حضرت شیخ عبدالاول
حضرت شیخ عبدالاول (تذکرہ / سوانح)
آپ علاء الحسنی کے فرزند ارجمند تھے اور میر سید محمد گیسو دراز جن کا مزار گلبرگہ شریف (علاقہ دکن) میں ہے ان کی اولاد میں سے کسی کے مرید تھے، اس کے علاوہ تمام علوم عقلی و نقلی رسمی و حقیقی میں کامل اور بڑے دانشمند تھے، اکثر علوم میں خود بھی کتابیں تصنیف کی ہیں، صحیح بخاری کی شرح فیض الباری بھی آپ ہی نے لکھی ہے، سراجی جو علم فرائض کی کتاب ہے اس کو منظوم کرکے اس پر شرح لکھی ہے، تحقیق نفس و معرفت پر فارسی میں نہایت تحقیق سے ایک کتاب تالیف کی ہے، سفر السعادت کا انتخاب کرکے سیرت پر کچھ کتابیں تصنیف کی ہیں، نیز اکثر کتابوں پر آپ کے شروع و حواشی و تعلیقات موجود ہیں، بہت عمر رسیدہ ہوگئے تھے، آخر میں آپ پر انکساری و عاجزی اور تصوف کا حال غالب ہوگیا تھا اور درسی علوم بہت کچھ بھول گئے تھے، آپ کے کُتب خانہ میں ہر قسم کی کتابیں موجود تھیں، آپ کے والد ماجد علاقہ جونپور قصبہ زید پور کے رہنے والے تھے، وہاں سے چل کر دکن کے علاقہ میں سکونت پذیر ہوگئے جہاں آپ کی ولادت ہوئی اور وہیں تعلیم حاصل کرکے کامل ہوگئے، اس کے بعد گجرات گئے جہاں سے زیارت حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوگئے اور وہاں سے وطن واپس ہوئے، اس کے بعد مخلوق خدا پر مہربان، درویشوں کی محبت میں سرشار، علماء و فضلاء کے سرپرست خانخاناں محمد بیرم خاں شہید کے حکم پر دہلی گئے جس کے بعد تقریباً دوسال تک دہلی میں زندہ رہے 927ھ میں وفات پائی، اورقلعہ دہلی کے اندر کشک نرور کے نزدیک قبرستان میں مدفون ہوئے۔
فصل: سمجھ لو کہ نفس مشترکہ لفظی ہے، کبھی اس کو نفس ہی کہتے ہیں اور کبھی ذات و حقیقت الٰہی ہیں جس کی مثال یہ ہے (میرے نفس میں جو ہے اسے میں جانتا ہوں اور تمہارے نفس میں جو ہے اس سے میں نا واقف ہوں) کبھی اس نفس کو روح علوی سے تعبیر کرتے ہیں جس کا دوسرا نام نفس ناطقہ ہے کبھی اس کو بخار لطیف سے یاد کرتے ہیں، یہ وہ حرارت ہے جو تہ دل سے نکل کر رگوں کے ذریعہ سے تمام جسم میں سرایت کرتی ہے، دو آدمی جو قدوقامت اور لاغری و فریہی میں بالکل برابر ہوں ان میں سے ہر ایک کا ایک ظاہری حصہ ہے جس کو جسم کہتے اور دوسرا باطنی حصہ ہے جس کو نفس کہتے ہیں، بدن کی مثال اس کپڑے کی ہے جو جسم پر ہوتا ہے اور نفس وہ بخار عمودی ہے جو تمام اجزاء لباس میں موجود ہوتا ہے اور لباس کی صورت اختیار کرتا ہے۔ جان لوکہ آدمی ایک بخاری حیوان ہے جس کی وجہ سے وہ متحرک و حساس ہے اور بھوک پیاس حرص و ہوا صفات نفسانی یہ سب انسان کے اندر موجود ہیں، عرف تصوف میں اسی کو نفس کہتے ہیں۔
فصل: آیت قرآن کی تفسیر سے متعلق ثم انشاناہ خلقا اخر کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انسان کو دوبارہ پیدا کیا ارسال روح کے ساتھ جبکہ خالص بناتی تھا، دونوں روحیں اس میں موجود نہ تھیں اور حدیث شریف ثم ارسل اللہ ملکا باربع کلمات کا بھی یہی مطلب ہے، سمجھ لینا چاہئے کہ اول تبخیرات حیوانی اور ابتدائی تعلق انسانی ہمیشہ ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں، وجود انسانی بغیر وجود حیوانی کے ممکن نہیں ہے اور اسی طرح وجود حیوانی بغیر وجود انسانی نا ممکن ہے اس لیے کہ ایک سو بیس دن کے بعد مضغہ انسانی میں روح ڈالی جاتی ہے تب اسی وقت جنین اپنے مادر کے شکم میں حرکت کرنے لگتا ہے اس سے بھی یہ ثابت ہواکہ ان دونوں کے درمیان لازم و ملزوم کی نسبت موجود ہے۔
فصل: روح انسانی جوکہ صاف اور لطیف ہے جسم انسانی سے جو کثیف اور ظلمانی ہے کوئی مناسبت نہیں رکھتی ہے اس لیے روح انسانی نے پہلے روح حیوانی سے جوکہ فی الجملہ پاکیزہ اور لطیف ہے اپنا تعلق قائم کرلیا اور اسی کی وجہ سے بدن کثیف سے مناسبت ہوگئی پہلے پہل تو روح انسانی اپنے مقام سے فراق کے سبب بہت پریشانی ہوگئی تھی، لیکن بعد میں روح حیوانی سے مانوس ہوگئی اور اپنے مقام کو بھول گئی، بعض روحیں اپنے نفس کی تابع ہوکر تنزل اور پستی کی طرف مائل ہوتی ہیں اور بعض روحیں اپنے نفس کو سواری بنا کر ترقی اور کسب کمال کے لیے وسیلہ بناتی ہیں۔
اس لیے محققین مذہب کا قول ہے کہ ارواح مجرد ہیں۔ اعضاء و آلات وغیرہ نہیں رکھتی ہیں جب تک جسم کے ساتھ مرکب نہ ہوں تو ترقی ان کے لیے غیر ممکن ہے۔
فصل: روح علوی عرصہ دراز تک موثر تام اور مبدع کمال الٰہی کے سایہ میں رہی اور روح سفلی اللہ کے جلال و جمال سے دور تھی، چونکہ ان دونوں میں مرد عورت کی قوتیں موجود تھیں جن کے جوڑ دئیے جانے پر ان کی اولاد کا نام قلب و دل رکھا گیا، اسی لیے روح دو چیزیں، ایک نسبت پدری اور دوسری مادری ہے ہمیشہ انقلاب پذیر رہتی ہے، نیز یہ بھی یقین کرلوکہ جو چیز محسوسات کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے وہ نفس ہے اور معقولات کے ذریعہ جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ روح ہے اور محسوس و معقول کے مرکب کا نام دل ہے، اور جو چیزیں کہ حس و عقل کے ذریعہ معلوم نہ ہوں وہ ذات و صفات الٰہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیوں سے ایک خاص رحمت کو دل سے متعلق کردیا ہے جس کو سر اور بھید کہتے ہیں اور اس سے زیادہ قوی بھید بھی ہے جو دل سے متعلق ہے جس کو سرخفی کہتے ہیں۔ اور ذات الٰہی کا کشف اسی چشم سر خفی کے سبب سے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے (سر خفی میں ہم ہیں)۔
احتمال ہے کہ یہ لطائف ہر انسان میں روح علوی کے ساتھ موجود ہوں لیکن نفس کے تاریک پردے اور بری صفات کی وجہ سے مستور ہیں، تزکیہ نفس و تصفیہ قلب کی بدولت جلوہ گر ہوتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ تجلی روح کے بعد مجدداً اثر انداز ہوں اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جبکہ روح کے کئی مدارج بیان کیے گئے ہیں۔
نیز واقعہ یہ ہے کہ رسول مُعظم صلی اللہ علیہ وسلم تمام ارواح کے ابوالا رواح، معدن انوار اور منشاء موجودات ہیں اس وجہ سے تمام ارواح بمنزلہ جسم کے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جان ہیں، آپ کو تمام ارواح سے وہی تعلق ہے جو جان کو جسم سے ہوتا ہے۔ نیز آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو روح علوی، تمام موجودات اور ان کے باہمی تعلقات پر کامل قبضہ و تصرف اور اختیار و اقتدار حاصل ہے، ارباب کشف و شہود نے جو بیان کیا ہے کہ روح انسانی کے اوپر ایک روح قدسی بھی ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ آقائے کائنات کی روح پر فتوح ہے۔
فصل: روح انسانی و حیوانی اور قلب یہ تینوں چیزیں ہر ایک جسم میں جز و حقیقی کی طرح موجود ہیں اس کے باوجود ایک جسم دوسرے سے علیحدہ نظر آتا ہے مگر اس میں پوشیدہ و ظاہر حکمت الٰہی یہ ہے کہ ہر روح ایک خاص روح اور فرشتگی کی حیثیت کے ساتھ وحدت و جزئیت کی صفات سے متصف ہوکر اجسام نفوس اور ارواح انسانی سے متعلق رہتی ہے اورہر ایک میں تصرف کرتی ہے، ایک روح کا بہت سے اجسام کے ساتھ تعلق رکھنے کے بیان کو باآسانی بیان کیا جاسکتا ہے جیسے جسم اور تمام اعضاء اجزاء انسانی کے ساتھ نفس متعلق اور کار فرما رہتا ہے،اس کی مثال یہ فرض کرو کہ ایک نفس جو بہت طاقتور ہے اور وہ جسم کے اندر تصرف کرتے ہوئے گھر کے تمام درودیوار پر حکمرانی و قبضہ رکھتا ہے وہ اس طرح کہ مشرقی دیوار کو مغرب کی طرف کردیتا ہے اور مغربی دیوار کو مشرق میں لا کھڑا کرتا ہے، اسی طرح ایک وہ نفس ہے جو اپنی طاقت کے بھروسہ پر تمام شہر پر تصرف کرتا ہے یعنی پورا شہر اس کے اعضاء کی طرح ہوجاتا ہے اس طرح ایک نفس تمام اقلیموں پر بادشاہت کرتا ہے اور ایک نفس وہ ہے جو تمام روئے زمین پر متصرف اور قابض ہے، اور ایک نفس وہ ہے جو تمام عناصر پر، اور ایک نفس تمام عناصر افلاک پر متصرف ہوتا ہے جیسے حضرت جبرئیل کی روح کہ جن کا جسم افلاک و عناصر کا مجموعہ ہے اور ساتوں آسمانوں کو احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان کا صدر مقام و مستقر سدرۃ المنتہی ہے جو ساتویں آسمانوں کے اُوپر ہے، نیز ثابت ہوتا ہے کہ جب یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تو فوراً ہی جبرئیل کو حکم ہوا کہ (میرے بندے کو لو) یوسف علیہ السلام ابھی کنویں کی تہ تک نہ پہنچے تھے کہ حضرت جبرئیل نے ان کو ہاتھوں ہاتھ اٹھالیا اور آسانی کے ساتھ کنویں میں اتار دیا، اس وقعہ کے پیش نظر جبرئیل کی بابت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سات ہزار سال کی مسافت ایک لمحہ میں طے کرکے کنویں میں پہنچے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ساتوں آسمان اور ان کے متعلقہ عناصر سب جبرئیل کے اعضاء ہیں اور دنیا میں وہ اسی طرح تصرف کرنے کی مثال یہ ہے کہ ان کے گلے کے ہار کا ایک موتی گر کر ابھی ان کے سینہ تک نہیں پہنچا تھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا، یہی حال عزرائیل کی روح کا ہے کہ عالم بھر کی روحیں ان کے اعضاء و اجزاء ہیں جب وہ روح قبض کرتے ہیں تو گویا وہ اپنے جسم میں تصرف کرتے ہیں، اس نظریہ کے ثبوت سے انبیاء کرام کے معجزات اور اولیاء عظام کے کرامات کا ثبوت ملتا ہے، نبی اور ولی کا نفس جیسا اپنے جسم میں تصرف کرتا ہے اسی طرح خارج میں بھی تصرف کرتا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح تمام عالم کی جان ہے اس لیے آپ سارے عالم میں تصرف کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چاند ایک اِشارہ سے دوٹکڑے ہوگیا، گویا کہ ناخن کے میل کو ناخن سے جدا کیا۔
فصل: جبکہ ساری ارواح و لطائف کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح پر ختم ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک تمام ارواح کی جان ہے۔ اب صرف ذات پروردگار باقی رہ گئی ہے جس کی حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جوہر قسم کی مثال سے پاک اور منزہ ہے وہ رسالت ماب کی جان و روح ے۔
حق جان جہان است جہاں جملہ بدن
افلاک و لطائف چہ قوائے ایں تن
افلاک و عناصر و موالید اعضاء
توحید ہمین است وگر حیلہ و فن
فصل: سمجھنا چاہئے کہ اللہ کی ہستی کو تمام عالم کی ذات سے برابر کی نسبت حاصل ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ آس کا آئینہ اور اس کے کمال کا مظہر جمال ہے اس وجہ سے نداء و خطاب کے وقت دل کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دل روح حیوانی کا معدن ہے اور دیگر لطائف روح حیوانی سے متعلق ہیں لہذا دل کی طرف متوجہ ہونے سے جمیع لطائف کی طرف متوجہ ہونا لازم آتا ہے، غرضیکہ توجہ قلبی ہی فتح باب مقدمہ کشف لطائف اور مقصد حاصل کرنے کا سبب ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ انوار و صفات ذات الٰہی کا مکاشفہ ہوتا ہے اسی لیے تو کہتے ہیں کہ قلب صنوبری میں جو روزن ہے اس کے سبب علوم غیبی کا کشف اور مراتب جبروت و لاہوت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
لشکر حسنت نہ گنجد در زمین و آسماں
من دریں فکرم کہ اندر سینہ چوں جاکردۂ
فصل: یہاں دل میں بات اترنی چاہئے کہ شاہی مَقام تین ہیں۔
اول وہ عالیشان اور وسیع عمارت جہاں تمام فوج حاضر رہتی اور وزراء، ارکان حکومت اور عمال اپنے اپنے مَقام پر بیٹھے حکومت کے کام تقرر و معزولی، منع و عطا اور محاسبہ اعمال وغیرہ انجام دیتے ہیں۔
دوسرا مَقام وہ ہے جو بادشاہ اپنے مخصوص لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، عام آدمیوں اور فوجیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، درباری لوگ اپنی خدمات کے حقوق کے لیے با ادب کھڑے رہتے ہیں اور مختلف قسم کے انعامات و نوازش شاہی سے خوش ہوتے اور قرب شاہی کی حلاوت سے مسرورہوتے ہیں۔
تیسرا مقام وہ مختصر عمارت ہے جو خاص حرم حریم غیرت اور مقام عصمت و خلوت ہے جہاں بادشاہ خلوت پذیر ہوتا ہے، یہاں خاص و عام میں سے کسی کو بھی آنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔
ظاہر پر باطن کو قیاس کرتے ہوئے شہنشاہ عالم رب متعال کے بھی تین مقام ہیں۔
پہلا مقام عرس عظیم ہے جو محل فیض خاص و عام دیوان خانہ، رزق مومن و کافر، وحوش و طیور مادۂ وجود بقائے کل حیوانات و نباتات اور تمام لطائف و بسیط و مفرد و مرکبات کا مخزن و معدن ہے اور یہ واقعہ ہے کہ عرش تمام دنیا کے اوپر ہے جہاں سے جملہ مخلوق کی مطلب برآری ہوتی ہے اسی لیے تمام آدمی باطنی طور پر بھی اوپر ہی کی جانب متوجہ ہوتے اور رسول و دعا کے وقت اپنا سر آسمان کی جانب کرتے ہیں۔
دوسرا مقام کعبہ شریف ہے جہاں سوائے مومنین مخلصین کے اور کوئی حاضر نہیں ہوسکتا ہے اور مومنین کو مختلف قسم کے انعامات سے نوازا جاتا ہے اور ان کے اگلے پچھلے جرائم کو معاف کرکے اللہ کے قرب سے نوازا جاتا ہے اور کفار کو یہاں آنے کی طاقت نہیں ہے۔
تیسرا مقام بندۂ مومن کا دل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (میرا مقام زمین و آسمان نہیں بلکہ میرے مومن بندے کا دل میرا مقام ہے) اور انہی تین مقامات کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں اشارتاً بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بسم اللہ اللہ کے نام سے شروع جو اپنی عزت اور وحدت کو قلب مومن کے عرش پر متجلی کرتا ہے الرحمٰن کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ عرش عظیم پر اپنی رَحَمت کاملہ کے ساتھ تجلی فرمارہا ہے الرحیم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کعبہ شریف کے عرش پر اپنی خصوصی رحمتوں کو خصوصی مسلمانوں کے لیے مخصوص کرنے کی خاطر تجلی ریز ہے۔
ذکر سہ رکنی جو عام طور پر مشہور ہے کہ قبلہ رو بیٹھ کر تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ اوپر سامنے اور دل پر ضرب لگا کر کہتے ہیں اس سے بھی متذکرہ بالا تینوں عرش مرادیں، باقی اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔
اخبار الاخیار