حضرت سلطان لعل شاہ
حضرت سلطان لعل شاہ (تذکرہ / سوانح)
سلطان لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ایک بار سیر وسیاحت کرنے اور فیضِ روحانی کو عام کرتے ہوئے علاقہ سنگھڑ کے قصبہ جنگ میں تشر یف لے گئے اورایک مسجد میں قیام فرمایا۔ اتفاقاً ایک بچہ جس کا نام لعل شاہ تھا اور عمر سات آٹھ سال تھی مسجد میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نظروں کے سامنے سے گزرا۔ اس بچے پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی توجہ مبارک کا ایسا اثر ہوا کہ اس میں جذبہ ء عشقِ الٰہی پیدا ہوگیا اور وہ ساری رات آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھا رہا نہ گھر گیا اور نہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے جدا ہوا۔ اس بچے کے وارث جب تلاش کرتے ہوئے صبح مسجد آئے تو اُسے حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پایا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ بچے کو گھر لے جائیں مگر وہ بچہ کسی طرح بھی گھر جانے پرراضی نہ ہوا۔ لوگوں نے جا کر لعل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے والد بڈھن شاہ صاحب کو آگاہ کیا تو بڈھن شاہ اپنے مریدوں اور دیگر معزز دوستوں کے ہمراہ حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی"" حضرت اس بچے کو اجازت دیں کہ یہ اپنے گھر چلا جائے اس کی ماں بہت پریشان ہے ""۔ حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے شیخ بڈھن شاہ سے فرمایا کہ یہ بچہ تمہاری ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا فیض اور نصیبہ میرے سپرد فرمایا ہے لہٰذا اس بچے کی روحانی تربیت اب میری ذمہ داری ہے۔ یہ سن کر بڈھن شاہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا یا حضرت ! لعل شاہ اب آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے سپرد ہے ۔ شیخ بڈھن شاہ امیر کبیر پیروں کے خاندان سے تھا اس نے دوسری شادی کی ہوئی تھی او ر لعل شاہ صاحب اور پہلی بیوی (لعل شاہ صاحب کی والدہ) کو لاوارثوں کی طرح رکھا ہوا تھا اور ان ما ں بیٹے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا ۔
جب لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ کو معلوم ہوا تو اس پاک باز عورت نے حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پیغام بھیجا کہ لعل شاہ میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے اوراسی کی امید پرجی رہی ہوں ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اجازت فرمائیں باپردہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤں اور اپنے بیٹے کے ہمراہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ہی رہوں ۔ شیخ بڈھن شاہ نے بھی اپنی پہلی بیوی کوپردہ میں حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت دیدی ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا وہ باپردہ خاتون گھر میں ہی بیٹھی رہے اور بے پردہ ہو کر باہر نہ آئے ۔اس عورت نے جب یہ سنا تو زارو قطار رونے لگی اور عرض کرنے لگی کہ یا حضرت مجھے کیوں فیض اور نعمتِ ازلی سے محروم رکھتے ہیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ جیسے سخی اور فیاض کے فیض سے میں کیوں محرو م رہوں۔ یہ سن کر حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے توجہ کی اور اسے گھر بیٹھے بیٹھے نواز دیا ۔ یہ مائی صاحبہ اتنی صاحبِ حال ہوگئیں کہ کسی دنیاوی کام میں مشغول نہ ہوتی تھیں اگر کبھی روٹی پکانی پڑ جاتی تو توے پر روٹی ڈال کر سکرومستی میں چلی جاتیں اور روٹی توے پر جل جاتی۔
حضرت سلطان العارفین لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اسی وقت اپنے خادم ،جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ رہتا تھا،سے فرمایا کہ میرا وضو کا لوٹا" جائے نماز اور مسواک لعل شاہ کے حوالے کردو۔ لعل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس کے بعد تیس سال تک حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ رہے اور اس ساری مدت میں ان کی کُل متاع ایک سیاہ کمبل تھا جو آدھا نیچے بچھا لیتے او رآدھا اوڑھ لیتے ۔ جب تیس سال کے بعد حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے خلافت عطا کرکے رخصت فرمایا اور گھر تشریف لے گئے تو بدستور اسی سیاہ کمبل کا لباس زیب تن فرمائے رکھا صرف سوتی کپڑے کی ایک پگڑی کا اضافہ فرمالیا۔ اپنے وطن سنگھڑہ میں قیام فرما کر تلقین وارشاد کا سلسلہ جاری فرمایا آپ رحمتہ اللہ علیہ نے یہیں وصال فرمایا اور یہیں پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے ۔