حضرت شیخ سید احمد سلطان سخی سرور سہروردی
حضرت شیخ سید احمد سلطان سخی سرور سہروردی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ سید احمد سلطان سخی سرور سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ خطہ ملتان کے مشہور ترین اولیائے کبار میں سے تھے پیر خانو لکھی خان اور لکھ داتا کے القابات سے مشہور ہوئے تشریف الشرفاء میں آپ کی نسبت یوں درج ہے۔
سید زین العابدین۔سید عمر ۔سید عبداللطیف ۔سید بہاء الدین۔سیّد غیاث الدین۔سید بہاء الدّین ۔سید صلاح الدین۔سید زین العابدین۔سید عیسٰی۔سید صالح۔سید عبدالغنی۔سید جلیل۔سید خیرالدین۔سید ضیاء الدین۔سید وارد۔سید عبدالجلیل رومی۔سید اسماعیل ۔سید امام جعفر صادق۔سیّد محمد باقر۔سید زین العابدین۔حضرت سید امام حسین۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ قدس سرھم۔
سب سے پہلے آپ کے والد مکرم سید زین العابدین عرب شریف سے وارد برصغیر ہوئے اور ملتان کے قریب موضع کرسی کوٹ میں قیام فرما ہوئے اس موضع کے مقدم پیرا کی بیٹی عائشہ سے شادی کی پیرا کھوکھر قوم سے تعلق رکھتے تھے اس بی بی کے بطن سے سید احمد سخی سرور سلطان اور ان کے بھائی عبدالغنی (جنہیں سید خان ڈھوڈ کے نام سے شہرت ملی) پیدا ہوئے سید احمد مادر زاد ولی اللہ تھے بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سعادت پر انوار ولایٔت جلوہ گر تھے اپنے والد محترم سے راہ طریقت کا آغاز کیا سفر بغداد اختیار کیا اور جناب غوث الاعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فیض کامل حاصل کیا کچھ عرصہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی کی صحبت میں گزارا۔ واپسی پر موضع چشت میں پہنچے حضرت مودود چشتی سے فیض حاصل کیا خرقہ خلافت اور اجازت بیعت حاصل کی اور اس طرح آپ زمانہ کے کاملین میں شمار ہونے لگے حضرت خضر اور دوسرے رجال الغیب سے ملاقات فرماتے تھے وقت کے ابدال اور اوتاد آپ کے پاس آیا کرتے تھے آپ اپنی روزی حاصل کرنے کے لیے بکریاں چرایا کرتے تھے اور کاشت کاری کے کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے۔
آپ سفر بغداد سے واپس وطن آئے تو لاہور تشریف لائے لاہور میں ان دنوں مولانا محمد اسحاق لاہوری سے مسند علم بچھیا رکھتی تھی آپ نے مولانا کے سامنے زانوئے تلّمذتَیہ کیا۔ اور آپ علوم مروّجہ سے مستفیض ہوئے ظاہری علوم سے فارغ ہوکر موضع سوہدار نزد وزیر آباد پہنچے اور دریائے چناب کے کنارے پہنچ کر قیام فرما ہوئے چند سال اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے دور دراز سے مخلوق خدا آنے لگی اور اس چشمۂ فیض سے سیراب ہونے لگی چونکہ دنیا داروں میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو آپ کے دروازے پر آتا اور محروم جاتا۔ اس لیے لوگوں میں آپ کا نام سخی سرور اور لکھ داتا مشہور ہوگیا۔
ایک دفعہ سوہدرے کے نمبردار عمر بخش کو ایک ایسی بیماری نے آلیا جس کا علاج ناممکن تھا اس کے رشتہ دار اس کی زندگی سے مایوس ہوگئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی التماس کی ابھی لوگوں نے اپنی بات پوری نہ کی تھی کہ حضرت نے زمین سے تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور انہیں کہا۔ اس مٹی کی ایک خوراک مریض کو کھلاؤ ٹھیک ہوجائے گا عمر بخش اسی دن سے شفایاب ہوکر کاروبار زندگی میں مصروف ہوگیا۔
ایک دن سوہدرے کے تمام نمبردار اور دوسرے امراء آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا تمہارے گاؤں میں احمد ترکھان کے پاس ایک گھوڑی ہے جو میں خریدنا چاہتا ہوں نمبردار سے مل کر احمد ترکھان کے گھر گئے مگر اس نے صاف انکار کردیا اس دن کے بعد وہ اپنی گھوڑی کو گاؤں والوں سے چھپائے رکھتا نمبرداروں نے احمد ترکھان کی اس حرکت کی اطلاع حضرت سخی سرور کو دے دی۔ آپ فرمانے لگے احمد ترکھان یہ گھوڑی نہیں بیچتا تو گھوڑی خود میرے پاس آجائے گی ابھی چند لمحے گزرنے پائے تھے کہ گھوڑی دوڑتی ہوئی آپ کے دروازے کے سامنے آکر رک گئی حضرت اس گھوڑی پر سوار ہوکر دھونکل چلے گئے اور چند دن گوشۂِ غرلت میں بیٹھے رہے۔
دھونکل کا نمبردار جوندا نامی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت میں نے اپنے بیٹے دھونکل کے نام اس موضع کا نام رکھا ہے مگر میرا بیٹا چند دنوں سے لاپتہ ہے مجھے اس کا علم نہیں دعا فرمائیں کہ وہ آجائے آپ نے فرمایا آج آجائے گا اسی دن وہ گھر آگیا۔
ایک دن حضرت سلطان سخی سرور دھونکل میں غرلت گزین تھے وضو کے لیے پانی نہیں تھا آپ نے اپنا عصا زمین پر مارا پانی کا چشمہ جاری ہوگیا آپ نے ایک چوبی میخ زمین میں ٹھونک دی۔ چند دنوں بعد سرسبز ہوگئی جہاں نماز پڑھتے تھے وہاں مسجد تعمیر ہوگئی۔
ایک دن آپ وزیر آباد سے سات میل دُور موضع رتی پہنچے اس گاؤں کا ایک شخص گائیں چرا رہا تھا آپ نے اس سے دودھ مانگا مگر اس نے انکار کردیا۔ اور کہنے لگا یہ گائیں تو دودھ نہیں دیتیں آپ نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ ان گائیوں کے بچے سامنے لائے جائیں اور دودھ دوہا جائے خادموں نے ایساہی کیا ان بچھڑوں سے اتنا دودھ برآمد ہوا کہ تمام برتن لبالب بھر گئے۔
دھونکل میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد آپ کے دل میں وطن کی محبت جاگی آپ کوٹ کہڑی جوانِ دنوں شاہ کوٹ کہلاتا ہے۔ تشریف لائے یہاں آکر آپ نے سید عبدالرزاق کی بیٹی سے شادی کی جس سے دوسال بعد آپ کے ہاں ایک بیٹا سراج الدین پیدا ہوا حاکم ملتان کہینو خان نے اپنی بیٹی بی بی بائی آپ کے نکاح میں دے دی۔ بے پناہ مخلوق آپ کے حلقۂ ارادت میں آگئی آپ کے خالہ زاد بھائی آپ سے حسد کرنے لگے آپ اپنے بھائی سیّد عبدالغنی اور اپنی بیوی کے ساتھ شاہ کوٹ سے نکل آئے اور ایک پہاڑی کے دامن میں جہاں آپ کا مزار ہے قیام کیا بایں ہمہ آپ کے رشتہ داروں نے خاندانی دشمنی کی بنا پر وہاں پہنچ کر آپ کو آپ کی بیوی کو آپ کے بیٹے سید سراج الدین المعروف بہ سید راج کو شہید کردیا۔
خلاصتہ التواریخ کے مولّف نے لکھا ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد ایک شخص قندھار سے ملتان جا رہا تھا آپ کے مزار کے نزدیک سے گزرا۔ اس کے اونٹ کا پاؤں پھسلا اور لنگڑا ہوگیا مزار پر حاضر ہوکر دعا کی اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو صحت یاب کردیا اسی طرح تین بیمار شخص ایک نابینا ایک جزامی اور ایک نامرد آپ کے مزار پر آئے تینوں شفایاب ہوگئے۔
آپ کی شہادت کا سانحہ ۵۷۷ھ میں وقوع پذیر ہوا۔ اور آپ کا مزار مخلوق خدا کی زیارت گاہ ہے۔
سید سرور سخی احمد |
|
بود سلطان عالم و والی |
(خزینۃ الاصفیاء)