حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور والد کا نام سعید تھا۔ کوفی الاصل تھے۔ ظاہری اور باطنی علوم میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان کی توبہ کا آغاز اس واقعہ سے ہوا کہ ایک دن مسجد میں داخل ہوتے ہوئے لاپروائی سے بایاں قدم اندر رکھا غیب سے آواز آئی اے سفیان! کیا تم ثور ہو یعنی چوپایا ہو۔ یہ بات سنتے ہی بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو افسوس سے اپنے منہ پر طمانچہ مارتے اور کہتے تم نے چوپایوں کی طرح مسجد میں بایاں قدم رکھا تمہیں ادب نہیں تو تیرا نام انسانوں میں کیسے رکھا جاسکتا ہے۔
ایک دن خلیفہ وقت نماز کی جماعت کرا رہا تھا۔ مگر دوران نماز خلیفہ نے بے خیالی سے اپنے کپڑوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔ آپ نے فرمایا: تمہاری یہ نماز تو نماز نہیں۔ قیامت کے دن ایسی نماز کو منہ پر مارا جائے گا۔ خلیفہ وقت نے کہا: بات آہستگی سے کریں مگر آپ نے فرمایا کہ میں ایسے کلمہ حق سے باز رہوں تو میرا پیشاب خون بن جائے گا۔ خلیفہ نے یہ بات بری جانی۔ دوسرے دن حکم دیا کہ سولی نصب کی جائے اور سفیان ثوری کو تختہ وار پر کھینچا جائے۔ تاکہ دوسرے گستاخوں کو عبرت ہو۔ حضرت سفیان نے سنا تو رونے لگے۔ اور کہا: اے اللہ ان ظالموں کو سزا دے۔ خلیفہ وقت اس وقت تخت پر بیٹھا تھا۔ اور اس کے وزراء اور امراء بھی حلقہ بنائے کھڑے تھے۔ اچانک چھت گری۔ اور خلیفہ اور اُس کے وزراء چھت کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔
آپ مخلوقِ خدا سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک دن بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک پنجرے میں پرندہ فریاد کر رہا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا اور آزاد کردیا۔ یہ پرندہ ہر روز حضرت سفیان کے گھر آتا آپ کو دیکھتا سر اور بازوؤں پر بیٹھتا۔ حضرت سفیان فوت ہوئے تو یہ پرندہ آپ کے جنازے پر اڑتا دکھائی دیا اس کی فریاد سے جنازے میں شریک لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے جب آپ کو دفن کردیا گیا تو وہ پرندہ آپ کی قبر پر تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ حضرت سفیان کی قبر سے آواز آئی کہ ہم نے سفیان کو خلق خدا کی محبت کے بدلے بخش دیا ہے۔
آپ کی وفات ۱۶۱ھ میں ہوئی۔ بعض تذکرہ نگاروں نے تاریخ سالِ وفات ۱۵۵ھ لکھا ہے۔
حضرت سفیان ثوری شیخ دیں ہر دو سال وصل آں والا جناب نیز با اقوال بعضے از عوام
|
|
مقتدائے پیشوائے دو جہاں کعبۂ دین ہائے و عالم بداں والی حق سال ترحیلش بداں
|
(خزینۃ الاصفیاء)
//php } ?>