حضرت شیخ الٰہ داد
حضرت شیخ الٰہ داد (تذکرہ / سوانح)
آپ سائرِ میدانِ تفرید،واقف علومِ توحید۔صاحب زہدوتقوٰے وعلم و سخاوت تھے۔حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے جلیل القدر خلیفوں میں سے تھے۔
نام و نسب
آپ کا نام الٰہ داد۔والدکانام شیخ صالح محمد المعروف میاں اسہالی تھا۔خاندان قریشی اسدی(مہند)سے تھے۔
آپ حضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے بھائی تھے۔لیکن چونکہ مرتبہ کے لحاظ سے اُن سے کم تھے۔اس لیے آپ کے حالات اُن سے بعد لکھے گئے ہیں۔نیزحضرت پاک
صاحب رحمتہ اللہ علیہ بانی خاندان تھے۔اس لیے اُن کے حالات پہلے ہی درج ہونے چاہیئے تھے۔
بیعت و خلافت
آپ کی ولادت بھڑی میں ہوئی۔تعلیم و تربیّت وہیں پائی۔جن ایّام میں حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بچپن میں جذبہ دانگیرہواتوعوام الناس ان کو "رحماں دیوانہ" کہنے لگے۔آپ انکو بغرض دعائے صحت حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں لائے۔ آنجناب نے ایک ہی نگاہ سے دونوں بھائیوں کوبدرجہ کمال پہنچادیا۔آپ وہیں بیعت ہوگئے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔پیر روشن ضمیر نے آپ کو بھڑی شریف رہنے کا حکم دیا۱؎۔
تجارت کا شوق
آپ کو گھوڑوں کی تجارت کا شوق تھا۔اچھی اچھی نسلوں کے گھوڑے دوردراز علاقوں سےجاکر خریدتے اور بیشمار منافع حاصل کرتے۔
۱؎تذکرہ نوشاہیہ ۱۲ شرافت
پیرکی اولاد سے حسن سلوک
منقول ہے کہ جس وقت سید شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان برخورداری رحمتہ اللہ علیہ بیعت ہونے کے ارادہسے حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔تووہ ادب کی وجہ سے ان کو بیعت نہ کرتے تھےاور فرماتے کہ یہ شیرخواربچّے ہیں۔ مجھے اِن سے ڈرلگتاہے۔آپ نےان کوفرمایا۔اے عبدالرحمٰن اپنے پیر کا حق تب ہی ادا کرسکو گےجب صاحبزادہ کو بیعت کرلوگے۔اگرچہ یہ شیرکےبچے ہیں۔لیکن تم پر مہربان ہیں ان کی خدمت کرنی دونوں جہان کی سعادت کا سرمایہ ہے
ہرچہ داری صرف کن درراہِ او |
لَن تَنَالُوالبِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا |
آپ کی سفارش سے انہوں نے بیعت کرکے صاحبزادہ کونورٌ علیٰ نوربنادیا۱؎۔
سخاوت
آپ نہایت درجہ کے سخی ۔جواد۔کریم النفس تھے۔لنگر ہر وقت جاری رہتا۔ محتاج مسافر اکثر آپ کے درِ دولت پر حاضر رہتے۔بھوکوں کو روٹی۔ننگوں کو کپڑے عنایت فرمایا کرتے۲؎۔
ایثار
منقول ہے کہ جب شاہی پیادے حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو احتساب شرعی کے لیے لاہورکولے چلے۔توآپ نے فرمایا۔بھائی صاحب اگرکہوتوتمہارے ساتھ سوناچاندی وزن کرکے اِن کو دےدوں اورتم کو چُھڑالوں۔اُنہوں نے فرمایاہماراخدا حافظ ہے۔
بیعت نامہ کی دستاویز
مجھےایک پورانی دستاویز ملی ہے۔جس پرزمیندار ان موضع بہلول کاقطعہ اراضی فروخت کرنااورمُلّا سعداللہ نام کاخریدناتحریرہے۔اگرچہ اس بیعنامہ سے آپ کا ذاتی تعلق کوئی نہیں ۔مگرچونکہ قطعہ اراضی کے حدودِ اربعہ تحریرکرنے میں آپ کانام بھی آگیاہے۔نیز آپ کے فرزند شیخ حسن علی کانام بھی شناخت کرنے والے معتمدین میں موجودہے۔نیزآپ کے چھوٹے بھائی شیخ محمد برخوردارکی مہراُس پر ثبت ہے۔اس لیے تبرکاً وہ بیعنامہ یہاں درج کیاجاتاہے۔
مُہر
قاضی خادم الاسلام
ایں اکریست دربیان آنکہ فاضل و عادل ابنانِ نصیرابن فتح محمد وشیراونظیرومومن انبونِ عالم ولد نعمت اللہ ولدبراہم وعنایت بن بخشا بن براہم مسطور۔عرفہم دھوتھڑ مقدمان و مزارعان موضع چک بہلول عملہ پرگنہ حافظ آباد۔بریں وجہ کہ ہمگی وتمامی قطعہ زمیں عرضی و طولانی زراعت کہ مشتمل بروازی سی بیگہہ بجریب شصت گزی ست درموضع مذکور پیمودند۔وبایعین مسطوریں اراضی مذکورہ راکہ در بلک آنہابودہ ودرتحت وتصرف مالکانہ شرعی خویش داشتند تازمان ایں بیع وشرےٰ بحدودِاربعہ بہ خالیاً عن حق الغیر وعمایمنع عَن جوازالبیع بہ بیع شریع بیعاً ثابتاً بالمقابلہ مبلغ بیست و چہارروپیہ کہ نصف آں مبلغ دوازدہ روپیہ موصوفہ میشوبدست ملّا سعداللہ ولد شیخ محمد شیخ کبیرفروختہ اندومبلغ ھٰھُنارادر قبض وتصرف خودہاآوردہ اندومبیعہ مسطورہ راسپردمشتری مذکورنمودندو تقابض زمین درمجلس عقد واقع شد۔اخبار بریں کہ قطعہ زمین مع الحدوددرتحت وتصرف مالکانہ بایعین مذکورین بودہ است تازمان ایں مبایعہ صحیحہ شرعیہ ۔مسمی حسن علی بن شیخ الٰہ داد عرف مہند و حافظ فیض اللہ بن مہرعلی تارڑ ساکن موضع بھڑی دھوتھڑ عملہ پرگنہ مذکوروضمان ورک درشریعتِ غرامعتبرست اگربوقوع آید ایں چند کلمہ برسبیل سندشرعی نوشتہ دادندکہ
عندالحاجت موجب اعتمادباشد۔
قطعہ۔عرض پنج جریباں۔طول ہشت جریباں
شرقی آں متصل زمیں آئمہ شیخ الٰہ دادافتادہ وشارع عام۔
غربی آں متصل زمین چاہ موضع بھڑی دھوتھڑ۔
جنوبی آن متصل زمین چاہ موضع بھڑی دھوتھڑ ومکابرہ۔
شمالی آں متصل بارانی (یہاں سے کاغذکرم خوردہ تھا)موضع مذکور۔
تحریرفی التاریخ بیست دوئیم شہر شعبال ن المعظم ۲۷ جلوس والا۔
گواہ شد۔عالم چندقانونگو گواہ شد۔شیخ ہدایت اللہ وبکرماجیت قانونگو
گواہ شد۔چورم رائے ولدبلونت رائے قانونگو گواہ شد۔ملک ہراازموضع ڈلّا
گواہ شد۔ مہرچند وسبحان رائے قانونگو گواہ شد ۔شہبازوممریز دھوتھڑ موضع بھڑی دھوتھڑ
شہدبمافیہ۔مُہر"انورحسین" شہدبمافیہ ۔فقیر برخوردارمُہر
شہدبمافیہ۔شیخ محمدولدشیخ کبیرمشتری مذکورین فی المتن ۱۰۹۵
شیخ محمد
برخوردار
یادگارمکان
جس مکان میں آپ کی رہائش تھی۔وہ جگہ ۱۳۵۴ھ میں دوحِصّوں پر مشتمل تھی شمالی نصف پر میاں شاہ دین بن میاں اللہ دتہ ساکن تھا۔جنوبی نصف حِصّہ پرمیاں عطأاللہ بن میاں الٰہ بخش آبادتھا۔
اولاد
آپ کے دوبیٹے تھے۔
۱۔میاں حسن علی رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔میاں شکرعلی رحمتہ اللہ علیہ۔
میاں حسن علی اپنے والد کے ہی مریدوخلیفہ تھے۔ان کی اولاد بہت ہے لیکن نذرونیازخانقاہ سے ان کوکوئی حصہ نہیں ملا۔میاں حسن علی رحمتہ اللہ علیہ کے دو بیٹے تھے۔
میاں ہاشم ماہی۔میاں ہاشم درگاہی۔
میاں ہاشم ماہی کاایک بیٹا میاں گُل شَیدتھا۔
میاں گلشید۔اکثر اسم شریف یَاھَادِیکاوردرکھتاتھا۔اس لیے اس کالقب باباہادی
مشہورہوا۔اس کی اولاد کوبھی لوگ "ہادیاں"کہتے ہیں۔پہلے ٹھٹہ قطبامیں آباد تھا
پھربھڑی شاہ رحمان میں چلاآیا۔اس کی بیعت طریقت میاں امام شاہ بن میاں نورشاہ
رحمانی سے تھی۔اس کاایک بیٹامیاں گل محمد نام تھا۔
میاں گل محمد کا ایک بیٹامیاں حسن محمد تھا۔
میاں حسن کے دوبیٹے تھے۔ میاں کرم الدین۔میاں محمد یارلاولد۔
میاں کرم الدین کا ایک بیٹاتھا۔میاں نورماہی۔
میاں نورماہی کے دوبیٹے بوٹا اور غلام محمد آجکل ۱۳۷۹ھ میں بھڑی شریف میں موجود
ہیں۔
میاں شکر علی بن شیخ الٰہداد صاحب کا ذکر آگے قِسم دوم کے دوسرے باب میں آئے
گا۔ان کوبوجہ داماد حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہونے کے خانقاہ سے حصّہ ملا
ہےاوران کی اولاد نذرونیازکے حِصّہ دار ہیں۔
تاریخ وفات
شیخ الہٰداد۱؎ کی وفات ۱۱۱۴ھ میں ہوئی۔
۱؎میاں الہٰداد کا کچھ ذکرشریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے پہلے حصہ تحائف الاطہارنام میں بھی لکھاجائے گا۔
آپ کی قبربھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ میں اپنے برادرحقیقی حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گنبدحال میں ایک چبوترہ پرہیں۔مشرقی قبر آپ کی ہےاورمغربی حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ
علیہ کی۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔فیاض اکبر۱۱۱۴ھ ۲۔باغ اعلےٰ۱۱۱۴ھ ۳۔شیخ سعیدزبان ۱۱۱۴ھ
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)