حضرت شیخ عمر بن فارض الحموی المصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کنیت ابو حفص لقب شرف الدین اور اسم گرامی عمر بن فارض الحموی تھا قبیلہ بنی سعد سے تعلق رکھتے تھے یہ قبیلہ حضرت حلیمہ سعدیہ کا تھا شیخ ابن الفارض مصر میں پیدا ہوئے تھے مصر میں آپ کی روحانی شہرت نے عروج حاصل کیا ہزاروں طالبانِ حق خدا رسیدہ ہوئے آپ کا ایک دیوان عربی اشعار و قصایٔد پر مشتمل ہے یہ دیوان تقریبًا سات سو پچاس اشعار پر مشتمل ہے اس میں معارف و حقائق کے دریا بند ہیں یہ ایک ایسی نظم ہے جو شاید ہی کسی دوسرے کے قلم سے نکلی ہو۔ آپ کے احباب کہتے ہیں کہ آپ عام شاعروں کے طریقہ کار پر شعر نہیں کہا کرتے تھے بلکہ یوں ہوتا کہ آپ وجد و استغراق میں کئی کئی دن غائب ہوجاتے بے خودی کے عالم میں محو رہتے اسی حالت میں پورے کا پورا قصیدہ لکھتے۔
حضرت شیخ فارض فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ دیوان لکھا تو مجھے سرکار دوعالمﷺ کی زیارت ہوئی حضور نے ارشاد فرمایا۔ ’’یَا عُمرْ مَا سَمیَّتَ قْصیْدُ تُکَ‘‘ اے عمر تم نے اس قصیدہ کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ اس کا نام لَوایٔح الخبان۔ وردایٔح الخبان رکھے ہیں آپ نے فرمایا اس کا نام نظم السلوک رکھو چنانچہ میں نے حضور نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق اس کا نام نظم السلوک رکھ لیا۔
حضرت عمر ابن الفارض دوم ماہ جمادی الاولیٰ ۶۳۲ھ میں فوت ہوئے۔
ابن فارض[۱] جناب پیر کبیر |
|
مقتدائے جہاں فنا آگاہ |
|
[۱۔ابن فارض قدس سرہٗ: حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی نے ابن فارض کے قصیدۂ تائیہ کے علمی اور ادبی مقام کو ہدیٔہ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قصیدہ مبارک سات سو پچاس اشعار پر مشتمل ہے اور معارف و لطایٔف کا خزینہ ہے اس قصیدہ میں جن حقائق و معارف کو پیش کیا گیا ہے وہ کسی دوسرے کے کلام کو نصیب نہیں ہوا۔ عطار اور مشائخ روح اللہ تعالیٰ ادواہم اجمعین نے اس قصیدہ کو حسر ز جاں بنایا تھا شیخ شمس الدین جو شیخ صدرالدین قونیوی کے اصحاب مجلس میں سے تھے اور اپنے وقت کے شیخ الشیوخ تھے فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ اپنی مجلس میں طلباء علماء سے گفتگو فرماتے تو آخرین کلام ابن فارض کے قصیدۂ تائیہ کے کسی شعر پر فرماتے حضرت شیخ بعض مطالب بزبان عجم اور بلسان لانی ادا فرماتے جسے ایک عام شخص سمجھنے سے قاصر ہوتا فرماتے ان اشعار کے معانی آئے دن تازہ وارد ہوتے ہیں آپ اپنے مشائخ مجلس کو حکم دیتے کہ یہ قصیدہ زبانی یاد کرلو اس میں معارف کے دہارے چلے آتے ہیں۔
شیخ شمس الدین فرماتے ہیں کہ حضرت سعید فرغان نے اس قصیدہ کی فارسی میں شرح لکھی پھر عربی میں تعلیقات لکھیں اور اسے عام کردیا تھا حضرت شیخ یا فعی فرمایا کرتے تھے ابن الفارض نے معارف و حقائق نے سلوک و محبت شوق و وصل کو جس انداز سے پیش کیا ہے وہ مشائخ و صوفیہ کی مجالس کی جان ہیں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ایک بار حجابات قبض میں گھِر گئے تو آپ نے ابن فارض کو مجلس میں اٹھ کر بغل گیر کیا اور آپ کے قصیدے اشعار پڑھتے ہوئے مجلس میں حالت وجد میں آگئے مجلس میں موجود مشائخ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس قصیدہ مبارکہ کے اشعار مل کر پڑھتے رہے حضرت شیخ سہروردی نے اس موقعہ پر چار سو خلعتیں مشائخ کو عطا کیں۔
شیخ ابراہیم (برہان الدین) جعبری فرماتے ہیں کہ ایک بار میں وادی جبر میں سے گزر رہا تھا۔ میں محبت الٰہی میں سر شار محویت کے عالم میں جا رہا تھا کہ کوئی شخص بجلی کی تیزی کے ساتھ گزرا۔ اور یہ شعر پڑھتا گیا ؎
فَلَمْ تھونی مَالَمْ تکن فی نانیاً |
|
وَلَمْ تفن مالم بجلنی فِلکَ صُوَرتی |
میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے دوست کی آواز ہے میں اس کے پیچھے چلا اسے پکڑا اور پوچھا یہ شعر کس کا ہے فرمایا۔ ’’میرے بھائی شرف الدین بن فارض‘‘ کے قصیدہ سے ہے میں نے پوچھا وہ اب کہاں ہیں فرمایا پہلے تو حجاز مقدس میں تھے مگر کچھ دنوں سے ان کی خوشبو وادی مصر سے آتی ہے مجھے حکم ہوا ہے میں ان کی نماز جنازہ میں شرکت کروں وہ مصر کو روانہ ہوگئے حضرت شیخ برہان الدین فرماتے ہیں کہ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ حتٰی کہ میں ابن الفارض کی قیام گاہ پر جاپہنچا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا اور مجھے اہلاً وسہلاً کہہ کر پاس بٹھایا اور فرمایا تمہیں بشارت ہو کہ تم اولیاء اللہ کی صف میں آگئے ہو۔ میں نے گذارش کی حضرت مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ مژدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنارہے ہیں مگر مجھے اس بشارت کا ذریعہ تو بتائیں تاکہ مجھے اطمینانِ قلب نصیب ہو جائے آپ نے بتایا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اللہ میرے مرنے کے وقت اپنے اولیاء کی جماعت بھیجنا تم آگئے ہو مجھے یقین ہے تم ولی اللہ ہو میں نے دیکھا کہ ان کے سامنے جنت کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں مگر آپ اسے دیکھتے ہی متغیر ہوگئے رونے لگے اور یہ بیت پڑھنے لگے۔
کان منزلتھا فی حُبَ عندکم |
|
اَمَیَنَتہ ظفْرتُ رُوْحْی بِھَا زَمَنَا |
میں نے کہا حضرت یہ مقام بہت بڑا ہے آپ نے فرمایا۔ ابراہیم۔ رابعہ عدویہ بصریہ نے کہا تھا۔ ’’اے اللہ۔ تیرے بندے دوزخ کے خوف سے تجھے مانتے ہیں بعض جنت کی خوشی سے تجھے پہنچانتے ہیں میں تو صرف تیری ذات کی محبت سے مانتی اور پہنچانتی ہو‘‘ مجھے رابعہ بصری کے مقام کی تلاش تھی یہ مقام وہ تو نہیں جس کی آرزو میں عمر گذاردی یہ بات کہہ کر آپ کے لبوں پر تبسم دکھائی دیا۔ مجھے سلام الوداع کہا۔ اور کہا میرے جنازے میں اولیاء اللہ کے ساتھ شریک رہنا تیس دن تک میری قبر پر موجود رہنا پھر اپنے وطن کو جانا یہ کہتے کہتے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
حضرت ابراہیم (برہان الدین) جعبری فرماتے ہیں کہ آپ کے جنازے پر کثیر التعداد اولیاء اللہ نے شرکت کی میں اکثر حضرات کو پہنچانتا تھا لیکن بعض کو پہلی بار دیکھا تھا زندگی بھر اتنا بڑا اجتماع میں نے نہیں دیکھا تھا۔ جس میں اتنے ولی اللہ جمع ہوں سفید اور سبز رنگ کے پرندوں کے غول کے غول آتے نظر آتے لوگوں کا خیال تھا کہ حضور سرورکائنات ارواح مقدس کے ساتھ اپنے قصیدہ خواں ابن الفارض کے جنازے پر کرم فرما ہوئے ہیں۔
حضرت شیخ برہان الدین فرماتے ہیں ایک عرصے بعد میں قبر کی زیارت کو حاضر ہوا۔ میرے ساتھ اکابرین کی ایک جماعت تھی قبر پر غبارائی ہوئی تھی گرد کی تہیں جمی ہوئی تھیں میں نے اسے صاف کیا اپنے دامن سے جھاڑا اور یہ شعر کہا۔
مَعاکِنِ اھَلَ العَشَقِ حتٰی قبورَھُمْ |
|
عَلھَیا ترآب الذِلّ بَیَنَ المُقابَرِ |
(ماخوذ از نفحات الانس جامی)]
(خزینۃ الاصفیاء)