حضرت شیخ جاگیر علیہ الرحمۃ
شیخ ابو الوفا نے آپ کی تعریف کی ہےاور اپنی ٹوپی شیخ علی ہئیتی کے ہاتھ ان کو بھیجی ہے اور ان کو آنے کی تکلیف نہ دی۔وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ جاگیر کو میرے مریدوں بنادے۔خدائے تعالیٰ نے اس کو مجھے دیددیاہے۔شیخ جاگیر دراصل گردان کے تھے۔عراق کے ایک جنگل میں جاکرکروزہ سامرہ میں متوطن ہوئے۔وہیں رہتے تھے۔یہاں تک ۵۹۰ھ ہجری میں دنیا سے رحلت کر گئے۔آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔آپ فرماتے ہیں۔من شاھد الحق عزوجل فی سرہ سقط الکون من قبلہ یعنی جو حق عزوجل کا مشاہدہ باطن میں کرلیتا ہےتو اس کے دل سے موجودات گرجاتے ہیں۔وہ یہ فرماتے ہیں کہ مااخذت العھد علی احد حتی رایت اسمہ مرقوما فی اللوح المحفوظ من جملہ مریدی وقال الینا اوتیت سیفا ماضی الحد احد طرفیہ بالمشرق والاخر بالمغرب لواثمیر بہ الی لجبال الشوامخ لھوت یعنی میں نے کسی کو مرید نہیں بنایا۔حتیٰ کہ اس کا نام لوح محفوظ میں میرے مریدوں میں لکھا ہوا پایا ہے۔یہ بھی کہا ہے،مجھے ایسی تلوار دی گئی ہےکہ جو بڑی تیز ہے۔اس کی ایک حد تو مشرق میں ہےاور دوسری مغرب میں،اگر اس سے اونچے پہاڑوں کی طرف اشارہ کیا جائے تو البتہ وہ گر جائیں۔ایک آپ کا مرید کہتا ہےکہ ایک دن میں آپ کے ساتھ تھا۔گائے کا گلہ آپ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔آپ نے ایک گائے کو اشارہ کیا اور کہا یہ حاملہ ہے۔بچھڑہ کے ساتھ جو اس قسم کا ہوگا اور فالں دن پیدا ہوگا۔اس کو ہماری نذر کرے گااور فلاں فلاں اس میں سے کھائیں گے۔ایک اور گائے کی طرف اشارہ کیا اور کہا،یہ گائے بچھڑی کے ساتھ حاملہ ہےاور فلاں وقت جنے گی۔فلاں فلاں اس کو کھائیں گے۔سرخ کتے کا اس میں نصیب ہے۔واللہ جو کچھ شیخ نے کہا۔ویسا ہی ہوا۔سرخ کتا گوشہ میں سے آیا اور اس بچھڑی سے ایک ٹکڑا کھایا۔آپ ۵۹۰ھ میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)