حضرت شیخ حمید الدین چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ حمید الدین چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ حمید الدین چشتی صابری
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت شیخ حمید الدین چشتی صابری۔ لقب: جامع الحسنات۔ سلسلہ ٔنسب: حضرت شیخ حمید الدین چشتی صابریبن شیخ قطب الدین چشتی صابری بن شیخ پیر بن شیخ بڈھن بن مخدوم الاولیاء حضرت شیخ محمد بن حضرت شیخ عارف بن حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری بن شیخ عمر بن شیخ داؤد۔ ۔حضرت شیخ داؤد ؛ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے مرید تھے۔ان کا مزار مبارک قصبہ ردولی کے جنوب کی طرف موجود ہے۔سلسلہ ٔنسب امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب پر منتہی ہوتا ہے۔وطن اصلی بغداد تھا۔ہلاکو خاں کی ہلاکت خیزیوں سے بچ کر ہندوستان وارد ہوئے تھے۔(اقتباس الانوار، ص555)
تحصیل علم: آپ جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے۔
بیعت و خلافت: حضرت شیخ حمید الدین چشتی صابری اپنے والدِ گرامی حضرت شیخ قطب الدین چشتی صابری سے بیعت ہوئے، اور مجاہدات و ریاضت کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔
سیرت و خصائص: منبع فیوض و کمالات ، جامع الحسنات ، صاحب البرکات حضرت شیخ مخدوم حمید الدین چشتی صابری ۔ آپاپنے وقت کے اولیائے کبار میں سے تھے۔آپ تمام کمالات انسانی سے آراستہ اور علوم ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔
شیخ احمد عبد الحق ردولوی کی بشارت: آپ کے جدِّ اعلیٰ حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری نے آپ کی ولادت باسعادت سے قبل ہی فرمادیا تھا:’’کہ میری ساتویں پشت سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ بعینہٖ میری طرح ہوگا اور قطب الوقت ہو گا‘‘۔ (اقتباس الانوار، ص599) آپ اپنے زمانے کے مشائخ میں منفرد اور بلند و بالامقام رکھتے تھے۔ مشائخ وقت آپ کی تعظیم بجالاتے تھے۔اپنے والد گرامی حضرت شیخ قطب الدین صابری کے وصال کے تیسرے روز جب خرقہ خلافت زیب تن کر کے مسند نشین ہوئے تو لوگوں نے بیعت لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا بھائیو! ابھی تک میں نے اپنا آپ نہیں پہنچانا۔دوسروں کا ہاتھ کیسے پکڑ کر سکتا ہوں۔ اس کام کی اصل دیانت ہے۔ اس وقت اگر میں لوگوں کو بیعت کرنے کی جرأت کروں تو دیانت کے خلاف ہوگا۔اس کے بعد ایک سال تک کے لیے آپ حجرے کے اندر پابند ہوگئے اور اس دوران آپ عبادت و ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ ایک سال کے دوران کھانے پینے کی طرف توجہ نہ کی جب کھانے کی یا گوشت وغیرہ کی خوشبو آتی تو بے قرار ہوجاتے تھے۔اس دوران عالم باطن سے آپ کو اس قدر اُنس ہوگیا تھا۔ کہ اہل عالم کی شکل تک دیکھنا پسند نہ تھا۔آپ نے حضرت مخدوم شیخ احمد عبد الحق ردولوی صابری کے نقش قدم پر سلوک طے کیا۔اس کے بعد آپ تربیت مریدین اور ہدایت خَلق خدا کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیکن جو عبادت و ریاضت آپ نےشروع کی تھی۔قبر تک اس پر کار بندر ہے۔ بلکہ آخری عمر میں آپ نے قرآن مجید حفظ کیا ۔ آپ اکثر’’ تفسیر زاہدی‘‘ کا مطالعہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا مشرب عشق و محبت اور ذوق و شوق تھا۔ ہر وقت کلمات توحید آپ کی زبان پر جاری رہتے تھے۔خواجگان چشت کے طریقہ کے مطابق آپ کو سماع کا بے حد شوق تھا۔ اور خوش الحان قوال ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتے تھے۔ قوالی میں اکثر دیوان مغربی حضرت بو علی شاہ قلندر کا کلام اور خواجہ حافظ شیرازی کی غزلیں پسند کرتے تھے۔دوران سماع کبھی کبھی آپ پر وجد طاری ہوجاتا تھا۔
اگرچہ آپ کو نذرانے اور فتوحات بے بہا ملتے تھے۔مگر باوجود اس کے آپ کا لنگر اس قدر وسیع اور دراز تھاکہ آمدن سے زیادہ آپ کا خرچ تھا۔ آپ کو خدا نے کشف قلوب و کشف ِقبور میں کمال عطا فرمایا تھا۔ صاحب ’’مرآۃ الاسرار‘‘ حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی فرماتے ہیں: ’’کہ اس فقیر کو بھی آپ کے ہاں ایک خلوت نصیب ہوئی ہے۔ آپ روزانہ شیخ عبد الرحمن چشتی کے ہاں تشریف لے جاتے اور شیخ عبد الرحمن چشتی پر جو کچھ بھی باطنی انوار و تجلیات واردہوتیں وہ آپ کے سامنے بیان کردیا کرتے تھے۔حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد عبد الحق چشتی فرماتے ہیں کہ جب یہ فقیر خلوت سے باہر آیا تو آپ نے خرقہ خلافت اور امانت پیران چشت اہل بہشت مجھے عطا فرمایا اور فقیر کے حال پر بہت توجہ فرمائی اور فرمایا اے عبد الرحمن! تمہیں جو کچھ ملا ہے وہ سب شیخ احمد عبد الحق ردولوی کی توجہ اور حکم سے ملا ہے۔ کیونکہ ہمارے مشائخ کا سلسلہ تجھ سے روشن ہوگا۔ اس وقت خواجگان چشت اہل بہشت کی ولایت تمہارے سپرد کی دی گئی ہے۔ اب اپنے گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ولایت تقسیم کرتے رہو اور تجھے یہ کام مبارک ہو۔ اس عنایت بے پایاں کا میں کیسے شکر ادا کروں۔(اقتباس الانوار، ص601)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال باکمال جہانگیر بادشاہ کے عہد میں2؍ جمادی الاول 1032 ھ مطابق 1623ءکو ہوا۔ مزار پُر انوار ردولوی شریف ضلع انبالہ مشرقی پنجاب انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔ (ایضا)