حضرت شیخ اللہ بخش براسوی
حضرت شیخ اللہ بخش براسوی (تذکرہ / سوانح)
آں متخلی از رسوم وعادات، متجلی بانوار وحدت، تاریک جمیع مرادات، مستغرقِ در مشاہدۂ ذات، در صفت ملکی گزشتہ از جبرائیل حضرت شیخ اللہ بخش بن اسمعٰیل قدس سرہٗ تمام کمالات ظاہری وباطنی سے مزین اور ریاضت ومجاہدات سے آراستہ تھے۔ آپ بڑے صاحب کشف و کر امات عالی ہمت اور سخی تھے۔ سید ایزاد بخش جو حضرت خواجہ مودود چشتی کی اولاد میں سے اور قصبۂ براس میں مقیم تھے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بہت سے مشائخ دیکھے ہیں لیکن وہ کمالات ولایت جو میں نے آپ کے دادا میں دکھے ہیں کسی جگہ نہیں دیکھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے دادا امادر زاد ولی اور قط وقت تھے۔ روایت ہے کہ آپ ہر وقت خواہ دن ہو یا رات شغل باطن اور اوراد اور تلاوت میں بسر کرتے تھے۔ اور روزانہ ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے آپکو بہت چھپاتے تھے۔ آپ بڑے درد مند اور صاحب ذوق وعرفان تھے۔ آپ نے اپنی ولایت کو ظاہری شان و شکوت میں چھپا رکھا تھا۔ اس لحاظ سے آپکا شمار اولیائے مستورین[1] میں ہوتا ہے۔
اقسام اولیا
اولیا کرام کی دو قسمیں ہیں، اولیائے مستورین اور اولیائے ظاہرین۔ قطب مدار، اقطاب، چالیس ابدال، چار اوتاد چالیس نجباء، تین سونقباء اور سات ولائیتوں کے ابدال سب اولیائے مستورین میں ہیں کہ ان لوگوں کو ہوا میں اڑنے اور پانی پر چلنےکی قدرت ہوتی ہے۔ یہ حضرات لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود وہ آپس میں ملاقات کرتے ہیں لیکن بلند آواز سے تلاوت قرآن کرتے ہیں، گریہ، رقص ووجد کرتے ہیں لیکن انکی آواز کوئی شخص نہیں سن سکتا۔ اور نہ ہی کوئی انکو پہچان سکتا ہے سوائے ایک شخص کے۔ حضرت خضر اور الیاس علیہم السلام انکے ساتھ رہتے ہیں۔ آگ میں چلا جانا، پتھر کو سونے چاندی میں تبدیل کرنا اور غیب کے واقعات معلوم کرلینا انکے لیے آسان ہوتا ہے۔
اولیائے ظاہرین کی بھی چند قسمیں ہیں۔ مثلاً قطب الاشاد مطلق، قطب الارشاد ناجیہ، اولیاء ابرار، عارفین، عاشقین، موحدین، محققین، اویسیہ، ملامتیّہ طالبین، مریدن، سالکین، سائرین، طاہرین، واصلین۔ ان میں سے بعض اپنی تکمیل میں اور بعض دوسروں کی تکمیل میں مشغول ہوتے ہیں اولیائے ظاہرین سے کشف و کرامات بہت کم صادر ہوتے ہیں۔ بعض صوفیائے کرام نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر ابدال، اوتاد، اقطاب مستورین کے علاوہ کوئی شخص ہوا میں اڑنے، پانی پر چلنے آگ میں داخل ہونے،پتھر کو سونا چاندی بنانے، مردہ زندہ اور زندہ مردہ کرنے اور ہر وقت کشف غیب کا دعویٰ کرے تو یہ کرامت نہیں بلکہ اسکا تعلق جادو، سحر طلسم اور شعبدہ بازی، نجوم، خبیث روحوں کی مدد سے ہوتا ہے۔ نیز جسم پر مینڈک کی چربی لگانے سے آگ اثر نہیں کرتی۔ اگر کافور کے ساتھ روغن نرگز ملاکر جسم پر لگایا جائے تو بھی آگ اثر نہیں کرتی۔ نیز ناخن اور بالوں پر بھی جادو کا اثر جلدی ہوتا ہے۔ بعض لوگ نظر بندی میں مہارت حاصل کرکے شعبدہ بازی کرتے ہیں۔ نیز علم رمل، نجوم جفر وغیرہ کے ذریعے بھی غیب کی چیزوں کا علم حاصل ہوسکتا ہے۔
غرضیکہ قطب المشائخ حضرت شیخ اللہ بخش کاتب الحروف حقیقی داد ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام ابو حنیفہ سے یوں جاکر ملتا ہے۔ یعنی قطب المشائخ شیخ اللہ بخش بن شیخ اسماعیل ثانی بن شیخ بہاء الدین بن شیخ فتح اللہ بن شیخ صدر الدین بن شیخ علیم الدین بن شیخ نجم الدین بن قطب وقت شیخ زین الدین شہید عشق بن شیخ محمد عاشق حق بن شیخ محمد معشوق الٰہی المعروف بہ سالار اولیا بن شیخ قدوۃ الدین بن شیخ حمید الدین ثانی بن شیخ جمال الدین بن شیخ کمال الدین بن شیخ ہدایت اللہ المعروف بہ سر مست اللہ بن شیخ نور الدین سلمان بن شیخ تاج الدین بران، بن شیخ مسعود بن شیخ محمود بن شیخ احمد بن شیخ حمید الدین اول المعروف بہ موج عشق بن مولانا ضیاء الدین بن مولانا ناصر الدین یگان علم بن بحر علم شیخ اسماعیل اول بن سراج امت در ظاہر وباطن صوفی امام اعظم ابو حنیفہ کوفی نعمان ثابت رحمۃ اللہ علیہم۔ اس فقیر نے اپنے والد ماجد سے سُنا ہے کہ حضرت شیخ اللہ بخش کی والدہ صحیح النسب ساداتِ حسینی ہیں لہذا حضرت شیخ اللہ بخش والد کی طرف سے امام ابو حنیفہ کی اولاد ہیں اور والدہ کی طرف سے صحیح النسب سید حسینی ہیں۔ نیز اس فقیر نے اپنے والد بزرگوار سے سنا ہے کہ میرے دادا حضرت شیخ اللہ بخش نے روحانی تربیت، خلافت اور تعلیم اسمِ اعظم اپنے والد شیخ اسماعیل سے حاصل کی۔ انہوںن ے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے والد سے حتیٰ کہ یہ سلسلۂ روحانیت حضرت امام ابو حنیفہ پر جاکر ملتا ہے۔ اور امام ابو حنیفہ نے روحانی تربیت ، تعلیم اس اعظم اور خلافت حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاسل کی۔ آپ نے اپنے والدِ ماجد حضرت امام زین العابدین سے آپ نے اپنے والد حضرت امام حسین شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور آپ نے اپنے والد، ماجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اور آپ نے سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے حاصل کیا۔ حضرت امام جعفر صادق کو ایک خرقہ خلافت اپنے نانا حضرت امام قاسم بن محمد بن ابی بکربھی حاصل ہوا۔ حضرت قاسم بن محمد کی باطنی تربیت حضرت ابو بکر صدیق سے ہوئی اس اھقر نے اپنے والد ماجد سے یہ بھی سنا ہے کہ حضرت شیخ اللہ بخش کو ایک خرقۂ خلافت حضرت میاں میر لاہوری قدس سرہٗ سے بھی حاصل ہوا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب میرے دادا کے والد کا انتقال ہوا تو ابھی آپکی تکمیل نہیں ہوئی تھی اس لیے غلبۂ عشق میں آکر آپ نے گھر بار کو خیر باد کہا اور طلب شیخ میں لاہور پہنچے۔ وہاں حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضری کا موقعہ ملا تو دل کو بے حد تسکین ہوئی اور آپکی خدمت میں رہ کر سلوک تمام کیا۔ چنانچہ حضرت میاں میر نے آپکو خرقۂ خلافت عطا کیا۔ اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا حکم یوں ہے کہ تم اپنے علاقے سے ترک سکونت کر کے قصبہ کرنال کے گرد ونواح میں جو مقام پسند ؟آئے وہاں سکونت اختیار کرنا اور شادی کرلینا۔ میرے دادا نے عرض کیا کہ حجور آپکا طریقہ تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص آپکی خدمت میں طلب حق کیلئے آتا ہے تو آپ پہلے اُسے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیتے ہیں لیکن مجھے شادی کرنے کا حکم آپ کیسے دے رہے ہیں حالانکہ میری طبیعت اس کام سے متنفر ہے۔ حضرت میاں میر لاہوری نے فرمایا کہ حق تعالیٰ تجھے دو بیٹے عنایت فرمائیگا جنکی عمر دراز ہوگی۔ تمہارے چھوٹے بیٹے کے گھر ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو تمہارے خاندان کو روشن کریگا اور اسکا شمار اکابر اولیاء اور افرادِ زمانہ ہوگا۔ نیز میرے والد بھی مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنی والدہ سے سُنا تھا کہ اور انہوں نے اپنی والدہ سے سنا تھا کہ وہ بچہ جنکا نام و نشان حضرت میانمیر لاہوری نے بتایا تھا کہ وہ میرے لڑکے شیخ محمد علی کے منجھلے بیٹے ہونگے نیز میرے والد یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے دادا کی مراد اُس منجھلے سے تم ہو۔ غرضیکہ میرے داداحضرت میاں میر لاہوری سے رخصت ہوکر سیرو سیاحت کرتے ہوئے کرنال کے نواحی علاقے میں قصبہ بر اس میں پہنچے تو وہاں کے صاحب ولایت حضرت شاہ ابو المعالی چشتی کے روضہ پر حاضری دی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت شاہ ابو المعالی کی روحانیت نے قبر سے باہر آکر فرمایا کہ وہ مقام جہاں حضرت میاں میر لاہوری نے آپکو رہنے کا حکم دیا ہے یہ قصبۂ براس ہے اور میری خواہش یہیہے کہ آپ اسی مقام پر سکونت اختیار کریں۔ چنانچہ میرے دادا نے اسی جگہ سکونت اختیار کرلی۔ یہ جو مشہور ہے کہ میرے دادا نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کی ناراضگی کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ کر قصبہ براس میں سکونت پذیر ہوئے۔ غلط ہے۔ غرضیکہ آپ نے براس میں سکونت اختیار کرنے کے بعد کرنال کے ایک ر اجپوت خاندان میں ایک خاندان میں ایک ایک خاتون جنکا نام بی بی رابعہ تھا اور در حقیقت وہ رابعہ ثانی تھیں کے ساتھ عقد نکاح کرلیا۔ میری دادی اپنے تمام پوتوں میں سے میرے ساتھ زیادہ محبت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ براس میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ج س سے یہ احقر بیمار ہوگیا۔ میری دادی نے سات بار میرے پلنگ کے گرد گھوم کر کہا کہ میں نے تمہاری بیماری لے لی ہے حق تعالیٰ تجھے صحت عطا فرمائیگا۔ اسکے بعد وہ خود بعارضہ طاعون بیمار ہوگئیں اور اسی مرض میں رحلت فرمائی۔ آپکا مدفن قصبہ براس میں حضرت شاہ ابو المعالی کے روضہ اقدس کے قریب ہے۔ رحمۃ اللہ علیہا۔ الغرض رابعہ بی بی کے بطن سے میرے دادا کے گھر دو فرزند وجود میں آئے۔ بڑے فرزند کا نام شیخ شرف الدین تھا۔ انکی بیعت اس احقر کے ساتھ تھی۔ وہ چھ ماہ بیمار رہ کر اس جہانِ فانی سے رحلت کر گئے اور حضرت شاہ ابو المعالی کے روضہ اقدس کے قریب دفن ہوئے۔ انکے دو بیٹے تھے ایک کا نام شیخ عبدالماجد اور دوسرے کا نام شیخ عبدالکریم تھا۔ انکے علاوہ دو بیٹیاں تھیں۔ حضرت شیخ اللہ بخش براسوی کے دوسرے بیٹے اس احر کے والد ماجد شیخ محمد علی تھے جنکے حالا عنقریب آرہے ہیں۔ حضرت شیخ اللہ بخش کے کمالات بے شمرار ہے جنکی اس مختصر کتاب میں گنجائش نہیں ہے ورایت ہے کہ جنات بھی آپ کے مرید تھے اور خادم اور کنزین کر آپکی خدمت کرتے تھے۔ آپ اپنے حال کو چھپانے میں اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ ساری عمر آپ نے ایک شخص کو بھی مرید نہ بنایا۔ اگر چہ حقیقت میں سارا جہان آپ کا حلقہ بگوش تھا۔ وفات سے بیس دن پہلے آپ نے اپنے یوم وفات اور وقت وفات کا پتہ بتادیا تھا۔ آخر وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ آپ کے مزار حضرت شاہ ابو المعالی قدس سرہٗ کے روضہ کے قریب ہے جہاں آپ عاشقانہ اور غریبانہ آسودہ ہیں۔ جس طرح آپ نے زندگی بھر گمنامی میں بسر کی وصال کے بعد بھی کسی کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے۔ البتہ جنکی باطنی آنکھیں روشن ہیں وہ آپکو پہچان لیتے ہیں۔ آپ کی تاریخ وصال اب تک معلوم نہیں ہوسکی۔ رحمۃ اللہ علیہ
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد ٍوَالہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1]۔ چھُپے ہوئے اولیا اللہ
(قتباس الانوار)