حدیث الصلوٰۃ معراج المؤمنین کی تصدیق حالی
حدیث الصلوٰۃ معراج المؤمنین کی تصدیق حالی (تذکرہ / سوانح)
حضرت سلطان المشائخ نےیہ بھی فرمایا کہ ہمارے احباب میں سے ایک دست تھا جس کا نام محمد تھا اور حضرت گنجشکر کے بعض اسرار میں محرم راز تھا۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن وہ جامع مسجد حمزۃ میں خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے پیچھے بیٹھا تھا اور کچھ دیر کے بعد بے ہوش ہوگیا۔ بعد میں حضرت اقدس نے اس سے دریافت کیا کہ معلوم ہے یہ حال پر کیوں طاری ہوا۔ فرمایا اس وقت نماز میں مجھے معراج حاصل تھا تجھے بھی اس میں سے حصہ مل گیا۔ چنانچہ حدیث نبویﷺ ہے کہ ’’الصلوٰۃ معراج المومن‘‘ (نماز مومن کی معراج ہے[1]) یہ بات سن کر شہر جودھن کا قاضی آپکے ساتھ سختی سے پیش آیا اور حضرت گنجشکر کی جو باتیں اسکی سمجھ سے بالا تر تھیں اُنکا اُس نے محاسبہ شروع کردیا لیکن چن روز کے اندر جان و مال سمیت ہلاک ہوگیا۔ اور اُسکے گھر کا کوئی فرد سلامت نہ رہا۔
حضرت سلطان المشائخ کا صبر و تحمل
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کو بھی مرض الموت میں وہی معراج کی حالت نصیب تھی اور اسی میں آپ کا وصال ہوا۔
حضرت سلطان المشائخ فرماتےہیں کہ جب میں حضرت اقدس سے رخصت ہوکر دہلی آیا تو وہ خرقہ اور گلیم جو حضرت شیخ سے مجھے ملا تھا پہن کر میں جامع مسجد گیا۔ شرف الدین قیامی نےمجھ سے خرقہ کی کیفیت دریافت کی۔ میں نے بیعت اور حصول خرقہ کا سارا حال انکو سنایا۔ یہ سنکر اس نے حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے حق میں کچھ نازیبا کلمات کہے اور مجھے بھی بُرا کہا۔ لیکن باوجود یکہ میں جواب دے سکتا تھا میں نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ جب میں دوسری بار حضرت کی زیارت کےلیے اجودھن گیا اور وہ ماجرا بیان کیا آپ ہائے ہائے کر کے رونے لگے اور میرے صبر و تحمل پر مجھے شاباش دی۔ مگر غلبۂ حال میں آپ کی زبان مبارک سے الفاظ نکلے ’’مجھے معلوم ہے شرف الدین گیا‘‘ جب میں دہلی واپس آیا تو معلوم ہوا کہ شرف الدین چل بسا تھا۔
حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ یوسف ہانسوی حضرت اقدس کے قدیم احباب میں سے تھے۔ ایک دفعہ وہ اوچ شریف کی طرف سے آئے ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ گنجشکر نے اُن سے دریافت کیا کہ اس سفر میں تم نے کوئی بزرگ بھی دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ہاں فلاں شخص یوں مشغول ہے اور فلاں یو ں مقید ہے۔ یہ سنکر حضرت اقدس کو ان بزرگوں سے ملنے کا شوق ہوا۔ چنانچہ آپ وضو کرنے چلے گئے اور معمول سے زیادہ دیر لگاکر آئے تو یوسف ہانسوی نے دریافت کیا کہ حضور کہاں چلے گئے تھے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم نے جن مشائخ کا ذکر کیا تھا میں انکی ملاقات کیلئے چلا گیا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے دکانداری کر رکھی ہے اور مخلوق کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
سانپ کاٹے اثر نہ ہوا
ایک دن حضرت اقدس کی انگلی کو سانپ کاٹ لیا لیکن آپنے کوئی علاج نہ کیا۔ اور مشغول بحق رہے۔ غلبۂ مشغولی میں آپ کے جسم مبارک سے پسینہ جاری ہوا اور سانپ کے زہر کا اثر نہ ہوا۔ حضرت سلطان المشائخ کو بھی اجود حسن کے سفر میں سانپ کاٹ لیا تھا لیکن حضرت اقدس کی نظر شفقت سے کوئی نقصان نہ ہوا۔
بادشاہ کی بخشش اور آپ کا استغنیٰ
سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ جب سلطان ناصر الدین ابن شمس الدین التمش نے اوچ اور ملتان کی طرف لشکر کشی کی تو حضرت خواجہ گنجشکر کی زیارت کے لیے اجودھن آیا۔ ملاقات سے واپس جاکر اس نے غیاث الدین بلبلن جو اس وقت وزیر تھا اور الف خان کے نام سے مشہور تھا ذریعے چارگاؤں پروانہ اور زرِ کثیر حضرت اقدس کی خدمت پیش کی۔ آپ نے بقد رقم لے کر فقراء میں تقسیم کردی اور دیہات کا پروانہ یہ کہہ کر ردّ کردیا کہ اسکے طالب بہت ہیں ان کو دیدو۔ یہ دیکھ کر الف خان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ چونکہ بادشاہ کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو حضرت اقدس کی توجہ سے یہ سلطنت مجھے مل جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ حضرت اقدس نے نورِ باطن سے اسکے دل کی بات معلوم کرلی اور یہ اشعار پڑھے۔؎
فرید ون فرخ فرشتہ نہ بود |
|
زعود وعنبر سر شتہ ن بود |
زمراد دہش یافتہ نیکوئی |
|
تو داد دہش کن فریدوں شوی |
(فریدوں فرخ جو بہت بڑا بادشاہ تھا کوئی فرشتہ نہیں تھا اور نہ ہی مشک و عنبر سے اسکا جسم بنا تھا یعنی عام آدمی تھا۔ لیکن محنت اور سخاوت سے وہ بادشاہ بنا۔ تو بھی محنت اور سخاوت کر بادشاہ بن جائیگا) چنانچہ جب سلطان ناصر الدین لاولد فوت ہوا تو الف خان تخت نشین ہوا اور سلطان غیاث الدین بلبن کے لقب سے مشہور ہوا۔
اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا بادشاہ سے ایک کام ہے میرے لیے سفارش نامہ تحریر فرمانویں۔ آپ نے یہ رقعہ لکھا۔
رفعت قضیۃ الی اللہ ثم الیک فان اعطتیہ شیافاً لمعطی ھواللہ وانت مشکور واِنْ لَم تعطہٗ شیاً فالمانع ہواللہ وانت المعذور[2]۔
(میں نے یہ کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا ہے لیکن ظاہری طور پر تمہارے پاس بھیجا ہے اگر تو اسے کوئی عطا کریگا تو حقیقی عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور شکر یہ تمہارا ادا کیا جائیگا۔ اور اگر تو اسے کچھ نہیں دے گا تو نہ دینے والا اللہ ہے اور تم معذور ہو)
سماع کے متعلق آپکا قول
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ گنجشکر کے سامنے سماع کی حلت اور حرمت پر بھث ہورہی تھی کیونکہ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ! ایک جل کر خاک ہوگیا ہے اور دوسرا بھی اختلاف میں ہے۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ ایک درویش نے حضرت گنجشکر کی خدمت میں حاضر ہوکر کچھ طلب کیا۔ آپ نے اُسے کچھ دلاکر رخصت کر دیا۔ جاتے وقت اسکی نظر آپ کی کنگھی پر پڑگئی۔ اس نے کہا یا شیخ اگر آپ یہ کنگھی مجھے عنایت کریں تو آپ کو بہت برکت حاصل ہوگی، آپ نے فرمایا،
‘‘ترا وبرکات ترا در آب غرق کردیم’’
(ہم نے تجھے اور تیری برکات کو دریا میں ڈال دیا ہے یعنی اس سے مستغنی ہیں اور پس پُشت ڈال دیا ہے)
جب وہ رخصت ہوکر باہر گیا اور دریا کے کنارہ پر جاکر غسل کرنے لگا تو غرق ہوگیا۔
جوزبان سے نکلا ہوگیا
ایک دن نودرویش آپکی خدمت میں پہنچے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر جانے لگے اور یہ کہا کہ ہم نے سارا جہان دیکھا ہے لیکن کوئی درویش نظر نہیں آیا سوائے جھوٹے دعویداروں کے۔ آپ نے فرمایا بیٹھو ہم تمہیں درویش دکھاتے ہیں۔ انہوں نے آپ کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور جانے لگے۔ آپ نے فرمایا آگے جاکر دیکھو لوگے۔ چنانچہ جب وہ اجودھن سے باہر گئے تو بادِ سموم کی وجہ سے تمام ہلاک ہوگئے۔؎
پروانہ ازاں سوخت کہ باشمع درافتاد |
|
باسوختگان ہر ک ہ در افتاد بر افتاد |
(پروانہ اس لیے جل مرا کہ اس نے شمع کے ساتھ بے ادبی کی۔ سچ ہے کہ دل جلوں سے جو کوئی بے ادبی سے پیش آتا ہے تباہ ہوجاتا ہے)
اسی کتاب میں حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کی ریش مبارک کا ایک بال علیحدہ ہوگیا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو اس بال کا تعویذ بنالوں۔ آپ نے اجازت دیدی۔ جب میں دہلی آیا تو جو شخص مجھ سے تعویز طلب کرتا تھا میں اُسے وہی تعویز اس شرط پر دیتا تھا کہ مراد پوری ہونے پر مجھے واپس دیا جائے اس سے لوگوں کو بے حد فائدہ ہوا۔ لیکن جو کام ناممکن ہوتا تھا میں جس قدر تلاش کرتا تھا تعویذ نہیں ملتا تھا اس سے مجھے معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ کام نہیں ہونا۔
سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی نے حضرت سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ آپ حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے وصال کے وقت موجود تھ ے آپ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ ماہ شوال میں حضرت اقدس نے مجھے دہلی روانہ کیا اور آپ کا وصال پانچ محرم کو ہوا۔ لیکن رحلت کے وقت آپ نے مجھے یاد ضرور فرمایا اور فرمایا کہ فلاں اس وقت دہلی میں ہے۔ میں بھی حضرت خواجہ قطب الدین بختیا قدس سرہٗ کے وصال کے وقت موجود نہیں تھا بلکہ ہانسی میں تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت گنجشکر قدس سرہٗ کو جو خرقہ خلافت حضرت خواجہ قطب الاقطاب سے حاصل ہوا تھا وہ شیخ بدر الدین اسحاق کے حوالہ کر کے فرمایا کہ یہ امانت مولانا نظام الدین بد ایونی کے حوالہ کردیان۔
وصال پر ملال
حضرت سلطان المشائخ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب شب پنجم ماہ محرم کو مرض نے غلبہ کیا تو آپ نے نمازِ عشاء جماعت کے ساتھ ادا کی اور اسکے بعد بے ہوش ہوگئے کچھ دیر کے بعد جب ہوش میں آئے تو پوچھا کہ کیا میں نے نماز عشا ادا کی ہے لوگوں نے عرض کیا کہ جی ہاں پڑھ لی ہے آپ نے فرمایا اگر ایک بار اور پڑھ لوں تو کیا مضائقہ ہے۔ اسی طرح آپ نے تین مرتبہ نمازِ عشاء ادا کی۔ اس کے بعد یَاحَیُّ یَا قیّوم کہتے ہوئے آپ نےمشاہدۂ حق میں جان دیدی۔ آپکا وصال بروز شنبہ پانچ محرم ۶۹۸ھ ہوا۔ دوسری روایت ہے کے مطابق ۶۹۶ھ اور تیسری روایت کے مطاب ۶۹۰ھ میں سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد حکومت میں ہوا۔ سیر الاقطاب میں یہی تیسری روایت بیان کی گئی ہے۔ آپ کی عمر شریف پچانوے سال تھی۔ دوسری روایت کے مطابق ترانوے سال تھی۔ اس میں سے پنتیس سال وہ تھے جو آپ نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس سرہٗ کے وصال کے بعد بسر کیے۔ آپکا مدفن پاکپتن شریف ہے جو ملتان کے علاقہ میں ہے۔ آپ اپنے حجرۂ عبادت میں دفن ہوئے۔ سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ جب آپ نے بیعت کی تو آپکی عمر اس وقت پندرہ یا اٹھارہ سال تھی۔ اور بیعت کے بعد آپ اسی سال بقیہ حیات رہے۔ ان دونوں روایتوں میں سے یہ امر یقینی ہوجاتا ہے کہ آپ کی عُمر پچانوے یا اٹھانوے سال تھی۔
حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے کمالات اس قدر ہیں کہ دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔ اس سے زیادہ کمال کیا ہوسکتا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ جیسے بزرگ آپ کے مُرید تھے۔ جنہوں نے سارے ہندوستان کو نور ولایت سے منور فرمایا اور ایک جہاں کے لیے باعث نجات و ہدأیت ہوئے۔ حق تعالیٰ نے آپ کو سلطان المشائخ کا خطاب عطا فرمایا اور تاج خلافت اُن کے سر پر اور انکے مریدین کے کے سر پر رکھا۔ حضرت سلطان المشائخ کے تصرفات کا یہ اعالم خلفا میں ہوتا ہے۔ سیر الاولیاء کے مصنف میر سید محمد کرمانی آپ کے جملہ حالات لکھے ہیں جو اس مختصر کتاب میں بیان نہیں ہوسکتے۔ البتہ اسکے چند اقتباسات اور چند دیگر کتابوں کے منتخبات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
[1] ۔ فتح باب کے لفظی معنی ہیں دروازہ کا کھلنا، اور صوفیاء کرام کی اصطلاح میں اس سے مراد ہر قسم کے حجابات کا دور ہونا اور عالم بطون کا ظہور ہے۔
[2] ۔ سبحان اللہ کس قدر بامعنی متوکلا نہ اور بے باکانہ کلام ہے۔ اس سے مشائخ عظام کے غنا ک اور توکل علی اللہ کا سبق ملتاہے کہ سلاطین سے کس بے باکی سے پیش آتےتھے۔
(اقتباس الانوار)