس فقیر نے ثقہ راویوں سے سُنا ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مرشدی ومخدومی حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری کے عرس سے فارغ ہوکر قصبۂ بوہر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں چند ڈاکو پہنچ گئے۔ اگر چہ حضرت اقدس کے رعب وجلال سےنزدیک نہیں آسکتے تھے تاہم اس فقیر سے جو پیچھے رہ چکا تھا حضرت اقدس کے کپڑے چھین کر لے گئے۔ چنانچہ یہ فقیر فریاد کرتا ہوا آپکے پاس پہنچا آپ نے جوش میں آکر ان کے گاؤں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ عجب ہے کہ اس گاؤں کو آگ نہیں لگ رہی۔ یہ کہنا تھا کہ ڈاکوؤں کے گاؤں کو آگ لگ گئی اور انکا سارا سامان اور کچھ آدمی بھی جل گئے اور بعض نے بھاگ کر جان بچائی۔ جب گاؤں والوں کو معلوم ہوا کہ یہ آگ حضرت اقدس کی لگائی ہوئی ہے انکو یقین ہوگیا کہ آپکی توجہ کے بغیر نہیں بجھے گی۔ ناچار وہ بہت نذر و ن یاز اور وہی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی کے طلبگار ہوئے۔ آپ نے انکا قصور معاف کردیا اور گاؤں پھر سے آباد اور شاداب ہوگیا۔ اسکے بعد اس علاقے میں خواہ جنگل ہو یا آبادی جو شخص حضرت اقدس کا نام لیتا ڈاکو لو لوگ اسکو نہیں چھیڑتے تھے۔
اس فقیر کے ایک دوست کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایام چلہ میں مجھے احتلام ہوگیا لیکن نہانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ پانی برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔ اسکے بعد پھر نیند آگئی۔ نیم خوابی کی حالت میں مجھے نہایت ہیبت ناک شکل میں جناب نظر آنے لگے اور قریب تھا کہ مجھ پر حملہ کرتے کہ حضرت اقدس کی صورت ظاہر ہوئی اور جنوں سے کہا کہ یہ میرا مرید ہے اس سے دور ہوجاؤ۔ یہ دیکھ کر جن فوراً بھاگ گئے اسکے بعد حضرت اقدس نے مجھے بیدار کر کے فرمایا کہ غسل کرلو اور یاد حق میں مشغول ہوجاؤ۔ اور کسی سے مت ڈرو۔ جنات تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ جب میں وضو کیلئے اٹھا تو حضرت اقدس غائب ہوگئے۔ اور میں نے بقیہ شب ذکر وشغل میں بسر کردی۔ میں حیران تھا کہ حضرت اقدس تو اپنے گھر میں تھے آدھی رات کے وقت کس طرح یہاں آئے اور پھر نظروں پوشیدہ ہوگئے۔ بات یہ ہے کہ آپ صورت مثالی میں آکر میری جنوں سے حفاظت کا انتظام کر گئے تھے۔ لیکن پھر بھی مجھے یہ فکر لاحق ہورہی تھی کہ آیا حضور اقدس کو اس واقعہ کی اطلاع بھی ہوئی تھی یا نہیں۔ جب صبح کے وقت میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ اے فلاں دیکھا میں نے رات کس طرح تجھے جنوں سے بچایا۔ یہ سنتے ہی میں حضرت اقدس کے پاؤں میں گر گیا اور کہنے لگا کہ حضور کے کمالات میری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب بھی خدا کے ایسے بندے موجود ہیں کہ اسرار غیب کو جان لیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے ایسے مردانِ کامل اکمل کی غلامی کا شرف حاصل ہوا ہے۔
اقسام کشف
مخفی نہ رہے کہ کشف کے دو اقسام ہیں۔ اول کشف صوری، دوم کشف معنوی۔ کشف صوری کا تعلق ظاہری صورتوں سے اور کشف معنوی کا تعلق حقائق سے ہوتا ہے۔ کشف صوری کی بھی تین قسمیں ہیں یا وہ مشاہدہ ہوتا ہے یا کانوں کے ذریعے آواز سنائی دیتی ہے یا لمس یعنی قوت لامسہ کے ذریعے۔ جب کہ حضرت عبداللہ بن عباس حضرت رسالت پناہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار کو بہترین صورت میں دیکھا اسکے بعد حضرت حق تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ اے محمد فرشتے کس بات پر جھگڑا کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا حضور بہتر جانتے ہیں۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے میرے دونوں کاندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا جسکی ٹھنڈک میرے دونوں پستانوں تک محسوس ہونے لگی اور مجھے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا علم ہوگیا یعنی یہ علم مجھے مشاہدہ، مساس اور آواز تینوں ذرائع سے حاصل ہوا۔ کشف کی ایک اور قسم ہے یعنی قوت شامہ (یعنی ناک سے سونگھنا) سے ہوتا ہے۔ جیسا رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔ ان اللہ فی ایام دھر کم نفحات الاقشعر صوتھا)
نیز فرمایا اِنی لاجد نفس الرحمن من قبل الیمن (مجھے یمن سے نفس الرحمان (کی خوشبو) آتی ہے) کشف کی ایک اور قسم بھی ہے جو ذوق یعنی قوت ذائقہ سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا رأیتُ انی اشرب اللبن حتیٰ تخرج الرے من اظافیری فاعطیت فضلی عمر مادلت ذالک بالعلم ۔
رہبانیت
جب کشف صوری کا تعلق واعات وحوادث سے ہوتا ہے تو اُسے رہبانیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ راہب[9] کو بھی یہ چیز مجاہدہ کی وجہ سے حاصل ہوجاتی ہے۔
استدراج
بعض اس قسم کےکشف کو استدراج اور مکرِ الٰہی کے نام سے موسوم کرتے ہیں لیکن بعض حضرات ایسے ہیں جو امور اخروی اور قیامت اور دوزخ و بہشت کے متعلق کشف سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور فنافی الذات کو اپنا مقصود اصلی سمجھتے ہیں۔ اور عارف محقق جو تمام مظاہر دنیوی واخروی میں مشاہدہ حق کرتا ہے کسی ذرے سے بھی اجتناب نہیں کرتا ہے اور استدراج کا تودہ تصور تک نہیں کر سکتا۔ اور تمام مکاشفات حق کا منبع قلب ہے۔ جس کے چند روحانی حواس[10] میں جن سے خواب میں آدمی دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور ان جسمانی حواس کی اصل یہی روحانی حواس ہیں۔ جب حجاب اٹھ جاتے ہیں تو اصل وفرع ایک ہوجاتے ہیں۔ اور حواس روحانی کے ذریعے جو کچھ آدمی حواس جسمانی سے ادراک کرتا ہے اسکا نام کشف ہے چنانچہ حضرت رسالت پناہﷺ نے ایک دفعہ محراب کے اندر ہاتھ ڈال کر اپنی طرف کھینچ لیا تو صحابہ کرام نے اسکی وجہ دریافت کی آپ نے فرمایا کہ مجھ پر جنت کے انگوروں میں سے ایک خوشہ پیش کیا گیا۔ جب صحابہ نے پوچھا تو کہ آپ نے کیوں نہ لیا تو حضور پر نورﷺ نے فرمایا کہ ھیمات حبۃ من لا تعد الدنیا
رویا، مکاشفہ اور مشاہدہ میں فرق
جاننا چاہیے کہ کشف دو طرح سے ہوتا ہے ایک خواب میں ہوتا ہے جب ظاہری حواس خمسہ کا عمل نیند کی وجہ سے رک جاتا ہے۔ جو کچھ اس ھالت میں دیکھتا ہے اُسے رویا، (سچا خواب) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم کا کشف عالم غیب سے بیداری کی حالت میں ہوتا ہے جب عالم بالا کے فیضان کی لذت سے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور صاحب حال کو عالم شہادت (ظاہری دنیا) سے عالم غیب کی طرف کشش ہوتی ہے۔ جو کچھ اس حالت میں دیکھتا ہے اُسے مکاشفہ یا مشاہدہ کہتے ہیں۔
صحو ومعائنہ
صحو وہ ہے کہ ظاہری حواس کے ہوتے ہوئے عالم بالا فیض پہنچتا ہے جسکی وجہ سے صاحب حال پر عالم معنی (عالم قدس یا بطون) تک رسائی ہوتی ہے۔ اس حال میں جو کچھ دیکھا جاتا ہے اُسے معائنہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور یہ چیز اکابر انبیاء اور اولیاء کا خاصہ ہے فافہم واغتنم (ان رموز کو سمجھو اور حاصل کرو)
ثقہ راویوں سے منقول ہے کہ ایک دفعہ حضرت مرشدی و مولائی غلبۂ حال میں صحرا کی طرف چلے گے۔ ایک جگہ دہقان مل چلا رہے تھے۔ ایک دہقان نے بیل کی پیٹھ پر زور سے ڈنڈا مارا تو آپکی فریاد نکل گئی اور بیٹھ پکڑ بیٹھ گئے۔ دہقان نے کہا میں نے تو بیل کی پیٹھ پر ڈنڈا مارا ہے آپکو یا تکلیف ہورہی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ضرب تم نے میری پیٹھ پر ماری ہے اگر اعتبار نہ آئے تو آکر دیکھ سکتے ہو۔ دہقان نے فوراً جاکر دیکھا تو ضرب کا نشان آپکی پشت پر موجود تھا۔ یہ دیکھ کر دہقان آپ کے پاؤں پر گر گیا۔ معانی طلب کی۔ اور مرید ہوگیا۔ اسکے بعد اس علاقے کے تمام زمیندار داخل سلسلہ ہوے۔
یاد رہے کہ جب سالک منازل سیر الی اللہ[11]، سیرفی اللہ[12] سیر عن اللہ الیٰ الخلق[13] طے کر کے چوتھی قسم کی سیر یعنی سیر مع اللہ فی الخلق[14] میں قدم رکھتا ہے تو نورِ حق اسکے ہمراہ ہوجاتا ہے اور وہ تمام موجودات کے اثرات وخصوصیات نیز قدرت باری تعالیٰ کے خصوصیات پر ایسی حالت طاری ہوتی ہے کہ کائنات میں جو نفع نقصال اور رنج وراحت پایا جاتا ہے اسکا اثر وہ اپنی ذات میں محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسالت پناہﷺ کو امت کا بہت غم تھا۔ حضرت بایزید بسطامی کے متعلق بھی ح کایت مشہور ہے کہ ایک دفعہ آپ بازار جارہے تھے کسی شخص نے اپنے گھوڑے کو چابک مارا تو آپکی چیخ نکل گ ئی۔ جب لوگوں ے پیراہن اٹھاکر دیکھا کہ آپکی پشت پر ضرب کا نشان تھا۔ چنانچہ حضرت مرشدی ومولائی ک ی پشت پر دہقان کی ضرب کا نشان بھی اسی وجہ سے تھا کیونکہ آپ بھی اس چوتھے مرتبہ کی سیر میسر تھی۔ اس مضمون پر ایک مثال بیان کی جاتی ہے جس سے حقیقت آشکار ہوجائیگی۔
مثال
ایک شخص رات کو خواب میں دیکھتا ہے کہ اسکو کسی نے ضرب لگائی ہے یا تکلیف پہنچائی ہے۔ اب یہ امر مسلمہ ہے کہ جب خواب میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ جسم[15] مثالی کو پہنچتی ہے۔ جسکا اثر ظاہری بدن پر بھی بسا اوقات ہوجاتا ہے اس قسم کے اثر میں سب کاملین برابر نہیں ہیں۔ بلکہ جس قدر کمال زیادہ ہوتا ہے تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے۔
محفل سماع میں گم ہوجانے کی وجہ
ثقہ راویوں سے منقول ہے کہ ایک دن مرشدی ومخدومی شیخ سوندہا قدس سرہٗ خلوت میں بیٹھے سروسن رہے تھے اور بعض خاص احباب بھی شریک محفل تھے۔ عین ذوق وشوق کی حالت میں یہ ہوا کہ پہلے آپ کا سر مبارک لوگوں کی نظروں سے غیب ہوگیا اور پھر رفتہ رفتہ سارا جسم مبارک گم ہوگیا اور ایک پہر تک یہی حالت رہی۔ اسکے بعد جب آپ اس حالت سے باہر آئے تو یاران محرم راز نے وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ نور معشوق غالگ آگیا اور نور عاشق مغلوب ہوگیا اور گم ہوگیا تھا۔ ظہور بطون میں مبدل ہوگیا اور اسم مبارک یا باطن کے غلبہ نے اسم یا ظاھر کے تعین کو مغلوب کردیا۔ اب چونکہ حضرت اقدس ولی کامل ا ور عارف ومکمل تھے۔ اسماء وصفات کے تصرفات میں بھی آپکو کمال حاصل تھا۔
اسمائے الٰہی کا اثر
روایت ہے کہ ایک بیوہ عورت حضرت شیخ محمد صادق کے فرزند حضرت شیخ داؤد قدس اسرارہمہ پر فریفتہ ہوگئی اور آپکی خدمت میں کہلا بھیجا کہ اگر آپ میرے ساتھ نکاح کرلیں تو درست ورنہ میں آپ پر تہمت لگاؤنگی۔ حضرت شیخ داؤد میرے مرشد حضرت شیخ سوندہا سے حال بیان فرمایا اور حکم دیا کہ اس موذی عورت جو واجب القتل ہے کہ شر سے بچنےکیلئے اسم حق کا شغل اختیار کرو۔ چنانچہ آپ نے اپنے حجرہ میں بیٹھ کر تین دن اسمائے الٰہی کے ایک اسم کا شغل اختیار کیا تیسرے دن اس اسم مبارک کے موکلین نے اس عورت کا سر کاٹ کر حضرت اقدس کے سامنے حجرہ میں پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر آپ فوراً حجرہ سے باہر آئے اور اپنے شیخ کی خدمت میں حقیقت حال عرض کی۔ یہ سنکر آپ بہت خوش ہوے چنانچہ چند ایام کے بعد خبر ملی کہ اس عورت کا نیند میں کسی نے سر تن سےجدا کرڈالا ہے۔
ایک دفعہ ایک امیر نے حضرت شیخ داؤد کی خدمت میں عرض کیا کہ بادشاہ نے میرے بیٹے کو ایک سخت اور دشوار قلعہ کی نگہداشت کیلئے تعینات کیا ہے اور وہاں کے لولگ بڑے بہادر اور جنگجو ہیں جب سے وہ وہاں گیا ہے اسکی کوئی خبر نہیں آئی کہ کیا حال ہے آپ مہربانی فرماکر اسکے حال کی خبر گیری فرمانویں۔ حضرت اقدس نےمیرے شیخ علیہ رحمہ حضرت شیخ سوندہا کو حکم دیا کہ خلوت میں بیٹھ کر توجہ کرو اور اسکا حالملعلوم کرو۔ آپ نے خلوت میں بیٹھ کر ذکر نفی واثبات شروع کردیا۔ چالیس بار نہ کہا تھا کہ غیب سے دو شخص نمودار ہوئے اور کہنے لگے کہ اپنے شیخ کو بتادو کہ اس شخص کا لڑکا پندرہ دن کے بعد بہت مال غنیمت لے کر صحیح وسلامت گھر آجائیگا۔ چنانچہ پندرھویں دن اسکا لڑکا بیشمار مال غنیمت لیکر باپ کے پاس پہنچ گیا۔ اور لڑکے کو لیکر نذرو نیاز سمیت وہ شخص حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔
ایک روای کہتا ہے کہ ایک دن میں کسی خاص طعام کی خاطر حضرت شیخ سوندہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابھی جاکر بیٹھا ہی تھا کہ کسی نے وہی کھانا لاکر حضرت اقدس کے سامنے رکھ دیا اور آپ نےمیری طرف مسکراکر فرمایا کہ تمہارا مطلوب حاضر ہے کھاؤ۔ یہ دیکھ کر میں حیران ہوا کہ سبحان اللہ اولیاء اللہ کو عجیب قدرت ہے اور دل میں یہ شعر پڑھنے لگا؎
مردان خدا خدا نہ باشد |
|
لیکن از خدا جدانہ باشد |
(مردان خدا خدا نہیں ہوتے لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے)
روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس کیف ومستی کی حالت میں حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کے گرد اگر وطواف کی نیت سے گھوم رہے تھے کہ یکا یک روضہ اقدس کو جنبش ہوئی اور حضرت اقدس نے اسکی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اپنی جگہ پر بر قرار ہو کیونکہ جنبش میں آنا دل کا کام ہے نہ کہ آب وگلِ کا۔ آپکے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ روضہ اقدس کی جنبش بند ہوگئی۔
روایت ہے کہ جب حضرت شیخ سوندہا اپنے پیر و مرشد شیخ داؤد سے رخصت ہوکر گنگوہ سے سفیدون کی طرف روانہ ہوئے ت راستے میں دل میں خیال آیا ایک کافر تھا جو بیک وقت سو جگہوں پر موجود ہوسکتاتھا۔ خدا تعالیٰ نے جو مرتبۂ ولایت عطا فرمایا ہے کبھی میں نے یہ بات اپنے زندر نہیں دیکھی۔ جونہی آپکے دل میں یہ خیال آیا غیب سے آواز آئی کہ ان درختوں کے پتوں کو دیکھو تاکہ میری قدرت نظر آئے۔ اس جگہ پر بیشمار بلند درخت کھڑے تھے۔ جب آپنے انکی طرف نظر کی تو ہر برگ کے اندر اپنی صورت کا مشاہدہ کیا حالانکہ وہاں پتوں کا شمار ہی نہ تھا۔ جب آپ نے اپنی صورت کالاکھوں جگہ مشاہدہ کیا تو وہاں سے وہاں پتوں کا شمار ہی نہ تھا۔ جب آپ نے اپنی صورت کا لاکھوں جگہ مشاہدہ کیا تو وہاں سے لوٹ کر گنگوہ آئے اور حضرت شیخ داؤد سے ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کونسان حیرت کا مقام ہے۔ جس مقام پر تم پہنچ چکے ہو اس قسم کے خوراق وکرامات جب چاہو ظاہر ہوسکتے ہیں۔ تم مرتبۂ عینیّت حق پر ہو اور کشف و کرامات تمہاری صفت بن چکے ہیں۔
روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کے عرس کے موقع پر محفل سماع میں شریک تھے۔ اس مجلس میں وہاں کا ایک رئیس بھی شریک تھا جو سماع کا سخت منکر تھا۔ قوال حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کا یہ پسندیدہ کلام گار ہے تھے دوہرہ؎
وہ دیکھ رے چنبل کی گھاٹ |
|
پات ڈوبین پتھر تیرین |
آپ نے ا س رئیس سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اس ہندی کلام کا مطلب کیا ہے۔ آپکے خطاب سے اس بیچارے پر ایسا رعت طاری ہوا کہ گویا سارا علم بھول گیا اور جاہل محض بن گیا نہ شعر کا مطلب بیان کر سکا نہ ہی بات کرسکا۔ بلکہ عقل و ہوش سے عاری ہوگیا۔ بلکہ سماع کی لذت میں محو ہوگیا اور وجد وحال طاری ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو انکارِ سماع سے توبہ کی اور اہل سماع ہوگیا۔ اسکے بعد آپ نے اس سے فرمایا کہ اے ملا تم نے مرتبۂ تنزیہہ[16] وتشبیہہ کی جامعیت کی لذت دیکھی کس طرح ہے۔ تم نے تو حق تعالیٰ کوصرف مرتبہ تنزیہہ میں مقید اور محدود کر رکھا تھا۔ چنانچہ اس نے ان دو مراتب کی جامعیت کی بلندی کا اعتراف کیا۔ اسکے بعد آپ نے اسکو اس ہندی شعر کے معنی سمجھائے۔ آپ نے فرمایا کہ جب سالکین تزکیہ نفس کے بعد اپنے تعین سے خلاصی پاتے ہیں اور تجلی لاہوت کی بدولت بحر جاتی ہے لیکن یہ عجیب بات بات ہے کہ وہ پتے پانی پر تیرنے کی بجائے غرق ہوجاتے ہیں لیکن جو لوگ اپنی ہستی میں گرفتار ہیں گہرائی تک نہیں جاسکتے بلکہ سطح آب پر رہ جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنی ہستی میں گرفتار ہیں گہرائی تک نہیں جاسکتے بلکہ سطح آب آب پر رہ جاتے ہیں الا امنۃ۔۔۔ اپنی خلافت کا بوجھ فرشتون آسمانوں اور پہاڑوں کو پیش کیا تو باوجود یکہ علائق بشری کے وزن سے پاک اور سبکسار تھے امانت کے قبول کرنے سے انکار کردیا اور بحر ذات میں غوط زن نہ ہوسکے لیکن انسان جو علائق بشری میں محبوس اور گراں بار تھا اس نے فوراً یہ امانت قبول کرلی اور اُسے لیکر بحر ذات میں شناوری کر رہا اور لحظ ترقی کی نئی منزل پر گامزن ہوتا ہے۔ شعر کے ان دو مطالب کے علاوہ ایک اور مطلب بھی ہے جو ان دونوں سے زیادہ واضح ہے۔ وہ یہ کہ جب شیخ کامل بمصداق آیۂ فالمد برات امراً۔۔۔ طالب صادق کو دم مقیم کے عروج کی تدبیر سکھاتا بلکہ دکھاتا ہے تو فرماتا ہے کو دیکھ اے عاشق حقیقی چنبل کے گھاٹ پر جو مقام نیلو فر ہے کیا عجوبہ کہ دمِ مسافر[17] (پات یا پتے) اپنے اختیار سبب وہاں غرق ہورہا ہے اور دمِ مقیم[18](پتھر) بحرِ سلطان العروق میں شنادری کرتا ہے اور سجین سے علین تک عروج کرتا ہے۔ جب اس عالم نے شعر کے مختلف معانی حضرت اقدس کی زبان سے سنے تو بے ساختہ اقرار کیا یہ علوم الٰہیہ ہیں لیکن ہم لوگوں نے چھلکے پر قناعت کر رکھی ہے۔ یہ معانی ہماری سمجھ کب آسکتے ہیں۔
مؤلف کتاب کی بیعت کا واقعہ
اس راقم الحروف کی حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ سے بیعت اور حصول خلافت کا واقعہ یوں ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے احقر کے دل میں بچپن ہی سے عشق حق اور شوقِ ذات مطلق دامنگیر تھا۔ اور خود بخود مشائخ عظام کی تصانیف پڑھنے اور ریاضت و مجاہدہ کی عادت تھی۔ سولہ سال کی عمر میں ایک رات عالم واقعہ (حالت کشف) میں دیکھا کہ ایک آفتاب ہمارے گھر میں آکر میری آغوش میں بیٹھ گیا ہے اور اس آفتاب کے نور سے نہ صرف پورا گھر منور ہے بلکہ شہر بر اس کا ہر گھر اور سارا جہان روشن ہے۔ وہ آفتاب اس فقیر سے یہ کہہ رہا ہے کہ تم کیوں اتنی تکلیف اٹھار ہے ہو میرے پاس آجاؤ میں تم کو ایسا راستہ بتاؤنگا جس سے مقصود جلدی حاصل ہوجائیگا۔ صبح اٹھتے ہی والدِ بزرگوار کی خدمت میں یہ ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہاں ایک درویش اور قطب وقت آئے گا اور تم انکے سجادہ نشین اور خلیفہ بر حق ہوگے۔ چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد حضرت شیخ سوندہا قصبہ بر اس میں تشریف لائے اور اس آٖتاب کی کرنیں ہر خاص وعام پر پڑیں شیخ سوندہا قصبہ بر اس میں تشریف لائے اور آفتاب کی کرنیں ہر خاص وعام پر پڑیں آپ نے مسجد سادات میں قیام فرمایا۔ انکو دیکھ کر میرے والد ماجد نے فرمایا کہ تمہارے خواب کی تعبیر یہی بزرگ ہیں۔ فوراً اُن سے بیعت ہوجاؤ۔ چنانچہ یہ فقیر اپنے والد صاحب کے ساتھ مسجد سادات میں جاکر حاضر خدمت ہوا اور بیعت کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا کہ
‘‘خوب آمدی از دیر مشتاق تو بودم دمرا حضرت رسالت پناہﷺ در معاملہ بنام و نشان تو خبر در کردہ بود وگفتہ کہ بعد از تو سجادہ وصاحب مقام پیران وے خواہد بود۔ الحمدللہ کہ طالبِ امانت خویش شدی واعین مصرع خواند بیا کہ سرِ زلف تا کارہا داریم’’
(تم اچھے آئے ہو میں دیر سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے رسول اللہﷺ نے خواب میں تمہارا پتہ بتایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ شخص تمہارا خلیفہ اور مشائخ کا جائے نشین ہوگا۔ الحمدللہ کہ تم اپنی امانت کی طلب میں پہنچ گئےہو۔ مصرع (آگے بڑھو ہم نے تجھ سے بڑے کام لینے ہیں)۔ اسکے بعد آپ ہمیں براس اور گردو نواح کے علاقے کے صاحب ولایت حضرت شاہ ابو الاعلی کے روضہ پر لے گئے جو قصبل کی شرقی جانب واقع ہے اور ازراہِ عنایت فرمایا کہ تجھ جیسے آدمی کی بیعت عام لوگوں کی طرح نہیں ہے کہ اکیلا بیٹھ کر بیعت لے لیتا۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ اس کام میں حضرت شاہ ابو الاعلی بھی شریک و متفق ہوجائیں۔ اسکے بعد آپ نے مجھے بیعت سےمشرف فرمایا اور کلاہِ چار تری اپنے سر سے اتار کر میرے سر پر رکھی اور شجرۂ مشائخ بھی عطا فرمایا۔ اس روز میرے والد بزرگوار بھی حضرت اقدس کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اسکے بعد اس فقیر سے فرمایا کہ تین دن طے کا روزہ رکھ لو۔ اور تن تین ایام میں ایک لاکھ کلمہ طیبہ کا بھ ی ورد کرلو چوتھی رات غسل حقیقی کرکے مغرب وعشا کے درمیان میرے پاس آنا۔ اس فقیر نے حکم کی تعمیل کی۔ چوتھی رات جب حاضر خدمت ہوا تو آپ نے مجھے سامنے بٹھاکر ذکر نفی واثبات وذکر اسم ذات بالتجہر تلقین فرمایا نیز ذکر بھی قلبی بھی اسی وقت تعلیم فرمایا۔ اسکے بعد اپنے پیر روشن ضمیر کے حکم کے مطابق فقیر نے گھر جاکر ایک جونپڑے میں قیام کیا اور اپنے کام مشغول ہوگیا۔ اور سات سال تک سخت ریاضت و مجاہدہ کرتا رہا۔ اس اثنا میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ خواب اور آرام کیا ہوتا ہے۔ کھانا ترک کردیا تین چار دن کے بعد دو چھٹانک آٹے کی روٹی سے افطار کرتا تھا۔ آخر مدت کے بعد قسمت نے یادری کی اور فتح باب نصیب ہوا۔ یعنی ایک رات بیٹھا بحر وجود ذات میں سیر کر رہا تھا کہ اچانک ایسا باغ نظر ایا جنت الفردوس بلکہ عرش عظیم اسکے پھولوں میں ایک پھول تھا کہ لا یسعی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدالمومن (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین میں سما سکتا ہوں نہ اپنے آسمان میں بلکہ اپنے بندہ مومن کے قلب میں سما سکتا ہوں) جسکا وصف ہے۔ اس وجہ سے اسکی وسعت سب کی وسعت سے زیادہ تھی۔ جب میں نے اس باغ کا نظارہ دیکھا تو سب رنج وغم شادی وخوشی میں تبدیل ہوگیا اور مطمن ہوکر بیٹھا تھا کہ یکا یک میرے سامنے ایک کمرہ نظر آیا اور مجھ پر فنا اور محویت طاری ہوگئی۔ اس کمرے کے اندر ایک دلہن بیٹھی تھی جسکے اعضا نورانی تھے بلکہ وہ سراپا نور تھی اور وہ نور آہستہ آہستہ پھیلتا گیا حتیٰ کہ مجھے سات دلہنیں نظر آنیں لگین جن میں ایک دوسرے سے بڑی تھ ی اور ساتویں دلہن سب سے بڑی تھی۔ اس وقت خلق کے متعلق میرا شعور بحال تھا۔ وہ آخری دلہن اس قدر حسین تھی کہ اگر اسکے نور کا ایک ذرہ اس جہان میں ظاہر ہوجائے تو ساری خلق مرجائے۔ اور حکم کل من علیھا فان جاری ہوجائے اور سب کچھ فنا ہوجائے اس وقت یہ فقیر اپنے شیخ حضرت مخدوم سوندہا کی برکت سے ھل من مزید لگارہا تھا کہ میرا وجود وسیع ہونے لگا اور ہرجگہ پھیل گیا۔ اور میرا ہر بال آفتاب جہاں تاب بن گیا اسکے بعد میرا وجود محو ہوگیا اور کوئی نشان باقی نہ رہا۔ بمصداق آیہ کریمہ لان الملوک اذا دخلو قریۃ افند وھا وجعلو اعزۃ اھلھا اذلۃ (جب بادشاہ کسی بستی پر نازل ہوتا ہے تو انکی عزت کو ذلت میں تبدیل کردیتا ہے)۔ اس وقت اس فقیر کی نظر میں ا س آفتاب جہان تاب کے سوا کچھ نہ تھا۔ الا ن کما کان( جس طرح پہلے تھا اب بھی اس طرح ہے) الحمدللہ علی ذالک؎
غیرتش غیر درجہاں نگداشت |
|
لا جرم عین جملہ اشیاء شد |
(اسکی غیرت نے دنیا میں کسی چیز کو نہ چھوڑا اور ہر چیز کا عین ہوگیا)۔ جب میں اس مقام پر پہنچا تو اپنے وجود کی کلفت سے آزاد ہوگیا۔ آثارِ بشریت سے نجاب مل گئی۔ اور آرام وآسائش اور عیش دوام نصیب ہوا۔ دوست کے ساتھ محو خواب ہوگیا اور زبان حال سے یہ شعر پڑھ رہا تھا؎
من مست مے عشقم ہوشیار نخواہم شد
خفتہ بہ معوقم بیدار نخواہم شد
(میں شراب وحدت میں مست ہوچکا اب ہوشیار نہیں ہونگا۔ دوست کے ساتھ ہم خواب ہو بیدار نہیں ہونگا)۔ جب اس مقام پر مجھے سکون نصیب ہوا تو دل میں خواہش ہوئی کہ اب یہاں سے علیحدہ نہ ہونگا۔ اس خیال کا آنا تھا کہ غیب سے بے حرف اور بے صوت آواز آئی ہے اے میرے بند و ہمت بلند کرو۔ اس مقام پر قیام نہ کرو بلکہ قدم آگے بڑھاؤ تاکہ اسرار ورموز سے آگاہی ہو۔
جب اس حالت سے افاقہ ہوا تو حضرت شیخ کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کیا آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ تم نے مقامِ ملکوت و جبروت (عالمِ ارواح اور صفات) ملے کرلیا ہے۔ اب کوشش کرو تاکہ جمال حضرت لاکیف جلوہ گر ہو۔ اسکے بعد اس فقیر کو آپ نے شغل بہونکم اور شغل سہ پایہ تلقین فرمایا اور شغل سہ پایہ کا چلہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس فقیر نے حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی قدس سرہٗ کی متابعت میں چھ ماہ کی خلوت اختیار کی اور شب وروز شغل سہ پایہ میں مشغول ہوگیا اور گاہے گاہے دوپہر رات گئے صلوٰۃ معکوس[19] بھی ادا کرتا تھا۔ شغل سہ پایہ میں یہ فقیر ایک سانس کے اندر تین یا چار تسبیح یعنیت ین چار سو مرتبہ کرتا تھا اور تین بار اسم مبارک اللہ کہہ کر ایک دانہ تسبیح کا گراتا تھا اور اس سے عالمِ اطلاق لا کیف طاری ہوجاتا تھا اور شعور جاتا رہتا تھا۔
ایک شاندار مشاہدہ
ایک رات یہ فقیر مراقبۂ ھویت ذاتی میں مشغول تھاکہ محویت طاری ہوگئی۔ اس بیخودی کے عالم میں اپنے آپکو بحر بیکراں کے ساحل پر پایا ایک شاعت کے بعد مغرب کی طرف سے ماہتاب کی شکل اورمشرق کی طرف سے آفتاب کی شکل نمودار ہوئی اور دونوں فقیر کی طرف آئیں۔ جب قریب آئیں تو ماہتاب کی شکل سے حضرت رسالت پناہﷺ نوری براق پر سوار ہوکر ظاہر ہوئے اور آفتاب کی شکل میں م یرے مرشد حضرت شیخ سوندہا پالکی پر سوار ہوکر سامنے آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نماز کا وقت ہے۔ آنحضرتﷺ نے میرے شیخ کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر امامت کرائیں اور آنحضرتﷺ اور اس فقیر نے اقتدا کی۔ جب ہم رکوع وسجود کرتے تھے تو تمام موجودات یعنی اشجار وغیرہ بھی موافقت کرتے تھے اور رکوع و سجود بجالاتے تھے۔ جب ہم کھڑے ہوتے تو وہ بھی کھڑے ہوجاتے تھے۔ نماز سے فارغ ہوکر ہم نے تین مرتبہ ذکر نفی اثبات کیا۔ جب ہم لا الہ کہتے تھے تو تمام اشیاء معدوم ہوجاتی تھیں اور جب الا اللہ کہتے تھے تو پھر وجود میں آجاتی تھیں۔ اسکے بعد میں نے اپنے آپکو ایک درخت کے نیچے پایا جو نورِ سرخ کا تھا۔ اپنے شیخ علیہ رحمہ کو بھی اپنے ساتھ پایا۔ اس درخت سے نورِ سرخ کے قطرے مجھ پر ٹپک رہے تھے حضرت شیخ نے مجھ سے فرمایا کہ نور جو ٹپک رہا ہے نورِ ذات ہے۔ اسکے بعد نور سرخ کا ایک دریا نمودار ہوا اور میرے وجود کا قطرہ اس دریا میں غرق ہوکر یک رنگ ہوگیا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہا۔
حصول مقام فنافی الرسلو وفنافی اللہ
ایک اور رات یہ فقیر مراقبۂ غیب میں مشغول تھا ایسا معلوم ہوا کہ آسمان وزمین بلکہ ہر چیز سب نور سرخ سے بنی ہے اور ساری کائنات اس نور سے مالا مال ہے۔ اسکے بعد یہ نور سرخ میرے مرشد پاک کی صورت میں تبدیل ہوگیا اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ‘‘خدائے ت منم بہ پرستش من مشغول باش’’ اس تعین کے بعد رسول اللہﷺ کا تعین ظہور پذیر ہوا اور سیلاب میں فنا کے بعد میرے ہوش گم ہوگئے اور عالمِ محویت میں گم ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد میں عالمِ شہود میں آگیا اور حضرت شیخ کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ کمالات فنافی الرسول اور فنا فی اللہ سے مشرب ہوئے ہو۔ جب اس حالت سے افاقہ ہوا تو حضرت شیخ کی خدمت میں جاکر سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی مقام بے کیفی (لاتعین یا احدیت) تک رسائی بقی ہے۔ کچھ عرصہ کوش کرو تاکہ بے نشان حاصل ہو۔ نیز آپ نے شگل لطائف ستہ اور شغل سہ پایہ پر پابندی کا حکم فرمایا چنانچہ یہ فقیر شب وروز ان اشغال میں مشغول ہوگیا اور اس انتظار میں تھا کہ کب کام بنتا ہے اور کب فتح باب نصیب ہوتا ہے کہ یکا یک ایک نہایت ہی حسین وجمیل نوجوان رونما ہوا جسکا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا؎
مردانہ در آئی کاندریں راہ |
|
نے بوئے ہمے خرندونے رنگ |
گلے سردِ وجودی بر خیز |
|
افتادہ مباش در رہِ تنگ |
(اس کوچے میں مراد نہ وار آؤ۔ یہاں نہ رنگ کا کوئی خریدار ہے ہ بوئے کا۔ اے سردِ وجود کے پھول اٹھو اور اپنے وجود کے تنگ وتاریک گوشے میں مت پڑے رہو) یہ کلام سنتے ہی میرے دل میں شورش برپا ہوئی اور اضطراب حد سے زیادہ بڑھ گیا قریب تھا کہ جان نکل جائے کہ اچانک غیب سے آواز آئی کہ بے قرار مت ہو اور سکون سے رہو تمہارا مقصود نزدیک ہے۔ اس سے مجھ پر ذات کی تجلیوں میں سے ایک ایسی بجلی گری کہ جسکا بیان مشکل ہے اور مجھے تسکین واطمینان حاصل ہوا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جب چھوٹے ندی نالے پہاڑوں سے گذرتے ہیں تو شوروغل مچاتے ہوئے جاتے ہیں جب سمندر میں جاکر گرتے ہیں تو خاموش ہوجاتے ہیں۔ اس مقام پر مجھ پر حقائق اشیاء کما ہی منکشف ہوئے۔ خلق کے ساتھ محبت حق ظاہر ہوئی، شہود خلق در حق اور شودِ حق درخلوق حاصل ہوا۔ اور نسبت حضرت لاکیف نے اس فقیر پر ایسی جلوہ گری کی کہ محویت طاری ہوگئی اور موت یا قیامت کا سماں پیدا ہوگیا۔ اسکی تفصیل بہت طویل ہے۔ غرضیکہ کہ اس حالت میں احقر مغلوب الحال ہوگیا۔ اسکی تفصیل بہت طویل ہے۔
مجذوب ہونے سے بچنے کی تدبری
جب یہ حالت رفع ہوگئی اور ماجرا حضرت اقدس کے سامنے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس غلبۂ حال سے تم مجذوب ہوجاؤ گے۔ اب علم ظاہری کی طرف توجہ کرو۔ فقیر نے حکم کی تعلیم کی اور چار پانچ سال تک شہر سر ہندمیں اساتذہ کاملین کے ہاں تمام رسمی علوم حاصل کیے اور علوم کا اختتام حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے پوتے حضرت مولوی فرخ کے ہاں کیا جو علم ظاہری میں ملا عبدالحکیم ثانی تھے۔ آیام تحصیل علم میں رات کے وقت یہ فقیر شغل باطن کرتا تھا اور دن کے وقت ظاہری علم کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ اور کبھی کبھی حالت باطن کا اس قدر غلبہ ہوتا تھا کہ علم اور کتاب کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ جب افاقہ ہوتا پھر علوم ظاہری میں مشغول ہوجاتا حتیٰ کہ حضرت شیخ کی برکت سے مراتب فنا جنہیں سیر اللہ کہا جاتا ہے طے ہوگئے اور مدارج بقا باللہ جن سے سیر فی اللہ مراد ہے کی ابتدا ہوگئی۔
عطائے خلافت
اس حالت میں میرے سامنے ایک بے پایاں راستہ نمودار ہوا اور میں نے اس پر چلنا شروع کیا حتیٰ کہ ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں حقیقی تجلی نمودار ہوئی اور ذات حق کی تمام ذاتی وٖاتی تجلیات کا تفصیل کے ساتھ مشاہدہ کیا۔ اور اپنی استعداد اور ہمت کے مطابق ان سب کا اوراک حاصل کیا۔ اس کائنات کے ہر ذرہ میں یہاں تک میرے اپنے نفس کے اندر ایک ایسا نور طاری ہوگیا جو تمام اشیائے عالم پر محیط اور سارے جہان کا مربی و موجد ہے۔ وہ نورِ حقیقت کے اعتبار سے تمام تعینات سے منزہ اور پاک ہے۔ اور تمام موجودات کا وجود اسکے وجود سے ہے نیز یہ بھی دکھا کہ وہ نور نہ متصل عالم ہے نہ مفصل (یعنی نہ جہان کے ساتھ متصل ہے نہ علیحدہ) نہ جہان کے اندر ہے نہ باہر۔ جب اس مقام سے نزول کیا تو حق تعالیٰ سے بلا واسطہ فرمان ہوا کہ ’’اے بندۂ خاص من ترا قبول کردم‘‘ (اے میرے خاص بندے تجھے میں نے قبول کیا) ’’وہرکہ در طریقہ ومتابعت تو در اید اورانیز مقبول درگاہِ خویش گردایندم واز آتش دوزخ نجات دادم و بہشتی ساختم ( اور جو شخص تیرے سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اور تیری متابعت کرتا ہے اُسے بھی قبول کیا اور آتش دوزخ سے نجات بخشی اور بہشتی بنایا) یہ کلمات سنکر احقر بے حد خوش ہوا اور سجدۂ شکر بجالایا۔ چنانچہ تمام فرشتے اور عالم ارواح کی روحوں نے احقر کی موافقت مین سجدہ کیا اور اس فقیر کے حق میں دعائے خیر کی۔ اور مبارک باد دی۔ جب حضرت شیک کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ تمہارا کام مکمل ہوچکا ہے چنانچہ آپ نے مشائخ عظام کی امانت، خرقہ خلافت اور سجادگی اس فقیر کو عطا فرمائی اور اپنا کلیفہ مطلق اور جانشین برحق مقرر فرمایا۔ کچھ عرصے کے بعد ۲۴؍ماہ جمادی الآخر کو شب چہار شنبہ چھ گھڑی رات باقی تھی کہ آپ نے خوش وخرم ہوکر اپنی نازمین جان کو نثار جانا کردیا۔ وصال سے کچھ دیر پہلے آپ نے قوالوں کو طلب فرمایا کہ حافظ کا یہ شعر پڑھتے ہو؎
صحبت حور نکواہم کہ بود عین قصور |
|
باخیال تو چرا بادگران پردازم |
(مجھے حور وقصور کی خواہش نہیں ہے دل میں تیرے عشق کے ہوتے ہوئے اور کس چیز کی طرف متوجہ ہوسکتا ہوں) جب قوالوں نے یہ شعر پڑھا تو آپ کے دہانِ مبارک سے ایک ایسا نور نکلا کہ تمام حاضرین اور قوال بے خود ہوگئے۔ جب دیر کے بعد ہوش میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عالم بقا کی طرف چلے جاچکے ہیں۔ واللہ اعلم۔
حضرت اقدس کی عمر چھیانوے سال تھی اس میں سے آپ نے کافی عرصہ اپنے پیرومرشد حضرت شیخ داؤد کی خدمت میں بسر کیا۔ لیکن آپ نے زیادہ عرصہ قصبۂبہوہر میں یادِ حق میں گذارا۔ آخر آپ نے اپنے آبائی وطن قصبہ سفیدون میں آکر بقیہ عمر بسر فرمائی آپ نے وہاں ایک مسجد اور خانقاہ تیار کرائی اور اپنے مزار مبارک کی جگہ کی نشاندہی بھی کردی چنانچہ وفات کے بعد آپ اُسی مقام پر دفن ہوئے۔ آپکا مزار مبارک قصبہ سفیدون میں خلق خدا کا قبلۂ حاجات ہے۔ حضرت اقدس کے ایک دوست فرماتے ہیں کہ جب آپکا وصالہوا تو آپ کے غم نے مجھے بے حد ستایا میں ایک رات آپکی قبر کے نزدیک غمگین کے بے ہوش ہوگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت اقدس قبر سے نکل کر تخت پر بیٹھ گئے ہیں۔ آپکے سر پر نور اولیا کا ایک تاج ہے۔ اور لوگ بھی وہاں جمع ہیں۔ لیکن میں انکو نہیں پہچانتا تھا۔ آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اولیا اللہ کو موت نہیں آتی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔چنانچہ میں زندہ اور پائندہ ہوں اور ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں۔ اس قدر غم کیوں کرتے ہو۔ اپنے کام میں مشغول رہو اور کوئی غم نہ کرو۔ جب میں بیدار ہوا تو دل میں غم کا نشان تک نہ تھا اور اسکی جگہ عشقِ الٰہی موجزن تھا۔
روایت ہے کہ حضرت اقدس نے اپنی قبر کے مقام پر ایک چبوترہ بنوایا ہوا تھا اور وہاں بیٹھ کر شغل باطن کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہاں بیٹھے آپ انار کھارہے تھے کہ اچانک انار کا ایک دانہ نیچے گر گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس انار کا سایہ میری قبر پر ہوگا چنانچہ آج تک انار کا درکت آپکے مزار مبارک پر سایہ فگن ہے۔ نیز ایک املی کا درخت جوآپ نے لگایا تھا چبوترہ کے متصل کھڑا ہے اور جس حجرہ میں آپ بیٹھ کر شغل باطن کرتے تھے اس میں جنات بھی سکونت پذیر تھے اور وہ جن آپ کے مرید تھے۔ چنانچہ وہ جن اب تک اس حجرہ میں مقیم ہیں۔ لیکن کسی شخص کو ایذا نہین پہنچاتے۔
حضرت اقدس کی زبان مبارک سے اس فقیر نے سنا کہ میرے مرشد حضرت شیخ داؤد کے وصال کے بعد حق تعالیٰ نے مجھے مرتبہ قطب مدار عطا فرمایا۔ اورآکر میں مقام فردانیت[20] عطا فرمایا۔ آمدم برسرِ مطلب۔
جب حضرت اقدس نے اس فقیر کو اپنی خلافت کبریٰ سے مشرف فرمایا تو تمام سلاسل کے شجرہ ہائے شریف عطا فرمائےا ور اس میں بیعت کرنے کی اجازت بخشی۔
اسکے علاوہ اس احقر کو اپنے پیر ومرشد حضرت شیخ سوندہا سے دوسرسے سلاسل میں بھی خلافت عطا ہوئی۔ لیکن اس مختصر کتاب میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اس فقیر کو اپنے شیخ کے علاوہ دیگر مشائک سے بھی خرقہ ہاے خلافت اور باطنی نعمت اور اذکار ومشاغل حاصل ہوئے خاص طور پر سلسلۂ قادریہ مین میریہ میں قطب وقت حضرت مخدوم عبدالرشید ساکن ہر ہانہ بھون سے جو حضرت شاہ میاں میر لاہوری کے خلیفہ اعظم تھے۔ حضرت مخدوم عبدالرشید کی عمر ایک سو پچاس سال تھی آپکو ترک و تجرید میں کمال حاصل تھا۔ ایک دن حضرت مخدوم عبدالرشید کا گذر آدمو کے باغ سے ہوا جہاں چند لوگ بیٹھے نگہبانی کر رہے تے۔ ایک سائل نے اُن نگہبانوں سے کچھ آم طلب کیے۔ لیکن انہون نے انکار کردیا۔ یہ دیکھ کر مخدوم عبدالرشید کو جوش آگیا۔ آپ نے ایک آدم کے درخت کو مکاطب کر کے فرمایا کہ اے درخت تم عجیب بے حیا ہو کہ سائل کو آم نہیں ملے اور تم آم سے لدے کھڑے ہو جونہی آپ کی زبان سے الفاظ نکلے درخت نیچے گر پڑا۔ آپ بڑے سخی تھے۔ ایک دفعہ کسی نے آپکی خدمت میں ایک ہزار روپے بطور نذر پیش کیے آپ نے وہ رقم فوراً ایک غریب مزدور کے حوالہ کردی اور اپنے پاس کچھ نہ رکھا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
[1]۔ یعنی جس نے اپنی ہمتی ذات حق میں گم کردی ہے اور خو نہیں رہا۔
[2]۔ بہتر یہ ہے کہ شجرہ شریف دفن نہ کیا جائے کیونکہ ضائع ہوجاتا ہے بلکہ لکھ کر وہ کاغذ قبر میں رکھا جائے۔
[3]۔ یعنی اگر پیر کامل نہیں ہے۔
[4]۔ مطلب یہ ہے پہلا پیر کامل ضرور ہونا چاہیے اگر کامل نہیں ہے تو صاحب بیعت ہی نہیں ہے۔ صاحب بیعت وہ ہے جسکو سلوک تمام کرنے کے بعد خلافت واجازت ملی ہو۔
[5]۔ کتاب سردلبراں مصنفہ حضرت مولانا سید محمد ذوقی شاہ قدس سرہ میں لکھا ہے کہ اگر پیر کی وفات پر مرید پیر کی قبر سے فیضان حاصل کرنے کی استعداد رکھتا ہے تو دوسری بیعت کی ضرورت نہیں اگر یہ استعداد نہیں تو پیر صحبت اختیار کرے۔
[6]۔ علماً شہوداً یعنی نہ صرف حقیقت کا علم رکھتے ہوں بلکہ مشاہدہ بھی حاصل ہو۔ شہود بڑی چیز ہے۔
[7]۔یاد رہے کہ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا فقولہ ہے جب آپ نے چاند کو دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے جب چاند غروب ہوگیا تو اس سے پرہیز کیا۔ جب سورج دیکھا تو کہا کہ یہ میرا رب ہےجب سورج غروب ہوا تو آپ نے اس سے بیزر ہوکر فرمایا کہ مجھے غروب ہونے والوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔ در اصل یہ واقعہ باطنی ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک پیغمبر علیہ السلام ہر گز چاند اور سورج کو خدا نہیں کہہ سکتا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مناظر کائنات کو دیکھ کر ذات باری کی ہستی کا استدلال فرمایا۔ لیکن بعد میں ترقی ہوئی تو منطقی استدلال سے بڑھ کر آپ کو ایک مقام نصیب ہوا جو عین الیقین اور حق الیقین کہلاتا ہے۔ اس وقت آپ نے منطقی استدلال سےپرہیز کیا اور شہود حق میں جا پہنچے۔یعنی ایمان تصدیقی سے مالا مال ہوئے۔
[8]۔ صوم وصال یا طے کے روزہ سے یہ مراد ہے کہ مقرر دنوں کا روزہ رکھا جائے جس میں نہ صبح کو سحری نہ شام کو افطار۔
[9]۔ راہب عالم طور پر غیر مسلم ارباب روحانیت کو کہتے ہیں جو غاروں اور جنگلوں وغیرہ میں خلوت گزیں ہوکر مجاہدہ کرتے ہیں اور قدرے روحانی قوت کو بڑھا لیتے ہیں جس سے معمولی قسم کی کرامات کا امکان ہوجاتا ہے۔
[10]۔ جس طرح کے جسم کے پانچ حواس ہیں جنکو حواس خمسہ کہا جاتا ہے۔
[11]۔ سیر الی اللہ سے مراد وہ سفر ہے جو سالک شروع میں اللہ تعالیٰ کی طرف پرواز کے دوران کرتا ہے۔
[12]۔ سیر فی الی اللہ سے مراد فنافی اللہ ہے جب انسان کی روح باری تعالیٰ کے روح میں واصل اور فانی ہوجاتی ہے۔
[13]۔ سیر عن اللہ سے مراد وہ سفر ہے جو فناف کو ترک ک کے سالک اپنہ ہستی یا مقام دوئی وکثرت میں آنے کیلئے اختیار کرتا ہے۔
[14]۔ سیر مع اللہ فی الخلق سے مراد سالک کا آخری مقام یعنی بقا باللہ ہے جب وہ بمصداق حدیث بی یمع اور بی یبصر اللہ تعالیٰ کےنور سے خلق میں نظر کرتا ہے اور حقیقت الاشیا اس پر واضح ہوتی ہے۔
[15]۔ جسم مثالی وہ جسم ہے جو اس ظاہری جسم اور روح کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ ظاہری جسم سے زیادہ لطیف اور روح سے کثیف ہوتا ہے اور روح وتن کے درمیان واسطہ ہوتا ہے۔ خواب اور کشف وکرامات کا تعلق اسی عالمِ مثال سے ہوتا ہے۔
[16]۔ تنزیہہ سے مراد ذات لاکیف اور تشبیہہ عالمِ اجسام اور اسکے ظہور کو کہتے ہیں۔
[17]۔ شاید دم مسافر اور دم مقیم سے مراد شغل حبس دم میں سانس کا چھوڑنا اور بند کرنا ہے یہ شگل زیر آب ہوکر کیا جاتا ہے۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ سانس اندر لیا جاتا ہے تو غوطہ ٹوٹنے لگتا ہے اور سالک سطح آب پر آجاتا ہے۔ اور جب سانس باہر نکلہ لا جاتا ہے تو وہ ڈوب جاتا ہے۔ دم مسافر سے مراد باہر جانے والا اور دم مقیم سے مراد اندر جانے و والا سانس ہے جب سانس اندر جاتا ہے تو سالک پر استغراق ذات طاری ہوجاتا ہے اور سانسن چھوڑتے ہی وہ عالم دوئی میں آجاتا ہے۔
[18]۔ شاید دم مسافر اور دم مقیم سے مراد شغل حبس دم میں سانس کا چھوڑنا اور بند کرنا ہے یہ شگل زیر آب ہوکر کیا جاتا ہے۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ سانس اندر لیا جاتا ہے تو غوطہ ٹوٹنے لگتا ہے اور سالک سطح آب پر آجاتا ہے۔ اور جب سانس باہر نکلہ لا جاتا ہے تو وہ ڈوب جاتا ہے۔ دم مسافر سے مراد باہر جانے والا اور دم مقیم سے مراد اندر جانے و والا سانس ہے جب سانس اندر جاتا ہے تو سالک پر استغراق ذات طاری ہوجاتا ہے اور سانسن چھوڑتے ہی وہ عالم دوئی میں آجاتا ہے۔
[19]۔ صلوٰۃ معکوس سے مراد وہ شغل ہے جو سالکین راہ حقیقت میں کسی کنویں میں الٹا لٹک کر کرتے ہیں۔ یہ شغل عام طور پر نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کیا جاتا ہے حضرت خواجہ فرید الدین گنجشکر قدس سرہٗ نے یہ شغل چالیس رات تک اوچ شریف کی مسجد حاجات کےکوئیں میں کیا تھا۔ دیگر اولیائے کرام کی سوانح حیات سے بھی اس شغل کے کیے جانے کی اطلاع ملتی ہے۔ بندہ نواز سید محمد گیسو دراز کے قول کے مطابق سرور کائ نات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہ شغل کیا تھا۔
[20]۔ حاشیہ نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
(قتباس الانوار)